’’پاپا نے اجازت نہیں دی۔ کل تم ہسپتال نہیں جائو گی‘‘ یہ کہہ کر شوہر باہر نکل گیا۔
ڈاکٹر بننا اس کی زندگی کا سب سے بڑا خواب تھا۔ محلے کے غریب لوگوں کو عطائیوں‘ ٹھگوں‘ پیروں فقیروں کے پاس جاتا دیکھتی تو کُڑھتی۔ اس نے ان پڑھ عورتوں کو مزاروں کی مٹی پھانکتے دیکھا۔ میٹرک میں پہنچتے ہی فیصلہ کر لیا کہ ڈاکٹر بنے گی۔ ایف ایس سی میں سخت محنت کی۔ میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ پانچ سال خونِ دل کو جیسے آنکھوں کی بینائی میں منتقل کرتی رہی۔ میڈیکل کی پڑھائی میں وقت کا تصور ختم ہو جاتا ہے۔ بقول عدمؔ ع
جاگ اٹھے تو چل دیے‘ تھک گئے تو سو لیے
کھانا پینا‘ اٹھنا بیٹھنا سب پڑھائی کے اردگرد گھومتا ہے۔ پھر وہ دن بھی آیا کہ وہ ڈاکٹر بن گئی۔ ہسپتال میں ملازمت بھی شروع کردی۔ غریب مریضوں کا خاص خیال رکھتی۔ اس کا کمرہ سب کے لیے کھلا تھا۔ بیماروں سے بھرا رہتا۔ ان پڑھ مریضوں کو ایک ایک بات آرام سے سمجھاتی۔ اسے یوں لگ رہا تھا۔ جیسے زندگی کسی کام آ رہی ہے۔ جیسے وہ کچھ حاصل کر رہی ہے۔ پھر رشتے آنے شروع ہو گئے۔ ماں باپ نے دیکھ بھال کر‘ سوچ سمجھ کر‘ ایک تعلیم یافتہ خاندان کے سمجھدار پڑھے لکھے اعلیٰ عہدے پر فائز لڑکے سے شادی کی۔ اس نے ایک ماہ کی ہسپتال سے چھٹی لی تھی۔ چھٹی ختم ہوئی‘ دوسرے دن اس نے ڈیوٹی پر حاضر ہونا تھا۔ شام کو اس کے شوہر نے اطلاع دی کہ اس کے والدین ملازمت کی اجازت نہیں دے رہے۔ اس نے بات چیت کرنے کی کوشش کی مگر سسر کی دلیل یہ تھی کہ ان کے خاندان میں عورتوں کے ملازمت کرنے کی روایت نہیں اور وہ یہ روایت برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ساس کی ترجیح یہ تھی کہ وہ گھر کا کام کاج سنبھالے۔ شوہر ماں باپ کو ناراض نہیں کر سکتا تھا۔ آخری چارۂ کار کے طور پر اپنے باپ سے مدد مانگی لیکن باپ کا جواب فائنل اور ’’منطقی‘‘ تھا۔ ’’اب وہی تمہارا گھر ہے۔ شوہر جو چاہتا ہے وہی کرو‘‘۔
یہ حقیقی واقعہ صرف ایک گھر کی کہانی نہیں ہے۔ اس دوغلے اور منافقانہ معاشرے میں یہ بہت سے گھروں کا قصہ ہے۔ یقینا ایسی لڑکیاں بھی ہوں گی جو شادی کے بعد خود ہی ڈاکٹری کی ملازمت یا پریکٹس چھوڑ دیتی ہیں لیکن یہ تعداد اُن خواتین ڈاکٹروں کے مقابلے میں بہت کم ہے جنہیں اُن کے شوہر یا سسرال والے پریکٹس کی اجازت نہیں دیتے۔ معاشرہ دوغلا اس لیے ہے کہ لیڈی ڈاکٹر سے شادی کرنا بہت سے مردوں کا خواب ہے۔ اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے پورا گھرانہ رشتے کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ جب لیڈی ڈاکٹر گھر میں آ جاتی ہے تو شوہر خواب کے اثر سے نکل آتا ہے۔ اگر وہ خود چاہتا بھی ہے تو خاندان کا سماجی دبائو برداشت نہیں کر پاتا۔ سسر کی ترجیح یہ ہے کہ اُسے صبح صبح گرم پراٹھا اور آملیٹ ملے۔ ساس تسبیح پکڑ کر تخت پوش پر بیٹھ جاتی ہے کہ کام کاج کرنے والی بے دام ملازمہ مل گئی ہے۔ یہ کالم نگار نصف درجن سے زیادہ ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ صاحبان کو جانتا ہے جو لیڈی ڈاکٹر سے شادی کرنے کے لیے مرے جاتے تھے اور جنہوں نے ان لیڈی ڈاکٹروں کو شادی کے بعد ساری زندگی سٹیتھوسکوپ‘ تھرما میٹر اور سفید کوٹ سے مکمل پرہیز کرایا۔ یہ نہ سوچا کہ اس ان پڑھ‘ بیمار‘ بھوکی‘ ننگی قوم کے لیے ایک ایک ڈاکٹر‘ ایک ایک لیڈی ڈاکٹر کتنی قیمتی ہے۔ ظلم یہ ہے کہ پنجاب اور سندھ میں ستر فیصد تعداد میڈیکل کالجوں میں طالبات کی ہے۔ ان میں سے ایک کثیر تعداد
اُن خواتین کی ہے جنہیں شادی کے بعد بزور گھر بٹھا لیا جاتا ہے۔
اصل مسئلہ خواتین ڈاکٹروں کا نہیں‘ اس سلوک کا ہے جو معاشرے میں عورت سے شادی کے بعد روا رکھا جاتا ہے اٹھارہ جولائی کو جو ہماری تحریر والدین سے حسن سلوک کے بارے میں شائع ہوئی ہے اس کی تائید میں جہاں کئی قارئین نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے وہاں ردعمل میں بھی ای میلز کی کثیر تعداد موصول ہوئی ہے۔ جن بدقسمت اصحاب نے ماں باپ کی زندگی میں ان کی قدر نہ کی اور ان کی خدمت اور فرماں برداری سے محروم رہے‘ ان کا کہنا ہے کہ وہ شدتِ ندامت سے کفِ افسوس مل رہے ہیں اور ایک سلگتی ہوئی زندگی گزار رہے ہیں۔ دوسری طرف بہت سی خواتین کا نکتۂ نظر یہ ہے کہ والدین کو یہ بھی تو معلوم ہونا چاہیے کہ جس آدم زادی کو وہ بہو بنا کر گھر میں لائے ہیں‘ کچھ حقوق اس کے بھی ہیں۔ میاں اس کا ہاتھ بٹائے تو بیوی کا غلام ہونے کے طعنے ملتے ہیں۔ ملازمت کرے تو ساس اور نندیں طنز سے میم صاحب کہتی ہیں۔ ساتھ ہی اس سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ گھر کا بھی سارا کام کرے خواہ ملازمت سے شام کے وقت واپس آئے اور تھکی ہاری ہی کیوں نہ ہو۔ اس عجیب و غریب معاشرے میں ایسی مثالوں کی بھی کمی نہیں کہ لڑکا سی ایس پی لڑکی سے شادی کرتا ہے اور پھر اسے ملازمت سے استعفیٰ دینے کا حکم دیتا ہے!
