پھر مہمان! پھر مہمان! پھر مہمان! تنہائی کب ملے گی؟" اس نے چچا، چچی کی آمد کی اطلاع ملنے پر دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کے بال کھینچتے ہوئے سوچا۔
"آخر پورے خاندان کو میرے گھر ہی کیوں مرنا ہوتا ہے۔ سینکڑوں ریستوران ہیں، وہیں کچھ کیوں نہیں ٹھونس لیتے۔ مہمان خدا کی رحمت، اونہہ ۔۔۔ کسی اور زمانے میں ہوتے ہوں گے، اب تو زحمت ہی زحمت ہیں۔"
وہ اٹھا اور کمرے سے باہر آ کر پوچھا کہ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے۔ بیوی نے جواب میں ایک لسٹ اسے پکڑائی اور وہ اس کے بنے ہوئے منہ کو دیکھے بغیر باہر نکل گیا۔ آج آفس سے چھٹی تھی اور وہ یہ چھٹی گھر میں آرام سے گزارنا چاہتا تھا، سکون اور تنہائی کے ساتھ ۔ بچے اور گھر والے کہیں گھومنے پھرنے جا رہے تھے اور وہ خوش تھا کہ آج اکیلے میں خود اپنے ساتھ وقت گزارے گا۔ مگر چچا، چچی کی بے وقت آمد نے جہاں باقی لوگوں کا پروگرام کینسل کیا وہاں اس کی بھی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
بہت عرصے اس کی خواہش تھی کہ چوبیس گھنٹوں میں دن کا ایک گھنٹہ ہی سہی، وہ اپنے ساتھ کچھ وقت گزارے، خود سے باتیں کرے، اپنا احتساب کرے لیکن تنہائی تو جیسے روٹھ سی گئی تھی۔ جتنا اس کا کام خاموشی کا متقاضی تھا اتنا ہی شور اس کے ارد گرد بڑھتا جا رہا تھا۔ آفس میں اس کے کمرے میں بھی اب دو افراد بیٹھنے لگے تھے، جنہیں کام سے زیادہ باتوں کا شوق تھا۔ صبح آ کر جو شروع ہوتے تو چھٹی تک ان کی باتیں ہی ختم نہ ہوتیں۔ بعض دفعہ تو وہ چڑ کر کہہ دیتا کہ لگتا ہے گھر میں آپ کو بیگمات بولنے نہیں دیتیں جو سارا کوٹا آفس میں پورا کرتے ہیں۔
اپنے بچے، بھائی کے بچے اور بھرا پُرا گھر۔ بچے کھیل رہے ہوں یا لڑ رہے ہوں ان کا شور تو نا گزیر ہے پھر جوائنٹ فیملی سسٹم میں آپ کہاں جا کر اکیلے بیٹھیں ؟ کمرے میں بیگم۔ جس کو ہر وقت یہ شکوہ رہتا کہ آپ مجھ سے بات ہی نہیں کرتے، مجھے ٹائم ہی نہیں دیتے۔ حالانکہ کمرے میں داخل ہوتے ساتھ ہی ان کا ریڈیو جو چلتا تو اپنے میکے، سسرال، خاندان اور محلے بھر کی باتیں اس کے گوش گزار کرنے میں گھنٹوں سر کھاتی رہتیں۔ بعض اوقات تو وہ چڑ کر کہہ دیتا کہ بھئی مجھے تیسرے محلے کی باتیں کیوں بتا رہی ہو۔ اس پر بیگم کا ایک بالکل الگ ڈرامہ شروع ہوجاتا:
"آپ کو تو اب میری آواز زہر لگنے لگی ہے۔ شادی سے پہلے تو رات رات بھر مجھ سے فون پر بات کرتے تھے۔ گھر کے باہر لڑکیوں سے باتیں کر کے آجاتے ہوں گے تو بیوی سے بات کرنے کا دل کیوں کرے گا"۔ وغیرہ وغیرہ
اسے بچپن کے دن یاد آتے جب ٹی وی پر آخری پروگرام خبرنامہ ہوتا تھا اور ساڑھے نو بجے سب اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے۔ کیبل اور موبائیل نے تو آ کر وہ سکون بھی چھین لیا ہے۔ اگر کبھی ٹی وی جلد بند کر کے لیٹ بھی جاتا تو موبائل بجنا شروع ہو جاتا، کسی نہ کسی دوست کی کال ہوتی کہ ٹی وی لگاؤ، بریکنگ نیوز چل رہی ہے۔ وہ سخت عاجز رہنے لگا سکون کے لیے، تنہائی کے لیے۔
چھ دن ہو گئے تھے اس کو کسی سے بات کیے ہوئے۔
زندگی کی آخری سیڑھی پر بیٹھا تھا۔ بیوی کی موت کے بعد بچوں نے چاہا کہ وہ ان کے ساتھ بیرون ملک چلا چلے لیکن اس کا دل نہیں مانا۔ اب بھلا آخری عمر میں اپنی مٹی سے کیسے دغا کرتا۔ بھائیں بھائیں کرتے گھر میں اب وہ اکیلا تھا۔ صفائی کرنے والی آتی اور اپنا کام نمٹا کر چلی جاتی۔ اس سے بات بھی کیا کرتا کہ وہ ٹھیٹ سرائیکن، ڈھنگ سے شہری بولی بھی نہ بول پاتی۔ اڑوس پڑوس والوں کو کبھی اتنی گھاس ہی نہیں ڈالی تھی کہ وہ اب اسے منہ لگاتے۔
