سندھ کے مسنگ پرسنز:
اس وقت ملک میں آہستہ آہستہ اپنے دیس باسیوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف تحریک زور پکڑ رہی ہے، اس کی اہم وجہ آئین اور قانون پر بے اعتمادی اور عملدرآمد نہ ہونا ہے، شہریوں کے گمشدگیوں کے معاملات میں پولیس کی ایف آئی آر وغیرہ کی تو ایک دھیلے کی بھی حیثیت نہیں ہے، خفیہ والے آتے ہیں لوگوں کو دن دھاڑے اچانک اٹھا کر چلے جاتے ہیں پھر ان کو حبس جا میں رکھا جاتا ہے، پولیس بے بس ہو کر رہ جاتی ہے،اکثر واقعات میں لاعلم رہتی ہے،سول انتظامیہ بے بس و لاچار بن جاتی ہے، انتظامیہ تو کیا وزیروں کی حالت بھی وہی ہوتی ہے، جیسے سندھ کے وزیر داخلہ سہیل انور سیال یا ناصر شاہ کی اس وقت ہوئی تھی، جب وہ کراچی میں شہریوں کی بازیابی سے متعلق قائم کیمپ پر پہنچے ، گمشدہ باپوں کی بیٹیاں ان کو اپنا درد سنا رہیں تھیں لیکن ان وزرا کے پاس تسلی دینے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا. یاران وطن کی گمشدگی پاکستان کا پرانا مسئلا رہا ہے، بلکہ اب تو وہ ریاست کے سر کا درد بنتا جا رہا ہے، اس کے باوجود اس کو حل کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں۔
کئی لوگوں کو غیر قانونی حراستی مراکز میں رکھا گیا، ان میں سے کئی مرگئے جن کی لاشیں تک ورثا کو نہیں ملیں اور کئی بے حال ہو کر واپس گھر پہنچے، 2003 سے ایسی گمشدگیوں کا سلسلہ شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے اور یہ سب کچھ وسیع تر قومی مفادات، ملکی سلامتی، ملکی مفاد کے نام پر ہو رہا ہے۔
سندھ میں بھی ایک تحریک شروع ہو چکی ہے،سندہ کے دارالحکومت کراچی سے شروع ہوئی احتجاجی کیمپ کا دائرہ بڑہ کر پوری سندھ تک پھنچ چکا ہے۔کراچی احتجاجی کیمپ پر بیٹھی سندہ کی بیٹیوں نے پولیس اور دیگر کارندوں کی بدسلوکی کے خلاف سب سے پہلے سوشل میڈیا پر آواز بلند ہوئی بعد میں وہ احتجاج تحریک میں تبدیل ہوکر سندھ کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں، ریلیوں،دھرنوں یا احتجاجی کیمپس کی صورت میں نظر آ رہا ہے. سب کا مطالبہ بلکل سادہ چھوٹا سا اور معمولی ہے کہ جن لوگوں کو اغوا کرکے گم کیا گیا ہے ان کو ملک کے آئین کے تحت چوبیس گھنٹوں میں عدالتوِں میں پیش کیا جانا چاھئے اگر ابھی تک ان کو پیش نہیں کیا گیا تو اب ان کو عدالتوں میں لایا جائے ، ان لوگوں کو ان کا جرم بتایا جائے، ان کے خلاف کوئی شواہد ہیں تو مقدمات چلائے جائیں، اگر ان پر جرم ثابت ہوجائے تو ان کو سزا دی جائے ان سب باتوں میں کونسی بات ملکی سلامتی اور مفادات کے خلاف ہے؟
اسلام آباد میں مھران اسٹوڈنٹس کاؤنسل کی کال پر تین دن کے احتجاجی کیمپ نے انتظامیہ، پولیس، سیکیورٹی ایجنسیز اور حساس اداروں کو کتنا پریشان کیا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ سندھ میں سورٹھ لو ہار، نظیر آریجو، سسئی اور کچھ دیگر خواتین نے جب اپنے پیاروں کے بازیابی کے لئے کراچی میں احتجاجی کیمپ قائم کی تو اس کیمپ میں سندھ حکومت کی ناک کے نیچے ان کے اور دوسرے اہلکاروں نے خواتین کو گھسیٹا ان کے کپڑے تک پھاڑ دیے یہ جو کچھ ہوا، اس کا رد عمل اسلام آباد میں بھی ظاہر ہوا اور سندھی طلبہ نے یونیورسٹی کی دوسری کاؤنسلز جن میں پشتون، بلوچ، سرائیکی، پنجابی اور گلگت کاؤنسلز کو ساتھ لے کر احتجاجی مظاہرہ کرنے کے بعد نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے ایک احتجاجی کیمپ قائم کردیا، پہلے تو ان کو یہ کیمپ قائم کرنے کی اجازت نہیں مل رہی تھی لیکن اسلام آباد انتظامیہ میں موجود سندھ کے آفیسر جو کہ خود بھی قائد اعظم یونیورسٹی کے طالبعلم رہ چکےہیں ، انہوں نے طلبہ کو اس شرط پر اسلام کیمپ قائم کرنے دیا کہ وہ دوسرے دن احتجاج ختم کردیں گے، طلبہ نے آپس میں چندہ اکٹھا کر کے ڈیکوریشن کی دکان سے خیمے لائے اور کیمپ قائم کر دیا، اسی