جامعہ اردو، علی گڑھ ایک اقلیتی تعلیمی ادارہ ہے ۔اس کے نام سے ہی واضح ہے کہ اس کی حیثیت ایک یونیورسٹی کی ہے اور اس کا تعلق اردو زبان سے ہے ساتھ ہی یہ علی گڑھ میں واقع ہے۔ علی گڑھ کا نام آتے ہی ذہن میں سر سید کی تصویر ابھرتی ہے کیونکہ علی گڑھ سے ہی ان کی عملی زندگی کا سرمایہ یعنی دانشگاہ علی گڑھ وابستہ ہے جو ۱۸۷۵ء میں ایک کالج کی شکل میں شروع ہوئی اور ۱۹۲۰ء میں مکمل یونیورسٹی کی صورت اختیار کر گئی۔ یہ سر سید کے تعلیمی مشن اور جنون کی داستان بیان کرتی ہے۔جب ہمارا معاشرہ علم و دانش ،تہذیب و تنظیم سے یکسر غافل ہو کر قعر مذلت میں گرتا چلا جا رہا تھا،اس وقت سر سید نے ایک خواب دیکھا ۔یہ خواب انھوں نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا۔اس کی تعبیر خود متعین کی اور اسے پورا کرنے کے لئے دشوار گذار راہوں پر چل پڑے۔وقت کی رفتار تو رکتی نہیں ۔اس کا پہیہ گھومتا رہا اور منظر تبدیل ہوتا رہا۔ خواب حقیقت بنے ۔ناممکن ممکن ہوتا نظر آیا۔علم کی شمع نے کتنے ہی تاریک گوشے روشن کر دئے۔ دور دراز کے علاقوں سے لوگ جوق در جوق علی گڑھ یونیورسٹی آکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے لگے۔سر سید کا خواب شرمندئہ تعبیر ہو رہا تھا۔ اسی اثناء اہل علم و دانش کے ذہن میں ایک منفرد خیال پیدا ہوا۔ انھیں لگا کہ قوم و ملت کے سبھی لوگ تو اتنے متمول نہیں کہ علی گڑھ آکر تعلیم حاصل کر سکیں۔اس خیال نے کئی نئے تعلیمی منصوبوں کو جنم دیا۔ انھیں میں ایک فاصلاتی تعلیم تھی۔اس کا مقصد تھا کہ جو لوگ علی گڑھ یونیورسٹی میں رہ کر تعلیم حاصل نہیں کر سکتے وہ اپنی جگہ رہ کر اور محدود وسائل سے علی گڑھ یونیورسٹی کے مساوی نصاب پڑھ کر امتحان پاس کریں اور ڈگری حاصل کریں۔ اس منصوبے پر غور کریں تو لگتا ہے کہ یہ سر سید کے تعلیمی خواب یعنی علی گڑھ تحریک کی توسیعی شکل ہے ۔
سر سید کی وفات کے بعد کچھ باشعور لوگوں نے آگرہ میں ’بزم اقبال ‘نام کی ایک انجمن قائم کی۔پھر انھیں لوگوں نے اردو زبان اور تعلیم کے فروغ کے لئے فاصلاتی تعلیم کے ایک ادارہ کی بنیاد ڈالی جو جامعہ اردو ،آگرہ کے نام سے موسوم ہوا۔ اس مرکز کا قیام ۱۹۳۹ء میں عمل میں آیا ۔جناب طاہر محمد صاحب اس کے بانیوں میں سے تھے۔ وہ ۱۹۴۷ء میں پاکستان چلے گئے۔اس خلا کو پر کرنے کے لئے ظہیر الدین علوی صاحب سامنے آئے اور انھوں نے اس ادارہ کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔۱۹۴۸ء میں جامعہ اردو ،آگرہ سے علی گڑھ منتقل ہوا۔ اب یہ ادارہ جامعہ اردو، آگرہ سے جامعہ اردو، علی گڑھ بن گیا۔