سر سید احمد خان کا شمار ان نابغہ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی قوم کو پستی سے نکال کر ترقی کی راہ پرگامزن کیا تھا۔جہاں ایک طرف ان کی علمی،ادبی اور قومی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے وہیں سر سید کو تعلیم نسواںکا سخت مخا لف کہا جاتا ہے۔ سر سید کے یوم پیدائش کے موقع پر سوشل میڈیا پر اس طرح کے سوالات قائم کئے جا رہے تھے۔ کیا واقعی سر سید تعلیم نسواں کے سخت مخالف تھے؟ سر سید کی اپنی تحریریں اور تقریریں اس کا بین ثبوت ہیں کہ سر سید تعلیم نسواں کے خلاف نہیں تھے۔انھوں نے خود بہت واضح الفاظ میں اس الزام کی تردید کی ہے۔خود سر سید نے اپنے خاندان میں خواتین کی تعلیم کا اہتمام کئے جانے اور ان کے لئے مردوں کی طرف سے تعاون کرنے کا ذکر اپنی ایک تقریر میں کیا بھی ہے۔
تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سر سید نے1884 میںگرداس پور(پنجاب) میں سردارمحمد حیات خان کی اہلیہ کے زیر اہتمام منعقدہ خواتین کے جلسہ میں شرکت کی تھی ۔انھوں نے اس جلسہ میں پنجاب کی خواتین کی طرف سے پیش کردہ اڈریس کا جواب دیتے ہوئے خواتین کی تعلیم کی طرف سے بے پرواہ نہیں ہونے اور دل سے ان کی ترقی کے خواہش مند ہونے کا اظہار کیا تھا ۔سر سید نے خواتین کوتلقین کی کہ وہ اپنا پرانا طریقہ تعلیم اختیار کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح وہ دین اور دنیا دونوں کی بھلائیاں حاصل کر سکتی ہیں۔انھوں نے کہا:
’’ اے میری بہنوں ۔میں اپنی قوم کی خاتون کی تعلیم سے بے پرواہ نہیں ہوں ۔میں دل سے ان کی ترقی تعلیم کا خواہاں ہوں ۔مجھ کو جہاں تک مخالفت ہے اس طریقہ تعلیم سے ہے جس کے اختیارکرنے پر اس زمانے کے کوتاہ اندیش مائل ہیں۔میں تمھیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم اپنا پرانا طریقہ تعلیم اختیار کرنے پر کوشش کرو۔وہی طریقہ تمھارے لئے دین و دنیا میں بھلائی کا پھل دیگا اور کانٹوں میں پڑنے سے محفوظ رکھے گا۔‘‘
سر سید لڑکیو ں کی تعلیم کے سلسلہ میں واضح نقطہ نظر رکھتے تھے۔ان کے منصوبے کی اساس اس منطق پر مبنی تھی کہ اگر قوم کے لڑکے تعلیم یافتہ ہو جائیں گے تو یقینا ان کی خواتین بھی تعلیم یافتہ ہو جائیں گی۔ وہ آگے کہتے ہیں کہ :
’’ اے میری بہنوں تم یقین جانو کہ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں مردوں کی حالت درست ہونے سے پہلے عورتوں کی حالت میں درستگی ہو گئی ہو۔ اور کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں ہے جس میں مردوں کی حالت درست ہوگئی ہو اور عورتوں کی حالت درست نہ ہوئی ہو۔ ان سچے واقعات نے میرے دل میں بہت کچھ اثر کیا ہے۔میں نے تمھارے لڑکوں کی تعلیم پرجو کوشش کی ہے اسے تم یہ نہ سمجھو کہ میں اپنی پیاری بیٹیوں کو بھول گیا ہوں بلکہ میرا یقین ہے کہ لڑکوں کی تعلیم پر کوشش کرنا لڑکیو ںکی تعلیم کی جڑہے۔پس جو خدمت میں تمھارے لڑکوں کے لئے کرتا ہوںدر حقیقت وہ لڑکوں لڑکیوں دونوں کے لئے ہے۔‘‘
