آج کل کچھ لوگوں نے جاہل لفظ کو سندھی کے ساتھ لاحقہ بنا کر بولنا شروع کردیا ہے۔ کراچی کے اردو بولنے والے مذہب پرستوں کو سندھیوں کے ساتھ ہمیشہ ایک عجیب سی پرخاش رہی ہے، اوریہ رویہ ہم اپنے بچپن سے ہی دیکھتے چلے آرہے ہیں۔
اول تو سندھیوں کی اکثریت صوفیاء کے اسلام کو مانتی تھی۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک زمانہ تھا جب سندھ میں عید، بقرعید سے زیادہ اہمیت شہباز قلندر، سچل سرمست اور شاہ بھٹائی کے عرس کی ہوا کرتی تھی۔ بقرعید پر سندھی بولنے والے بہت کم قربانی کیا کرتے تھے، پورے قصبے یا گاؤں میں کوئی ایک فرد ہوتا تھا، جو قربانی کرتا تھا، لیکن وہ بھی بکرے کی، گائے کی نہیں۔ ہاں محرم الحرام پورے جوش و خروش سے منایا جاتا، لیکن اس کا بھی الگ ہی رنگ ہوا کرتا تھا۔
ظاہر ہے کہ بادشاہوں کی خاطر ساتویں صدی میں تحریر کی جانے والی شریعت سے سندھ کے لوگ عملی طور پر اختلاف کرتے تھے، جبکہ شمالی ہندوستان سے نقل مکانی کرکے سندھ میں آباد ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد اُسی شریعت کی خود کو ٹھیکے دار سمجھتی تھی۔
مذہب پرستی افراد کے اندر ایسے کبر کی بنیاد رکھ دیتی ہے، جسے بانیانِ مذاہب صرف خدا کے لیے مخصوص بتایا کرتے تھے۔ ایسے لوگوں کا کبر انہیں یہ محسوس کرواتا ہے کہ جیسے وہ زمین کے خدا ہیں، یا کم از کم خدا نے انہیں اپنے معاملات کا ٹھیکے دار بنا لیا ہے۔ چنانچہ باقی افراد انہیں جاہل اور حقیر دکھائی دیتے ہیں۔
میرے اپنے خیال کے مطابق ایک ان پڑھ شخص بھی جاہل نہیں ہوتا، ہاں ایک پڑھا لکھا شخص بھی جاہل ہوسکتا ہے۔ جہالت سے مراد یہ ہے کہ آپ شعوری ارتقاء میں رکاوٹ بنیں، آپ کے اندر رواداری اور اعلیٰ ظرفی جیسی صفات کا داخلہ ممنوع ہو، اور روشن خیالی پر مبنی افکار سن کر ہی آپ کے دہن مبارک سے ذہنی اسہال جاری ہوجائے۔
محض رواداری اور اعلیٰ ظرفی بھی بہت سے سماجی اور سیاسی معاملات کو آسان بنا دیتی ہے۔
سندھ کے عام لوگوں میں یہ دونوں صفات موجود ہیں۔ اس بات کا مشاہدہ سندھ یونیورسٹی کے ایک نوجوان طالبعلم کو بھی ہوگیا ہے، جس کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے۔ اس نے محترم ارشد محمود سے سوال کیا تھا کہ آپ کا کہنا ہے کہ معاشی ترقی سے انسان کی شعوری استعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے، تو پھر گوجرانوالہ، جو دولتمندوں کا شہر کہلاتا ہے، اس کے شہریوں میں ایسی شعوری استعداد کیوں نہیں نظر آتی، جیسی کہ سندھ کے ایک عام شہری میں دیکھنے کو مل جاتی ہے؟
دولت ہو یا تعلیم دونوں کا حامل ہونے کے باوجود بھی کوئی شخص جہالت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوسکتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔
میرپورخاص کی اس محفل میں کیے جانے والے بولڈ سوالات کی جانب بھی گوجرانوالہ کے اس نوجوان نے اشارہ کیا تھا۔ ایک سوال یہ تھا کہ اوپر والا خدا زیادہ خطرناک ہے، یا نیچے والے؟
ہماری زبان سے بے ساختہ نکلا تھا، دونوں!
