سر سید اور ان جیسے قماش کے لوگوں کی وجہ سے ہندوستان 1857 میں گوروں کی غلامی سے آزاد نا ہوسکا۔ سر سید احمد خان کو مطالعہ پاکستان میں ایک مقدس انسان کے پیش کیا جاتا ہے، در حقیقت سر سید ایک انتہائی خود غرض اور بے اصول شخصیت کے مالک تھے۔
ان کا مقصد فقط انگریزوں کی چاپلوسی سے فوائد سمیٹنا تھا۔
سر سید احمد خان ایک خالص سنوب (Snob) تھے۔ آپ سب ہی جانتے ہیں کہ سنوب کے معنی اس فرد کے ہوتے ہیں جو انتہائی بے شرمی، ڈھٹائی اور بے حیائی سے ان افراد یا طبقوں کی تقلید، خوشامد اور چاپلوسی کرتا ہے جو سماجی طور پر اعلیٰ سمجھے جاتے ہیں۔ سر سید ذات پات کے معاملے میں انتہائی کینہ پرور، متعصب واقع ہوئے تھے جولاہوں، حجاموں، نائیوں کو تو انسان ہی نہیں سمجھتے تھے بلکہ انہیں بدذات اور کنجڑے کہہ کر پکارتے تھے۔
سیدوں خانوں اور ہاشمیوں کو انتہائی اعلی مانتے تھے”
مثال کے طور پر خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اے بھائیو!میں نے گورنمنٹ کو ایسے سخت لفظوں میں الزام دیا ہے؛ لیکن وہ وقت آتا جاتا ہے کہ ہمارے بھائی پٹھان، سادات، ہاشمی اور قریشی جن کے خون میں ابراہیم کے خون کی بو آتی ہے،وہ ایک دفعہ زرق برق کی وردیاں پہنے ہوئے کرنیل اور میجر بنے ہوئے فوج میں ہوں گے(سر سید احمد:خطبات) سر سید نے انگریزوں کی بوٹ پالش اور ان کو خوش کرنے کے لئے 1857 کی جنگ آزادی کو کبھی جنگ آزادی نہیں کہا بلکہ ہمیشہ زبانی یا تحریری طور پر بغاوت ہند یا اس سے ملتے جلتے الفاظ استعمال کئے، جنگ آزادی کے حریت پسندوں کو غلیظ گالیوں سے نوازا۔
سر سید جنگ آزادی کے قائدین کوجن ناموں سے پکارتے تھے”
نواب محمود خان کو کمبخت نامحمود خاں، بدذات اور ظالم۔
احمد اللہ خان کو بدذات، بد نیت، فساد کا پتلہ۔
ماڑے خان کو عرف ماڑے بدمعاش، قدیمی بدمعاش، پکا بدمعاش، مفسد، بےرحم اور حرامزادہ۔
عنایت رسول کو باغی اور مشہور حرامزادہ۔
خان بہادر خان کو بدذات، بے ایمان اور نمک حرام۔
رام پور کے بہادر خان کو بدمعاشوں کا سرگروہ، بدمعاشوں کا سردار۔
مولوی وہاج الدین کو جاہل، منو نامی بدمعاش۔
جنرل بخت خان کو باغیوں، مفسدوں کا سرغنہ۔
سر سید انگریزوں کی خوشامد میں جنگ آزادی کو ان ناموں سے پکارتے اور لکھتے تھے۔ ہنگامہ غدر، ہنگامہ قتل و غارتگری، ہنگامہ مفسدی و بےایمانی و بےرحمی، سرکشی، ہنگامہ فساد، نمک حرامی اور ہندوستانیوں کی ناشکری کا وبال۔
سر سید حریت پسندوں کے اعمال کو جن ناموں سے پکارتے تھے: جابر، ظالم، سرکار کے نمک حرام، سرکار کے بد خواہ، ناشکرے، دغاباز، بد عہد، بےرحم، بے ایمان۔
سر سید حریت پسندوں کو جن ناموں سے پکارتے تھے: مفسد، حرامزادے، نمک حرام، غنیم، دشمن، پاجی، جاہل، بدذات، بدرویہ، تماش بین، بد اطوار، شراب خور وغیرہ۔
(بحوالہ جنگ آزادی کی اہم شخصیات صفحہ 64-65)
سر سید احمد خان لکھتے ہیں:
ہماری گورنمنٹ کی عملداری دفعةً ہندوستان میں نہیں آئی تھی بلکہ رفتہ رفتہ ہوئی تھی۔جس کی ابتداء 1757ء کے وقت سراج الدولہ کے پلاسی شکست کھانے سے شمار ہوتی ہے۔اس زمانہ سے چند روز پیشتر تک تمام رعایا اور رئیسوں کے دل ہماری گورنمنٹ کی طرف کھنچتے تھے ہماری گورنمنٹ, اس کےحکامِ متعہدکےاخلاق اور اوصاف اور رحم اور استحکامِ عہود اور رعایاپروری اورامن وآسائش سن سن کر جو عملداریاں ہندو اورمسلمانوں کی ہماری گورنمنٹ کےہمسائے میں تھیں وہ خواہش رکھتی تھی اس بات کی کہ ہماری گورنم سونٹ کے سایہ میں ہوں۔
(مقالاتِ سرسیدحصہ نہم صفحہ54)
سر سید احمد خان کے خاندان کا قدیمی تعلق مغل دربار سےتھا لہذا انہیں جدی پشتی درباری کہنا غلط نا ہوگا٫ سر سید کو عارف جنگ اور جواد الدولہ کے شاہی خطابات سےبھی نوازا گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازم ہوئے چھوٹے موٹے مقدمات کے لئے جج بھی بنائے گئے۔ 1857 کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے نمک خوار اور وفادار رہے نیز بہت سے انگریزوں کی جان بچانے اہم کردار بھی ادا کیا، سر کا خطاب بھی عطا ہوا۔
سر سید جیسے چاپلوسوں اور انگریزوں کے وفاداروں کے منہ پر چڑھے نقاب الٹنا بہت ضروری ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...