خلافت راشدہ کے زمانے میں ہی سندھ پر عربوں کے حملے شروع ہو چکے تھے ۔
1۔۔۔۔۔۔عربوں کا پہلا حملہ تھانہ پر 15 ھج میں ہوا ۔تھانہ، گجرات اور کوکن بمبئ کی سرحد پر واقع ہے اور یہ علاقہ اس وقت سندھ کا حصہ تھا ۔حضرت عمر نے حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی(یہ صحابئ رسول اللہ تھے) کوبحرین اور عمان کا عامل مقرر کیا تھا، یہ کارروائی انہی کے بحری بیڑہ کی تھی،اس میں انہیں کامیابی ہوئی ۔عربوں کا یہ ہندوستان پر پہلا حملہ تھا ۔
2۔۔۔۔۔۔عربوں کا دوسرا حملہ بیک وقت گجرات اور دیبل پر ہوا ۔انہی عثمان بن ابی العاص نے اپنے دو بھائیوں کو دو بحری بیڑوں کا امیر بنا کر ان دو اطراف میں بھیجا ۔ایک بھائ مغیرہ بن العاص دیبل کی طرف آئے اور دوسرے بھائی حکم بن العاص، گجرات کی مشہور بندرگاہ بھروچ کی طرف آئے ۔
3۔۔۔۔۔۔تیسری مہم حضرت عثمان کے دور خلافت میں حکیم بن جبلہ العدوی کی سربراہی میں بھیجی گئی ۔
4۔۔۔۔۔۔سندھ پر خشکی کی طرف سے چوتھا حملہ حضرت علی کے دور خلافت میں 38 یا 39 ھج میں ہوا ۔فوج کے امیر حارث بن مرہ العبدی نے کیا، کامیاب ہوئے، یہ جنگ قیقان (قلات ) کے علاقے میں ہوئی، قیقان اس وقت سندھ کے شہروں میں سے ایک شہر تھا اور خراسان سے متصل تھا ۔
اس وقت سندھ کا حکمران چچ تھا ۔ چچ وہی تھا جس نے سمہ حکومت کا تختہ الٹا تھا ۔سمہ قبائل سندھ کے مقامی لوگ تھے ۔ سمہ قبائل کے "رائے خاندان "کی حکومت سندھ کی پہلی مقامی حکومت تھی، چچ ان کا فوجی افسر تھا، غیر ملکی کشمیری برھمن پنڈت تھا ۔
رائے خاندان نے 137 سال سندھ پر حکومت کی ۔ان کا آخری حکمران رائے ساہسی دوئم تھا ۔چچ اس کا وزیر اور فوجی افسر تھا ۔راجہ کی بیوی سوہندی اور چچ کے گہرے تعلقات تھے ۔ساہسی کے انتقال کے بعد چچ نے راجہ کی بیوہ سے شادی کر لی اور حکومت پر قابض ہو گیا ۔"چچ نامہ "اور "تحفتہ الکرام " کے مطابق یہ 622ء کا واقعہ ہے ۔یعنی جس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اسی سال سندھ میں اقتدار کی یہ تبدیلی عمل میں آئ ۔
چچ نے 40 سال سندھ پر حکومت کی اور 40 ھج/660ء میں اس کا انتقال ہوا ۔اسی کے دور اقتدار میں عربوں کے مذکورہ بالا چار حملے ہوئے۔
یہ حملے کیوں ہوئے؟
دو اسباب بتائے جاتے ہیں ۔ایک تو یہ کہ خراسان اور سیستان وغیرہ کی فتح کے بعد عربوں کے علاقے، سندھیوں کے علاقوں سے مل گئے تھے ۔ جب سرحدوں کا اتصال ہوتا ہے تو اس طرح کے حملے دفاع کے لئے ضروری سمجھے جاتے تھے ۔
دوسرا سبب یہ تھا کہ سندھی مید، جنہیں بحری قزاق کہا جاتا ہے بحیرہ عرب کے ساحلی علاقوں میں گشت اور لوٹ مار کیا کرتے تھے ۔جبکہ یہی علاقہ عرب تاجروں کی گزر گاہ تھا ۔۔۔لہذا ان علاقوں سے ان قزاقوں کا زور توڑنے کے لئے بحری حملے کئے گئے ۔
