غُروبِ آفتاب کے دِھیرے دِھیرے ڈُوبتے سائے دھرتی پر پھیل چکے تھے ۔ اس کی حرماں نصیبی کے مماثل شب کی تاریکیاں بھی پر پھیلانے کو بے تاب تھیں۔ قبرستان میں ہوا کی سسکیاں ، پیڑوں کے جھومتے پتوں کی سرسراہٹ ، موت کا سکوت اور تُربتوں پر پھیلی ویرانیاں ، یہ سب ،گویا موت کی آخری ساعتوں کی مانند اٹل تھا ۔ اور وہ ،اس سنسان سناٹے میں نیم کے درخت تلے سر جھکائے یوں بیٹھا تھا ،گویا مدتوں سے اپنی نربھاگی پر ماتم کناں ہو۔ موت کے اس سُنسان ماحول میں اس کا شکستہ وجود مزید پرُا سرار دکھائی دے رہا تھا۔ پہلو میں رکھی کدال اُسی کی طرح افسردہ اور ماندہ۔ (کم از کم اس نے تو یہی محسوس کیا تھا۔)
اس شہر ِخموشاں میں وہ اس وقت سے گورکن تھاجب اس کے چہرے پر مسیں تک نہ بھیگی تھیں اور آج اس کے سر اور داڑھی کے بال نصف کے قریب سفید ہوچکے تھے۔دھرتی کی آغوش میں، داعی ء اجل کو لبیک کہنے والے انسانوں کو دفن کرکے پیٹ پُوجا کرنا اس کا آبائی پیشہ تھا ۔ اس کا باپ ، دادا ، اور شاید پردادا بھی یہی کام کرتے تھے ۔ موت ، زندگی ، قبریں ، ویرانیاں اور دنیا سے بچھڑجانے والے تنہا انسان ، یہی معمولات اس کی زندگی کا حصہ تھے۔
اور اب ، گزشتہ دو روز ایسے گزرے تھے جب ” چُولہے آگ، نہ گھڑے پانی ” کے مصداق ،اس کے گھر کا چُولہا ٹھنڈا پڑا تھا ۔
عُسرت موت کی طرح اپنے پر پھیلائے کھڑی تھی، دو دنوں سے وہ کسی شکست خوردہ جواری کی طرح گھر لوٹ رہا تھا ۔ ان دو دنوں سے اس کی کدال بھی اداس تھی ۔ اس کے بچّوں کی آنکھوں میں بھُوک کا بسیرا تھا۔ اس کی بیوی کا چہرہ رنج و لحن سے معمُور تھا۔ ان دو دنوں سے۔۔۔ان دو دنوں سے اجل نے مُنہ پھیر لیا تھا ، شہر میں کِسی کی زندگی کی تانت نہ ٹوٹی تھی۔ وہ رہ رہ کرسوچ رہا تھا کہ جہاں آئے دن بے شمار انسانوں کی سانسوں کی مالا بکھر جاتی ہو، وہاں دو روز سے سب زندہ ہیں۔۔۔!!!
