میاں سر فضل حسین کا شمار ان پنجابی رہنمائوں میں ہوتا ہے جنہوں نے 20 ویں صدی کی پہلی چار دہائیوں میں پنجاب کی سیاست میں اہم کردار ہی نہ ادا کیا بلکہ آئندہ عشروں میںبھی انہی کے لگائے پودوں نے پنجابی سیاست میں نام کمایا۔ یہ وہی وقت تھا جب پنجاب میں میاں صاحب اور بنگال میں پہلے سی آر داس اور بعدازاں اے کے فضل حق کا طوطی بولتا تھا کہ جسکے آگے آل انڈیا کانگرس بے بس رہی۔
بٹالہ کے میاں حسین بخش کے گھر پیدا ہونے والے فضل حسین 1901 میں لندن سے بیرسٹر بن کر آ چکے تھے۔ چار سال سیالکوٹ گذار کر 1905 میں وہ’’ لاہوربار‘‘ سے وابستہ ہو گئے تھے۔ یہاں انہوں نے ’’بھائی پرمانند‘‘ جیسے لوگوں کے مقدمات بھی لڑے جن پر ’’سیاسی دہشت گردی‘‘ کے الزامات تھے۔ وہ تعلیم کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے تھے کہ اس وجہ سے انجمن حمایت اسلام کی مدد میں پیش پیش رہے۔
1916 میں مجلس قانون ساز کا الیکشن پنجاب یونیورسٹی کی سیٹ سے لڑا تو یونیورسٹی کی طرف سے تین لبرل ہندو اراکین کے علاوہ باقی 27 اراکین میں سے کسی ایک نے بھی ان کی حمایت نہ کی۔ حمایت کرنے والوں میں بارایٹ لاء ہرکشن لال ' ڈی اے وی کالج کے دیوی دیال اور ڈاکٹر ہری لال شامل تھے۔ فضل حسین اسمبلی کے ممبر بن گئے۔ اس دوران سیاسی رواج کے مطابق وہ کانگرس اور مسلم لیگ دونوں کے ممبر تھے۔
1917 میں انہوں نے محسوس کر لیا کہ انگریزوں میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو دیسی لوگوں کو مراعات دینے کامخالف ہے۔ پنجاب کانگرس کے پانچویں اجلاس میں انہوں نے ایک پرجوش تقریر کی تو پنجاب کے گورنر مشہور زمانہ اوڈوائر نے اسے ’’بغاوت‘‘ قرار دے ڈالا۔ میاں صاحب کی تقریر میں انگریز کی افسرشاہی کو نشانہ خاص بنایا گیا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب پنجاب میں انگریز سرکار نے نئے جج نامزد کرنے تھے۔ اس تقریر کے جواب میں منصفی میں مشہور انگریز سرکار نے میاں صاحب کی جگہ سر عبدالروف کو جج بنا دیا۔
1919 میں انہوں نے چیمس فورڈ ریفارمز کی روشنی میں پنجاب میں لڑکوں کے لازمی تعلیم کا بل منظور کروانے کے لیے انتھک کام کیا۔ اس قانون کی انفرادیت یہ تھی کہ اس کے تحت میونسپل اور ڈسٹرکٹ بورڈ ازخود سکولوں کا انتظام سنبھال سکتے تھے۔ بعدازاں جب وہ وزیرتعلیم بنے تو انہوں نے اس قانون کے تحت پنجاب بھر کے دیہی علاقوں میں لڑکوں کے سکول کھولے۔
1927 کی تعلیمی رپورٹ کے مطابق پورے انڈیا میں گذشتہ 5 سال میں تقربیاً 15 ہزار پنڈوں میں نئے سکول کھولے گئے تھے۔ جن میں 90 فیصدی صرف پنجاب ہی میں تھے۔ رولٹ ایکٹ کے نفاذ اور جلیانوالہ باغ کے سانحہ کے بعد میاں صاحب نے امرتسر میں کل ہند کانفرنس کے لیے قائداعظم ' تیغ بہادر سپرو اور مدن موہن مالویہ کو بلایا۔ مگر انگریز نے ان کی آمد پر پابندی لگا دی۔