خشکی سے کئے جانے والے حملوں کا ایک بڑا سبب سندہ کے حالات سے آگاہ ہونا بھی تھا ۔جیسا کہ حکیم بن جبلہ العدوی کی مہم کا واحد مقصد یہی تھا، اور یہ چوکسی بہت ضروری تھی ۔بلاذری، فتوح البلدان میں یہ دلچسپ واقعہ لکھتا ہے کہ حکیم بن جبلہ اپنی مہم سے حضرت عثمان کو آگاہ کرنے گئے تو ان کے درمیان یہ مکالمہ ہوا:
حضرت عثمان: اس ملک کا کیا حال ہے؟
حکیم: امیر المومنیں میں نے اس ملک کو گھوم پھر کر اچھی طرح دیکھ لیا ہے ۔
حضرت عثمان : مجھ سے اس کی کیفیت بیان کرو ۔
حکیم : پانی کم۔۔۔پھل ردی۔۔۔چور بے باک ۔۔۔لشکر کم ہو تو ضائع ہو جائے گا، زیادہ ہو تو بھوکوں مرے گا ۔
حضرت عثمان : خبر دے رہے ہو یا سجع کہ رہے ہو؟(یعنی لفاظی کر رہے ہو )
حکیم : امیر المومنیں خبر دے رہا ہوں
ماخذ: 1۔فتوح البلدان ۔۔از بلاذری 2۔چچ نامہ 3۔تحفتہ الکرام ۔
چچ کا انتقال 40 ھج میں ہو چکا تھا، اس کے بعد اس کا بھائی چندر حکمران ہوا۔یہ بدھ مت کا پیرو کار تھا۔اس وقت سندھ میں عام آبادی بدھوں کی تھی جبکہ اعیان سلطنت زیادہ تر ہندو تھے ۔ چندر سات سال حکومت کر کے مر گیا، اس کے زمانے میں سندھ پر ایک نئی سمت سے حملہ ہوا ۔یہ امیر معاویہ کا دور خلافت تھا ۔44ھج میں مہلب بن ابی صفرہ درہ خیبر کی طرف سے سندھ میں داخل ہوئے ۔ملتان اور کابل کے درمیانی علاقوں میں سخت معرکہ آرائی ہوئ۔
سندھ کی طرف سے چونکہ سرحدی علاقوں میں بار بار سرکشی کی جاتی تھی اس لئے اب خلافت اسلامیہ کی طرف سے ایک عامل صرف مکران اور سرحد سندھ کے لئے مقرر کیا جانے لگا تاکہ ان علاقوں کی بار بار کی شرانگیزی کو روکا جا سکے ۔
راجہ چندر کے مرنے پر شمالی سندھ کے علاقوں پر چچ کا چھوٹا لڑکا داہر قابض ہو گیا جبکہ جنوبی سندھ پر مرنے والے راجہ چندر کا بیٹا راج حکمران ہو گیا ۔داہر کا پائیہ تخت الور تھا، جو رائے خاندان کے زما نے سے سندھ کا دارلحکومت چلا آ رہا تھا اور راجہ راج کا پائیہ تخت برہمن آباد تھا ۔ایک سال بعد ہی راج کا انتقال ہو گیا تو اس کی ریاست پر داھر کے بڑے بھائ دھر نے قبضہ کر لیا ۔داہر نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا ۔دھر 52 ھج میں انتقال کر گیا تو راجہ داہر نے دھر کی بیوہ سے شادی کر لی اور یوں اپنے بھائی کے علاقوں پر بھی قابض ہو گیا ۔
چچ کی ایک روایت کے مطابق داہر نے ایک شادی اپنی بہن رانی بائ سے بھی کی تھی۔اس حوالےسے چچ نامہ میں یہ واقعہ آیا ہے کہ ایک موقع پر راجہ داہر نے نجومیوں سے زائچے بنوائے تو نجومی نے اسے بتایا کہ آپ کی سلطنت میں امن رہے گا البتہ آپ کی بہن کا ستارہ عروج پر ہے، جو شخص آپ کی بہن سے شادی کرے گا وہ سندھ کا راجہ ہو سکتا ہے ۔یہ سن کر داہر پریشان ہوا، اس کے ایک وزیر نے مشورہ دیا کہ لوگ راج کے لئے اپنے باپ بھائی کو قتل کر ڈالتے ہیں تو آپ نے اگر اپنی بہن پر چادر ڈال دی(یعنی اس سے شادی کر لی )تو یہ کون سی بڑی بات ہو گی ۔ لہذا اپنے مشیروں اور معتمدین کو راضی کر کے اس نے رانی بائ سے شادی کر لی ۔
