سندھ میں ہاری کی زندگی کیسے گزرتی ہے؟
سندھ کے دیہاتوں میں دو یا تین سردار خاندان عام طور پر دو سو مربعے سے لے کر 4 سو مربع تک زمین کے مالک ہوتے ہیں. دیہاتوں کی تقریباَ 75 فیصد آبادی سرداروں اور وڈیروں کی ان زمینوں پر بطور ہاری کام کرتی ہے. اور یہ ہاری اپنی عورتوں اور بچوں سمیت کھیتوں میں کام کاج میں مصروف رہتے ہیں.
کہنے کو تو یہ دیہات سرکاری قانون کے تحت ہیں لیکن حقیقت میں دیہاتوں کا سارا نظام وڈیروں کے ہاتھ میں ہے. اور گاؤں میں رہنا ایک طرح سے وڈیرے کی رضا مندی کے ساتھ مشروط ہے. دیہاتی لوگ کچے مکانوں اور جھونپڑیوں میں رہتے ہیں. صفائی کی صورتِ حال انتہائی خراب ہے. گاؤں کے سکولوں میں کتے بھونکتے ہیں. دیہات کے آدھے سے زیادہ بچے کھیتوں میں کام کاج کے علاوہ آوارہ گردی کرتے ہیں جبکہ بقیہ آدھوں کو گاؤں کے مدرسے میں جانے کی توفیق ہے. سو میں سے 30 مرد اور سو میں سے 10 عورتیں اپنا نام وغیرہ لکھ سکتی ہیں.ملیریا، ہیپاٹائٹس، پیٹ اور سانس کی بیماریاں عام ہیں.
بالائی سندھ کے دیہاتوں میں ہر طرف خوف کی فضا پھیلی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
ایک گاؤں میں جب ہمارا خواتین سے مکالمہ ہوا تو انہوں نے بار بار یہ بات دہرائی کہ ہمارا زمیندار ظالم نہیں ہے. وہ بار بار یہ بات اس لئے کہ رہی تھیں تاکہ ہم ان سے زمیندار کے ظلم سے متعلق کوئی سوال نہ پوچھ لیں.
ایک خاتون نے زمیندار کے ظلم و جبر کے حوالے سے زبان کھولنا چاہی تو دوسری عورتوں نے اجتمائی غراٹے کے ساتھ اسے چپ کروا دیا.
ایک دوسرے دیہات میں ہماری ٹیم کے مرد کو گاؤں کے اوطاق سے آگے ہی نہیں جانے دیا گیا. وڈیرے کے لوگ ہاریوں کو گھیر گھار کر وہیں اوطاق میں ہی لے آئے تاکہ ہم ان سے جو بھی بات چیت کرنا چاہتے ہیں وہیں کر لیں. اب وڈیرے کے لوگوں کے سامنے ہاری ہمیں کیا بتاتے کہ ان پر کیا کیا ظلم و جبر ہوتے ہیں.
ہماری ٹیم کی خاتون محقق کو گاؤں میں تو جانے دیا گیا لیکن اس کے ساتھ وڈیرے کا ایک آدمی سائے کی طرح چمٹا رہا تاکہ ہاری عورتوں سے جو بھی بات چیت ہو اس کے علم میں رہے.
ہر سوال کا جواب دینے سے پہلے ہاری عورتیں ایک نظر وڈیرے کے آدمی کی طرف دیکھتیں اور پھر جواب دیتیں.
ایک جگہ وڈیرے کے آدمی کو ادھر ادھر ہونا پڑا. جیسے ہی وہ ادھر ادھر ہوا ہاری عورتوں کا رد عمل بالکل مختلف تھا. وہ وڈیرے کے جبر کا تذکرہ تو کر رہی تھیں لیکن وڈیرے کے خلاف بات کرتے ہوئے ان کے چہروں پر خوف کے آثار نہائیت واضح تھے.
وڈیرے کا آدمی وہاں جمع ہونے والے بچوں کو جا بجا چانٹے رسید کر رہا تھا. وہ بچوں کو وہاں سے دفع ہونے کے لئے بے تکلف گھور رہا تھا. یہ جبر شائد اس لئے تھا تاکہ بچوں کی ابھی سے تربیت ہو جائے کہ وڈیروں کی بادشاہی میں کیسے بستے ہیں.
