سر گنگا رام۔۔ (لاہور کا محسن)
• جس نے ہیرو کی طرح کمایا اور درویش کی طرح خرچ کیا !
۔۔۔
1851 میں پیدا ہونے والے گنگا رام، مانگٹا نوالہ کے انسپکٹر دولت رام کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔
زندگی کے ابتدائی سال امرتسر میں گزارنے کے بعد یہ صاحب کمال گورنمنٹ کالج سے ہوتے ہوئے روڑکی کے انجینئرنگ کالج جا پہنچے۔ تعلیم مکمل ہوئی تو لاہور میں اسسٹنٹ انجینئر تعینات ہو گئے۔
مسافر نے پوچھا کہ رزق کی کیا شکل ہے، بابا بولے، مورکھ لوگ دانے پانی کو رزق سمجھتے ہیں، رب کی ہر عطا بھلے وہ راستے کا ساتھی ہی کیوں نہ ہو رزق کی ایک شکل ہے۔
اب گنگا رام کے ہاں اسے کیا سمجھا جائے مگر لاہور میں انہیں کنہیا لال ہندی اور بھائی رام سنگھ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جو دل کی دولت اور دنیا کے علم دونوں سے مالامال تھے۔ مال روڈ کے اردگرد، راج کی تمام عمارتیں اس تثلیث کا ہی معجزہ ہیں۔
ان دنوں، انگریزوں کے ہاں ہندوستان سے جوہر قابل کی تلاش جاری تھی، سو گنگا رام کا انتخاب ہوا اور تعمیرات کی اعلی تعلیم کے لئے انگلستان جانا ہوا۔ واپسی پہ ترقی بھی ملی اور شہرت بھی۔ بارہ سال تک لاہور کے اس میر تعمیرات نے بہت سے کام کروائے۔
نیشنل کالج آف آرٹس، ایچی سن کالج، دیال سنگھ مینشن، ہیلی کالج، لاہور ہایئکورٹ، عجائب گھر، لیڈی میکلیگن ہائی سکول، راوی روڈ کا ودیا آشرم، لیڈی مے نارڈ سکول آف انڈسٹریل ٹریننگ اسی دور کی عمارات ہیں۔
مال روڈ کے کنارے درختوں کے اہتمام سے شہر کی نالیاں پکی کروانے تک گنگا رام نے اس شہر کا ہر کام عبادت سمجھ کر کیا۔ شہر کا پہلا جدید نکاسی کا نظام اور ماڈل ٹاؤن کی نئی آبادی بھی اسی زہن رسا کا کارنامہ تھا۔ یون کہہ لیں کہ دو منزلہ ہونے سے پہلے شہر کی جتنی خوبصورتی تھی وہ گنگا رام کے فن تعمیر کے سبب تھی۔
انگریز سرکار سے ریٹائر ہوئے تو امپیرئل بنک کی گورنری مل گئی، مگر یہاں دل نہیں لگا اور تھوڑی دیر بعد مہاراجہ کے اصرار پہ پٹیالہ ریاست سے منسلک ہو گئے اور وہاں اجلاس خاص اور موتی باغ محل کی تعمیر کروائی۔
برسوں شہر میں رہنے کے با وجود گنگا رام کی دہقان صفتی نہ گئی تھی۔ لاہور کی کشادگی اپنی جگہ، مگر وہ کھلی فضاؤں میں سانس لینا چاہتے تھے سو فراغت ملتے ہی بار چلے آئے۔ یوں تو قانون گو کے لٹھے پہ گنگا پور کا اصل نام چک 591 گوگیرہ برانچ درج ہے مگر جب سے سر گنگا رام نے انگریز سرکار سے یہ زمین خریدی اور آباد کی، تب سے اسے گنگا پور ہی کہا جاتا ہے۔
بتانے والے بتاتے ہیں کہ ہزاروں ایکڑ پہ پھیلی یہ جاگیر، پانی کی سطح سے اوپر ہونے کے سبب بنجر اور بے آباد تھی۔ گوگیرہ برانچ کی نہر بہتی تو تھی مگر پانی کو بلندی کی طرف کون لاتا۔ آخر کار سر گنگا رام نے ایک بہت بڑی موٹر منگوائی اور اس کے زریعے پانی کو گاؤں تک لانے کا فیصلہ کیا۔
لاہور سے لائی گئی یہ موٹر، منڈی بچیانہ تک تو آسکتی تھی مگر اس سے آگے آنا اس کے لئے ممکن نہ تھا۔ تین کلومیٹر کے اس حصے کو پاٹنے کے لئے ایک پٹڑی بچھائی گئی۔ 1898 میں پٹڑی مکمل ہوئی تو اس پہ چلنے والی گاڑی ریل سے مختلف تھی۔ عام ٹرین کی طرح اس گاڑی کو کوئلہ پھانکتا انجن نہیں بلکہ سانس لیتے گھوڑے کھینچتے تھے۔
گھوڑا ٹرین پہ موٹر گاؤں کیا آئی، کایا کلپ ہو گئی۔ ساون سے باہر پہلی بار زمین کو پانی نصیب ہوا تو مہینوں کے اندر کھیتوں میں سنہری خوشے جھلکنے لگے۔
گنگا رام کی کوششوں سے نوے ہزار ایکڑ زمین سیراب ہوئی جو اس وقت کی سب سے بڑی ذاتی زرعی اراضی تھی۔
اینٹ پتھر سے نام پیدا کرنے والے اس دھنوان کے سینے میں دل بھی ہیرے کا تھا۔ کھیت کھلیانوں نے سونا اگلا تو موہ مایا کے جال میں پھنسنے کی بجائے اس دیاوان نے خلق خدا کا ہاتھ پکڑ لیا۔
132,000 روپے کی لاگت سے بننے والا گنگا رام اسپتال آج بھی بہت سے بیماروں کی آخری امید ہے۔
جسم کے علاج کا سامان ہوا تو معاشرے کی سوچ کے ناسور سامنے آ گئے، لاہور کی بیواؤں کے لئے پہلا آشرم بھی اسی درویش نے بنوایا تھا اور یہاں بھی مذہب کی کوئی قید نہ تھی۔
1927 میں گنگا رام نے لندن میں انتقال کیا اور وہیں آپ کی آخری رسومات ادا کی گئی۔ راکھ کے پھول لاہور آئے تو سارا شہر سوگ میں ڈوب گیا۔ اب راوی کنارے، بارہ دری کی طرز کی ایک مڑھی ہے جس کے اوپر ایک گنبد ہے۔ تقسیم سے پہلے تک بیساکھی کے دنوں میں اس مڑھی پہ میلہ لگتا تھا۔ پھر لوگ چلے گئے۔
اب میلوں کا سماں تو ہے مگر میلے نہیں۔
۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