راجہ داہر کے زمانے کا سندھ وہ نہیں تھا جیسا آج پاکستانی سندھ ہے بلکہ یہ ایک وسیع و عریض ریاست تھی ۔ شمال میں دریائے جہلم کا منبع جس میں کشمیر کے کچھ نشیبی اضلاع شامل تھے اور کابل کا پہاڑی سلسلہ اس کی حد بندی کرتا تھا جو شمال مغرب میں دریائے ہلمند پر جا کر ختم ہوتا تھا ۔جنوب مغرب میں اس کی حد وہاں تک تھی جہاں مکران کا جزیرہ منشور واقع ہے ۔یعنی مکران کا کوسٹل ایریا بھی سندھ کی عملداری میں تھا ۔جنوب کی طرف بحیرہ عرب، خلیج کچھ ۔اور مشرق میں راجپوتانہ اور جیسلمیر کی سرحدیں ملتی تھیں۔
گویا تمام شمال مغربی علاقہ(موجودہ کے پی کے )۔۔۔ پنجاب ۔۔۔افغانستان کا وہ علاقہ جو دریائے ہلمند تک ہے۔۔۔سارا موجودہ بلوچستان ۔۔۔۔موجودہ سندھ ۔۔۔اور جودھ پور کی سرحد تک کا کچھ علاقہ راجہ داہر کا "سندھ " تھا ۔اور الور اس کا پائیہ تخت تھا ۔
ادھر 44 ھج کے بعد سندھ پر عربوں نے کوئی حملہ نہیں کیا ۔ لیکن جب حجاج بن یوسف عراقین(کوفہ+بصرہ) کے ساتھ ساتھ مشرقی اضلاع کا بھی گورنر مقرر کیا گیا تو اس کے زیر انتظام علاقوں کا سندھ سے سرحدی اتصال قائم ہوا ۔ عبدالملک بن مروان نے حجاج کو 75ھج میں عراق کا گورنر مقرر کیا ۔اس وقت اس کی عمر 33 سال تھی۔اس کے تین سال بعد مشرقی اضلاع بھی جن میں خراسان،سیستان،آور کرمان کے علاقے شامل تھے اسی کی گورنری کے تحت کر دئیے گئے(الکامل ابن اثیر جلد 4،ص 448)
بعد میں پے در پے ایسے واقعات رونما ہوئے جس کے نتیجے میں حجاج کو سندھ پر باقاعدہ لشکر کشی کا فیصلہ کرنا پڑا ۔پہلا واقعہ تو یہ تھا کہ عبد الرحمن بن محمد بن اشعث نے حجاج کے خلاف بغاوت کی، یہ انتہائی خوفناک بغاوت تھی جس کے نتیجے میں حجاج کی عراق کی حکومت ختم ہو گئ، عراق پر ابن اشعث اور باغیوں کا قبضہ ہو گیا، حجاج اپنی فوج لئے کوفہ سے باہر پڑا رہ گیا ۔یہ صورت حال پونے تین سال تک رہی، اس دوران حجاج اور ابن اشعث کی فوجوں میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا ۔بالآخر حجاج بن یوسف نے آخری فیصلہ کن جنگ کی تیاری کی، یہ معرکہ دیر جماجم کے نام سے 82 ھج میں لڑا گیا ۔یہ جنگ اسلامی تاریخ کی چند فیصلہ کن جنگوں میں سے ایک تھی ۔ابن اشعث کو شکست ہوئی، وہ والئ رتبیل کی طرف فرار ہو گیا ۔۔۔۔اہل عراق نے حجاج سے امان مانگ لی، عام شہریوں کو امان دے دی گئی، البتہ وہ باغی جنہیں اپنی جاں بخشی کا یقین نہیں تھا مملکت میں ادھر ادھر روپوش ہو گئے ۔بہت سے باغی راجہ داہر کے علاقوں میں آ گئے ۔یہ اکا دکا لوگ نہیں تھے ان کی تعداد ہزاروں میں تھی ۔راجہ داہر فرار ہو کر آنے والوں کو پناہ دے رہا تھا ۔انہی میں ایک مشہور عرب سردار حارث علافی کا بیٹا محمد علافی بھی شامل تھا،وہ اپنے 500 ساتھیوں کو لے کر عمان کے راستے سندھ پہنچا اور دریائے سندھ کے کنارے مقیم ہو گیا ۔ایک موقع پر محمد علافی اور اس کے ساتھیوں نے راجہ داہر کے لئے اہم نوعیت کی فوجی خدمت انجام دی تو داہر نے خوش ہو کر سرحد مکران کے قریب ایک علاقہ ان لوگوں کو مستقل قیام کے لئے دے دیا(تاریخ سندھ،سید ابو ظفر ندوی، ص۔42)
