تحریر : زیب سندھی
دبیز کپڑے کا ماسک پہنے نوجوان گورکن نے بوڑھے شخص کی میّت کو قبر میں سیدھا کر کے لحد کے اندر رکھنے کی کوشش کی۔ اس نے پوری قوّت صرف کرکے زور لگایا مگر ، باوجود کوشش کے وہ بھاری بھرکم جسامت والی میّت کو لحد کے اندر اتارنے میں کامیاب نہ ہوسکا ۔ اس نے قبر میں میّت کے قریب بیٹھے بیٹھے ہی ماسک اتارے بغیر لمبے سانس لینے کی کوشش کی، کئی بار بڑی بڑی سانسیں لینے کے بعد وہ کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا ۔ ذرا سستانے کے بعد اس نے قبر کی اندرونی دیوار کو ٹیک دے کر دونوں ہاتھوں اور پیروں کی مدد سے زور لگا کر میّت کو لحد میں اتارنے کی کوشش کی ،مگر میّت اپنی جگہ سے ذرا آگے نہ بڑھ سکی ۔ اس نے مایوس ہو کر متوفی کے ورثاء کی مدد حاصل کرنے کا سوچا ، قبر میں بیٹھے بیٹھے سر اوپر اٹھایا ،مگر اسے قبر پر متوفی کا کوئی وارث دکھائی نہ دیا ۔ گورکن نے کھڑے ہوکر قبر سے باہر دیکھا ۔
میّت کو قبرستان لے کرآنے والی گاڑی شاید کوئی دوسری میّت لے جانے کے لیے واپس جا چکی تھی اور مرحوم کا جنازہ لے کر آنے والے ورثاء قبر سے سے بہت دور ہٹ کر، ایک دوسرے سے فاصلہ رکھ کر ،ایک درخت کے نیچے کھڑے تھے ۔
گورکن نے اپنے ماتھے پر آیا ہوا پسینہ پونچھتے ہوئے پکارا ، ” آپ میں سے کوئی ایک شخص قبر میں اتر کر میرا ہاتھ بٹائے ۔“
متوفی کے تینوں ورثاء نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور اپنی جگہ خاموش کھڑے رہے ۔
گورکن دوبارہ پکارا ، ” میّت بہت بھاری ہے ، میں اکیلا اسے لحد میں نہیں اتار سکتا ۔“
مرحوم کے تینوں وارث اب بھی خاموش کھڑے رہے ۔
گورکن نے ان کی طرف دیکھ کر پوچھا ،” آپ میں سے کوئی تو مرحوم کا بھائی یا بیٹا ہوگا !“
ایک نوجوان بولا ، ” میں مرحوم کا بیٹا ہوں ۔“
گورکن نوجوان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ،” اگر تم مرحوم کے بیٹے ہوتو پھر آؤ ،اور قبر میں اتر کر میرا ہاتھ بٹاؤ ۔“
مرحوم شخص کے بیٹے نے دور ہی جواب دیا ،”میں فقط یہی کر سکتا تھا کہ میں نے لاش کو قبر میں اتارنے کے لئے لیے ہاتھ بڑھایا تھا ۔ اب میں دوبارہ ، لاش کو ہاتھ نہیں لگا سکتا کیوں کہ بابا کی موت کرونا کے باعث ہوئی ہے ۔“
گورکن نے طویل سانس خارج کی اور بولا ،” میں نے آپ سے کچھ نہیں پوچھا تھا، مگر جنازے کے ساتھ کندھا دینے والے نہ ہوں تو گورکن سب کچھ سمجھ جاتے ہیں مگر . . . "
گورکن نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا اور خاموشی سے مرحوم کے تینوں وارثوں کی طرف دیکھتا رہا ۔ ان میں سے کسی نے کوئی جواب نہیں دیا ۔
گورکن ورثاء کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ،
” اگر آپ میں سے کوئی قبر میں اتر کر میرا ہاتھ نہیں بٹائے گا تو میں تنہا ، میّت کو لحد میں نہیں اتار سکتا ۔“
مرنے والے شخص کے بیٹے نے جواب دیا ، ” میّت کو اگر ، لحد میں نہیں اتار سکتے تو ، مُردےکے اوپر ہی لکڑی کے تختے رکھ کر دفن کر دو ۔“
گورکن اپنے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا ، ” جیس آپ کی مرضی ! ذرا مجھے یہ تختے تھما دیں ۔ “
انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ، مُتوَفی کا بیٹا گورکن کی بات سنی ان سنی کر کے دوسری طرف دیکھنے لگا تو ، ساتھ آیا ہوا ایک ادھیڑ عمر شخص آگے بڑھا اور قبر کے قریب موجود تختے اٹھا اٹھا کر قبر میں کھڑے گورکن کو دیے اور پھر پیچھے ہٹ گیا ۔