کسی بھی ادارہ کا قیام اور پھر اس کا دوام ایک مشکل مرحلہ ہے۔جامعہ اردو بھی مختلف مراحل سے گذرتا ہوا ایک ایسے مقام پر پہونچا کہ اس کی مجلس عاملہ تشکیل ہوئی۔لفٹیننٹ کرنل نواب ڈاکٹر سر الحاج حافظ محمد احمد سعید خان صاحب بہادر چھتاری اس کے پہلے رکٹر بنائے گئے۔مسٹر رائٹ سر تیج بہادر سپرو چانسلر،الحاج مولوی عبد الحق پرو چانسلر، الحاج مولوی عبد الحسن وائس چانسلر،خان بہادر اختر عادل پرو وائس چانسلر،آگرہ کے پنڈت راج ناتھ کنجرو خازن اور محمد طاہر فاروقی رجسٹرار مقرر ہوئے۔اس کی پہلی مجلس عاملہ کی میٹنگ ۱۳ ستمبر ۱۹۴۸ء کو علی گڑھ میں ہوئی جس میں نواب چھتاری نے بطور رکٹر،شانتی سروپ بھٹناگر چانسلر، پنڈت راج ناتھ کنجرو،ڈاکٹر ذاکر حسین ، پروفیسر رشید احمد صدیقی، شفاعت الملک حکیم عبد اللطیف ،سید ظہیر الدین علوی وغیرہ ممبران نے مختلف حیثیت سے شرکت کی ۔سید ظہیر الدین علوی اس وقت علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبئہ اردو میں بطور لکچرار کام کر رہے تھے۔علی گڑھ میگزین بھی انھیں کی زیر نگرانی شائع ہو رہی تھی نیز ایڈمنسٹریشن اور فائینانس کی ذمہ داریاں بھی انھیں نے سنبھال رکھی تھیں۔ان کی فعالیت سے متأثر ہو کر مجلس عاملہ نے جامعہ اردو، علی گڑھ کی پوری ذمہ داری انھیں کو سونپ دی۔ جامعہ اردو فقط امتحان دلانے والا ادارہ ہی رہا لیکن اس کے یونیورسٹی کے درجے کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ طے پایا کہ ہر سال یہاں کانووکیشن بھی ہونا چاہئے جس طرح علی گڑھ یونیورسٹی میں ہوتا ہے۔اس کے ساتھ ہی کسی عظیم المرتبت شخصیت کا لکچر بھی ہونا چاہئے۔لہٰذا اس کا پہلا کنووکیشن یعنی جلسئہ تقسیم اسناد ۱۹۵۴ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کے یونین ہال میں منعقد ہوااور خواجہ غلام السیدین نے کانووکیشن کو خطاب کیا۔ آنے والے دنوں میں گوپی ناتھ امن۱۹۵۵ء، طاہر فاروقی ۱۹۵۶ء، راج ناتھ کنجرو۱۹۵۷ء، ڈاکٹر سید محمود۱۹۵۸ء ، مولانا سید حفظ الرحمٰن ۱۹۶۰ء، ڈاکٹر گوپال ریڈی ۱۹۶۱ء ، آچاریہ جگل کشور۱۹۶۳ء، پنڈت آنند نرائن ملا ۱۹۶۴ء، سید مسعود حسن رضوی ۱۹۶۵ء، مالک رام ۱۹۶۶ء، مصطفیٰ رشید شروانی ۱۹۶۷ء، محمد یونس سلیم۱۹۶۹ء، حیات اللہ انصاری ۱۹۷۰ء، سید عابد حسین ۱۹۷۱ء، سید سجاد ظہیر۱۹۷۲ء، رشید احمد صدیقی ۱۹۷۳ء نے کنووکیشن کو خطاب کیا۔