سرحد مکران پر علافی اور اس کے ساتھیوں کو بسا کر راجہ داہر نے گویا انہیں اس طرف سرحدوں کا محافظ بنا دیا ۔ان دنوں سعید بن اسلم بن زرعہ کلابی ۔۔۔حجاج بن یوسف کی طرف سے مکران اور سرحد سندھ کا والی تھا( فتوح البلدان، بلاذری، 423) ۔محمد علافی اور اس کے ساتھی ایک موقع پر اتنے جری ہو گئے کہ سعید کے علاقوں میں تاخت کی اور اسے قتل کر دیا ۔ اس واقعہ کی خبر حجاج کو ہوئ تو اس نے عرب علاقے میں موجود علافی قبیلے کے سردار سلیمان علافی کو گرفتار کر لیا اور زور دیا کہ قصاص کے لئے محمد علافی کوپیش کرے ورنہ وہ قتل کر دیا جائے گا ۔۔۔ظاہر ہے محمد علافی کو پیش نہیں کیا جا سکتا تھا لہذا سلیمان علافی کو قتل کر دیا گیا ۔
دوسری طرف مجاعہ بن سحر تمیمی کو سرحد سندھ اور مکران کا عامل بنا کر بھیج دیا ۔
سلیمان علافی کے قتل سے محمدعلافی اور اس کے ساتھی سمجھ گئے کہ معاملہ سنگین رخ اختیار کر گیا ہے لہذا وہ سب مکران خالی کر کے سندھ کے اندرونی علاقے میں چلے گئے اور داہر کے زیر سایہ پر امن زندگی بسر کرنے لگے۔(ندوی بحوالہ چچ نامہ قلمی ص 38)
راجہ داہر کا حکومت اسلامیہ کے باغیوں کو پناہ دینا ایک ایسا معاملہ تھا جسے حجاج نظر انداز نہیں کر سکتا تھا ۔
راجہ داہر کا اسلامی حکومت کے باغیوں کو پناہ دینا ایک ایسا معاملہ تھا جسے حجاج نظر انداز نہیں کر سکتا تھا، اس نے راجہ داہر سے اپنے باغیوں کو طلب کیا لیکن اسے کامیابی نہیں ہوئی ۔
پھر ولید بن عبدالملک کے دور میں وہ مشہور واقعہ پیش آ گیا جس کے نتیجے میں سندھ فتح ہو گیا ۔
عرب قدیم زمانے سے تاجر رہے ہیں، اسلام سے قبل بھی ان عربوں کے جنوبی ہند سے تجارتی تعلقات تھے، جنوبی ہند کی بندرگاہیں ان کے تجارتی جہازوں کی آمد و رفت سے پر رونق رہتی تھیں بلکہ ان علاقوں میں عربوں کی نو آبادیاں بھی قائم تھیں ۔
عرب تاجروں کا روٹ یہ تھا: عربوں کی تجارتی کشتیاں ابلہ( الف پر پیش، ل پر تشدید ) ،جدہ یا عدن کی بندرگاہوں سے روانہ ہو کر خلیج فارس ( جسے عرب خلیج عرب کہتے ہیں ) سے گزر کربحیرہ عرب میں داخل ہوتی تھیں ۔پھر موجودہ مکران، گوادر اور کراچی( جو اس وقت دیبل کہلاتا تھا ) سے گزرتے ہوئے مزید جنوب میں سفر کرتے ہوئے بحیرہ ہند میں داخل ہو جاتے تھے اور جنوبی ہند کی بندرگاہوں مثلا منگلور۔۔۔۔،کالی کٹ۔۔۔۔۔معبر(کارومنڈل )۔۔۔