سندھڑی آم اور شہباز قلندر
یہ 1984 کا ذکر ہے میں ایف ایس سی کرکے چچا کے ساتھ کراچی گیا تھا۔ چچا نے کہا کہ سہیون شریف چلیں گے مگر بعد میں انھوں نے جس سے بھی بات کی اس نے کہا اندرون سندھ حالات بہت خراب ہیں سندھی پنجابی کو دیکھ کر مشتعل ہو جاتے ہیں اس لئے مت جانا، چچا واپس چلے گئے اور میں شاہ فیصل کالونی پھوپھی کے پاس رہ گیا، ایک دن میں نے پھوپھی کو بتلایا کہ میں ڈیفنس جا رہا ہوں ماموں کے پاس، پھوپھی نے کہا کہ ماموں کے گھر کا پتہ ہے میں نے کہا مجھے جوہریہ بازار میں ان کی دکان کا پتہ ہے وہاں سے چلا جاؤں گا، چنانچہ بڑی مشکل سے اجازت لی اور سیدھا سٹیشن چلا گیا جہاں سے تقریبا پانچ بجے شام ایک ٹرین سہیون شریف جاتی تھی میں نے اس کی ٹکٹ لی اور بیٹھ گیا۔
جب ٹرین چلی تو مجھے احساس ہوا کہ میں اجنبی لوگوں کے ساتھ ہوں چاروں طرف سندھی تھے اب مجھے یاد آیا کہ مجھے کیا بتلایا گیا تھا کہ سندھی کسی پنجابی کو دیکھ کر اشتعال میں آجاتے ہیں اور یہاں میں ایک آسان ہدف ہوں، میں ٹرین پر دو سیٹوں والی سیٹ پر بیٹھا تھا میرے دائیں طرف چھ سیٹوں والی دو سیٹیں تھیں جہاں ایک سندھی فیملی بیٹھی تھی۔ کوئی سات بجے انھوں نے کھانا کھولا تو مجھے آواز دی بیٹا آؤ اور ہمارے ساتھ کھانا کھالو، میں جھجھک رہا تھا کہ ان کے ساتھ خواتین اور لڑکیاں تھیں اتنے میں ایک شخص آیا اور مجھے اٹھا کر اپنے ساتھ لے گیا، اس فیملی نے بہت محبت سے مجھے اپنے ساتھ کھانا کھلایا تب مجھے احساس ہوا کہ سندھی لوگ تو بڑی محبت کرنے والے لوگ ہیں، رات تقریبا بارہ بجے کے بعد ٹرین سہون شریف پہنچی، اس درمیان مجھے ٹرین میں مہمان خصوصی کا درجہ حاصل ہو چکا تھا سندھی لوگ یہ جاننے کے بعد کہ میں پہلی بار سہون شریف جا رہا ہوں اور پنجاب سے آیا ہوں مجھے بہت محبت دے رہے تھے مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ مجھے ان لوگوں سے ڈرایا گیا تھا۔
جب میں سہون شریف کے سٹیشن پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ صبح فجر کی اذان کے وقت وہاں سے ٹانگے مزار کی طرف جاتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ لوگ سٹیشن پر بنچوں اور مختلف جگہوں پر سوئے ہوئے ہیں، مجھے بھی ایک بنچ خالی مل گیا اور میں وہاں سو گیا۔فجر کی اذان ہو رہی تھی جب ایک شخص نے مجھے جھنجھور کر اٹھایا اور پوچھا مزار کی طرف جانا ہے میں نے کہا ہاں، اس نے کہا آؤ ٹانگے جا رہے ہیں ۔میں اس کے ساتھ ایک تانگے پر بیٹھ گیا ۔سواریاں پہلے ہی پوری تھیں اور ٹانگہ مزار کی طرف چل پڑا، یہ وہ دور تھا جب مجھے صوفی فلسفے کے بارے کوئی خاص علم نہیں تھا۔ میں مزار پر پہنچا، وہاں اس شخص نے مجھے مزار کے بارے کافی معلومات دیں۔ سونے کا دروازہ دکھلایا اور ساتھ والے مزار بھی دکھلائے، میں نے پہلی بار کسی مزار پر دھمال ڈالی، یہ ایک زبردست تجربہ تھا ایک دم سکون سا آجاتا ہے۔
دوپہر کو میزبان نے کھانا کھلایا اور مجھے کہا کہ اب بس پر بیٹھ جاؤیہ تمہیں حیدر آباد اتار دے گی جہاں سے تم کسی بس یا ٹرین پر کراچی چلے جاؤ گے، میں نے پوچھا آپ کدھر سے آئے ہو، اس نے کہا کہ میں لاڑکانہ سے آیا ہوں سائیں بھٹو کے شہر سے، میرے لئے یہ ایک دھچکے والی بات تھی میں ایسے خاندان سے تعلق رکھتا تھا جو بھٹو کے خلاف تھا مجھے اندازہ نہیں تھا کہ لوگ بھٹو سے اتنی عقیدت رکھتے ہیں ہمارے علاقے میں تو بھٹو کا نام لینے پر پابندی تھی۔میں نے کہا کہ آپ نے مجھے اتنی عزت دی آخر کیوں؟ اس نے کہا کہ میں لاڑکانے سے تمہارے لئے آیا ہوں مجھے ڈیوٹی لگی تھی کہ تمہیں مزار پر لے کر جاؤں اور واپس بھیج کر واپس آؤں، میں نے حیرت سے اسے دیکھا مجھے کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ اس زمانے میں مجھے صوفی فلسفے کا کچھ علم نہیں تھا۔ یہ ڈیوٹی اور باطنی حکومت کی کچھ سمجھ نہیں تھی۔
