تاریخ ولادت : 18 نومبر 1689ء بمطابق 6 صفر 1101ھ , جمعۃ المبارک , سوئی قندر (بھٹ شاہ) ہالا , سندھ (پاکستان)
تاریخ وصال : 1 جنوری 1752ء بمطابق 14 صفر 1165ھ , ہفتہ, بھٹ شاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی برصغیر کے نامور صوفی شاعر تھے۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچایا۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کی ولادت 1689 عیسوی ، 1101 ہجری میں موجودہ ضلع مٹیاری کے تعلقہ ہالا میں ہوئی۔ آپ کے والد سید حبیب شاہ ہالا حویلی میں رہتے تھے۔ اور موصوف کا شمار اس علاقے کی برگزیدہ ہستیوں میں تھا۔
شاہ صاحب کی پیدائش کے متعلق مشہور ہے کہ سید حبیب شاہ نے یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں لیکن اولاد سے محروم رہے۔ آپ نے اپنی اس محرومی کا ذکر ایک درویش کامل سے کیا، جن کا اسم گرامی عبداللطیف بتایا جاتا ہے۔ موصوف نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ انشاء اللہ آپ کی مراد بر آئے گی۔ میری خواہش ہے کہ آپ اپنے بیٹے کا نام میرے نام پر عبداللطیف رکھیں۔ خدا نے چاہا تو وہ اپنی خصوصیات کے لحاظ سے یکتائے روزگار ہو گا۔
سید حبیب شاہ کی پہلی بیوی سے ایک بچہ پیدا ہوا۔ درویش کی خواہش کے مطابق اس کا نام عبداللطیف رکھا گیا۔ لیکن وہ بچپن میں ہی فوت ہو گیا۔ پھر اسی بیوی سے جب دوسرا لڑکا پیدا ہوا تو اس کا نام پھر عبداللطیف رکھا گیا۔ یہی لڑکا آگے چل کر درویش کی پیشن گوئی کے مطابق واقِعی یگانہ روزگار ہوا۔
شاہ عبدالطیف بھٹائی کو "ست سورمیون کا شاعر" بھی کہا جاتا ہے۔
شاہ عبد اللطیف رحمۃُاﷲعلیہ نے ابتدائی تعلیم نُور محمد بھٹی سے حاصل کی اور بھٹ شاہ بارہ میل دور گاؤں وائی کے رہنے والے اور مشہور مُدرس تھے آپ نے اپنے والد شاہ حبیب رحمۃُاﷲعلیہ سے دینی تعلیم حاصل کی –
شاہ عبداللطیف بھٹائی کے آباؤ اجداد سادات کے ایک اہم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کا سلسلۂ نسب حضرت علی رضی اللہ عنہ اور رسول خدا حضرت محمد مصطفی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچتا ہے۔ امیر تیمور کے زمانے میں ہرات کے ایک بزرگ سید میر علی بہت سی خوبیون کے مالک تھے۔ اور آپ کا شمار اس علاقے کے معزز ترین افراد میں ہوتا تھا۔
1398ء ، 2-801ھ میں جب امیر تیمور ہرات آیا، تو سید صاحب نے اس کی اس کے ساتھیوں کی بڑی خاطر و تواضع کی، ساتھ ہی بڑی رقم بطور نذرانہ پیش کی۔ تیمور اس حسن سلوک سے متاثر ہوا۔ سید صاحب اور ان کے دو بیٹوں میر ابوبکر اور حیدرشاہ کو مصاحبین خاص میں شامل کر کے ہندوستان لے آیا۔ یہاں آنے کے بعد میر ابوبکر کو سندھ کے علاقے سیہون کا حاکم مقرر کیا۔ اور سید میر علی اور حیدر شاہ کو اپنے ساتھ رکھا۔ بعد کو سید حیدر شاہ بھی اپنے والد بزرگوار اور تیمور کی اجازت سے گھومتے پھرتے مستقل طور پر سندھ میں آ گئے اور ہالا کے علاقے میں شاھ محمد زمیندار کے مہمان ہوئے۔ شاہ محمد نے آپ کی کچھ اس طرح خدمت کی کہ وقتی راہ و رسم پر خلوص محبت میں بدل گئی۔ کچھ دنون بعد اس نے اپنی لڑکی فاطمہ کی شادی آپ سے کر دی۔ چونکہ آپ کی ماں کا نام بھی فاطمہ تھا ، اس لئے شادی کے بعد اس نام کو سلطانہ سے بدل دیا گیا۔ سید حیدر شاہ قریب قریب تین سال تک ہالا میں رہے پھر اپنے والد کی وفات کی خبر سن کر ہرات گئے جہاں تین چار سال تک رہنے کے بعد وہیں وفات پا گئے۔ کہتے ہیں جب سید صاحب ہرات روانہ ہوئے تو آپ کی اہلیہ حاملہ تھیں انھون نے چلتے وقت یہ وصیت کی تھی کہ اگر میری عدم موجودگی میں بچہ پیدا ہوا تو لڑکا ہونے کی صورت میں اس کا نام میر علی اور لڑکی ہو تو فاطمہ رکھا جائے۔ چنانچہ لڑکا پیدا ہوا اور وصیت کے مطابق اس کا نام میر علی رکھا گیا۔
میر علی کے خاندان میں بڑے بڑے صاحب کمال بزرگ پیدا ہوئے، ان بزرگوں میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے علاوہ، شاہ عبدالکریم بلڑی وارو، سید ہاشم اور سید جلال خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کی ولادت کے کچھ دنوں بعد ان کے والد اپنے آبائی گاؤں چھوڑ کر کوٹڑی میں آکر رہنے لگے۔ پانج چھ سال کی عمر میں آخوند نور محمد کی مشہور درسگاہ میں تحصیل علم کے لئے بھیجے گئے۔ عام روایت ہے کہ شاہ صاحب نے الف کے سوا کچھ اور پڑھنے سے صاف انکار کر دیا۔
جن دنوں شاہ حبیب کوٹڑی میں آ کر آباد ہوئے ان دنوں کوٹڑی میں مرزا مغل بیگ ارغون کا ایک معزز خاندان سکونت پزیر تھا۔ شاہ حبیب کی پاکبازی اور بزرگی نے مغل بیگ کو بہت متاثر کیا۔ کچھ دنوں بعد وہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ مریدوں میں شامل ہو گئے۔ جب کبھی مرزا کے گھر میں کسی کو کوئی بیماری ہوتی شاہ حبیب کو دعائے صحت کے لئے بلایا جاتا۔ گو کہ مرزا کے گھر میں سخت قسم کا پردے کا رواج تھا لیکن شاہ حبیب کے لئے اس رسم کو بالکل ختم کر دیا گیا۔ گھر کی مستورات بلا تکلف ان کے سامنے آ جاتیں اور حسب ضرورت دعا تعویذ لے کر آنے والی بلاؤں کو ٹالتیں۔
ایک مرتبہ مرزا مغل بیگ کی نوجوان بیٹی بیمار ہو گئی۔ حسب معمول شاہ حبیب کے پاس ملازم بھیجا گیا، اتفاق سے شاہ حبیب کی طبیعت بھی کجھ ناساز تھی۔ اس لئے انھوں نے اپنے نو عمر بیٹےشاہ عبداللطیف بھٹائی کو ملازم کے ساتھ روانہ کر دیا۔
آپ نے سندھی شاعری سے لوگوں کی اصلاح کی۔ شاہ جو رسالو آپ ہی کی ایک عظیم کوشش ہے۔
آپ 1752ء میں 63 سال کی عمر میں بھٹ شاہ میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔
آپ کے کلام کو "شاہ جو رسالو" کا نام دیا گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتخاب و پیشکش
نیرہ نور خالد