سچ پوچھیے صاحب ! ہمارا تعلیمی سفر بڑا جاں گداز ہے ۔پرائمری تعلیم اساتذہ کے رحم و کرم اور تحفے تحائف کے زیر اثر ہوئی ۔قبلہ والد صاحب کی اکلوتی اولاد ہونے کے ناطے ناز و نعم میں پل کر زندگی کے مراحل طے کیے ۔میں چونکہ کھاتے پیتے گھرانے کا فرد ہوں اس لیے اساتذہ نے بھی کھانے پینے کے چلن کو محفوظ رکھا ۔اس کا اثر یہ ہوا کہ چہارم جماعت میں تو پہنچ گئے مگر حروف تہجی کی شناخت نہ ہوسکی۔
ہم کو صرف اتنا معلوم ہوا کہ ،الف، سے انار آتا ہے لیکن انار میں کون کون سے حروف ہیں یہ نہیں معلوم تھا ۔خیر صاحب اساتذہ کے لطف و کرم اور والد کی نوازشوں سے ہائی اسکول جا پہنچے ۔شعور بیدار ہوا تو اتنا معلوم ہوا کہ شعر میں دو مصرع ہوتے ہیں مگر مصرع اولیٰ کسے کہتے ہیں اور مصرع ثانی کس بلا کا نام ہے ابھی تک اس سے ناآشنا ہیں ۔
ستم بالائے ستم تشریح سے نا بلد،تحریر ایسی کہ ممتحن تو درکنار ہم خود لکھنے کے بعد پڑھنے سے قاصر ۔تاریخ میں اکبر اور جہانگیر گڈمڈ ہوجاتے ۔۔۔سالانہ تعلمی معائنے میں جب انسپکٹر آف اسکول نے سوال کیا ،
اکبر کے مرنے کے بعد کیا ہوا ؟۔۔۔تو ہم نے سیدھا سا جواب دیا ۔۔۔اسے نہلا دھلا کر دفنا دیا گیا !! ۔۔اس جواب پر میرے استاد جو میرے قریب ہی کھڑے تھے ۔۔قہر آلود نظروں سے گھورتے ہوئے سرگوشی کے انداز میں بولے ۔۔۔میں تمہیں کل خود اپنے ہاتھوں سے نہلا دھلا کر دفن کروں گا ۔۔!!مگر صاحب ،اس کی نوبت نہ آئی اس کڑے وقت میں والد صاحب کی میرے تئیں صفائی کام آئی ۔جغرافیہ کا پورا جغرافیہ ہی بگڑا ہوا تھا ۔۔ہم اب بھی واقف نہیں کہ دریائے آمیزن مصر میں ہے یا جنوبی امریکہ میں ۔۔۔بہت درد بھری داستان ہے صاحب ۔۔۔آپ زار زار روئیے یا قہقہے لگائیے ۔۔بس پانی کا چکر ازبر ہے کہ سائنس کے استاد نے بہت محنت کرکے اس چکرویو سے نکالا ۔۔ریاضی کے فارمولوں کا ذکر ہی کیا ۔۔! فیثا غورث کو ہم آج بھی صلواتیں سناتے ہیں کہ تمہاری وجہ سے ہم بہت ذلیل ہوئے ۔۔مگر پھر بھی ڈھیٹ کی طرح تعلیمی سفر جاری رکھا ۔۔۔اب صاحب ۔۔آپ ہی انصاف سے کہیے کہ زبان و ادب ہی ٹیڑھی کھیر ہو تو اس میں ہمارا کیا قصور ۔۔۔to ، do کا یکساں تلفّظ ہے تو no کا الگ کیوں ؟۔۔خیر صاحب ۔۔میڑک کا امتحان دیا ۔۔رزلٹ آیا تو ہر مضمون میں 35-35 نمبر لے کر پاس ہوئے ۔۔گویا ہم گاندھی جی کے سچے جانشین ٹھہرے ۔
اسی طرح ڈوبتے ابھرتے BAکی ڈگری حاصل کی کہ ہمیں امتحان دیتے خاصا تجربہ ہوگیا تھا ۔جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے اس لئے دل نے بھی دھڑکنا سیکھ لیا تھا ۔دل میں ایک لہر سی اٹھی اور ایک حسینہ سے وہ ہوگیا جو آپ کو بھی معلوم ہے مجھے کہنے کی ضرورت نہیں ۔اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے خط کا سہارا لینا تھا مگر اس قتالئہ عالم سے کون کہے صرف بی اے پاس ہوں ،میں خط کہو کیسے لکھوں ؟۔۔تو میرے خط کو نہ پڑھتے ہوئے میرے چہرے کو پڑھ لے ۔۔۔جس پر بہت سے تغیرات واقع ہوچکے ہیں ۔۔میں اس بت کافر کے سامنے آتا اور اپنا دل پکڑ کر مدعا زبان حال سے بیان کرتا مگر وہ بھی تو ماہر نفسیات نہیں ۔۔تنگ آکر ہم نے ایک خط لکھنے کی ٹھان لی۔۔چچا غالب کے خطوط کا مجموعہ خرید لائے کہ ان کا اسٹائل الگ ہے ،جو ہم نے ایک اردو کے لیکچرار سے سنا تھا ۔۔۔لیکن یہ کیا ؟۔۔یہ رامپور ہے ،دارالسرور ہے ۔۔۔دوسرا خط۔۔۔تمھارا خط آیا ،گویا تم آئے ۔۔۔اونھ۔۔نہ القاب نہ آداب ۔۔اکبر الہ آبادی کا مجموعہ دیکھا ۔۔وہ بھی کچھ کام نہ آیا ۔۔۔اب کہو کہ خط کس طرح لکھوں کہ انٹرنیٹ کا زمانہ ہے ۔۔پر صاحب کیا کریں کہ اس شوخ کا ای میل آئی ڈی بھی نہیں معلوم ۔۔۔خط لکھنے کے لیے کاغذ قلم لے کر بیٹھتا ہوں ۔۔۔گھنٹوں سوچتا رہتا ہوں ۔۔کہ کہاں سے شروع کروں ؟۔۔ہر بار لکھ کر قلم زد کردیتا ہوں ۔۔نہ القاب سمجھ میں آتے ہیں نہ آداب نہ ہی نفس مضمون ۔۔
سوچتا رہتا ہوں میں ایسے لکھوں ویسے لکھوں
صرف بی اے پاس ہوں میں خط کہو کیسے لکھوں
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...