گوجرانوالہ تو کیا کراچی میں بھی یہ سوال کسی کے ذہن میں داخل ہونا ممکن نہیں، اس لیے کہ دماغ میں الحمدللہ خاصا گوبر بھرا ہوا ہے۔ اور سوال بھی کس نے کیا تھا؟ رلّی بنانے والے ایک ہنرمند نے۔
ہم جیمس آباد جارہے تھے تو راستے میں حفیظ کنبھر سائیں نے گاڑی رکوائی اور کہا کہ نیچے اترئیے تو آپ کو ایک خاص چیز دکھائیں، یہ شاہد حسین خاصخیلی کا ونجارا ہوٹل اور لائبریری تھی۔ خوبصورت سبزہ زار پر قائم ہوٹل پر ناصرف چائے، اسنیکس اور کھانے پینے کی تمام اشیاء دستیاب تھیں، بلکہ ایک لائبریری بھی موجود تھی، جہاں سے اہل ذوق بلامعاوضہ استفادہ کرسکتے تھے۔
یہی نہیں بلکہ اتوار کے روز وہاں کتابوں کا بازار بھی لگایا جاتا تھا۔ ہوٹل کے سبزہ زار پر ہفتے میں ایک دو مرتبہ موسیقی کی محفلیں بھی منعقد ہوتی تھیں۔
شاہد حسین نے بتایا کہ اتوار بازار پر کتابوں کے اسٹال پر انہوں نے ایک بچے کو دیکھا کہ وہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہے، اور ایک ہاتھ میں اس کے گدھے کی رسّی بھی ہے، جس پر گھاس پھوس لدی ہوئی ہے۔ کتابوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ بچہ جھجکتے جھجکتے آگے بڑھا، اور ایک کتاب کی ورق گردانی کرنے لگا۔ شاہد جو بچے کے ذوق سے بے حد متاثر تھے، انہوں نے وہ کتاب بچے کے حوالے کردی۔ ہمارا اندازہ ہے کہ وہ کتاب یقیناً سندھی زبان میں ہوگی۔ سندھی زبان میں شایع ہونے والی کتابوں کی تعداد کراچی میں اردو زبان میں شایع ہونے والی کتابوں کی تعداد سے دُگنے سے بھی زیادہ ہوتی ہیں۔
سندھ میں قیام پاکستان سے قبل شکارپور، خیرپور اور حیدرآباد کالجوں کے شہر کہلاتے تھے۔ کراچی میں بھی اسکولوں اور کالجوں کی معقول تعداد موجود تھی۔
یہ درست ہے کہ سندھ کے مسلمانوں میں تعلیم کا رجحان ہندوؤں کے مقابلے میں کم تھا، لیکن پنجاب اور اردو بولنے والوں کا سندھیوں سے متعلق تصور حماقت آمیز ہے کہ وہ جاہل ہوتے ہیں، بلکہ یہ تصور خود انہی کی جہالت کا آشکار کردیتا ہے۔
سندھ کا مسئلہ یہ ہوا کہ یہاں تقسیم کے بعد لیاقت علی خان نے ہندو آبادی کو بالجبر نقل مکانی پر مجبور کیا۔ ان ہندوؤں میں بہت سے ایسے خاندان بھی تھے، جن کا شمار اس وقت کے امیرترین لوگوں کی صف اوّل میں کیا جاتا تھا۔ ان میں سے کسی کا بھی ارادہ نہیں تھا کہ وہ اپنی جنم بھومی سندھ سے نقل مکانی کرکے کہیں اور جابسیں۔ لیکن اسلام کے ٹھیکے دار اردو بولنے والوں نے ان کی عبادتگاہوں کو جلانا شروع کردیا، ان میں بہار سے آنے والے مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی۔ یہ بہاری ہی تھے، جنہوں نے بعد میں مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ بنگالیوں کے قتل عام میں حصہ لیا تھا۔
کراچی کی ایک مثال بیان کروں کہ یہاں آج جسے زیب النساء اسٹریٹ کہا جاتا ہے، اس سڑک پر ہندوؤں کی مسافروں سے بھری بس کو نذرِآتش کردیا گیا تھا، اور تمام مسافر زندہ جل کر مرگئے تھے۔
ایسی صورتحال دیکھ کر سندھ کے غیرمسلم نہایت افراتفری کی حالت میں اپنا تمام مال و اسباب چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اس حوالے سے میں کل مزید تفصیل سے بات کروں گا۔
لیاقت علی خان کی بے وقوفی دیکھیے کہ پہلے تو انہوں نے عالمی سطح کے ان دولتمندوں کو زبردستی نکلنے پر مجبور کیا، بعد میں موجودہ وزیراعظم کی طرح ہر ایک کے سامنے ہاتھ پھیلائے پھرتے رہے، تاکہ مملکت کا انتظام و انصرام چلایا جاسکے۔
سندھ میں ہندوؤں کو نکالنے میں لیاقت علی خان نے کیسی کیسی قیامت ڈھائی، اور اردو بولنے والوں نے کیسی آفت مچائی، اس کا تذکرہ کل پیش کیا جائے گا۔
(جاری ہے)