بزرگ پڑھا رہے تھے۔
وہ عالم بھی بہت بڑے تھے اور استاد بھی کمال کے تھے۔دور و نزدیک سے علم کے شائقین آتے اور فیض یاب ہوتے۔اُس دن وہ ذرا بے تکلّفی کے مُوڈ میں تھے۔ انہوں نے دستار اتار رکھی تھی۔ دیوار سے ٹیک لگا کر ٹانگیں لمبی کر لی تھیں۔شاگرد عبارت پڑھتا۔ وہ تشریح کرتے۔ تشریح کیا کرتے، علم اور حکمت کے موتی رولتے۔
اسی حالت میں انہوں نے دیکھا کہ ایک دراز قد وجیہ شخص مسجد میں داخل ہئوا۔اس کی شخصیت بارعب تھی۔لباس سے بہت بڑا عالم لگتا تھا۔سفید دستار،اس پرطُرّہ۔ بزرگ محتاط ہو گئے۔اتنا بڑا عالم غلطی بھی نکال سکتا ہے، اعتراض بھی کر سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی پھیلی ہوئی ٹانگیں سمیٹ لیں۔ پگڑی سر پر رکھ لی اور زیادہ توجّہ سے پڑھانے لگ گئے۔ دراز قد بارعب شخص نے وضو کیا اور مسجد کے اندر آ گیا۔پڑھنے والے طالب علم خاموش ہو گئے۔قریب آیا تو پڑھانے والے بزرگ نے بہت احترام سے پوچھا ” جناب کا اسم گرامی ؟ “ اس پر اُس نے اپنی بتیسی کی نمائش کی اور کہا ” مجھے آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی “ اب کے بزرگ نے پوچھا ” آپ کا نام کیا ہے ؟ “ اس پر اس نے پھر بتیسی کی نمائش کی اور بتایا ” جی میرا نام محمد جوسف ہے “ استاد نے پگڑی اتار کر ایک طرف رکھی ، ٹانگیں پھر پھیلا لیں اور شاگردوں سے فرمایا ” تم سبق پڑھنا جاری رکھو بھئی ۔ یہ تو جوسف ہے “
یہ واقعہ ہمیں اُس سیاسی پارٹی نے یاد دلایا ہے جو زور و شور سے تبدیلی کی بات کر رہی ہے۔اس کا دعویٰ ہے کہ پٹواری کا کلچر بھی بدلے گی تھانیدار کا کلچر بھی بدلے گی اور اُس کی حکومت میں فوج اور آئی ایس آئی بھی وزیر اعظم کو جوابدہ ہو ںگی۔ اس پر سب محتاط ہو گئے۔ پھیلی ہوئی ٹانگیں سمٹ گئیں۔ لوگ پگڑیاں سروں پر رکھ کر با ادب ہو گئے۔ لیکن جب ایک خفیہ ادارے کے سابق سربراہ نے اس سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی اور اس بات کو اتنی اہمیت دی گئی کہ پارٹی کے سربراہ نے اس نووارد کے ہمراہ با قاعدہ پریس کانفرنس کی تو معلوم ہئوا کہ یہ سای احتیاط بیکار تھی ۔ اندر سے وہی بات نکلی کہ جی میرا نام جوسف ہے! یہ صاحب پیپلز پارٹی میں ضرور تھے لیکن انہوں نے کوئی الیکشن جیتا نہ ان کی کسی اور حوالے سے کوئی اہمیت ہے۔ اگر کوئی ایسی سیاسی شخصیت ہو جو پیروکاروں کا حلقہ رکھتی ہو یا کوئی دانشور ہو یا قومی اہمیت کا حامل فرد ہو تو اس کی شمولیت پر ایک بھرپور تقریب کا انعقاد تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ایک جاسوسی ادارے کے سابق سربراہ کی شمولیت پر اتنا ہنگامہ ! یہ تو وہی بات ہوئی کہ بقول ظفر اقبال
دیکھ رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے
شور کر اور بہت ، خاک اُڑا ا ور بہت
رہا اثاثوں کا مسئلہ تو یہ ایک خوش آیند امر ہے۔ آخر کسی نے تو اسے اہمیت دی ہے۔ آخر کچھ لوگوں نے تو سوچنا شروع کیا ہے کہ یہ ایک بنیادی اور فیصلہ کن امر ہے۔ آخر کچھ لوگوں نے تو ڈرنا شروع کیا ہے۔اب تک تو اس غریب ملک کے بدقسمت عوام نے یہی دیکھا ہے کہ جس کسی کے ڈالر، محلات، اور فیکٹڑیاں بیرون ملک جتنے زیادہ ہیں وہ اتنا ہی ملک وقوم کا بڑا خادم ہے۔
لیکن ایک ضمنی سوال اس سلسلے میں اور بھی ہے۔ کیا اثاثے صرف سیاست دانوں ہی کے باہر ہیں؟اور کیا صرف سیاست دان ہی ناجائز اثاثوں کے مالک ہیں؟ کیا سرکاری ملازم ، کیا سول اور کیا خاکی ، سارے کے سارے ، دُھلے دھلائے ہیں؟ ایک انگریزی معاصر میں ایک مغربی خاتون صحافی نے کس کے بارے میں لکھا تھا کہ اس کا معیارِ زندگی جنوبی امریکہ کے ڈکٹیٹروں کو ماند کرتا ہے ؟
1988
اور 1991 کے درمیانی عرصہ میں کراچی میں منعقد ہونے والا شادی خانہ آبادی کا وہ فنکشن بے شمار لوگوں کو یاد ہو گا جس کی وسعت اور ہمہ گیری کا مقابلہ شاید ہی کوئی تقریب کر سکے اور جس میں بڑے بڑے صالحین کچّے دھاگے سے بندھے چلے گئے تھے!
دلچسپ سوالات اور بھی ہیں۔ شہرِ ” عدل و انصاف “ اسلام آباد میں چودہ محلات کس کے بنے تھے؟ سونے سے بنے ہوئے جوتے کس نے تحفے میں دیے تھے؟ جنوب کے کس شہر میں ایک گھر کے اندر سے اربوں روپے نکلے تھے؟ وہ کون تھا؟ یہ اور اس قبیل کے کئی مقدس معززین ابھی تک اتنے ہی معزز ہیں اور اقتدار بدستور ان کے اور ان کے خاندانوں اور ان کی نسلوں کی دہلیز پر سر بسجود ہے۔
ہماری جذباتی قوم سوالات اٹھانے والوں کو دھمکیاں تو دے سکتی ہے لیکن سوالات دلوں سے کھرچ تو نہیں سکتی ! اس ملک کے لوگ جانور تو نہیں جنہیں کچھ بھی پتہ نہ ہو ! کیا وہ نہیں جانتے کہ سائنس دان عبد الکلام کے پہلے کیا اثاثے تھے اور اور اب اس کے پاس کیا کچھ ہے؟ وہ تو ایوان صدارت میں بھی کئی سال گذار کر آچکا! کیا محسنِ پاکستان سے اثاثے پوچھے جا سکتے ہیں؟ عبدالکلام نے یقینا ایسا کوئی دور نہیں دیکھا جب تعیناتیاں ، ترقیاں ، تبادلے سب کچھ اس کی مرضی سے ہوتا تھا۔ کاش اس ملک کے سادہ دل پرستاروں کو معلوم ہوتا کہ اس نے تعلیم کے میدان میں کیا کیا کام کیے ہیں؟ بات اثاثوں کی ہو رہی تھی۔ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں! سیاست دان فرشتے نہیں ، ان کے جرائم ریت کے ذرّوں سے زیادہ ہیں لیکن وہ جو سیاست دان نہیں ، اور تقدیس کے ریشمی پردوں کے پیچھے چھُپے بیٹھے ہیں ان کا حساب کیسے ہو گا اور کون کرے گا؟
