جھوک جنگ کا کسان گوریلا کمانڈر
شاہ عنایت شہید ولد مخدوم فضل اللہ ذات لانگاہ
( 1655-تا جنوری 1718 ء)
جس کا سندھی میں نعرہ تھا:
” جو کائی سو کھائی “
” جو اُگائے وہ کھائے“
ایسا کبھی ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم ابھی تک شاہ عنایت کی جسمانی اذیتوں کا تذکره کرتے آئے ہیں۔ مگر دانشور کی اصل اذیت جسمانی تھوڑی ہوتی ہے۔ دانشور کو ایذا دینا ہو تو اسےذہنی دے دو یہ بات ہر دشمنِ دانش، ہر تفکُر مخالف جانتا ہے۔ خواہ وہ اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ مغرب کا ہو یا سولہویں صدی کے سندھ و بلوچستان کا لٰہذا جھوک کا جاگیردار بھی جانتا تھا۔
شاہ عنایت کا اصلی اذیت ناک اور طویل ترین امتحان تو اُس کے مقبرے کی تعمیر کے بعد شروع ہوا اُس کا سر دھڑ سے جدا کرنے کا مرحلہ گزرا تو اب اُس کی روح کو تڑپا دینے کی سزا شروع ہوئی۔ اب اُس سے اُس کی تعلیمات کو الگ کرنے کی کاروائی کا منظم آغاز ہوا۔ اُس کا فلسفہ، اور اُس کی زندگی کا جوہر اُس کے وجود کا حصہ نہ رہنے دینے کی کاروائی شروع ہوئی۔جس طرح کہ ہندوستان بھر میں مہاتما بدھ نے برہمن ازم کی چولیں ہلا دی تھیں اور پہلی بار ایسے مذہب کی بنیاد ڈالی جس میں خدا کا وجود نہیں تھا۔
چرچ اور مندر نہ تھا،
سچے انسانوں کے بیچ پنڈت مُلا نہ تھا بدھ کے مذہب کی وجہ سے برہمنوں کی بادشاہی ختم ہوگئی تھی اور انسان آزاد ہوگیا تھا تاکہ وہ خود غور و فکر کرے اور ابدی سچ تلاش کرے اور جب برہمنوں کو مکمل شکست ہوئی اور مہاتما بدھ کی تعلیمات کا بول بالا ہوا تو انہوں نے ایک نئی چال چلی انہوں نے مہاتما بدھ کی مخالفت ترک کر دی اور اُس ہی کو اپنے دیوتاٶں میں لا شامل کر دیا یعنی اُس کو اپنا دیوتا بنا کر اس کی تعلیمات کا مغز نکالنے میں لگ گئے۔
یہی کچھ یہاں شاہ عنایت شہید کے ساتھ ہوا۔
جاگیرداوں، پیروں اور حکمرانوں نے شاہ عنایت شہید کے نظریاتی اثرات ختم کرنے کے لیے اُس کی مخالفت یکسر ترک کر دی اُس کا تذکره ہی بند کر دیا دانشور کی ابدی موت یہ ہوتی ہے کہ اس کے افکار کا نوٹس نہ لیا جائے لٰہذا شاہ عنایت کا تذکره بند ۔۔۔۔نہ اس پہ شاعری ہوئی نہ ضرب الامثال بنے اور نہ اساطیری قصے تعمیر ہوئے مکمل بلیک آٶٹ، مکمل بائیکاٹ۔
لے دے کے رہ گئی اُس کی قبر، اور اُس کے ساتھیوں اجتماعی قبریں ( گنجِ شہیداں) سو اب انہیں بےاثر کرنا تھا۔ چنانچہ فیوڈل ازم کو اب ایک قبر کو بےاثر کرنے کی فکر لاحق ہوگئی اور ان کا یہ کام دو روپے کی اگربتیوں نے نے پورا کر دیا اگربتياں اِس برصغیر میں سوچ و عقل کو معطر دھوئیں کی وہ دبیز تہہ چڑھاتی رہی ہیں کہ جس سے اس خطے میں آنے والا ہر نیا فلسفہ ہر نیا تخیل، اور ہر نئی ایجاد گھٹ گھٹ کر مرتی رہی ہے۔ شاہ عنایت شہید کے فلسفے کو بھی بڑی خوبی سے اگربتی کے دُھوئیں میں لپیٹ کر دفن کر دیا گیا ( لوبان کے دُھوئیں نے اولین سماجی انقلاب کے داعی حضرت یسوع مسیح کے کمیون کے نظریے کا گلا گھونٹ دیا تھا، اور اگربتی دُھوئیں نے شاہ عنایت کے سوشلزم کو)