اس امر کی وضاحت لازم ہے کہ ماں باپ کی فرماں برداری اور خدمت سے مراد اپنی رفیقۂ خیات کے حقوق کی پامالی نہیں۔ وہ انسان ہی کیا ہوا جو توازن نہ برقرار رکھ سکے اور عقل سے کام نہ لے۔ ماں باپ کی فرماں برداری کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی پر ظلم کیا جائے۔ ہاں یہ ہے کہ اُن سے اختلاف کرتے وقت ادب و ا حترام کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے‘ دلیل عجز سے پیش کی جائے اور نرم گفتاری کا دامن مضبوطی سے پکڑا جائے۔
تعلیم عام ہونے اور اسلام پسندی کے سارے دعووں کے باوجود عورت کے معاملے میں یہ معاشرہ افراط و تفریط کا شکار ہے۔ کوئی تو بیوی کو خوش کرنے کے لیے ماں باپ سے تعلق ختم کردیتا ہے اور کوئی ماں باپ کی تنگ نظری اور ’’روایت‘‘ پسندی کا پاس کرتے ہوئے بے قصور بیوی کی زندگی جہنم بنا دیتا ہے‘ بچے نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں‘ زدوکوب تک سے گریز نہیں کیا جاتا۔ معاشرے کا خوف رہتا ہے نہ خدا کا!
منافقت کا یہ عالم ہے کہ اپنی بیٹی کے لیے الگ معیار ہے اور دوسروں کی بیٹی کے لیے الگ۔ ایک عورت سے اس لیے شادی رچائی جاتی ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے‘ ملازمت کرتی ہے‘ خوش لباس ہے‘ فیشن ایبل ہے‘ خود گاڑی چلاتی ہے‘ آزادانہ گھومتی پھرتی ہے اور فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ شادی کے بعد یہی خصوصیات‘ جو شادی کا محرکات بنیں‘ نقائص میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اب اُس کی اعلیٰ تعلیم کھلنے لگتی ہے۔ دماغ پر احساسِ کمتری کا زہر چڑھنے لگتا ہے۔ اس کی خوش لباسی زہر لگنے لگتی ہے۔ گاڑی چلا کر کہیں جائے تو شک کا زہر پھیلنے لگتا ہے۔ فیصلے کرے تو خودسر قرار دیا جاتا ہے۔ یہ حالت تو تعلیم یافتہ طبقے میں ہے۔ رہا زیریں‘ ناخواندہ طبقہ تو وہاں عورت کو مارا پیٹا جاتا ہے۔ اس کے ماں باپ اور بھائیوں کو تھانوں کچہریوں میں گھسیٹا جاتا ہے۔ طلاقیں ہوتی ہیں۔ پھر کبھی عدالتوں کے اور کبھی مولوی صاحبان کے دروازے کھٹکھٹائے جاتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندانوں پر بھی گہری منافقت کی میلی مکروہ چادر تنی ہوئی ہے۔ حقوقِ نسواں پر لیکچر دینے والے روشن خیال حضرات بیٹیوں کی زبردستی شادی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ دوسروں کو قال اللہ اور قال الرسول سمجھانے والے حضرات بیٹیوں کو جائداد سے محروم کرتے وقت شریعت کے سارے سبق بھول جاتے ہیں۔ بہنوں کو ان کے جائز حقوق دینے ہوں تو مرگی کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ بیٹیوں کے بارے میں جو کچھ اسلام نے بتایا ہے‘ اس پر عمل کرنے کا وقت آئے تو رہ رہ کر قولنج کا درد اُٹھنے لگتا ہے! امہات المومنین کی موجودگی میں آقائے دو جہاںؐ اپنے کپڑے خود دھو لیتے تھے‘ جوتے خود مرمت کر لیتے تھے۔ گھر کے دوسرے کام بھی اپنے دستِ مبارک سے کرتے تھے۔ اگر ایسا کرنے سے آپؐ کی شانِ اقدس میں کمی آتی تھی نہ رسالت کا مقامِ بلند متاثر ہوتا تھا تو اور ایسا کون سا منصب دار یا عالی مرتبت ہے جس کی عزت و شان‘ نعوذ باللہ‘ آپؐ کے مرتبے سے بلند ہو؟
بہو سے بدسلوکی کرتے وقت اپنی بیٹی کا سوچنا چاہیے اور بیوی سے بزدلوں کی طرح دھونس دھاندلی کرنے والے کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی بہن نے بھی کسی کی بیوی بننا ہے ؎
ہم نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