سر سید کو مردوں کی بد اخلاقی کا علم تھا اور وہ جانتے تھے کہ مرد اپنی خواتین کو وہ حقوق عطا نہین کرتے جو مذہبی طور پر ان کو ملنے چاہیئں۔اس لئے وہ خواتین کو سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں :
’’ہاں یہ بات سچ ہے کہ تمھارے خاندان کے مردوں کی نالائکی اور جہالت سے تمھارے متعدد حقوق جو خدا کے حکم سے تمکو ملے ہیں اور جن کا انسانیت کی رو سے تمھارا حق ہے برباد ہو گئے ہیں ۔وہ حق تمہیں واپس دلانے کی یہی تدبیر ہے کہ تمھارے مردوں کی تعلیم میں کوشش کی جائے۔جبکہ وہ تعلیم یافتہ ہو جاویں گے وہ مغصوبہ حقوق از خود بے مانگے تمکو واپس ملیں گے۔اب میں تم کو دوبارہ یقین دلاتا ہوںکہ جو خدمت میںاس وقت کر رہا ہوںنہ صرف تمھارے لڑکوں کی ہے بلکہ تمھاری لڑکیوں کی بھی ہے۔اگر خدا نے چاہا تو اس سے دونوں برابر فائدہ اٹھائینگے۔اور لڑکے و لڑکیاں دونوں علم کی روشنی سے روشن ہوں گے‘‘۔
سر سید لڑکیوں کی تعلیم کو لے کر فکر مند تھے ،مذکورہ بالا اقتباسات سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ۔انھوں نے بار بار خود کو اس الزام سے بری کرنے کی کوشش کی کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں۔اگر کوئی اختلاف ہے بھی تو وہ محض طریقہ کار کو لے کرہے۔سرسید چاہتے تھے کہ ان کے دور میں جس طرح کے تعلیمی نظام کی ضرور ت خواتین کے لئے ہے ویسی رائج کی جائے۔مستقبل میں جو لوگ موجود ہوں گے وہ اپنے دور کے مطابق تعلیم کا نظام طے کریں گے جیسا کہ بعد میں شیخ عبداللہ نے کیا بھی۔
آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا 1891 میں چھٹا اجلاس علی گڑھ میں نواب محمد اسحاق خان کی صدارت میں منعقد ہوا تھا جس میں خواجہ غلام الثقلین نے تعلیم نسواں کے موضوع پر بہت عمدہ تقریر کی اور ایک قرارداد اس سے متعلق پیش کی جس کی تائید مولوی کرامت حسین نے کی ۔ منشی سراج الدین نے تعلیم نسواں سے متعلق اپنی تقریر میں سر سید کو کئی بار لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف بتایا تھا۔اس پر سر سید نے سخت اعتراض درج کرایا اور کہا:
’’ میرے دوست منشی سراج الدین نے کئی مرتبہ میرا نام لیا اور یہ بھی بیان کیا کہ میں تعلیم نسواں کا مخالف ہوں ۔اس لئے میں اٹھا ہوں کہ بیان کر سکوں جن کے خیال میں یہ بات ہے کہ میں تعلیم نسواں کا مخالف ہوں ان سب کو معلوم ہوجاوے کہ یہ بات غلط ہے۔‘‘
اسی تقریر میں سر سید نے لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت کرتے ہوئے خواجہ غلام الثقلین کی سلیقے اور خوبصورتی کے ساتھ تعلیم نسواں کے متعلق تجاویزپیش کرنے پر تعریف کی ۔بعد ازاں اپنے اوپر عائد الزام کی ایک بار پھر تردید کی ۔سر سید نے خواتین کی تعلیم کے تعلق سے جو منصوبہ تشکیل دیا تھا اس کے مطابق عورتوں کی تعلیم کا ذریعہ مرد ہی ہوسکتے تھے۔کیا سر سید کی یہ رائے غلط کہی جا سکتی ہے؟فرض کیجئے مرد تعلیم یافتہ نہ ہوتے تو کیا وہ اپنی خواتین کو آج تعلیم حاصل کرنے دیتے ۔جب مردوں کو تعلیم کی اہمیت و افادیت کا ادراک ہو گیا تبھی شیخ عبداللہ جیسے مرد مجاہدسامنے آئے اور خواتین کی تعلیم کا مرکز قائم کرنے کی داغ بیل پڑ سکی۔