جامعہ اردو ،علی گڑھ کے قیام کی خبر بہت تیزی سے دور دراز کے علاقوں میں پھیل گئی ۔مختلف تعلیمی ادارے اور مدارس مثلاً مدرسئہ عالیہ ، آگرہ تعلیمی بورڈ، انجمن ترقی اردو ،بیاور؛دار العلوم اسلامیہ ،جے پور؛دار العلوم حمیدیہ ،بھوپال؛ادارہ سعدیہ ،ٹونک؛مدرسہ اسلامیہ ،امروہہ وغیرہ نے اپنے ادارے میں کوچنگ کلاسزکا انتظام کیا تاکہ وہ اپنے یہاں بچوں کو تیاری کرائیں اور جامعہ اردو کے امتحان میں شامل کرائیں۔ اس کا نصاب حکومت ہند سے با ضابطہ طور پر منظور شدہ تھا۔ اس کے قیام کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ یہ کہ غریب و نادار بچوں کو اسی معیار کی تعلیم دینا جو ایک متمول گھرانے کے بچے کو دی جاتی ہے۔ مالی کمی تعلیمی معیار پر کسی طرح اثر انداز نہ ہونے پائے۔جامعہ اردو ، علی گڑھ سے سند یافتہ بچے کسی طور دوسرے اداروں سے فارغ بچوں سے کم نہ ہوں بلکہ وسائل کی کمی کے باوجود وہ پڑھ لکھ کر پر اعتماد بنیں۔ غرض کہ آج بھی جامعہ اردو سماج کے اس طبقے میں تعلیم کے انتشار کا کام کر رہا ہے جو معاشی اعتبار سے کمزور ہے اور مہنگی تعلیم حاصل کرنا اس کے بس کی بات نہیں ۔یہ ہندوستانی زبان کا ادارہ ہے۔جسے بھی ہندوستان سے پیار ہے ،اسے اردو زبان سے پیار ہونا لازمی ہے اور وہ اردو زبان کے فروغ میں مدد بھی کرے گا۔
جامعہ اردو ہندوستان میں فاصلاتی تعلیم کا محور ہے۔ ۱۹۳۹ء سے تعلیم کے فروغ کے لئے یہ اپنی خدمات انجام دے رہا ہے لیکن اسے کوئی سرکاری مراعات نہیں ملتی۔ یہ ایک اقلیتی تعلیمی ادارہ ہے جسے قومی اقلیتی تعلیمی کمیشن سے با ضابطہ طور پراجازت نامہ دستیاب ہے۔ یہاں کا نصاب سی ۔بی۔ ایس۔ ای۔اور این ۔ سی ۔ ای۔ آر۔ ٹی۔ کے نصاب کے مساوی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ نصاب اور سرٹیفیکیٹ مختلف صوبوں کے بورڈ کے سرٹیفیکیٹ کے برابر ہے۔ جامعہ اردو کے پورے ملک میں ۱۸۹۱ سنٹر ہیں اور اس سے ۷۸ہزار طلباء منسلک ہیں۔ یہاں پڑھائے جانے والے کورس اس طرح ہیں ؎
ابتدائی ،مساوی آٹھویں کلاس
ادیب ،مساوی دسویں کلاس(دو سالہ کورس)
ادیب ماہر، مساوی بارہویں کلاس(دوسالہ کورس)
ادیب کامل، مساوی گریجویشن(تین سالہ کورس)
ادیب فاضل، مساوی پوسٹ گریجویشن (دو سالہ کورس)
معلم، اردو بی۔ ٹی۔ سی۔ کے مساوی(دو سالہ کورس)
اردو صحافت میں سرٹیفیکیٹ اور ڈپلومہ کورس
مختلف سنٹر پر ہر سال امتحان کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ امتحان سے طالب علم کی لیاقت اور صلاحیت ابھر کر سامنے آتی ہے اور مستحقین کو انصاف کے ساتھ ان کا حق ملنے کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔امتحان ایک ناگزیر عمل ہے ۔ہر شخص کو زندگی میں آگے بڑھنے اور ترقی کی منزلیں طے کرنے کے لئے امتحان سے گزرنا ضروری ہوتا ہے۔