رات کو پشتین موومنٹ کے رہنما منظور پشتین بھی اس کیمپ پر پھنچ گئے، منظور پشتین سے متعلق ایک حلقے کا خیال یہ ہے کہ قائداعظم یونیورسٹی کی پشتون کاؤنسل ہی پشتین کی اصل طاقت ہے، مہران کائونسل کے احتجاج کی حمایت پاکستان عوامی ورکرز پارٹی نے بھی کی اس پارٹی کے کئی رہنما بھی کیمپ پر پہنچے، جب دوسرا دن نکلا یعنی بدھ کی صبح ہوئی تو اسلام آباد انتظامیہ، پولیس، رینجرز، سیکیورٹی اور حساس اداروں کے اہلکار طلبہ کا گھیرا تنگ کرتے نظر آئے لیکن طلبہ نے رات گئے ہی اعلان کردیا تھا کہ احتجاجی کیمپ تین دن تک جاری رہے گی.نیشنل پریس کلب کے احاطے میں اور بھی کئی کیمپس لگائے گئے ہیں لیکن گمشدگیوں کے خلاف کیمپ انتظامیہ اور ریاستی مشینری کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا، وہاں سب کو احتجاج کرنے کی اجازت بھی ہے، اگر احتجاج سے کسی کو روکا گیا ہے تو ان طلبہ کو روکا گیا، جو گمشدگیوں کے خلاف اپنا احتجاج رکارڈ کروانے آئے تھے، میری آنکھوں کے سامنے فرشتے، اہلکار کارندے طلبہ کو کیمپ ختم کرنے کا کہتے رہے، اسلام آباد میں اسی دن گرمی کا درجہ حرارت بھی چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تھا طلبہ نے احتجاج اور کیمپ ختم کرنے سے انکار کردیا، تیز دھوپ میں ڈھائی بجے کے قریب اسلام آباد پولیس نے ایک ڈی ایس پی کی سربراہی میں شاگردوں کو دھوپ سے محفوظ رکھنے والی کیمپ اکھاڑ کر پھینک دیا اور خیمے بھی موبائل میں ڈال کر کے لے گئے، اسلام آباد پولیس کو یہ بھی حکم ملا تھا کہ احتجاج میں شامل لوگوں کی پکڑ کر تھانے لایا جائے، لیکن جوان نسل طلبہ بغیر کسی مزاحمت پرامن انداز میں احتجاج کرتے رہے اور انتظامیہ پر واضع کیا کہ احتجاج ہمارا آئینی حق ہے وہ ختم نہیں کریں گے، اگر آپ کو گرفتار کرنا ہے تو ہم تیار ہیں، پولیس کیمپ اکھاڑ کر لے گئی لیکن کسی طالبعلم کو گرفتار نہ کرسکی، طالبعلم بڑے حوصلے سے تپتی دھوپ میں نعریبازی کرتے احتجاج رکارڈ کرواتے رہے، پھر اس کیمپ جو اصل میں کیمپ بھی نہیں تھا وہاِں آہستہ آہستہ لوگ آتے گئے قافلا بنتا گیا، اسلام آباد میں موجود کچھ غیر سرکاری سندھی بھی اپنے خاندانوں کے ساتھ اسی احتجاج میں شریک ہوئے، اسی رات سندھ سے آنے والی سورٹھ لوہار اور تنویر آریجو بھی کیمپ پر پہنچیں تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا، رات کو اچھے خاصے لوگ اکٹھے ہوئے، اس صورتحال اور بڑھتے ہوئے احتجاج کو دیکھ کر اسلام آباد انتظامیہ کو غصہ آگیا، طلبہ کی منتیں بھی ہوتی رہیں اور دھمکیاں ملتی رہیں سارا زور اس بات پر تھا کہ احتجاج کو ختم کیا جائے. اب اسلام آباد انتظامیہ کا موقف تھا کہ منظور پشتین کی آمد سے صورتحال خراب ہوئی ہے یہاں اینٹی اسٹیٹ نعریبازی ہوئی ہے یہ ایک بہانا تھا کہ لڑکوں کو ڈرا کے بھگایا جائے مہران کاؤنسل کے طلبہ جیسا کہ تیسرے دن بھی کیمپ لگانے کا اعلان کر چکے تھے اس لئے انہوں نے رات گئے کیمپ ختم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اعلان کردہ کہ احتجاج دو دنوں تک جاری رہے گا ، رات گئے اپنے گمشدہ پیاروں کی تلاش میں نکلی نظیر آریجو، سورٹھ لوہار کی آمد، عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماؤں کے آنے سے احتجاجی کیمپ قائم کرنے والوں کے حوصلے بلند ہوئے،لوگ بڑھنے سے اسلام آباد انتظامیا کی نیندیں حرام ہو گئیں، پھر آخری دن بھی احتجاج کرنے والوں کے سر پر کوئی سایہ نہیں تھا انتظامیہ نے کیمپ واپس کرنے سے انکار کر دیا اور نیا کیمپ لگانے کی اجازت بھی نہینن دی سندھ کی بیٹیاں دہکتے سورج کی کڑی دھوپ میں احتجاج جاری رکھے ہوئے تھیں.. تین دن لگاتار احتجاج کرنے کے بعد رات کو ریلی نکال کر اس احتجاج کے ذریعے پانچ مطالبات رکھے گئے جو مطالبات مکمل طور پر آئینی اور قانونی ہیں،
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“