سر سیدتقریر کے اختتام پر اپنے دو مطلب اس طرح واضح کرتے ہیں کہ:
’’میرے صرف دو مطلب ہیں۔جن کو میں پھر بیان کرتا ہوں۔اول یہ خیال کہ میں مخالف عورتوں کی تعلیم کا ہوں غلط ہے۔دوسرے یہ کہ ذریعہ عورتوں کی تعلیم کا سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہے کہ مردوں کی تعلیم ہو۔جب وہ تعلیم یافتہ ہو جاوینگے اپنی بی بیوں اور بچوں اور عورتوں کو تعلیم سے آراستہ کرینگے۔‘‘
مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے 1896 میں منعقدہ اجلاس میں ایک تجویز پیش کی گئی۔اس تجویز میں تعلیم نسواں کی طرف توجہ مرکوز کرنے اور ایک شعبہ تعلیم نسواں، کانفرنس کے تحت کھولے جانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ صاحبزادہ آفتاب احمد اور مولوی ممتاز علی نے اس تجویزکی تائید کی۔ نواب محسن الملک بھی اس قدم کے حق میں تھے۔محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا شعبہ تعلیم نسواں سر سید کے سامنے ہی کھلا تھا مخالفین یہ کیوں بھول جاتے ہیں ۔وہ اس بات سے بھی واقف نہیں ہیں کہ سر سید کی موجودگی میں ہی تعلیم نسواں کا پہلا رزولیوشن پاس ہوا تھا۔دسمبر 1888 کو لاہور میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس میں پہلی بار تعلیم نسواں سے متعلق قرارداد شیخ خیر الدین نے پیش کی تھی۔اس کی تائید خلیفہ عماد الدین نے کی تھی۔اس میں سر سید اورتھیوڈور بیک کے ساتھ کانفرنس کے 288ممبران شامل تھے۔ سر سید کے زیر سایہ تربیت یافتہ اور ان کی ہی تحریک کے سچے علمبردار شیخ عبداللہ نے اس شعبہ میں جو نمایاں کامیابی حاصل کی وہ کہیں نہ کہیں سر سید کی ہی مرہون منت ہے۔سر سید کے زیر سایہ ہی علی گڑھ کے طلباء میں رفتہ رفتہ تعلیم نسواں کا احساس پیدا ہوتا رہا ۔جس کی بنیاد پر انھوںنے بعد میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔
رفقائے سر سید اور کچھ دیگر حضرات نے سر سید کے تعلیم نسواں کے متعلق خیالات پر سخت نکتہ چینی کی ہے ۔سر سید کی خود کی تحریروں ، تقریروں کے مطالعہ اورمذکورہ بالا بحث کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سر سید لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں تھے۔ حالات کے تقاضے کے مطابق وہ پہلے لڑکو ںکی تعلیم کا پختہ انتظام کرنا چاہتے تھے۔ جدید تعلیم کو لے کر وہ پہلے سے ہی ایک محاذ پر جنگ لڑ رہے تھے اور ان کے خلاف کھڑے ہونے والوں کی کمی نہیں تھی ایسے میں وہ اپنے خلاف ایک اور محاذ کھڑا ہوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے ہوں گے۔ ان کی مصلحت اپنی جگہ درست بھی تھی کہ دوسرا محاذ کھلتے ہی لڑکوں کی تعلیم کے فروغ کا منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑ سکتا تھا۔ بہت ممکن تھا ان حالات میں وہ دونوں ہی مورچوں پر شکست کھا جاتے۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو یہ ملت اسلامیہ کے لیے انتہائی کربناک صورت حال ہوتی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...