گنگا رام کی مثال اس ابر کرم کی سی تھی جو برستا ہے تو بلاامتیاز برستا ہے۔وہ جدید لاہور کے بانی تھے۔ ان کی لاہور سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ان کی راکھ خصوصی طور پر لاہور لا کر راوی میں بہائی گئی۔ سر گنگا رام اپریل اٹھارہ سو اکاون میں منگتانوالہ میں پیدا ہوئے جو شیخوپورہ میں واقع ہے۔ یہ مغلیہ سلطنت کے اختتام کا دور تھا، انگریز قابض ہو چکے تھے۔ ان کے والد دولت رام پولیس میں انسپکٹر تھے چونکہ اصولوں کے پکے تھے اس لیے جلد ہی ملازمت چھوڑ کر امرتسر منتقل ہونا پڑا۔ وہیں پر گنگا رام پلتے بڑھتے رہے۔ میٹرک کے بعد لاہور کا رخ کیا اور گورنمنٹ کالج میں داخلہ کیا۔ شروع سے ہی انجینئرنگ کی طرف میلان تھا اور اگلے چند سال میں انجینئر بن گئے۔
کچھ عرصہ بعد ان کو اسسٹنٹ انجنیئر کی حیثیت سے گورداسپور میں تعینات کر دیا گیا۔ ڈی جی خان، پشاور، گوجرانوالہ میں نمایاں خدمات انجام دینے کے بعد ان کو لاہور میں ایگزیکٹو انجینئر تعینات کر دیا گیا۔ انہوں نے لاہور میں کیتھریڈل چرچ اور ہائیکورٹ کی عمارتوں کے نقشے بنائے۔ بعد ازاں ایچی سن کالج کی تعمیر کی ذمہ داری سونپی گئی اور اس کی تکمیل تک انگریز سرکار ان سے اس قدر متاثر ہو چکی تھی کہ چیف انجینئر بنا دیے گئے۔ وہ اس عہدے پر بارہ سال تک رہے اس دوران انہوں نے شہر کو بدل کر رکھ دیا۔ عجائب گھر، میو سکول آف آرٹس (این سی اے)، جی پی او، میو ہسپتال، گورنمنٹ کالج کے کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ جیسی عمارتوں کے ڈیزائن بنائے۔
لیڈی ویلنگٹن ہائی سکول، سرگنگا رام ہائی سکول (لاہور کالج فار ویمن)، ہیلی کالج آف کامرس (کالج آف بینکنگ اینڈ فنانس) جیسی یادگار عمارتیں بھی انہی کی تخلیق کردہ ہیں۔ ان کا فن لاہور سے باہر نکل کر دوسرے شہروں تک بھی پھیلا۔ فیصل آباد، سرگودھا، شیخوپورہ میں بھی کام کیا۔ وہ ایک کہنہ مشق انجینئر اور انتھک انسان ہونے کے ساتھ ساتھ زرعی سائنسدان اور سماجی کارکن بھی تھے۔ انیس سو پچیس میں ان کو امپریل بنک آف انڈیا کا صدر بنایا گیا۔ اس دوران انہوں نے گنگا رام ٹرسٹ کی بنیاد رکھی۔ جس کے پلیٹ فارم سے سر گنگا رام ہسپتال، ڈی اے وی کالج (موجودہ اسلامیہ کالج سول لائنز)، سر گنگا رام گرلز سکول (موجودہ لاہور کالج فار ویمن)، ادارہ بحالی معذوراں اور دیگر بے شمار فلاحی ادارے انہوں نے اپنے ذاتی خرچ سے قائم کیے۔ سر گنگا رام ہسپتال دہلی، گنگا بھون (انڈین انسٹیٹیوٹ آف آف ٹیکنالوجی) اور سر گنگا رام ہیریٹیج فائونڈیشن لاہور بھی ان کی یادگاریں ہیں۔
سلطنت مغلیہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ یہ انیسویں صدی کی چوتھی دہائی کا عمل تھا۔ایک نوجوان جوڑا جلا وطنی اوڑھے پنجاب کی جانب محو سفر تھا۔چند برتن اور کپڑوں کی ایک گٹھڑی ان کا زادِ مہاجرت تھا،گرد سے اَٹے کچے راستوں کے یہ مسافر عام درویش بھی نہیں تھے۔مرد متحد ہندوستان کے صوبے یو پی کے ضلع مظفر نگر کے ایک زمیندار خاندان کا نور چشم اور اس کی نوجوان بیوی ایک آسودہ حال تاجر کی بیٹی تھی۔جس کا بچپن باپ کی محبت اور خوشحالی کے سائے میں گزرا تھا۔