اس شہر میں اور کوئی دوسرا قبرستان نہیں تھا۔گزشتہ دو دنوں سے جب وہ گھر لوٹتا تو اسے تہی داماں دیکھ کر بچّوں کے چہرے تیل سے عاری دِیے کی مانند بُجھ کر رہ جاتے۔ گزشتہ شب تو اس کا چھوٹا بیٹا بُھوک سے بے تاب ، آدھی رات تک روتا رہا تھا اور اسے بہلاتے پھسلاتے اس کی بیوی بھی سِسک اٹھی تھی۔ تفکّرات نے اسے ادھ موا کردیا تھا۔
اس نے ایک بار پھر نم ناک آنکھوں سے قبرستان پر ایک نظر ڈالی اور سر جھکا کراٹھ کھڑا ہوا۔ کدال کندھے پر رکھے ، ڈگمگاتے قدموں سے وہ قبرستان سے باہر نکل آیا ۔
باہر آکر ، اس نے دوبارہ گردن گھماکر پیچھے دور تک پھیلے قبرستان پر نظر ڈالی۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے بہت سے مُردے اپنی اپنی قبروں سے نکل کر سفید کفن میں ملبُوس ،موت کا رقص کررہے ہوں، قہقہے لگارہے ہوں! وہ خوف زدہ ہوکر لمبے ڈگ بھرتا ہوا قبرستان سے دور نکل آیا۔
وہ گھر کے قریب پہنچا تو لمحہ بھر کے لیے خیال آیا کہ گھر کے باہر ہی سے لوٹ جائے۔ سوچا، واپس قبرستان ہی لوٹ جاؤں، کیا خبر آج ،کسی کی زندگی کا چراغ گُل ہو جائے۔۔۔! پھر خیال آیا کہ اگر ایسا ہوا بھی توہمیشہ کی طرح ، لوگ خود ہی اُسے بُلا لیں گے۔ تب ہچکچاتے ہوئے ، دروازے پر ٹاٹ کاپھٹا ہوا پردہ اٹھا کر وہ گھر کے صحن میں چلا آیا۔ لالٹین کی تُنک تاب روشنی میں اس کی بیوی سر جھکائے خاموش بیٹھی تھی۔ سامنے اس کا چھوٹا بیٹا سو رہا تھا۔ اس کے رخساروں پر پھیلے آنسوؤں کی لکیر ، اس نے دھیمی روشنی میں بھی صاف دیکھ لی تھی۔ اس نے محسوس کیا ، اس کا وجود ریزہ ریزہ بکھر گیا ہو ۔ فرش پر اس کے دونوں بڑے بیٹے بِلور کے کنچوں سے کھیل رہے تھے۔(یا شاید خود کو بہلا رہے تھے) اسے آتا دیکھ ، یوں ہڑ بڑا کر اُٹھے جیسے مدّتوں سے اس کے منتظر ہوں ،لیکن اس کے چہرے پر پھیلی حزن و ملال کی پرچھائیاں دیکھ کر ان کے چہروں پر بھی مایوسیوں نے ڈیرے ڈال دیے ۔
وہ سر جھکائے ٹوٹی پھوٹی چارپائی پر بیٹھ گیا۔ اس کی بیوی ٹھنڈی آہ بھر کر بولی،
”چھوٹا ، روٹی کے لیے رو رو کر اب سویا ہے۔“
اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کے ہونٹ ،گویا کسی نے سی دیے ہوں۔
”بابا ! مجھے بھی بہت بھوک لگی ہے۔“ یہ کہتے ہوئے منجھلے بیٹے کی آواز بھر آئی تھی،
”بابا! کیا آج بھی کوئی نہیں مرا۔۔۔؟“
وہ خاموش تھا ۔
”بابا! جب کوئی مرے گا۔۔۔ تو کیا تب ہی روٹی پکے گی۔۔۔۔؟“
“ہاں۔۔۔!”
جواب دیتے ہوئے اُسے اپنی آواز پاتال سے آتی محسوس ہوئی۔ تبھی بیٹے نے دونوں ہاتھ اُٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ،
”اللہ سائیں! اب تو کسی کو موت دے دے تاکہ ہمارے گھر میں بھی روٹی پک سکے ، او اللہ سائیں ۔۔۔ !”
اس کے من میں کہیں دُور ”آمین“ کی صدا اُبھری ۔ وہ خود بھی پچھلے دو دِنوں سے یہی دعا مانگ رہا تھا کہ کاش! آج اچانک ہی کو ئی مرجائے ، کاش۔۔۔!!!!