پر لنگر انداز ہوتے تھے، کچھ تاجر لنکا( موجودہ سیلون یا سری لنکا ) اور مالدیپ بھی جاتے، وہاں خرید و فروخت کرتے،بعض تاجر اس سے بھی آگے چین تک جاتے تھے، اس کے لئے وہ خلیج بنگال کے قریب سے گزرتے تھے ۔یہ عرب تاجر چین سے ریشمی کپڑے خریدتے تھے ۔۔۔جنوبی ہند سے لکڑیاں اور گرم مصالحہ خریدتے تھے، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ خرید و فروخت کرتے تھے ۔ان تاجروں کی ہر جگہ اپنی کالونیاں تھیں۔جنوبی ہند میں بھی، لنکا میں بھی اور چین میں بھی۔کیونکہ ان تاجروں کو ان مقامات پر کئ کئ ماہ رہنا پڑتا تھا ۔بعض تاجر مقامی عورتوں سے شادی بھی کر لیتے تھے ۔
لنکا یا ایک اور روایت کے مطابق مالدیپ سے ایک تجارتی کشتی عرب کے لئے روانہ ہو ئ ۔اس میں عرب تاجروں کے علاوہ، وہاں انتقال کر جانے والے عرب تاجروں کے بیوی بچے بھی سوار ہوئے، خلیفہ ولید بن عبدالملک کا عہد تھا ۔مسلمانوں کی فتوحات، استحکام ریاست اور خوشحالی کا شہرہ دور دور تک پہنچ چکا تھا ۔مالدیپ کا راجہ بھی مسلمان خلیفہ سے خوشگوار تعلقات کا خواہاں تھا لہذا اس نے ولید اور حجاج کے لئے خیر سگالی کے جذبات کے طور پر تحائف بھی ساتھ بھجوا دئے ۔اس کشتی نے مالدیپ سے روانہ ہو کر بحیرہ ہند میں اپنا سفر شروع کیا، شمال مغرب کی طرف آگے بڑھتے ہوئے جب یہ سندھ کے سواحل میں دیبل کے قریب پہنچے تو "میدوں" نے جو جنگی کشتیوں میں سوار تھے جنہیں "بوارج" کہتے ہیں، عرب تاجروں کی کشتی کو لوٹ لیا، تاجروں، عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا ۔
لغت عرب میں ایسے لوگوں کو جو کشتی رانی کے فن میں طاق، سمندر کے احوال اور راستوں سے خوب واقف ہوں"مید" کہتے ہیں ۔سواحل سندھ سے خلیج فارس تک کئ خانہ بدوش قومیں آباد تھیں جن کے مرد اکثر ملاح اور جہاز راں تھے، یہ اپنی کشتیوں میں، جنہیں بوارج کہتے ہیں، منڈلاتے پھرتے ،ساحلی بستیوں اور دریا میں لوٹ مار کرتے ۔ابو الخیر مودودی "فتوح البلدان "کا ترجمہ کرتے ہوئے حاشئے میں یہ دلچسپ جملہ لکھتے ہیں "مید کے لفظ میں ڈاکو کا مفہوم ہندوستان کا عطیہ ہے " (دیکھئے ترجمہ فتوح البلدان، حاشیہ صفحہ 615،جلد دوئم،نفیس اکیڈمی، کراچی 1962)
اس کی خبر حجاج کو ہوئ تو اس نے فورا داہر کو لکھا کہ تمام تاجروں، عورتوں بچوں کو ان کے اسباب سمیت واپس بھجوایا جائے ۔داہر نے جواب دیا کہ یہ میدوں کی کارروائیاں ہیں جن پر میرا کوئی زور نہیں ۔
اس پر حجاج نے فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا، ولید سے اجازت لینے کے بعد اس نے ایک مہم عبید اللہ بن نبہان کی سرکردگی میں خشکی کے راستے بھیجی، مہم ناکام رہی،عبید اللہ شہید ہوئے، باقی فوج واپس آ گئ ۔
حجاج نے دوسری مہم بدیل بن طہفتہ البجلی کی سرکردگی میں خشکی کے راستے بھیجی، یہ مہم بھی ناکام ہوئ، بدیل شہید ہوئے اور فوج واپس آ گئ ۔