اس نے مجھے بتلایا کہ پاکستان پر شہباز قلندر کی حکومت ہے اور وہ اپنے عقیدت مندوں کی ڈیوٹیاں لگاتے ہیں۔ میں نے پوچھا آپ بھٹو کے شہر سے ہیں؟ اس نے کہا ہاں بھٹو بھی شہباز قلندر کا فقیر تھا ۔شہباز قلندر نے اسے بادشاہ بنایا تھا مگر اس نے کچھ غلطی کی اور شہباز قندر ناراض ہوگئے چنانچہ اسے سزا مل گئی ۔اب شہباز قلندر نے سائیں بھٹو کو معاف کردیا ہے میرے لئے یہ ساری گفتگو بے معنی اور مہمل تھی۔ اس نے مجھے بتلایا کہ شہباز قلندر نے کہ دیا ہے کہ اب ضیا کی لاش کو بھی کوئی نہیں دیکھ پائے گا ۔اس نے بھٹو کی لاش اس کے گھر والوں کو دیکھنے نہیں دی تھی۔ اس جملے پر میں نے بے اعتباری سے اس کی طرف دیکھا، اندھی عقیدت اور بے معنی باتیں۔
میں نے بس کی طرف جاتے پوچھا ضیا کو سزا کون دے گا؟ اس نے بڑے یقین سے کہا شہباز قلندر، میں نے پوچھا وہ کیسے، اس نے بڑے یقین سے کہا شہباز قلندر کے وسائل بے شمار ہیں وہ سنڈھری آم کو کہے گا توہ وہ آم بھی پھٹ جائے گا، میں مسکرا پڑا۔میں کراچی واپس آیا وہاں سے سیالکوٹ اور پھر یونیورسٹی، یہ 17 اگست تھی میں ہاسٹل میں اپنے کمرے میں سو رہا تھا جب سلیم چیمہ نے دستک دے کر مجھے نیند سے اٹھایا اور بتلایا کہ جنرل ضیا کا طیارہ پھٹ گیا ہے
بعد میں پتہ چلا کہ وہ آم کی پیٹیاں تھیں یا شاید کوئی پرسرار کیمیکل گیس تھی یا کوئی میزائل تھا جس سے طیارہ تباہ ہوا۔ جنرل ضیا کی لاش طیارے کے ساتھ جل گئی تھی اس کی میت کو کوئی نہیں دیکھ سکا تھا، لوگ اپنے تبصرے کر رہے تھے جبکہ میں نے پاک پتن جانے کا پروگرام بنالیا، آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اس دورے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ وہ دور تھا جب میرا کسی بات پر یقین نہیں تھا۔ جدلیاتی مادیت کے طالب علم کو کسی روحانی واردات پر کیسے یقین ہو سکتا تھا۔ یہ تو ایک نشہ تھا جس سے غریبوں کو مسحور کیا جاتا تھا میرے پاس کرایے کے پیسے تک نہیں تھے ۔سیدھا بس پر بیٹھا اور ساہیوال اتر گیا کسی نے کرایہ نہیں مانگا، وہاں ایک سوزوکی پر بیٹھ کر پاک پتن آیا کسی نے کرایہ نہیں مانگا۔ حالانکہ کنڈیکٹر نے سب سے کرایہ لیا مگر مجھے بھول گیا۔
میں بابا جی کے مزار پر گیا، وہاں لوگ ضیا کے طیارے کی بات کر رہے تھے، میں آگے بڑھا تو مزار کے ایک خادم نے کہا ٹھہریے، میں چابی لے کر آیا۔ اس نے مزار کا دروازہ کھولا اور مجھے کہا کہ اندر جائیں میں حیران تھا کہ مجھے اتنی اہمیت کیوں، مگر بتلانے والا کوئی نہیں تھا۔ مزار پر حاضری دے کر مڑا تو باہر احاطے میں ایک بابا نیاز بانٹ رہا تھا اس نے مجھے بھی نیاز دی اور کہا ہونہہ لوگ کہتے ہیں بم تھا میزائل تھا کیمیکل گیس تھی ان کو کیا خبر حکم ہو تو آم بھی پھٹ جاتے ہیں۔
میں حیرت سے واپس آیا اور بس پر بیٹھ گیا ۔پہلے ساہیوال سے بس تبدیل کی اور پھر لاہور نیو کیمپس میں آگیا، کوئی پیسہ تھا ہی نہیں لگنا کدھر سے تھا، ہاسٹل میں بیشتر لڑکے اپنے گھروں کو جا چکے تھے ہمیشہ کی طرح اشرف زمان اپنے کمرے میں تھا وہ کسی تہوار پر بھی گھر نہیں جاتا تھا، میں نے اس سے سیالکوٹ جانے کے پیسے لئے اور سیالکوٹ کی طرف چلا گیا، میں سوچ رہا تھا کہ میں پاک پتن کیوں گیا تھا، صرف یہ سننے کہ حکم ہو تو آم بھی پھٹ جاتے ہیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“