اب اُس کا دربار ہے ، اُس پہ بڑی بڑی قیمتی چادریں ہیں چادروں پہ نقش و نگار ہیں نقش و نگار میں آیتیں دُعائیں ہیں بس نہیں ھے تو اُس کا فلسفہ نہیں ہے مزار پہ قیمتی کپڑے ڈالنے اگربتیوں، عطر و خوشبوٶں، چاندی کے دروازوں کے بوجھ سے عوام الناس کے اذہان ماٶف کر کے انہیں درود، وظیفہ، ختم و نذر، خیر خیرات پر لگا دیا گیا وہاں اب شاہ کی خود اعتمادی سکھا دینے والی عوامی جدوجہد کے بارے میں کچھ نہیں بولا جاتا بلکہ اس طرح کے صبر کی تلقین کی جاتی ہے جس سے موت کا ذائقہ چھلکتا ہے:
میری لکڑی کی روٹی میری بھوک ختم کر دیتی ہے
جنہوں نے چپڑی روٹی کھائی وہ زیادہ دکھ سہیں گے
یا۔۔۔۔۔۔۔۔
فریدا روکھی سوکھی کھا کے ٹھنڈا پینا چاہیئے
کسی دوسرے کی چکنی چپڑی کو دیکھ کر جی کو ترسانا نہیں چاہیئے
موت ہے یہ فلسفہ
انسان کو لکڑی کی نہیں گندم کی روٹی چاہیئے اور وہ بھی روکھی سوکھی نہیں گھی شکر سے چپڑی روٹی ہوئی ۔
صبر و سکون کی تلقین جگالی کرنے والے سجادہ نشینوں کو خاص متبرک لباس میں ملبوس کروا کر انہیں نرینہ اولاد بخشنے، تنگدستی ہٹانے اور مرادیں پوری کرانے کی اتھارٹی بنا دیا گیا۔ عنایت زند نہ خریدے جا سکے تو اُس کے مقبرے کے پائیں طرف پیسہ نچھاور کر کے دل کی مرادیں خرید لینے کی روایتڈال دی گئی ۔ اب وہاں عرس میں
انصاف اور سچ کے نظریے سے
بھٹکا کر اس مقدس مقام کو لنگڑوں لولوں اپاہجوں مفلوجوں بھکاریوں چرسیوں، بھنگیوں، لونڈے بازوں، سیاستدانوں کے ہوسٹل میں بدل دیا گیا جھوک کی جنگ،
24 ہزار انقلابیوں کی شہادت، اور "اجتماعی کاشتکاری "کا نیا نویلا نظریہ مدھم ہو کر ختم ہو چلا ہے۔ اب وہاں ہر سال عرس منعقد ہوتا ہے دھمال و گھنگرو اور عارفانہ کلام ہوتا ہے۔ آج کے ” قرآنی“ وزیر و صدر آ کر مزار کو اپنے ناپاک اور ظلم سے اٹے ہاتھوں سے غسل دیتے ہیں، یہ سند یافتہ دروغ گو شاہ شہید کو اپنی صفوں کا بتاتے ہیں ریڈیو ٹیوی پہ ان کے عرس کی لاش دکھاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔اور یوں اُن کے فلسفے کو اِس شور و غل کے اندر ، ناک و آنکھ و کان کی لذتوں میں ڈبو دیتے ہیں ہر سال شاہ عنایت کی روح کی اذیت کا یہ تماشا ایک نہیں دو نہیں بلکہ تین سو سال سے جاری ہے۔ قربانی کے لیے موزوں ترین اور فربہ ترین دنبہ!
اور اگر وہاں کسی سے قصبے جھوک میں شاہ عنایت کے اپنے مزار کے باہر لوگوں سے اس جنگ اور اس کے اسباب کی تفاصیل معلوم کریں تو ایسی نظروں سے دیکھیں جائیں گے کہ جیسے آپ نے انکا بازو کاٹ دیا ہو ،کہیں سے بھی جھوک شریف کی طرف جائیں آپ کو راستے میں کوئی بورڈ، کوئی سنگِ میل نہیں ملے گا جو آپ کو جھوک شریف کی سمت اور مسافت بتائے دربار میں داخل ہو جائیں تو سب سے پہلے ایک احمقانہ اور ” عنایت دشمن“ بورڈ ملے گا جس پر لکھا ہے: ” عورتوں کا داخلہ ممنوع ہے“ عورت ایسی بلا بنا دی گئی ہے جسے سینکڑوں سالوں سے ہم کسی خانے میں فٹ ہی نہیں کر پا رہے۔ ایسا خطرہ تو ڈرون سے بھی نہیں جتنا کہ انسانی تاریخ میں عورت کو قرار دیا گیا ھے۔۔
لیکن اب عوام میں شعور بیدار ہونے لگا ھے ۔۔۔۔
“