گورکن مردے کے اوپر چوبی تختے رکھ کر قبر سے باہر نکلا ۔ اس نے ایک نظر دُور کھڑے ہوئے فوت ہونے والے کے ورثا ء پر ڈالی اور کدال اٹھاکر قبر پر مٹی ڈالنا شروع کر دی ۔وہ قبر میں مٹی ڈال ہی رہا تھا کہ مرحوم کےورثا ء نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے ۔
فوت شدہ شخص کے بیٹے نے جیب سے کچھ نوٹ نکالے اور قریب پڑے ایک پتھر کے نیچے رکھ کر ،گورکن کی طرف دیکھ کر بولا ، ”اپنا معاوضہ اٹھا لینا۔ “
گورکن نے سر اٹھا کر دیکھا تو دفنائے جانے والے شخص کے ورثاء قبرستان سے باہر جانے والے راستے کی طرف جا رہے تھے۔
جب سے وبا ء میں شِدّت آئی تھی ، تب سے وہ دن رات روزانہ، نہ جانے کتنی قبریں کھودتا اوروباء کے شکار مُردوں کو دفناتا تھا ۔ اسے کمر سیدھی کرنے کے لیے بہت کم وقت ملتا تھا۔ ادھر آنکھ لگتی ،ادھر رات گئےقبرستان کے داخلی راستے پر، اس کے گھر کا دروازہ زور زور سے بجنا شروع ہوجاتا ۔ گھر میں تنہا رہنے والا گورکن دروازہ کھولنے سے پیشتر ہی بیلچہ اور کدال اٹھا لیتا ، پھر جا کر دروازہ کھولتا تھا ۔ اس دن بھی اس نے بہت سی قبریں کھودکر بےشمار مُردوں کی تدفین کی تھی۔
رات گئے وہ تھکا ہارا گھرآ کر لیٹا تو، اس کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا ۔ اپنے جسم میں درد کی شدید لہریں محسوس کرتے ، بستر پر کروٹیں بدلتے بدلتے نیند کی دیوی آخر اس پر مہربان ہو ہی گئی ۔ رات کے آخری پہر کسی نے گھر کا دروازہ دھڑ دھڑ پیٹنا شروع کیا تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ۔ اس کے جسم میں اب کوئی نئی قبر کھودنے کی سکت نہ تھی ۔ اس لیے وہ دروازہ کھولنے کے بجائے بیٹھا رہا ۔ کافی دیر تک دروازہ پیٹنے کے بعدکسی نے گریہ زاری کرتے ہوئے اسے پکارا تو ، اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا ۔ دروازے پر موجود ایک نوعمر نوجوان نے روتے ہوئے کہا،” میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے ! “
گور کن نے تھکاوٹ اور درد کے باعث نہ چاہتے ہوئے بھی قبر کھودنے سے انکار کیا تو نوجوان وہیں زمین پر بیٹھ کر دھاڑیں مارکر رونے لگا ۔
اس نے نیچے بیٹھ کر نوجوان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ہمدردی سے بولا ، ”تم اپنی ماں کو کسی دوسرے قبرستان لے جا کر دفن کر دو یا کسی دوسرے گورکن کو لے جاؤ ۔ میں آج قبریں کھود کھود کر ، بہت تھک گیا ہوں ۔ اب مجھ میں کوئی نئی قبر کھودنے کی طاقت نہیں ہے ۔“
نوجوان نے لمبی آہ بھرتے ہوئے بتایا ، ”میں دوسرے قبرستانوں سے مایوس ہوکر ہی یہاں آیا ہوں ، ہر جگہ سے مایوس لوٹا ہوں ، میں کہاں لے جاؤں اپنی ماں کی میّت کو لے کر ۔ ۔ ۔ ؟ مجھ پر احسان کرو اور آج کی رات یہ آخری قبر کھود دو۔ ۔ !! “ یہ کہہ کر نوجوان نے گڑگڑاتے ہوئے ،گورکن کےآگے ہاتھ جوڑ دیئے ۔ نوجوان کی حالت دیکھ کر کر گورکن کی آنکھیں نم ہوگئیں ۔ کہنے لگا ،” میں قبر کھودنے جا رہا ہوں ، تم اپنی ماں کا جنازہ لے کر آجاؤ ۔ “ نوجوان نے ممنونیت بھری نظروں سے گورکن کو دیکھا اور تیزی سے چلتا ہوا واپس لوٹ گیا۔
قبر کھودتے ہوئے گورکن نےکدال کی ہر ضرب کےساتھ اپنے جسم سے درد کی لہریں اٹھتی محسوس کیں . وہ کئی بار لڑکھڑا کر گرا ، اٹھا اور قبر کھودتا رہا ۔ اچانک وہ تین فٹ گہرائی تک کھدی ہوئی قبر میں گرا تو پھر اٹھ نہ سکا ۔ ۔ ۔ !
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...