سندھ سے ھندوؤں کی نقل مکانی کا سب سے بڑا سبب برصغیر کے بٹوارے سے پہلے سندھ میں مسجد منزل گاہ کے فسادات تھے۔ ان فسادات کے نتیجے میں ھونے والے بٹوارے کے بعد سندھ سے شاہ عبد الطیف ' سچل اور سامی کے شارح اور ان کے رسائل مرتب کرنے والے بڑے لوگ سندھ چھوڑ کر چلے گئے۔ جن میں ڈاکٹر گربخشانی ' کلیان آڈوانی ' لعل چند امر ڈنو مل ' جیٹھ مل پرسرام ' بھیرومل مہرچند آوانی ' ٹی ایل واسوانی اور کئی تھے۔
مسجد منزل گاہ پر برپا ھوئے فسادات سندھ کی امن والی دھرتی اور سندھیوں میں مذھبی رواداری کے لیے بڑا المیہ ھیں۔ یہ فسادات صوفیا کی سرزمین پر کسی بدنما داغ اور کلنک کے ٹیکے سے کم نہیں لیکن تاریخ کا سچ یہی ھے کہ؛ سندھ میں پاکستان بننے سے نو برس پہلے مذھب کے نام پر فسادات ھوئے تھے اور ایک رات میں ایک سو لوگوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ سندھ میں یہ خونریزی کا واقعہ مسجد منزل گاہ کے نام سے مشہور ھے۔ جس میں پیروں ' گدی نشینوں اور سیاست دانوں پر مشتمل اشرافیہ کے ھاتھ رنگے ھیں۔
سنہ 1939 میں سکھر کی ایک لاکھ آبادی میں ساٹھ ھزار ھندو اور چالیس ھزار مسلمان تھے۔ آبادی اس طرح تھی کہ دریا کے کنارے تو کل ھندو آباد تھےاور مسجد منزل گاہ کے مقابل دریا کے بیچ میں ایک چھوٹا سا جزیرہ ھے۔ جس میں ھندوؤں کا ایک مندر ھے۔ جس کو سادھ بیلا کہتے ھیں۔
مسجد منزل گاہ کے گرد مسلمانوں کی کوئی آبادی نہ تھی۔ سکھر میں مسلمان سیاسی ' معاشی اور اقتصادی طور پر کمزور تھے۔ جبکہ ھندو سیاسی ' معاشی اور اقتصادی طور پر نہ صرف یہ کہ خوش حال بلکہ زندگی کے تمام شعبوں پر اثر انداز تھے۔
انگریزوں نے مسجد منزل گاہ کو تالا لگوا دیا تھا۔ 1939 میں جب خان بہادر ﷲ بخش سومرو سندھ مسلم لیگ کو شکست دے کر برسراقتدار آئے تو مسلم لیگیوں نے مسجد منزل گاہ کی واگزاری کے مسئلہ کو تحریک بناکر سیاسی حربہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ تا کہ خان بہادر ﷲ بخش سومرو کو پچھاڑا جا سکے۔ چنامسلم لیگ کے عزم اور پروگرام کے مطابق جب مسلمانوں میں تحریک نے زور پکڑا اور مسجد کے تقدس وحرمت کے جذباتی مسئلہ کی وجہ سے معاملہ بڑھ گیا تو مقابلہ میں ھندوؤں میں بھی جوابی کارروائی کے لیے تیاریاں شروع ھوئیں۔
مسجد منزل گاہ کے متعلق ھندوؤں نے یہ دعوی کردیا کہ؛ یہ عمارت سرے سے مسلمانوں کی مسجد ھی نہیں ھے۔ اگر اس کو واگزار کیا گیا تو الٹا مسلمان غنڈوں کا مرکز بنے گا اور ھماری جو بہو بیٹیاں مسجد سے متصل ساحل سے چل کر سادھ بیلے کے تیرتھ پر جاتی ھیں۔ اُن سے چھیڑ چھاڑ کی جائے گی۔ جس سے ھماری بے آبروئی کا شدید خطرہ ھے۔
