پیر کے دن کچہری ایک افسر کو ٹیلی فون کیا کہ ایک جائز کام کے لیے راستہ سہل کر دیں۔ معلوم ہوا کہ کنونشن سنٹر ڈیوٹی پر مامور ہیں۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ یہ تو شام کی خبروں میں اور دوسرے دن کے اخبارات سے معلوم ہوا کہ کنونشن سنٹر میں وزیراعظم ’’ویژن 2025ء‘‘ کے سلسلہ میں تقریب سے خطاب کرنے آئے ہوئے تھے۔ چند دن پہلے ہمارے ایک قاری نے انگلستان سے شکوہ کیا کہ کالم نگار ’’چھوٹے چھوٹے‘‘ مسائل میں الجھ جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک ’’چھوٹا‘‘ ہی مسئلہ ہے۔ حکومت کے سربراہ جہاں تشریف لاتے ہیں وہاں شاہراہیں تو بند ہوتی ہی ہیں۔ خلجی‘ تغلق اور شاہ جہان کے زمانوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے حاجب اور نقیب چاروں طرف پھیل تو جاتے ہی ہیں اور ہٹو بچو کے شور سے کان تو پھٹتے ہی ہیں۔ ویژن 2025ء کا کمال دیکھیے کہ کچہریوں‘ تھانوں‘ دفتروں سے افسر اور اہلکار بھی‘ جائے ’’واردات‘‘ پر مامور کر دیے جاتے ہیں۔ سائل جائیں بھاڑ میں اور حکومت کا کاروبار جائے جہنم میں۔ یہ تو ’’ویژن‘‘ کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اگر ویژن نہ ہو تو کیا ہوگا!
اب دوسری طرف انقلاب کے ضمن میں بھی ایک ’’چھوٹی‘‘ سی خبر دیکھ لیجیے تاکہ انقلاب کی حقیقت بخوبی سمجھ میں آ سکے۔ گجرات کے چودھری صاحبان کو یقین دلایا گیا ہے کہ ان کی تینوں رہائش گاہوں پر فُول پروف یعنی زبردست سکیورٹی فراہم کی جا رہی ہے۔ پولیس کے ضلعی سربراہ نے یہ یقین دہانی بنفس نفیس کرائی ہے۔ یوں تو انقلاب لانے کے لیے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ چودھری صاحبان کے علاوہ ہزاروں لاکھوں عقیدت مند بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلے ہیں لیکن سکیورٹی صرف گجرات کی رہائش گاہوں اور لال حویلی کے ضمن میں بروئے کار لائی جا رہی ہے۔ لگتا ہے یہ انقلاب کا وہی ایڈیشن ہے جو اس سے پہلے خادمِ اعلیٰ کئی بار لا چکے ہیں۔ حبیب جالب کی انقلابی شاعری‘ دھواں دار پرجوش تقریریں‘ مشہور زمانہ لہراتی انگشتِ شہادت اور رائے ونڈ سے لے کر لاہور تک پھیلی ہوئی رہائش گاہوں پر مامور درجنوں نہیں‘ بیسیوں نہیں‘ سینکڑوں پولیس اور ایلیٹ فورس کے اہلکار! ع
طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
ویژن 2025ء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ملک کو دہشت گردی میں دھکیلنے والوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے جن کی وجہ سے اربوں ڈالرز اور ہزاروں جانوں کا نقصان ہوا۔ کیا واقعی وزیراعظم سنجیدگی سے یہ احتساب کرنا چاہتے ہیں؟ تو پھر بسم اللہ! انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ ملک کی مقدس سرحدیں ساری دنیا کے جنگجوئوں کے لیے کس نے کھولی تھیں؟ اسلحہ کی ریل پیل کس کے زمانے میں ہوئی تھی؟ پاسپورٹ ویزا اور دوسرے قوانین کی بے حرمتی کر کے غیر ملکیوں کو پورے ملک میں کس نے پھیلایا تھا؟ کس کے زمانے میں خیبر پختونخوا کے مزدوروں کو کام ملنا بند ہو گیا تھا کہ ترجیح غیر ملکیوں کو دی جاتی تھی؟ جائیدادیں‘ ٹرانسپورٹ‘ کاروبار‘ سب کچھ ان پر نچھاور کردیا گیا تھا۔ اپنے بچوں کو امریکہ میں تعلیم دلانے والوں‘ کاروبار کرانے والوں اور ٹھیکے دلوانے والوں نے دوسروں کے بچوں کو شہادت کا راستہ دکھلایا تھا۔
اور وزیراعظم یہ کیوں فرما رہے ہیں کہ دہشت گردی میں دھکیلنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے؟ یہ مطالبہ وہ کس سے کر رہے ہیں؟ کیا وہ کسی احتجاجی جلوس کی قیادت کر رہے ہیں؟ عالی جاہ! ظلِ الٰہ! آپ تو خود سربراہِ حکومت ہیں! یہ احتساب تو آپ نے کرنا ہے۔ مشینری آپ کی تحویل میں ہے۔ اللہ کا نام لے کر یہ کام کر ڈالیے۔