اس کے دونوں بڑے بیٹے اس امید پر کہ شاید کل کوئی مرجائے ، آنکھیں بند کر کے لیٹ گئے۔ حالانکہ بُھوک کے باعث انہیں نیند نہیں آرہی تھی۔ وہ اور اس کی بیوی سرجھکائے بیٹھے تھے۔ طویل خاموشی کے بعد اس کی بیوی کی آواز اچانک اُبھری،
”سنو! تم کوئی اور کام کیوں نہیں کرلیتے؟“
”کون سا کام کروں؟ میرے لیے اورکون سا کام بچا ہے؟ میں کوئی دوسرا کام جانتا بھی تو نہیں۔۔۔“ اس کی آواز میں صدیوں کی تھکاوٹ تھی ۔
”تم کب تک یہ کام کرتے رہو گے؟ آج کوئی مرے گا ،کل کوئی نہیں بھی مرے گا۔۔۔! اب تو اناج اور آٹے کی طرح موت بھی مہنگی ہوگئی ہے۔موئے ڈاکٹر پیدا ہوگئے ہیں، کِسی کو مرنے ہی کب دیتے ہیں! ”
”بختاور! جس وقت کی موت انسان کے نصیب میں لکھی ہوتی ہے، وہ اسی وقت مرتا ہے۔ اس لیے جب بھی کوئی مرے گا، اپنے وقت پر ہی مرے گا۔ اوراس وقت ،تیرے گھر میں بھی روٹی پکے گی۔” وہ بیوی کو سمجھانے لگا، حالانکہ خود اس کااپنا من ریت کے گھروندے کی مانند بکھر رہا تھا۔
”میں نے تو بادشاہ پِیر کی مٹھائی کی منّت بھی مان رکھی ہے ۔جب کوئی مرے گا، میں اسی وقت جاکر بانٹوں گی ۔ دو دن سے میرے بچے بھُوکے ہیں،آخر کب تک بھوکے مرتے رہیں گے؟” یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ وہ اپنے پھٹے ہوئے دوپٹے کے پلُّو سے انہیں پونچھنے لگی۔ اپنی بیوی کو روتا دیکھ کر اس نے لالٹین گُل کردی، مبادا اس کی بیوی اس کے آنسو دیکھ لے جو اس کی داڑھی کو بھگو رہے تھے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بیوی اسے روتا دیکھے۔ لالٹین بجھاکروہ آدھی رات تک روتا رہا۔ اِس خیال سے کہ اس کے بچّے دو دن سے بھوکے ہیں، اس کی کھُلی آنکھیں دروازے پر کِسی بلاوے کی منتظر رہیں لیکن ساری رات اسے بلانے کوئی نہیں آیا۔ باہرگلی میں کُتّے بھونکتے رہے۔ اسے معلوم تھا کہ اس کی گھروالی بھی رات بھر روتی رہی ہے اور ، اس کی بیوی بھی جانتی تھی کہ اس کے سر کا سائیں ساری رات اشک بہاتا رہاہے۔ رات بھر میں کئی بار اس کی بیوی کے آنسوؤں نے اس کے بازو بھگوئے اور اس کے آنسوؤں نے بھی بیوی کا چہرہ تر کیا۔ لیکن وہ دونوں ایک دوسرے سے چھپاتے رہے۔
اگلے روز، پو پُھوٹنے سے قبل ہی کدال کندھے پر رکھے وہ قبرستان چلا گیا ۔ راستے بھر اس کے کان کسی بَین کی آواز سننے کے منتظر رہے، لیکن چار سُو زندگی اپنے خوب صورت پَر پھیلائے کھڑی تھی۔ وہ دل ہی دل میں تہیہ کر چکا تھا کہ اگر آج بھی کوئی جنازہ نہیں آیا ، تو وہ چوری کرے گا ، ڈاکہ ڈالے گا، مگر خالی ہاتھ گھر واپس نہیں جائے گا۔ قبرستان میں بھی اس کی نگاہیں جنازوں کی راہ تکتی رہیں۔لوگ آتے رہے، تربتوں پر فاتحہ پڑھ کر لوٹ گئے۔ کچھ پھول رکھ کر چلے گئے۔ بعض آئے،قبروں پر سر رکھے، سسکتے ہچکیاں بھرتے واپس چلے گئے۔ وہ ہر روز یہ سب دیکھتا تھا۔ اس کے لیے اس میں کوئی نیا پن نہیں تھا۔ نہ اس کے، اور نہ ہی اس کے بچوں کے لیے زندگی کی کوئی کرن تھی۔