اپریل 1920 میں انہوں نے اس وقت آل انڈیا کانگرس کو خیرباد کہا جب مہاتما گاندھی ’’ستیہ گرہ‘‘ کے نام سے عدم تعاون کی تحریک منظور کروانا چاہتے تھے۔ اس وقت ان کے ہمراہ کانگرس چھوڑنے والوں میں کے ایل گابا اور ڈاکٹر گوکل چند بھی تھے۔
1920 کے آخر میں ناگپور سیشن کے بعد قائداعظم ' کے ایل منشی سمیت 20 اورلبرل رہنمائوں نے کانگرس کو خیرباد کہہ دیا۔ اگلے سال موتی لعل نہرو ' سی آر داس وغیرہ نے بھی کانگرس کو چھوڑا اور ’’سوراج پارٹی‘‘ بنالی۔ وقت نے ثابت کیا کہ ستیہ گرہ ' عدم تعاون اور گھیرائو جلائو کو سیاست میں داخل کرنا ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ جسنے ہماری سیاست پر مہلک اثرات ڈالے۔ اینی بیسنٹ ' چھوٹورام ' فضل حسین ' علامہ اقبال ' محمد علی جناح سمیت بہت سے ایسے رہنما تھے جنہوں نے بروقت اسے ’’سیاسی خودکشی‘‘ قرا ردیا تھا۔
1920 کے بعد سے اپنی وفات 1936 بمقام لاہور ' تک وہ 16 سال پنجاب کی سیاست پر چھائے رہے۔ اس دوران سیاست ہی نہیں بلکہ تعلیم ' معیشت اور زراعت کے حوالے سے انہوں نے پنجاب کو تگڑا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے چھوٹورام ' سکندر حیات وغیرہ کو ساتھ ملا کر یونینسٹ پارٹی آف پنجاب بنائی جس میں مسلم ' سکھ اور ہندو پنجابی شامل تھے۔ اس پارٹی کی قیادت پنجابی مسلمانوں کے پاس تھی کہ میاں صاحب پنجابی مسلمانوں کو آبادی کے لحاظ سے ان کا حصہ دلانے کے حق میں تھے۔
آل انڈیا کانگرس نے یونینسٹ پارٹی کے خلاف بہت زور لگایا۔ کبھی ہندو بنیاد پرستوں کو ان کے خلاف استعمال کرتے تو کبھی مسلم انتہا پسندوں کو۔ یہی نہیں ترقی پسندوں کو یونینسٹ پارٹی سے بدظن کرنے کے لیے یہ کہا گیا کہ یونینسٹ پارٹی تو جاگیرداروں کی پارٹی ہے۔ حالانکہ چھوٹورام اور میاں فضل حسین دونوں کا تعلق جاگیرداروں سے نہ تھا مگر پنجابیوں نے یونینسٹ پارٹی ہی کا ساتھ دیا۔
سر فضل حسین خود تو 1937 کے انتخابات کا نتیجہ نہ دیکھ سکے مگر 1937 کے انتخابات میں آل انڈیا کانگرس پنجاب میں 175 کے ایوان میں بنیاد پرست ہندوئوں کی حمایت کے باوجود محض 18 نشستیں جیت سکی جبکہ یونینسٹوں نے 98 نشستیں جیت کر یہ معرکہ سر کیا۔
افسوس ہمارے نصاب میں تحریک خلافت و ہجرت کو تو بوجوہ ممتاز حیثیت دی گئی ہے۔ بلکہ اشرافیہ کے سکولوں میں تو مہاتما گاندھی کی ستیہ گرہ کی بھی تعریفیں کی جاتی ہیں۔ مگر یونینسٹ پارٹی کو دیس نکالا دیا ہوا ہے۔اس طہتیر کے خلاف ترقی پسند اور لبرل بھی خاموش رہتے ہیں۔ یہی ہے وہ کج روی جس کی وجہ سے یہ تحریر لکھنی پڑی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...