اثاثوں کا ہنگامہ اُ ٹھا تو اس سے لطیفے بھی نکلے۔ جو عوام عزتِ نفس رکھتے ہیں وہ انہیں لطیفے نہیں کہتے۔ وہ ایسے لطیفوں کو اپنے چہرے پر تھپّڑ کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ اور پھر ایسے تھپڑوں کو یاد بھی رکھتے ہیں۔ کیا عزت نفس رکھنے والے عوام ایسا مذاق برداشت کر لیتے ہیں کہ ہمارے نام پر تو کوئی اثاثہ ہے ہی نہیں اور یہ کہ ہم نے تو سب کچھ اپنے بچوں کے نام منتقل کر دیا ہے۔ یہ تو اتنا دردناک مذاق ہے کہ اس پر ہنسا بھی نہیں جا سکتا۔
ویسے یہ خوب ہے کہ خونی انقلاب کا نعرہ بھی لگتا رہے اور اثاثے بھی اولاد کے نام منتقل ہوتے رہیں۔ انقلابی شاعروں کی نظمیں بھی گائی جائیں اور سیکنڈری بورڈ پر ایسے ” دیانت دار “ کارندوں کو بھی مسلط کیا جائے جو یونی ورسٹی میں اپنی ” دیانت “ کی دھاک بٹھا چکے ہوں۔ اس سے پہلے ڈاکٹر بھی ڈسے گئے۔ اس لیے کہ ان کی قسمت ایسے ذاتی خدمت گاروں کے حوالے کر دی گئی جو اس کے اہل ہی نہیں تھے۔ اگر سرکاری ڈیوٹی سے طویل رخصت لے کر اپنے سرپرستوں کی فیکٹریوں میں ملازمت کی جائے تو بعد میں انعام و اکرام تو ملتا ہی ہے۔ اس چکر میں اگر چند ہزار ڈاکٹروں کے ساتھ ظلم ہو جائے تو اسے برداشت کر لینا چاہیے!
یہاں کئی دلچسپ معاملے اور بھی ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو خلق خدا نے سکھ کا سانس لیا سوائے ان کے جن کے ذاتی مقدر ملوّث تھے ! اصل بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ذہنی لحاظ سے نمو نہیں پا سکتے۔ وہ اسی سطح پر رہتے ہیں جس پر سال ہا سال پہلے تھے۔ سنٹرل لندن لندن کا ایسا حصّہ ہے جو دل کو موہ لیتا ہے ۔ جو وہاں کا باسی ہو اسے کوئی اور جگہ کبھی پسند نہیں آسکتی۔ فرض کیجیے سنٹرل لندن کا کوئی باسی پورے انگلینڈ کا صوبیدار بن جائے۔ لیکن بدقسمتی سے ذہنی طور پر پر وہ سنٹرل لندن سے باہر ہی نہ نکلے۔ وہ ترقی کی طرف جو قدم بھی اُٹھائے سنٹرل لندن ہی سے متعلق ہو۔ سڑکیں، پُل، پارک ، مواصلات اطلاعات سب کچھ اسی حوالے سے ہو تو آپ کا کیا خیال ہے انگلینڈ کے باقی شہروں کا رد عمل کیا ہو گَ َا؟ آج وزیر اعلی پنجاب عملی طور پر وزیر اعلی لاہور بنے ہوئے ہیں۔ لوگ الگ صوبے نہ مانگیں تو کیا کریں
لیکن بے زبان ملکوں میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں جو کام بھی کیا جائے اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے والے میسّر آ جاتے ہیں۔ اس ملک میں خدمت گار کثرت سے ملتے ہیں اور ہر قبیل کے ملتے ہیں۔ مجموعی طور پر دو قومیتیں ہی یہاں آباد ہیں : خدمت گار اور خدمت لینے والے۔ باقی جو کچھ ہے حشو و زوائد میں آتا ہے۔ ہاں اگر کوئی خدمت گار کہلانا پسند نہیں کرتا تو جو نام بھی رکھ لے رہے گا خدمت گار ہی ۔
http://columns.izharulhaq.net/2011_11_01_archive.html
“