کچھ پھیری والے تھے جو گھر کے سامنے سے سبزی وغیرہ بیچتے گزرتے تھے۔ ان میں سے جس کسی سے وہ اپنی پیٹ پوجا کے لئے سودا خریدتا تو ساتھ میں ادھر ادھر کی باتیں بھی کر لیتا۔ جلد ہی وہ بھی جان گئے کہ بڈھا سودا تو چند روپلی کا خریدتا ہے پر باتوں میں لگا کر گاہکی کا وقت نکال دیتا ہے۔ ان میں سے کئی ایک نے تو راستہ بدل لیا اور کچھ پانچ مکان پیچھے ہی اپنی آواز گلے میں گھونٹ لیتے تھے، پھر ان کی آواز تب نکلتی جب وہ پانچ مکان آگے جا چکے ہوتے۔ بس ایک پھیری والا تھا جو تواتر سے وہیں سے گزرتا۔ مگر اتوار کو وہ بھی چھٹی کرتا۔ ایسے میں گھر کے اندر تو سناٹا تھا ہی باہر بھی اس کے لیے ہو کا عالم ہوتا۔
تنہائی کی تلاش میں گھر اتنی دور بنا لیا تھا کہ مہینوں کوئی رشتے دار چکر نہیں لگاتا تھا۔ ہفتوں بچوں کی آواز سننے کو ترس جاتا۔ بعضدفعہ موبائیل کو کان کے قریب لا کر ایسے ہلاتا کہ گویا اس میں سے آواز کی بوندیں ٹپک پڑیں گی لیکن بے سود۔ اکیلا پن کسی سیونک، کسی دیمک کی طرح اسے اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہا تھی۔
محرم چڑھا۔ نویں، دسویں کی تاریخیں جمعہ اور ہفتے کو پڑیں۔ وہ پھیری والا جس سے دس، پندرہ منٹ بات کر لیتا تھا، بعد میں بھی تین دن نہیں آیا۔ اس روز اسے توقع تھی کہ وہ ضرور آئے گا، کچھ تو خود کلامی سے جان چھوٹے گی۔
صبح سے طبیعت میں بے دلی اور چڑچڑا پن تھا۔ پورا دن پھیری والے کا انتظار کرتا رہا اور اب شام کو اسے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے سینے پر منوں بھاری سل رکھی ہو، ایکانت کی سل۔ تنہائی جو کبھی اس کا رومان تھی اب عذاب بنی ہوئی تھی۔ زبان بولنے کو ترستی تھی، خواہش تھی کہ کوئی ہو جس سے وہ ہر روز بات کرے، اپنے دل کی بات، اپنے بچپن کی، اپنی پہلی محبت کی، کامیابیوں، ناکامیوں کی۔ مگر اکیلے پن کی تلاش میں وہ اتنی دور نکل آیا کہ مڑ کر دیکھتا تو زندگی کا لامتناہی سناٹا سنائی دیتا۔ ویسا ہی جیسا شاید خلا میں ہو یا جیسا صور اسرافیل پھونکے جانے کے بعد دنیا پر چھا جائے گا ۔ اب اسے سمجھ میں آیا کہ خدا نے دنیا کیوں بنائی۔ اپنے اکیلے پن سے اکتا کر۔ ایسا ہی سناٹا خدا کے آس پاس بھی تو ہو گا۔ اس کے ارد گرد سے کہیں گہرا اور دبیز !!!
وہ گھبرا کر لان میںنکل آیا۔ سب سے زیادہ فکر اسے اس بات کی تھی کہ اگر کل بھی پھیری والا نہ آیا تو؟ وہ کافی دیر ٹہلتا رہا، سوچتا رہا اور بالآخر ایک فیصلے پر پہنچ کر اپنے بیڈ روم میںآ گیا۔ دراز کھول کر نیند کی گولیاں نکالیں اور اوپر تلے ساری کھا گیا۔
مرنے کے بعد اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار نہیں تھے بلکہ ایک آسودہ سی مسکراہٹ تھی۔ گولیاں کھاتے وقت سوچا تھا کہ سوال جواب کے بہانے ہی سہی، منکر نکیر سے باتیں تو ہوں گی۔
آج ان کا قل تھا۔ لوگ خودکشی کو ہارٹ اٹیک سمجھ بیٹھے تھے۔
ایک خلقت تھی اور لوگ ان کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ کی بابت بات کر رہے تھے۔ ایک صاحب نے عالمانہ شان میں کہا:
"کیوں نہ ہوتی جناب! تنہا تھے، سکون میں تھے۔ کوئی جھنجھٹ، پریشانی نہیں، کوئی شور و غل نہیں۔ سکون سے زندگی گزاری اور سکون سے چلے گئے، اللہ ایسی پرسکون موت سب کو دے۔"
"آمین" سب کی متفقہ آواز تھی۔۔۔
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1721197074813659/