امتحان پاس کر لینے پر انسان کی عزت و تکریم میں اضافہ ہوتا ہے جب کہ نتیجہ بہتر نہ ہونے پر ذلت اور رسوائی ہاتھ آتی ہے۔پڑھنے اور سیکھنے کی کوئی عمر ، کوئی حد نہیں ہوتی۔ یہ عمل تو از مہد تا بہ لحد جاری رہتا ہے۔جامعہ اردو اپنی فاصلاتی تعلیم کے ذریعہ یہ سہولت فراہم کر رہا ہے۔ اس کے فوائد بے شمار ہیں۔ تقریباً پچھتر برس سے یہ ادارہ مسلمانوں کے درمیان تعلیم کا فیض تقسیم کر رہا ہے۔ لاکھوں لاکھ لوگ ہر سال اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اس کا ادیب ماہر کورس پاس کر لینے کے بعد طلباء یونیورسٹی میں ہونے والے داخلہ امتحانات میں شریک ہو سکتے ہیں۔مختلف سرکاری اسامیاں ہیں جہاں بارہویں جماعت پاس اپنی درخواستیں بھیج سکتے ہیں وہاں ادیب ماہر بھی شامل ہو سکتے ہیں۔معلم تعلیمی تربیتی کورس کر کے اردو مدرس بنا جا سکتا ہے۔ اسی طرح دیگر کورسوں کی بھی افادیت ہے۔سبھی کورس سرکاری ملازمت یا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں پوری طرح مددگار ہیں۔ادارہ وقتاً فوقتاً سرکاری ملازمتوں کی اطلاع بھی فراہم کرتا ہے۔ کسی نہ کسی صورت یہ قوم کے افراد کے رابطے میں رہ کر فیض رسانی کرتا ہے۔ یہاں عمر کی بھی قید نہیں ہے۔ غرض کہ اس ادارہ نے اردو کو روزگار سے جوڑ کر قوم کے انگنت افراد کے لئے ذریعہ معاش فراہم کیا ہے۔ حکومت نے ۲۸ جون ۱۹۷۸ء سے معلم اردو کو با ضابطہ ٹیچرس ٹریننگ کے اہل مان لیا۔ معلم اردو کے سند یافتہ مدرس ہائر سکنڈری تک کے بچوں کو اردو تعلیم دے سکتے ہیں۔ ایسے اردو اساتذہ کے صاحب روزگار ہونے کا پورا دار و مدار جامعہ اردو ،علی گڑھ پر ہے۔ یہاں سے حاصل کی گئی تعلیمی سندملک کے تمام سرکاری تعلیمی اداروں اور سرکاری محکموں کے ذریعہ دوسرے بورڈ کی سندوں کی طرح ہی قبول کی جاتی ہے۔اس کی ویب سائٹ اور دفتر سے تمام معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
جامعہ اردو ، علی گڑھ کا ماضی شاندار رہا ہے لیکن حکومت کی نظر التفات اس پر نہیں پڑی ۔ محبان اردو کو ہی اس جانب توجہ دینی ہوگی۔ اس ادارے کا تشخص برقرار رکھنا ضروری ہے۔ قوم کے دانشوران نے اردو زبان کے فروغ کی خاطر اسے شروع کیا تھا۔آج اس کی جڑیں بہت گہرائی تک پہنچ چکی ہیں تو شاخیںبھی بارور ہیں ۔بس اس کی مناسب آبیاری کی ضرورت ہے تاکہ قوم و ملت کے افراد اس تناور درخت کا بھر پور فائدہ اٹھا سکیں۔ یہی سر سید کے تعلیمی مشن کو سچا خراج عقیدت ہوگا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...