پاسکو کا مینجنگ ڈائریکٹر محمد خان کھچی آج کل خوب خبروں میں ہے، ایف آئی اے کی رپورٹ واضع طور پر پاسکو کو دیگر کے ساتھ آٹا بحران کا درست طور پر ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔
پاسکو میں فوجی آمر جنرل ضیا الحق کے دور سے حاضر سروس میجر جنرلز مینجنگ ڈائریکٹر کے عہدہ پر کام کرتے تھے۔ ان کے ساتھ ریٹائرڈ میجر، لیفٹیننٹ کرنل اور برگیڈیئرز بھی پاسکو کے اعلی عہدوں پر تعینات ہوتے تھے۔ یونین کی کمپین کے نتیجہ میں حاضر سروس میجر جنرل کو واپس بلا لیا گیا جب ان کے خلاف پاسکو میں من پسند بھرتیاں کرنے کا الزام درست ثابت ہوا۔
پاسکو کے پہلے سویلین مینجنگ ڈائریکٹر طارق مسعود تھے جو 2013 میں تعینات ہوئے۔ جہنوں نے من پسند بھرتیوں کو باھر نکال کر پاسکو میں ترقی کی ایک نئی راہ متعین کی۔
طارق مسعود 2016 میں اپنے تین سال مکمل کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہو گئے اج کل وہ ممبر پبلک سروس کمیشن کے طور پر کام کر رھے ہیں۔
محمد خان کھچی دوسرے سویلین مینجنگ ڈائریکٹر تھے جو اکتوبر 2016 میں یہاں تعینات ہوئے۔ وہ ملتان کے رھنے والے ہیں اور سکندر حیات بوسن کے کلاس فیلو، دوست اور ہمسائے ہیں۔
کہانی 2018 میں شروع ہوتی ہے، ان کے خلاف پاسکو یونین نے وزیر اعظم عمران خان کو درخواست بھیجی کہ انہوں نے ان تمام افراد کو دوبارہ بھرتی کر لیا ہے جنہیں انکوائری کے بعد نکال دیا گیا تھا۔ عمران خان نے ان کی 22ویں گریڈ میں پروموشن روک لی، اور یہ 21ویں ہی رہ گئے۔
محمد خان کھچی کو سکندر حیات بوسن جہانگیر ترین کے پاس لے گیا۔ جس نے ان کی رکی پروموشن کروا دی۔ اور پھر محمد خان کھچی نے بدلے میں وہ کام کیا جس کی گونج اب سنائی دے رھی ہے۔
اس نے جہانگیر ترین کو پاسکو بارے تفصیلی بریفنگ دی اور بتایا کہ یہ تو سونے کی چڑیا ہے۔
پاسکو کے پاس گندم کے کچھ ذخائر ملک کے کم ترقی یافتہ علاقوں کے لئے مخصوص رکھے جاتے ہیں تا کہ ایمرجنسی میں یہ کام آ سکیں۔
محمد خان کچھی کی کانا پھوسی کے نتیجہ میں 2018 میں اکنامک ایڈوائزری کمیٹی کو یہ تاثر دیا گیا کہ گندم کے وافر ذخائر موجود ہیں۔ اور اسے پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے فروخت کر دیا جائے۔ حالانکہ یہ بات حقائق کے خلاف تھی۔
چنانچہ نومبر 2018 میں گندم کی ایکسپورٹ بذریعہ پرائیویٹ سیکٹر کا اعلان کر دیا گیا۔ نجی شعبہ نے پاسکو سے دھڑا دھڑ گندم خرید شروع کی اور اس کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دی۔ ایکسپورٹ نہیں کی گئی۔ صرف کہا گیا کہ ایکسپورٹ کر رھے ہیں۔ پاسکو کے پاس گندم کے ذخائر کم ہونا شروع ہوئے۔
ادھر پاسکو نے اپنے ٹارگٹ کے مطابق گندم کی خریداری نہیں کی۔ سندھ میں تو گندم خریدی ہی نہ گئی اور پنجاب میں پچھلے پانچ سالوں کی نسبت سب سے کم گندم کی خریداری کی گئی۔
جون 2019 میں حکومت نے گندم ایکسپورٹ بند کرنے کا کہا گیا۔ مگر اس پر نومبر 2019 تک عمل نہ ہوا۔ محمد خان کھچی نے سب کو سوائے اپنے پیاروں کے اندھیرے میں رکھا۔ گندم کے حقیقی ذخائر کے اعدادوشمار بھی چھپائے گئے۔
نومبر میں جب یہ معلوم ہو گیا کہ مارکیٹ کے ضرورت کے مطابق تو گندم موجود نہیں۔ “ایکسپورٹ” ہو چکی ہے۔ جو دراصل بڑے ذخیرہ اندوزوں کے پاس پاکستان میں ہی موجود تھی۔ تو مارکیٹ میں آٹا مہنگا بلکہ بہت مہنگا بکنا شروع ہوا۔ ذخیرہ اندوزوں نے گندم نکالی اور مہنگی بیچنی شروع کر دی۔ اور دونوں ھاتھوں سے عوام کو لوٹا گیا۔
اس طرح ایک ماہ کے دوران آٹا کی اونچی قیمت سے وہ سب کچھ پورا کر لیا گیا جس کچھ افراد نے تحریک انصاف کی انتخابی مہم پر خرچ کیا تھا۔
عمران خان اب دیکھیں فارمل انکوائری کے بعد کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ نام واضع ہیں جو اس گندم سکینڈل میں ملوث ہیں۔
“