ایک اور ’’چھوٹی‘‘ سی خبر۔ جے یو آئی (فضل الرحمن گروپ) کے انتخابات میں مولانا خان محمد شیرازی نے سخت ترین چیلنج پیش کیا۔ ذرائع کے مطابق مولانا کو منانے کی ساری رات کوششیں ہوتی رہیں کہ وہ رضاکارانہ طور پر دستبردار ہو جائیں لیکن وہ اڑے رہے۔ یہاں تک کہ جب پیر کی صبح کو جنرل کونسل کے ارکان پورے ملک سے اکٹھے ہو گئے تب بھی کوشش جاری رہی اور مولانا شیرازی مزاحمت کرتے رہے۔ پھر وہ دست بردار ہوئے لیکن دستبرداری سے پہلے ارکان سے خطاب کیا اور مبینہ طور پر مولانا فضل الرحمن کی اقرباپروری کی پالیسیوں کی شدید مخالفت کی۔
اگر یہ خبر صحیح ہے تو پھر جماعت اسلامی کی طرح جے یو آئی بھی جمہوریت میں مسلم لیگ کی نصف درجن شاخوں اور پیپلز پارٹی سے آگے نکل گئی۔
سودا قمارِ عشق میں شیریں سے کوہ کن
بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا
کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز
اے روسیاہ! تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا
آج تک نہیں سنا کہ کسی نے میاں نوازشریف‘ چودھری شجاعت‘ آصف زرداری یا بلاول بھٹو زرداری کو پارٹی کے اندرونی انتخابات میں چیلنج کیا ہو‘ پھر اسے منایا گیا ہو اور پھر دستبرداری سے پہلے اس نے پارٹی سربراہ کی اقرباپروری کے خلاف تقریر کی ہو۔ سچی بات یہ ہے کہ ایسا ایم کیو ایم میں ہوا نہ تحریکِ انصاف میں‘ کہ کسی نے الطاف حسین یا عمران خان کو چیلنج کیا ہو۔ مانا کہ جے یو آئی کا عمومی ریکارڈ قابلِ رشک نہیں ہے‘ وزارتوں اور کمیٹیوں کی سربراہی کے لیے جے یو آئی کی ’’جدوجہد‘‘ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی؛ تاہم جہاں تحسین جائز ہو‘ وہاں تحسین نہ کرنا قرینِ انصاف نہیں۔
بڑے بھائی وزیراعظم ہو کر مطالبہ کر رہے ہیں کہ فلاں معاملے میں فلاں کا احتساب ہونا چاہیے تو چھوٹے بھائی بھی پیچھے نہیں! تازہ ترین انٹرویو میں وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ ’’خدا کو حاضر ناظر جان کر اور قوم کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اگر شفاف تحقیقات کے نتیجے میں یہ ثابت ہو جائے کہ میں نے بالواسطہ یا بلاواسطہ فائرنگ کے احکام دیے ہوں تو بلاتاخیر استعفیٰ دے دوں گا‘‘۔
اس بیان کا ایک ہی مطلب ہے اور وہ یہ کہ اٹھارہ کروڑ عوام بے وقوف ہیں‘ اور سیانے صرف آپ ہیں۔ جناب خادمِ اعلیٰ! آپ صوبے کے حکمرانِ مطلق ہیں اور جملہ امور آپ کے فرزندِ ارجمند چلا رہے ہیں۔ کیا سارا مسئلہ یہ ہے کہ فائرنگ کے احکام آپ نے دیے یا نہیں؟ حضور! آپ کی ذمہ داری یہ معلوم کرنا ہے کہ فائرنگ کے احکام کس نے دیے تھے؟ آپ کو صرف اپنی جان کی کیوں فکر ہے؟ اگر فائرنگ کے احکام آپ کے کسی ماتحت نے دیے تو کیا آپ بطورِ حاکم اعلیٰ‘ ذمہ دار نہیں؟ یہ تاریخ کا واحد واقعہ ہے کہ چودہ بے گناہ شہری دن دیہاڑے گولیوں سے بھون دیے گئے اور صوبے کا سربراہِ حکومت اعلان کرتا ہے کہ میں نے فائرنگ کے احکام نہیں دیے۔ تو پھر یہ معلوم کرنے کے لیے کہ فائرنگ کے احکام کس نے دیے‘ تُرکی‘ چین یا نائیجیریا کی حکومت سے التماس کیجیے کہ وہ اصل مجرم پکڑ کر آپ کے حوالے کریں۔ یوں بھی خارجہ امور بہت حد تک آپ ہی نمٹا رہے ہیں۔ رہی یہ بات کہ اگر ثابت ہو جائے کہ فائرنگ کے احکام آپ نے دیے تو آپ مستعفی ہو جائیں گے‘ تو اگر خدانخواستہ یہ ثابت ہو جائے کہ چودہ انسان آپ کے حکم کے نتیجہ میں قتل ہوئے تو کیا یہ مقدمہ آپ کے محض استعفیٰ سے ختم ہو جائے گا؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