تہذیبیں کبھی خالص و جامد یا مستقل وجود نہیں رکھتیں۔ وہ خود کو برقرار رکھنے کی کوشش میں مختلف نظریوں، ثقافتوں، فلسفوں، مذہبی بیانیوں کا ارتقائی چکر کاٹتی ہوئی آگے بڑھتی رہتی ہیں۔ارتقا کے ایسے ہی ایک سفر کا نام گرو نانک ہے، جو کسی جستجو اور کھوج کی آگ بجھانے نکلےتھے۔ کچھ ہاتھ نہ آیا تو وحدت الوجود پر ایمان لے آئے۔ جنوبی سندھ کے ضلع تھرپارکر، عمرکوٹ اور ہمسایہ علاقوں کے علاوہ سندھ میں بسنے والے تمامتر ہندو "نانک پنتھی" ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ دو صدی قبل کلہوڑو کے دور میں تھرپارکر کے علاقے سندھ کا حصہ بنے۔ نانک پنتھی ایک وسیع اصطلاح ہے، جو ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتی ہے، جو گرونانک کی تعلیمات کے پیروکار ہوتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی ثقافت، جغرافیہ اور رواجوں کے ماننے والے ہی کیوں نہ ہوں۔ وقت کے ساتھ سکھ ورثہ محدود ہوتاچلا گیا اور سکھ شناخت محض خالصہ سکھ تک محدود ہو گئی۔ گرونانک کے یہ پیروکاراپنے آپ کو صوفی ہندو کہلانا پسند کرتے ہیں۔ یہ دربار "بابا سروپ داس دربار" یا "دربار صاحبھالانی" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دربار ایسی عبادت گاہ کو کہتے ہیں جہاں ہم آہنگی کا یہ عالم ہو کہ گرونانک، بابا سری چند اور گرو گوبند سنگھ کے ساتھ ساتھ ہندو دیوی اور دیوتاؤں کی تصاویر اور مورتیاں بھی موجود ہوں۔
یہ دربار چاروں طرف سے بندہے اور اس کی چاردیواری میں تیس گھر بھی آتے ہیں، جو دربار ہی کی ملکیت شمار ہوتے ہیں۔ جب تالپوروں نے کلہوڑو کو سندھ سے نکال باہر کیا اور میر فتح علی خان تالپور کی سندھ پرحکومت قائم ہوئی تو میر فتح علی خاں تالپور نے دربار صاحب ھالانی کی گدی کو چار گدیوں میں تقسیم کر دیا۔ تیسری گدی کا پہلا گدی نشین بابا سنترین صاحب اداسین پنتھی تھے اور بر صغیرمیں ان کی شاعری اور اداسین ادب میں شہرت کی وجہ سے ھالانی مرکز کو مقبولیت ملی۔ یہ بھیبتاتی چلوں کہ تقسیم ہند کے بعد ایسا ہی ایک دربار راجستھان کے شہر اجمیر میں بھی قائم کیاگیا۔
اداسین قدیم سکھوں کا وہ ورثہ ہے جو برہم چاری (جنسی پرہیز گار) ہوتے ہیں وہ عبادت کواپنی زندگی کا اہم ترین مقصد اور دنیاوی معاملات سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ اداسین پنتھوں کے عبادات کے طور طریقے ہندو مذہب کے زیادہ مشابہ ہیں۔
آپ یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ گرونانک کی تعلیمات سندھ دھرتی پہ کیسے پہنچیں؟ اس سوال کے کئی جواب ہیں۔ پہلا، تمام جنم سکھی میں گرونانک کی سندھ میں آمد کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ گرونانک مرکزی ایشیاء کے سفرکے دوران شمالی سندھ میں شکارپور آئے اور اس کے بعد سندھ میں مزید آگے کی طرف بڑھ گئے۔اور یوں گرونانک کی تعلیمات کی سندھ میں شروعات ہوئیں۔
دوسرا، کہتے ہیں کہ سندھ میں سکھ ورثہ اداسین پنتھوں کی وجہ سے پھیلا۔ بابا سری چند، جوکہ گرونانک کے بڑے بیٹے اور اداسین پنتھ کے بانی بھی تھے، نے ٹھٹہ کے ایک علاقے کا دورہ کیا۔ان کی اس وقت کی یادگار کے طور پر آج بھی وہاں ایک دربار موجود ہے۔ ملکانی اپنی کتاب "دیسندھ سٹوری" میں لکھتے ہیں کہ باوا گروپت صاحب، جو گرونانک کی بارہویں نسل میں سے تھے،کا سندھی معاشرے میں گرونانک کے فلسفے کو فروغ دینے میں اہم کردار ہے۔ وہ بھی ایک اداسینپنتھی ہی تھے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سندھ میں صوفی ورثہ تین مذاہب کے سنگم سے جنم لے رہا تھا: اسلامکی رحمدلانہ روپ، ہندو مذہب کا لچک دار پہلو اور گرونانک کا نرم اور خوش مزاج سکھ ورثہ۔ لیکن ایک ہی جھٹکے میں اس کے بچوں کو مختلف جہانوں میں بھیج دیا گیا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...