ان مہمات سے حجاج نے سمجھا یہ محض سمندری ڈاکوؤں سے مقابلہ نہیں ہے بلکہ ریاستی فوج سے مقابلہ ہے ۔لہذا اس نے تیاری کے بعد تیسری مہم محمد بن قاسم کی سرکردگی میں خشکی اور بحری دونوں راستوں سے روانہ کی جس کے ہاتھوں پورا سندھ فتح ہو گیا ۔
ابتدائی دو مہمات کی ناکامی نے حجاج کو معاملے کی نزاکت سمجھا دی ۔اس نے تیسری مہم محمد بن قاسم کی سرکردگی میں خشکی کے راستے بھیجی اور اس کی مدد کے لئے 6 ہزار فوج بحری راستے سے دیبل کی طرف روانہ کی ۔
محمد بن قاسم اس وقت فارس کا والی تھا، اور شیراز میں مقیم تھا ۔حجاج نے 6ہزار کی فوج پوری تیاری کے ساتھ اس کی طرف بھجوائ جسے لے کر محمد مکران کے راستے سندھ پر حملہ آور ہوا ۔حجاج نے جو بحری بیڑہ روانہ کیا تھا اس میں 5 منجنیقیں، رسد، اسلحہ اور مزید فوج تھی ( فتوح البلدان، ص،423)
یہ کہنا کہ محمد بن قاسم اس وقت 17سال کا نوجوان تھا، درست نہیں ۔حالانکہ یہ بات این۔اے۔بلوچ صاحب نے اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں مقالہ"سندھ" کے تحت لکھی ہے اور آئ ۔ایچ قریشی نے بھی Evolution of Muslim community in Indo Pak میں لکھی ہے، لیکن واقعتا ایسا ممکن نہیں کیونکہ اسے پانچ چھ سال پہلے حجاج نے فارس کا والی مقرر کیا تھا،اس کا مطلب یہ کہ 12 سال کے بچے کو فارس کا والی بنا دیا گیا حالانکہ فارس اس زمانے میں قبائل کی حکومت مخالف بغاوتوں کی وجہ سے ایک مشکل صوبہ تھا ۔
بہرحال محمد مکران کی طرف سے سندھ میں داخل ہوا اور قنزبور(پنجگور ) فتح کر لیا۔یہ مکران کا سب سے بڑا شہر تھا ۔اس کے بعد ارمائیل(ارمن بیلہ) فتح کیا اور دیبل تک بغیر کسی بڑی جنگ کے پہنچ گیا ۔ یہاں وہ بحری بیڑہ بھی پہنچ گیا جسے حجاج نے روانہ کیا تھا ۔
دیول جسے عربوں نے معرب کر کے دیبل کر دیا، ان دنوں مغربی سندھ کا سب سے مشہور شہر تھا ۔یہ بڑی قدیم بندرگاہ تھی۔ایران،عراق،عرب اور افریقہ کے تجارتی جہاز یہاں سے ہو کر گزرتے تھے، دیبل کے لوگ قلعہ بند ہو کر لڑے،چند ماہ کے محاصرے کے بعد دیبل فتح ہو گیا ۔محمد نے یہاں شہر کا انتظام کیا ۔۔۔ایک مسجد بنوائ ۔۔۔چار ہزار مسلمانوں کو یہاں آباد کیا، اس آباد کاری کے لئے یہاں زمین کی پیمائش کرائ اور یہ قطعات انہی مسلمان آباد کاروں میں تقسیم کئے ۔اس قلعے کی باقیات ۔۔۔۔مسجد کے آثار آج بھی بھنبھور میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔
دیبل میں اتنظامات سے فارغ ہو کر محمد نیرون(بیرون)پہنچا۔( تاریخ یعقوبی، جلد 2 صفحہ 298 ،اردو ترجمہ ) حاکم نیرون بھدرکن، بدھ مت کا پیرو کار تھا، وہ پہلے ہی حجاج کے پاس ایک وفد بھیج کر صلح کی بات چیت کر چکا تھا، اور جزیہ کی ادائیگی پر آمادگی ظاہر کر چکا تھا( ابو ظفر ندوی، تاریخ سندھ صفحہ 42،بحوالہ چچ نامہ قلمی ص 40) ۔لہذا نیرون بغیر جنگ کے فتح ہو گیا ۔یہ شہر دیبل سے 75 میل کے فاصلے پر واقع تھا۔بعض کا خیال ہے کہ موجودہ شہر حیدرآباد اسی مقام پر آباد ہے ۔
