صرف تین ہفتوں میں پانی میں گھل کر ختم ہوجانے والی بوتل
پلاسٹک اور اس سے بنی بوتلیں پوری دنیا اور خصوصاً سمندروں کےلیے خطرہ بن چکی ہیں جب کہ یہ بوتلیں سینکڑوں برس میں بھی ختم نہیں ہوتیں اور سمندری جانوروں سمیت انسانوں کےلیے بھی خطرہ بنی ہوئی ہیں۔
اس کے مؤثر جواب کے طور پر اسکاٹ لینڈ کے ایک موجد جیمز لونگ کروفٹ نے خاص کاغذ سے ایک بوتل بنائی ہے جو سمندر کے کھارے پانی میں رہتے ہوئے صرف تین ہفتوں میں گھل کر مکمل ختم ہوجاتی ہے۔ یہ بوتل حیاتی طور پر تلف (بایو ڈی گریڈیبل) ہونے والی ہے اور مکمل طور پر واٹر پروف بھی ہے۔ ان بوتلوں کے استعمال سے پلاسٹک کی بوتلوں کے پہاڑ کا دیرینہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ پلاسٹک سب سے زیادہ سمندری مخلوق کو ہلاک کررہا ہے اور بحرِ اوقیانوس میں ٹیکساس شہر کی جسامت کا پلاسٹک کا ڈھیر دیکھا گیا ہے۔
اس خبر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پوری دنیا میں پلاسٹک مافیا بہت مضبوط ہوچکی ہے اور ہر سال اس کےلیے اربوں ڈالر رقم خرچ کرتی ہے۔ دوسری جانب جیمز اس بوتل کو اپنے باورچی خانے میں اپنے ہاتھ سے بنارہے ہیں۔ یہ بوتل ایک ماہ تک سمندر میں رہتے ہوئے مکمل طور پر گھل جاتی ہے جب کہ پلاسٹک کی بوتل کم سے کم 450 سال بعد ختم ہوتی ہے۔ جیمز کی بوتل کا ڈھکن ایک سال میں ختم ہوجاتا ہے۔
اس بوتل کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس پر بہت لاگت نہیں آتی اور اسے بنانے میں صرف 70 روپے خرچ ہوتے ہیں جو پلاسٹک کی بوتل کےمقابلے میں بہت زیادہ ہے لیکن ماحول کا دکھ کم کرنے کے لیے یہ رقم کچھ زیادہ نہیں ۔ ہر سال ہم 14 ارب ٹن کچرا سمندروں میں پھینک رہے ہیں جن میں اکثریت پلاسٹک کی ہے۔
جیمز لانگ کرافٹ نے اپنی اختراع کےلیے انٹرنیٹ پر چندہ شروع کیا ہے اور کراؤڈ فنڈنگ ویب سائٹ پر 34 ہزار ڈالر مانگے ہیں جن میں سے نصف رقم جمع ہوچکی ہے۔ ان کا یہ قدم اس سیارے کے بہتر مستقبل کےلیے اہمیت رکھتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