دن گزرتا رہا، اور پھر گزرے کل کی طرح آج کا سُورج بھی چپ چاپ ڈوب گیا ! (نہ جانے کل طلوع ہوگا کہ نہیں! اس نے سوچا) ایک بھولی بسری یاد نے اس کے ذہن کے دریچوں پر دستک دی۔ جب ایک بار ایک نوجوان نے یہاں، کسی مرقد کے سامنے کھڑے ہوکر کہا تھا: ”اے موت! کاش تجھے موت آجائے۔۔۔!! ” اُس وقت موت کے لیے یہ بددُعا سن کر اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔اور آج بار بار اس کے کانوں میں یہ الفاظ بازگشت بن کر گونج رہے تھے۔اسے یوں محسوس ہوا گویا سچ مچ موت کو موت آگئی ہو۔ رات کی گہری تاریکی میں وہ اپنے ہی خیالات سے ڈر گیا۔
اس کے بچوں کی فاقہ کشی کو آج تیسرا دن تھا۔اس خیال کے آتے ہی اسے اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا۔ وہ ان کا سامنا کیسے کرپائے گا؟ ان کی مغموم نگاہیں کیسے دیکھ سکے گا۔۔؟کیونکر ان کے سوالوں کے جواب دے پائے گا؟ کس طرح اپنی بیوی کے چہرے پر پھیلی غموں کی پرچھائیں دیکھے گا؟ اس کا دل لرز اُٹھا۔ وہ اندر ہی اندر شکست و ریخت کا نشانہ بنتا رہا۔ رات کے بارہ بج گئے۔ وہ قبرستان میں بیٹھا رہا لیکن کوئی نہ آیا ! مایوس ہوکر کندھے پر کدال رکھ کر لڑکھڑاتا، ڈ گمگاتا ہوا وہ ا پنے گھر کی سمت جانے والے راستے پر چلنے لگا۔ راستے بھر وہ دل ہی دل میں یہی سوچتا رہا کہ کل صبح سے وہ کوئی دوسرا کام تلاش کرے گا۔ کل سے وہ مزدور نہ سہی،چور بن جائے گا۔ مستقبل کے لیے وہ ان گنت منصوبے بناتا رہا،انہیں توڑتا رہا۔اندر ہی اندر اُدھیڑبن کا شکار رہا۔ زندگی اس کے لیے کائنات کا سب سے بڑا آندھی روگ بن گئی۔ وہ من ہی من میں اس سانحے کا ماتم کرتا رہا ۔ گلیوں میں رات کی تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ اس کے اندر باہرتاریکیاں تھیں۔ روشنی کی کوئی ایک کِرن، کوئی ایک چنگاری، دُور اس سے بہت دور، ایک سایہ جا رہا تھا۔بجلی کے شاک کی سی مانند ایک خیال اس کے دماغ کے کسی گوشے میں کوندا ،
” اگر میں کدال کی ایک ہی ضرب سے اس سائے کو ختم کردوں تو۔۔!!! “
اس سے آگے کا تصوّر کِس قدر مسحُور کن تھا۔ اس نے تصوّر کی آنکھوں سے اپنی بیوی کو چولہے پر روٹی پکاتے دیکھا، وہ مسکرا رہی تھی ۔اس کے تینوں بیٹے ماں کے پاس بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور ایک دوسرے سے اٹھکیلیاں بھی کرتے جارہے تھے۔ وہ جھوم اٹھا۔ لیکن اس سائے کو ختم کرنے کا تصوّر کس قدر بھیانک تھا! اس نے تو کبھی چوری بھی نہیں کی تھی چہ جائیکہ کِسی کا خون۔۔!! اگلے ہی لمحے اس کے کانوں میں اپنے بلکتے بچّوں کی صدائیں تازیانہ بن کر گونجنے لگیں۔اس کے قدم تیز ہوگئے۔ گلی میں گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی۔گھور اندھیرے میں تیز قدم اٹھائے وہ سائے کا تعاقب کرنے لگا۔ اس کا سانس پھول گیا اور دل طوفان زدہ تنکے کی مانند کانپ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ کدال کے دستے پرمضبوطی سے یوں جم گئے جیسے کبھی الگ نہیں ہوسکیں گے۔