مسجد منزل گاہ کے فسادات کے ایک بڑے کردار جی ایم سیّد اپنی کتاب "دی کیس آف سندھ" میں صفحہ 27 پر لکھتے ھیں کہ؛ سکھر میں ایک پرانی بوسیدہ عمارت تھی جس کو مسلمان مسجد منزل گاہ کے نام سے پکارتے تھے۔ اس پر اپنا قبضہ کرنے کے لیے شکارپور اور سکھر کے وفود نے اُس وقت کے وزیراعلیٰ اللہ بخش سومرو سے ملاقات کی جنہوں نے جمعیت علمائے سندھ کے کچھ رھنماؤں کو زمینی جائزہ لینے کے لیے مقرر کرکے رپورٹ منگوائی۔ اس رپورٹ میں مسجد ھونے کی تصدیق ھوئی تو وھاں کی مقامی ھندو برادری نے اعتراض کیا کہ؛ اس جگہ کے سامنے ھماری مذھبی عبادت گاہ ھے۔ یہاں سے مسلمان ھماری عورتوں کے گھوریں گے۔
وہ آگے لکھتے ھیں کہ؛ اللہ بخش سومرو اس حوالے سے کسی نیتجہ پر نہیں پہنچے تو مسلم لیگ نے فیصلہ کیا کہ؛ اس مسئلے کو اپنے ھاتھوں میں اٹھایا جائے۔ جس کے بعد ستیہ گرہ کا فیصلہ کیا گیا۔ جس میں بھرچونڈی کے پیر عبدالرحمان نے اپنے مریدوں کے ساتھ حصہ لیا۔ لیکن اللہ بخش سرکار نے ایک آرڈیننس کی منظوری دی جس میں مقدمہ چلائے بغیر کسی کو بھی جیل بھیجا سکے۔ نتیجے میں احتجاج کرنے والے ساڑھے تین ھزار لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔
جی ایم سیّد لکھتے ھیں کہ؛ مجھے کانگریس میں رھنے کا تجربہ تھا۔ میں نے اس معاملے کو توھین سمجھا۔ جب تحریک چل چکی تھی تو اس کو بیچ میں چھوڑنا نقصان دہ تھا۔ اس لیے میں نے کمان سنبھال لی اور مسجد منزل گاہ پر قبضہ کر لیا۔ 19 نومبر 1939 کو پولیس نے مجھے گرفتار کر لیا۔ لاٹھی چارج اور شیلنگ کرکے پولیس نے مسجد کا قبضہ اپنے ھاتھوں میں لے لیا۔ اسی دن سکھر میں ھندو مسلم فسادات ھوئے۔ جس میں کئی بے گناہ جانوں کا نقصان ھوا اور ملکیتیں تباہ ھوئیں۔ جی ایم سید نے فوت ھونے والے لوگوں کی تعداد نہیں بتائی۔ لیکن یہ ایک سو سے زائد لوگ تھے۔ جس میں اکثریت ھندوؤں کی تھی۔ جبکہ مسجد منزل گاہ کی وجہ سے ھونے والے ھندو مسلم فسادات میں دو ھزار سے زیادہ افراد ھلاک ھوئے اور ان میں سے زیادہ اکثریت ھندوؤں کی تھی۔
اُس وقت کے ایک اور مسلم لیگی سرکردہ رھنما علی محمد راشدی تھے۔ جن کے چھوٹے بھائی پیر حسام الدین راشدی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ؛ انہوں نے مسجد منزل گاہ کے فسادات میں حصہ لیا تھا۔ اس واقعے کے دو اھم کردار علی محمد راشدی اور جی ایم سیّد تھے۔ ھر معاملے پر انہوں نے چنگاری سلگائی۔ جی ایم سیّد نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ؛ سندھ سے وہ ھندؤوں کو ایسے نکالیں گے جیسے ھٹلر نے جرمنی سے یہودیوں کو نکالا تھا۔