عورتوں کی زندگیوں کے تمام پہلوؤں پر مردوں کی حکمرانی ہے. عورت مرد کے بغیر گھر سے نہیں نکل سکتی اور نہ ہی عورتوں کو موبائل فون رکھنے کی اجازت ہے. عورتیں مردوں کے کہنے پر ووٹ دیتی ہیں اور مرد وڈیرے کے کہنے پر.
بالائی سندھ میں ہر شخص کو کسی نہ کسی شخص سے خطرہ رہتا ہے. ہر شخص کو کہیں نہ کہیں سے دشمن کے نمودار ہونے کا خطرہ رہتا ہے.
زمینوں پر قبضے کی روائیت عام ہے. سرکاری زمینیں خاص طور پر جنگلات اور پرائویٹ زمینوں پر قبضے معمول کی بات ہیں.
ہر سردار کا اپنا ایک ذاتی گینگ ہے. جسے مکمل طور پر مسلح رکھا جاتا ہے. گینگ رکھنے کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہمارا قبیلہ دشمن دار ہے لہذا دوسرے قبیلوں سے حفاظت کے لئے یہ گینگ رکھے گئے ہیں. یہ مسلح گینگ زمینوں پر قبضے، مال مویشی لوٹنے، تاوان کے لئے اغوا کرنے اور عورتوں کو ریپ کی غرض سے اٹھانے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں.
جنگ و جدل کا احساس اس قدر گہرا ہے کہ ایک قبیلے کا فرد دوسرے قبیلے کی زمین میں نہیں جا سکتا. نارمل زندگی مکمل طور پر مفلوج نظر آتی ہے. سکول اور ڈسپنسریاں غیر فعال ہیں اور عملی طور پر حکومت کی رٹ کہیں نظر نہیں آتی.
دیہات کے کچھ لوگوں نے بتایا کہ سردار جان بوجھ کر جنگ و جدل کا ماحول بنائے رکھتے ہیں تاکہ قبیلے کے لوگوں کو اپنی حفاظت کے لئے سردار کی ضرورت محسوس ہوتی رہے. اس طرح چھوٹے کسان، ہاری اور عام مزدور سردار کے احسان مند رہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ سردار کے جبر کو برداشت کرنے کے لئے بھی تیار رہتے ہیں.
شکار پور کی مشہور دشمنیوں میں جتوئی.مہر دشمنی، بروہی. بھئی. مرفانی دشمنی، جعفری.مارفانی دشمنی، پٹھان.جکھرانی دشمنیاں قابل ذکر ہیں.
ہزاروں جانیں ان دشمنیوں کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں.
حکومت کی رٹ کے نہ ہونے اور جنگ و جدل کے ماحول نے جرائم کا ایک دروازہ کھول رکھا ہے. جن میں سڑکوں پر ڈاکے ڈالنا، گھروں کو لوٹنا، اغوا برائے تاوان، عورتوں کو اغوا کرنا اور قتل کرنے جیسے جرائم شامل ہیں.
بتایا جاتا ہے کہ جتنے بھی بڑے بڑے گینگ ہیں سب کسی نہ کسی سردار کی سرپرستی میں کام کرتے ہیں.
“یہ مضمون پڑھنے کے بعد ہر ذی شعور پاکستا نی کے ذہن میں سوال پیدا ہو گا کہ کیا یہ ہے وہ قابلِ فخر معاشرہ جو ہمارے سیاستدانوں نے پچھلے 70 سالوں میں تشکیل دیا ہے. اور کیا یہ ہے وہ سماجی ڈھانچہ جہاں انسان کے تقدس کی بجائے ووٹ کے تقدس کا نعرہ بلند ہو رہا ہے.
یہ بات ہم سب کے لئے لمحہء فکریہ ہے.”
قیصر بنگالی پاکستان کے مایہ ناز سماجی سائنسدان ہیں. یہ مضمون ان کی تحقیقی رپورٹ کے ایک حصے کے اردو تر جمے پر مبنی ہے.
ترجمہ و تبصرہ
ڈاکٹر شوکت علی
ماہرِ توسیعِ زراعت، زرعی یونیورسٹی، فیصل آباد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