اور پھر، وہ اس سائے کے قریب آ پہنچا ، اس نے آنکھیں بند کر لیں اور کدال کا ایک بھرپور وار کردیا ۔ ایک چیخ چہارسُو بازگشت بن کر گونجی اور پھر ڈوب گئی۔ (جیسے کچھ ہواہی نہ ہو) یہ دل خراش چیخ شاید کسی بچّے کی تھی۔ لیکن اس میں اپنے شکار کو جھک کر دیکھنے کاحوصلہ ہی نہ تھا۔ بس لمحہ بھر کے لیے اس کی نگاہوں میں اپنے بچّوں کے چہرے گھوم گئے۔ اس کا وجود پیسنے میں شرابور ہوگیا۔ وہ الٹے قدموں قبرستان کی طرف بھاگ کھڑا ہوا ۔ اس کی ٹانگیں کپکپارہی تھیں ۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے یہ لمحہ ،ا س کی زندگی کا آخری لمحہ ہو۔ زندگی میں پہلی بار اسے موت سے خوف آنے لگا۔ موت ، جو کِسی بدروح کی طرح اپنے بال بکھیرے،میلے کچیلے دانت نِکالے،قہقہے لگاتی اس کا پیچھا کررہی تھی۔اس کی رگوں میں گردش کرتا لہو منجمد ہوگیا۔ سانسوں کی ڈور، اب ٹوٹی کہ اب۔ وہ قبرستان کے پھاٹک کے قریب پہنچا۔ گردن گھما کر پیچھے دیکھا، عقب میں کچھ نہیں تھا۔ سنسان گلیاں، نیند کی آغوش میں محوِ خواب انسان،رات کی گہری تاریکی اور وہ تنہا ۔ ۔۔! اس نے قبرستان کے نلکے سے خون آلود کدال دھوکر صاف کی اور نیم کے درخت تلے آنکھیں موند کر بیٹھ گیا۔ اس کے اندر اک طوفان بپا تھا۔ لیکن وہ تصوّر کی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ کل صبح لوگ اس بچّے کا جنازہ لے کر آئیں گے، اسے قبر کھودنے کے تیس روپے
ملیں گے اور پورا ہفتہ کتنے آرام سے گزرجائے گا۔ اس کے بچّوں کے مرجھائے چہرے خوشی سے کھل اٹھیں گے۔ وہ خودبھی کتنے مان سے، فخر سے، سینہ تان کر گھر میں داخل ہوگا۔اس کی جورُو بھی بادشاہ پیر کی شیرینی تقسیم کرے گی۔وہ اپنا جرم کسی نہیں بتائے گا۔ اپنی گھروالی کو بھی نہیں، جس سے وہ کوئی نہیں چھپاتاتھا۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوگا۔ لیکن ا س کے خیالات پر خوف کے جذبات حاوی تھے۔ اگر وہ پکڑا گیا تو اسے عمرقید کی سزا تو ضرور ہوگی! اس کے بیوی بچّے بھوکے مریں گے اور وہ خود جیل میں ان کے لیے تڑپتا سسکتا رہے گا۔
رات گزرگئی۔ شفق کی لالی لیے، نیا سُورج اس کے لیے اُمید کی کرنیں بکھرتا طلوع ہوا۔ اس کی نگاہیں پھاٹک کے اُس پار نظر آنے والی سڑک پر لگی تھیں جہاں سے وہ جنازہ آنا تھا۔ دوپہر کے قریب لوگ کاندھوں پر ایک جنازہ اٹھائے قبرستان کے گیٹ سے داخل ہوئے۔
جنازہ واقعی کسی بچّے کا ہی تھا لیکن جنازے میں شامل کسی شخص کی آنکھوں میں نمی نہیں تھی، کسی کے چہرے پر دکھ کا خفیف سا نشان تک نہ تھا جو عموماً کسی پیارے کی جدائی پر چہرے سے نمایاں ہوتاہے، وہ سب ایسے آئے تھے جیسے محض کوئی فرض ادا کرنے آئے ہوں جس میں انہیں مطلق کوئی دلچسپی نہ ہو۔ اس نے بھی کدال سنبھالی اور قبر کھودنے میں مصروف ہوگیا۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ من میں اندیشوں کے ناگ پھن پھیلائے کھڑے تھے، کہیں کوئی پہچا ن ہی نہ لے! کہیں مقتول بچّے کا جنازہ اٹھ کھڑا ہو اور پکار اٹھے، ”یہی ہے۔۔۔۔ یہی ہے میرا قاتل!!” لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، وہ قبر کھودتا رہا۔اس دوران سب نے نما ز ِجنازہ پڑھی اور قبر تیار ہونے کاانتظار کرنے لگے۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ آپس میں سرگوشیاں کررہے ہیں۔ اس نے کان لگا کر سننے کی کوشش کی لیکن آواز ، جیسے کہیں دور سے آ رہی تھی۔ اس نے سنا ،
