پارٹی پہ پابندی لگئے تو بہت سال ہو گئے تھے مگر پارٹی کسی نہ کسی طریقے سے فعال تھی ، ایسا نہیں ہے کہ بھٹو کے دور میں پارٹی پہ سختی نہیں تھی ، پارٹی پہ ریاست کی نظر نہیں تھی یا پارٹی کے لوگوں کی گرفتاریاں نہیں ہوتی تھیں مگر ضیا کا دور پارٹی پہ بہت بھاری دور تھا کراچی میں پارٹی کے لوگوں کو کوڑے لگے ، جیلوں میں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور تھانوں میں تشدد کے دوران کچھ کارکنوں کی ہلاکتیں بھی ہوئیں ، سندھ سے پارٹی کے ایک رہنما کو گرفتار کر کے لاہور قلعہ میں لایا گیا ، خوش قسمتی سے ایک سندھی اخبار نے اس گرفتاری کی خبر تین سطروں میں لگا دی ، مختلف ذرائح سے زیرِ زمین خبر گردشیں کر رہی تھی ، کبھی خبر آتی ان کے ناخن کینچح لیئے گئے ہیں ، اُلٹا لٹکا کر ساری ساری رات تشدد کیا جاتا ہے ، برف کی سلوں پہ لٹیا جاتا ہے اور ایک دن خبر آئی کہ ہلاکت ہو گئی ہے ، لاہور کے ایک صاحب نے لا ہور ہائی کورٹ میں اس گرفتای کے خلاف رٹ دائیر کر دی ۔ ہائی کورٹ کے جج ذکی الدین پال نے رہنما کو عدالت میں پیش کرنے کے احکامات جاری کر دیے ، حکومت بہت عرصہ ٹال مٹول سے کام لیتی رہی آخر جب ذکی الدیں پال صاحب نے سختی سے حکم دیا تو اُس راہنما کو عدالت میں پیش کر دیا ، خوش قسمتی سے میں اُس دن لاہور ہائی کورٹ کی بار میں بیٹھا تھا ، چند وکلا کی وجہ سے مجھے بھی کمرہ عدالت میں جانے کا موقعح مل گیا ، سماعت کے دوران پال صاحب نے راہنما سے پوچھا ،، آپ پر کوئی تشدد تو نہیں ہوتا ، راہنما نے جواب دیا ۔ جی ہر روز ہوتا آج رات بھی تشدد ہوا ہے ، پال صاحب نے پوچھا ،، کس قسم کا تشدد کیا جاتا ہے ،، راہنما نے جواب دیا ، جی مجھے مولانہ مودودی کی تفسیرالقران اور اردو ڈائیجسٹ پڑھنے کو دیا جاتا ہے ، عدالت میں ایک زبردست قہقہہ پڑا،
پاکستان کی مختلف شہروں میں پارٹی کے کارکن دوسری پارٹیوں کے ساتھ ملکر راہنما کی کی گرفتاری اور انکی رہائی کے لیے پروگرام دینے کے لیے مٹنگیں کر رہے تھے ایسی ہی ایک میٹنگ لائلپور پور میں بھی ہوئی ، جس کے خبر پولیس کو بھی ہو گئی ، پولیس نے اس میٹنگ میں شامل پارٹی کے ایک کارکن کو پکڑ لیا ،اُس پہ تشدد کی انتہا کر دی کہ وہ پولیس کو بتائے کہ کس نے ایسا کرنے کے احکامات دیے ، کیا پراوگرام بنا ، اس میٹنگ میں دوسرے کون کون لوگ شامل تھے اور دوسرے کن کن شہروں میں ایسے پروگرام ترتیب دیےجا رہے ہیں ، مگر یہ کارکن سب تشدد برداشت کر گیا اور پولیس اس سے کچھ نہ اگلوا سکی ، ایک رات جب پولیس والا تشدد کرتے کرتے تھک گیا تو جیب سے سیگرٹ نکال کر پینے لگا تو کارکن نے پولیس والے سے کہا ۔۔ کیا مجھے بھی ایک سیگرٹ مل سکتا ہے ،پولیس والا اس کی طرف دیکھتا رہا اور سیگرٹ پیتا رہا، جب اُس نے پینے کے لیے دوسرا سیگرٹ نکالا تو بقایا پیکٹ کارکن کے طرف بڑھاتے ہوئے کہا ، تم یہ سب لے سکتے ہو اگر تم وہ سب بتا دو جو ہم تم سے پوچھ رہے ہیں ۔ کارکن نے سوچھا ایک ہفتہ ہوگیا ہے ساتھی انڈر گراونڈ ہو گئے ہوں گئے اس نے پیکٹ میں سے صرف ایک سیگرٹ لیا باقی پیکٹ پولیس والے کا واپس کیا سیگرٹ کو سُُلگایا ایک لمبا کش لیا اور دوھوں کو اندر نگلتے اس جگہ کا پتہ بتا دیا جہاں میٹنگ ہوئی تھی ، پولیس نے فوری اُس جگہ چھاپہ مارا عجیب اتفاق ہے اس وقت اسی جگہ پارٹی کی میٹنگ ہو رہی تھی اس میں گرفتار ہونے والوں کو پھر کبھی زندہ نہ دیکھا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://www.facebook.com/masood.qamar?hc_ref=NEWSFEED&fref=nf
“