اس کے بعد محمد سیہوان پہنچا، نیرون کا بدھ حاکم راہنمائ کے لئے محمد کے ساتھ تھا ۔سیہون کی اکثریت بھی بدہسٹ تھی، جلد ہی یہ قلعہ بھی فتح ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی گرد و نواح کے کئ چھوٹے شہر بھی فتح ہو گئے ۔
محمد کی پے در پے پیش قدمیوں پر راجہ داہر آگے بڑھ کر قلعہ راور میں مقیم ہوا ۔یہیں محمد اور داہر کے درمیان فیصلہ کن جنگ ہوئ۔یہ جنگ یکم رمضان 93 ھج سے 10 رمضان تک جاری رہی، اس دس روزہ جنگ میں داہر کو شکست ہوئی اور راور کا قلعہ فتح ہو گیا ۔یہاں داہر کی بیوی رانی بائ بھی تھی جو دراصل اس کی بہن تھی،اس نے گرفتاری کے خوف سے خود کو آگ لگا لی اور جل کر مر گئ(تاریخ سندھ، ندوی، ص 42)
چچ نامہ کی روایت ہے کہ رانی بائ کی بیٹی جو حسن و جمال میں بے نظیر تھی، گرفتار ہوئ۔محمد نے مال غنیمت کے خمس کے ساتھ اسے بھی دمشق بھجوا دیا۔ولید بن عبدالملک نے اسے اپنے لئے مخصوص کرنا چاہا لیکن پھر عبد اللہ بن عباس نے کی درخواست پر انہیں دے دی گئی، وہ عرصہ تک ابن عباس کے پاس رہی ۔(چچ نامہ قلمی ،صفحہ 83)
چچ نامہ کی یہ روایت گمراہ کن ہے،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائ عبد اللہ بن عباس کا انتقال 71 برس کی عمر میں 68 ھج میں طائف میں ہو چکا تھا ۔
راجہ داہر کا بیٹا جے سنگھ جو راور کے معرکہ میں شریک تھا، وہ شکست کے بعد برہمن آباد چلا گیا اور اپنی قوت کو مجتمع کرنے کرنے لگا ۔محمد قلعہ بہرور اور دہلیلہ فتح کرتا ہوا برہمن آباد پہنچ گیا ۔یہاں پہنچنے سے قبل ہی داہر کے وزیر سی ساکر نے وہ عرب قیدی عورتیں اور بچے محمد کی خدمت میں پیش کر دئے جن کی رہائی کے لیے یہ جنگی کارروائی شروع ہوئ تھی ۔ان سب کو دارلحکومت بھجوا کر محمد برہمن آباد پہنچ گیا ۔راجہ داہر کا وزیر سی ساکر اب محمد کے ساتھ تھا اور محمد جنگی کارروائیوں میں اس سے حسب ضرورت مشورہ بھی کرتا تھا ۔6 ماہ کے طویل محاصرے کے بعد برھمن آباد فتح ہو گیا ۔
راجہ داہر کی ہلاکت کے بعد بظاہر محمد کا سندھ پر قبضہ ہو گیا تھا لیکن ابھی بہرحال الور (ارور)باقی تھا، جو داہر کی سلطنت کا پائیہ تخت تھا، اس پر قابض ہوئے بغیر سندھ کی فتوحات مکمل نہیں ہو سکتی تھیں ۔یہاں راجہ داہر کا بیٹا گوپی موجود تھا اور اس نے راجہ داہر کی ہلاکت کی خبر پائیہ تخت میں نہیں پھیلنے دی تھی ۔
الور کی طرف پیش قدمی سے قبل محمد بن قاسم نے اب تک کے مفتوحہ علاقوں کی طرف مزید فوجی دستے روانہ کئے تاکہ اپنی پشت کو محفوظ کیا جائے ۔
الور(اروڑ/ ارور ) راجہ داہر کے عہد میں سندھ کا سب سے بڑا شہر اور پائیہ تخت تھا ۔عربوں کی فتح کے وقت، ایک اندازے کے مطابق، اسے قائم ہوئے پانچ چھ سو سال ہو چکے تھے(دیکھئے:دی گزیٹئر آف ویسٹ پاکستان، ص326،لاہور،1968)