”خدا جانے کس بدنصیب گھرانے کا بچّہ ہے۔ اس معصوم کی کسی سے کیا دشمنی ہوسکتی ہے؟ کون ظالم تھا جسے لمحہ بھر کے لیے بھی اس معصوم پر رحم نہ آیا ! اس کے ورثاء بے چارے کو تلاش کرتے پھر رہے ہوں گے۔ نہ جانے کون ہے، کہاں کا رہنے والا ہے؟ اتنی تلاش کے باوجود بے چارے کے ورثاء کا کوئی سراغ نہیں ملا۔“
وہ ان سب باتوں سے انجان بنا قبر کھودتا رہا۔ قبر کُھد کر تیار ہوگئی۔ لوگوں نے ہاتھوں پر سفید کفن میں لپٹی میّت اٹھائی۔ اس نے دیکھا کہ کفن پر خون کے دھبے لگے ہوئے تھے۔ جانے کیوں اُس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ جب وہ بچے کو لحد میں رکھنے لگے تو اس کا دل چاہا کہ وہ بھی بچّے کا چہرہ دیکھے۔ لوگوں کے کندھوں کے اوپر سے جھک کر وہ نیچے دیکھنے لگا، اور پھر وہ جیسے گھٹاٹوپ اندھیروں کی عمیق گہرا ئیوں میں ڈوبتا چلا گیا! اس کے نس نس میں تاریکیاں سما گئیں۔ موت کا زہریلا، کڑوا کیسلا ذائقہ اس کے حلق میں گھلنے لگا۔
گھر واپسی پر، راستے میں کئی بار وہ ٹریفک کی زد میں آتے آتے بچا۔ مُٹھّی میں دس دس روپئے کے تین نئے نکور ہرے ہرے نوٹ، مگر دوسرا ہاتھ آج کدال سے خالی تھا۔ اسے اپنا وجود بے حد بھاری محسوس ہو رہا تھا۔ جب وہ اپنی گلی میں داخل ہوا تو اپنی بیوی کوگھر کے باہر، دروازے پر اپنے انتظار میں بیٹھے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو جھِلملا رہے تھے۔ اسے آتا دیکھ کر وہ کھڑی ہوگئی، لیکن وہ اسی طرح ڈگمگاتے قدموں سے گھر کے اندر داخل ہوگیا۔ اس کی بیوی اس کے پیچھے دوڑتی چلی آئی اور سامنے آ کر بلک پڑی،
”مُنّا رات سے تمہاری تلاش میں نکلا ہوا ہے، میں نے بہت روکا، مگر مانا ہی نہیں۔
کہنے لگا، دیکھوں تو بابا کو پیسے ملے کہ نہیں۔ وہ تمہارے پاس پہنچا کہ نہیں ۔ ۔ ۔؟ “
وہ خاموش تھا، موت کی طرح۔
”تم، تم بولتے کیوں نہیں۔۔۔۔ کیوں نہیں بولتے ؟ تم رو کیوں رہے ہو؟ کیوں رو رہے ہو تم۔۔۔؟ تم کچھ بتاتے کیوں نہیں۔۔۔۔۔؟”
اس کی بیوی پاگلوں کی طرح دھاڑیں مارکر رونے لگی۔ دونوں بچےّ حیرانی سے اپنے ماں باپ کو دیکھ رہے تھے اور وہ۔۔۔۔ ایسے مجرم کی طرح سر جھکائے کھڑا تھا، جس میں اقبالِ جرم کا حوصلہ نہ ہو
”میرا مُنا کہاں ہے۔۔؟ “
اس کی بیوی نے اسے جھنجھوڑا۔
کوئی جواب دینے کے بجائے اس نے اپنی مُٹھّی سے تیس روپے نکالے اور اپنی بیوی کے پھیلے ہاتھوں پر رکھ دیے۔ اور خود اپنے چھوٹے بیٹے کو چھاتی سے لگا کر بچوں کی طرح پھُوٹ پھُوٹ کر رو دیا۔
****
تحریر : نورالہدی‛ شاہ
اردو ترجمہ : آکاش مغل
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...