تعلیم ایک ایسا نور ہے جو آدمی کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کرانسانیت کی منزلوں پر فائیزکرتا ہے۔وہ اس کی شخصیت کو مہ و انجم کی طرح روشن رکھتا ہے جس کی روشنی سے آنے والی نسلیں فیض یاب ہوتی ہیںیہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعہ ایک نسل دوسری نسل تک اپنے تہذیبی و تمدنی ،علمی و ادبی خدمات کوورثہ کے طور پر منتقل کر سکتی ہے۔
سر سید احمد خاں کی تعلیمی خدمات اور نظریات آج بھی آنے والی نسلوں کی آب یاری کر رہے ہیں۔ان کی عظیم تعلیمی خدمات کو رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ان ہی کی کوششوں اور کاوشوں کے نتیجہ میںہندوستانی سماج میں جدید تعلیم کی فضاء ہموار ہوئی جو قوم پستی و کمتری کی گہرائیوں میں گم تھی اس کو ابھر کر آسمان میں کہکشاں کی مانندچمکنے کے مواقع فراہم ہوئے۔
سرسید بخوبی جانتے تھے تعلیم کا مختلف علوم و فنون سے ایک گہرا رشتہ ہے۔مثلاً
فلسفہ،تاریخ،نفسیات،سماجیات،حیاتیات،وغیرہ وغیرہ۔اس لئے تعلیم کے فروغ میں مختلف عوامل مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔مثلاً خاندان،مذہبی جماعتیں،مختلف قسم کی انجمنیں،مملکت،حکومت اور اسکول ومدارس وغیرہ۔اس کے لئے ضروری ہے کہ ان تمام عوامل کا سہارا لے کر معاشرے میں تعلیم کی ترسیل کے کام انجام دئے جائیں۔
معاشرے کو بیدار کرنے کے لئے انھوں نے ایک رسالہ’’تہذیب الاخلاق‘‘ نکالا جس کے ذریعہ انھوں نے قوم و ملت میں تعلیم کے راستہ پر گامزن ہونے کا نیک جزبہ بیدار کیاسماج میں پھیل رہی بہت سی برائیوں سے بچنے اور جہالت کے اندھیروں سے دور رہ کر حق و صداقت،علمی و ادبی کارناموں کے لئے راغب کیا۔ اپنے پیغام کی ترسیل کے لئے سرسید نے بہت ہی سادہ اور عام فہم زبان میںمضامین کی اشاعت کی کیو نکہ سادہ اور سلیس زبان کے لوگوں کے ذہن پر اچھے نتائج مرتب ہوتے ہیں۔سرسید کے اس رسالہ نے اردو ادب کے میدان میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئے۔اردو صحافت بھی اس سے کافی متاثر ہوئی۔
۱۸۵۷کی جنگِ آزادی کے بعد مسلمان پسماندگی اور جہالت کی دنیا میں گم ہو کر رہ گئے تھے۔ایسے نازک وقت میں سر سید نے قوم کی اصلاح کا بیڑا اُٹھایا اور اپنی زندگی کو ہندوستانی عوام میں تعلیم عام کرنے کے لئے وقف کر دیا۔سرسید بخوبی جانتے تھے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کئے بغیر عوام ترقّی کی راہ پر گام زن نہیں ہو سکتی اس کے لئے سماج میں اعلیٰ اور معیاری تعلیم کی فضا قائم کرنا بہت لازم و ملزوم ہے۔انھوں نے اپنے تعلیمی نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بہت سی کوششیں اور کاوشیں کیں۔عوام کو جدید تعلیم سے آشنا کرانا اُن کا نصب العین تھا اس کے لئے لوگوں کو سائنس کی تعلیم میں دلچسپی لینا بہت ضروری تھا ۔اس سلسلہ سے انھوں نے’’سائنٹفک سوسائٹی‘‘ قائم کی اور انگریزی کتابوں کا بہت سا مواد انھوں نے اردو زبان میں منتقل کرایا تاکہ عوام مغربی علوم کی اچھی باتوں سے بھی فیض حاصل کر سکے اور سائنسی فضا قائم ہوسکے،اور عوام دنیا میں ہورہی ترقّیات سے بھی ہم کنار ہو سکے۔اس کے ساتھ ساتھ سرسیدمغربی یونیورسٹیوں کی طرز پر ہندوستان میں بھی یونیورسٹی قائم کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔اس کے لئے انھوں نے انگلستان کا سفر بھی طے کیا تاکہ وہاں جا کر وہاں کا تعلیمی نظام دیکھیں اور پھر اسی طرز پر اپنے ملک ہندوستان میں تعلیمی نظام قائم کیا جا سکے تاکہ ہندوستانی عوام بھی تعلیم کے میدان میں دوسرے ممالک کی برابری کر سکے۔ ولایت میں انھوں نے کیمبرج اور آکسفورڈ جیسی مشہور و معاروف یونیورسٹیوں کا مشاہدہ اور مطالعہ کیا۔سرسید وہاں چھپ رہے اخبارات ٹیلر اور اسکیٹر سے بھی بہت متاثر ہوئے اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ سماج کی بیداری اور اس ترقّی میں صحافت کا بھی اہم رول ہے۔ اسی کی طرز پر انھوں نے ہندوستان آکر’’ تہذیب الاخلاق‘‘جاری کیا، اور اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے مل ایک اسکول کی بنیاد ڈالی۔۱۸۷۵ء میں مولوی سمیع اﷲخاں کی مدد سے علی گڑھ میں ایک مدرسہ قائم کیا۔مسلمانوں کی پسماندگی اور ان کو جہالت کے اندھرے سے باہر لانے کہ لئے وہ ہر ممکن کوشش کرتے رہے،اسی لئے انھوں نے ’’آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرس‘‘ کی بنیاد بھی رکھی۔۱۸۷۷ء میں علی گڑھ کالج اور ۱۸۸۱ء میں محمڈن اینگلواورینٹیل کالج قائم کئے۔سرسید کی کوششیں اور کاوشیں رنگ لائیں اور ہندوستانی عوام میں تعلیمی نظام قائم ہوا۔ان کے ذریعہ قائم کیے گئے کالج کو ۱۹۲۰ء میں یونیورسٹی کا درجہ ملا اور اس کو’’ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘‘ کہا جانے لگاجو آج بھی قائم و دائم ہے۔
الغرض سر سید وہ دور بین شخصیت تھے جوجدید تعلیم و تربیت کو قوم و ملت کی ترقی کا ذریعہ مانتے تھے اس ضمن میں جو انھوں نے کارنامے اور کاوشیں انجام دیں وہ کبھی فراموش نہیںکی جا سکتیں ہر آنے والا سماج اور دور انھیں ان کی دی ہوئی تعلیمی فکر سے اپنی سوچ کے چراغ روشن کرے گا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...