یہ شہر پہاڑی پر بسایا گیا تھا، وسعت میں ملتان کے برابر تھا،،شہر کے گرد فصیل تھی، جس کی حفاظت دوہری دیواریں کر رہی تھیں، محمد نے شہر کا محاصرہ کیا جو کئ ماہ جاری رہا۔محاصرے نے طول کھینچا تو داہر کا بیٹا گوپی اپنے خاندان کو لے کر کیرج کی طرف نکل گیا، اس کے بعد اہل شہر نے دو شرائط پر شہر محمد کے حوالے کر دیا ۔پہلی شرط تو یہ تھی کہ اہل شہر کو امان ہو گی، وہ قتل نہیں کیے جائیں گے اور دوسری شرط یہ تھی کہ ان کی عبادت گاہوں(بدھ وہاروں ) کو مسمار نہیں کیا جائے گا ۔ محمد نے شرائط مان لیئے اور اہل شہر نے شہر اسلامی فوج کے حوالے کر دیا ۔محمد بن قاسم نے یہاں جو مسجد بنوائی اس کے آثار میں نے 2005میں دیکھے تھے ۔
محمد بن قاسم نے الور کے انتظامات کرنے کے بعد ملتان کا قصد کیا اور اسے بھی فتح کر لیا ۔یہ فتوحات بڑی سرعت سے ہوئیں اور دو ،ڈھائی سال میں سارا سندھ و ملتان فتح ہو گیا ۔اس میں ایک طرف تو محمد کا تدبر اور حکمت کام کر رہی تھی ۔محمد نے ہر جگہ طاقت کا استعمال نہیں کیا بلکہ حکمت اور دانشمندی کے ساتھ اس نے مقامی بدھ حکام کو ان کے سابقہ عہدوں پر برقرار رکھنے کی پالیسی اختیار کی، اس سے ہندو راجہ داہر کو چھوڑ کر یہ بدھ حکمران محمد سے ملنے لگے ۔
یہاں اس بات کی وضاحت ہو جائے تو اچھا ہے کہ چچ کے برسراقتدار آنے سے سندھی معاشرہ مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہو گیا تھا ۔سندھی زیادہ تر بدھ مت سے تعلق رکھتے تھے جبکہ چچ ہندو برہمن تھا ۔ جب وہ برسر اقتدار آیا تو ہندو مت کو پھیلانے کے لئے تعدیبی حربے بھی استعمال کیئے اور لوگوں کو متنفر کیا ۔ لہذا انہوں نے داہر کے مقابلے میں محمد کا ساتھ دیا ۔اس کے مشیر اور مخبر بن گئے یوں محمد کے لئے یہاں کی فضا مزید فتوحات حاصل کرنے کے لئے بڑی ساز گار ثابت ہو ئ ۔
اس کے علاوہ ایک نفسیاتی فضا بھی بن چکی تھی ۔یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمانوں کی حکومت انتہائی عروج پر تھی،ان کی فتوحات چاروں سمت میں جاری تھیں ۔طارق بن زیاد اور موسی بن نصیر اندلس میں فتوحات حاصل کر رہے تھے ۔۔۔قتیبہ بن مسلم باہلی ،ماورالنہر کی فتوحات میں مصروف تھا ۔۔۔محمد بن قاسم اسی عرصے میں سندھ اور ملتان کو فتح کر چکا تھا، اور سرحدات شام پر سالانہ بنیادوں پر رومیوں سے جنگیں جاری تھیں ۔
یہاں محمد کے زمانے میں جو چار ہزار عرب خاندان آباد کئے گئے، اس کے بعد مختلف زمانوں میں کئ عرب خاندان جن کا تعلق قریش ۔۔۔کلب۔۔۔تمیم۔۔۔اسد اور بنو ثقیف وغیرہ سے تھا، ان علاقوں میں آتے اور آباد ہوتے رہے، ان کی وجہ سے سندھ میں مسلسل اسلام پھیلنا شروع ہوا، اورچند سو سال میں سندھ مسلم اکثریتی علاقہ بن چکا تھا ۔
“