آج کل اپنی عیش ہے، کتابیں ہی کتابیں۔۔ تھینکس ٹو کرونا۔۔ اپنی لائبریری میں ایک کتاب مل گئی، جس میں کچھ سندھ کے فیوڈل ازم پر معلومات دی گئی ہیں۔ سندھ کا وڈیرہ ازم اور ہاری سسٹم ہمیشہ سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا موضوع رہا ہے۔
712 میں راجہ دہر کی شکست اور محمد بن قاسم کے ساتھ سندھ پر مسلمانوں کی حکومت شروع ہوئی۔ مسلمانوں کے دور حکومت میں سندھ میں 1843 تک لگاتار 11 خاندان برسراقتدار رہے۔ جن میں چار خاندان خالص مقامی تھے۔ ان میں سومرو، سما، کہلوڑا اور تالپور ہیں۔
سندھی اور غیرسندھی حکمرانوں کے دور حکومت کے اس فرق کے باوجود انگریزوں کی آمد تک یہاں کے معاشرے میں ہزار برس کی طویل مدت کے دوران میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہوئی، حکومتیں بدلتی رہیں۔ لیکن طرز حکومت ایک ہی رہا، یعنی نہ قبیلہ واری نظام بدلا، نہ پیداواری زرائع، اور پیداواری رشتوں میں کوئی فرق آیا، جو آلات و اوزار پانچ ہزار برس قبل پیداواری عمل میں استعمال ہوتے تھے وہی 1843 میں بھی ہورہے تھے۔
یہاں کے اکثر زمہ دار عہدوں پر ترکوں اور ایرانیوں کوفائز کیا جاتا تھا۔ سرکار دربار کی ساری فضا ایرانی رنگ رکھتی تھی۔ درباروں میں فارسی بولی جاتی تھی۔ سرکاری زبان فارسی اور کتابیں فارسی میں چھپتی تھی۔ جن خاندانوں کے افراد ایران، عراق، ترکستان، اور افغانستان سے بھاگ کرآتے تھے۔ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا تھا۔ ان کو ملازمتیں اور زمینین آسانی سے مل جاتی تھی۔ آج کل کے سندھ میں پیروں اور سیدوں کی فراوانی کا ایک سبب یہ بھی ہے۔
اورنگ زیب سے پہلے یہ جاگیریں موروثی نہیں ہوتی تھی۔ اورنگ زیب نے ان کو موروثی کردیا۔ اس کا نتیجہ نکلا، سندھ میں سابق علما مشائخ کے خاندانوں کے اثر رسوخ میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔ وہ نہائت طاقت ورجاگیردار بن گے۔ ان خاندانوں میں
'علم و فضل' تو آگے چل کرختم ہوگیا۔ البتہ جاگیریں اور گدیاں باقی رہ گئی۔ اور پیری مریدی کا کاروبار چمکتا رہا۔
کہوڑا خاندان کی حکمرانی ختم ہونے کے بعد 1783 تالپور خاندان کے میر فتح علی خان تالپور نے سندھ کا اقتدار سنبھال لیا۔ 1843 میں سر چارلس نیپئر نے سندھ فتح کرکے انگریز کی نوآبادی بنا دیا۔ سندھ کی صوبائی حثیت کو ختم کرکے بمبئی پریذی ڈینسی کا حصہ بنا دیا۔ انگریزوں نے جدید تعلیمی نظام ، عدالتی نظام، سول سروسز، ڈآک کی ترسیل ، سندھ پولیس فورس، پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ، کسٹم ڈیپارٹمنت، سول میڈیکل ڈیپارٹمنٹ، ٹیلیگراف اور سروے ڈیپارٹمنٹ، قائم کئے۔ انگریزوں نے پیداواری انفراسڑکچر، ریلوے لائن ، پلوں کی تعیمر پرتوجہ دی۔ ریلوے لائنوں اور انجنوں کی دیکھ بال اور مرمت کے لئے ورکشاپس قائم کی۔
بڑی جاگیروں کے مالک عموما" بہت اثررسوخ رکھتے تھے، ان کے پاس وسیع برآمدوں اور ایوانوں کے ساتھ پرشکوہ محلات ہوتے تھے۔ جن میں دربار لگتے تھے، محافل اورمشاعرے منعقد ہوتے۔ شکار کا اہتمام کیا جاتا، نوکروں کے جم غفیر مہمانوں کی خدمت کے لئے موجود رہتے اور اشیائے خوراک کی فراہمی، ہمہ وقت مالک کی ناز برداری، جائداد کا تحفظ اور حویلی کے باغات کی نگہداشت بھی کرتے تھے۔ بوقت ضرورت زمیندار مزارعین کے خاندانوں کو بھی طلب کرلیتے تھے، مزارعین کی عورتیں حویلیوں اور محلاتوں میں کام کرتی رہیت، جاگیردار عموما اخراجات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے قرض وغیرہ لے کر انگریز افسران کو مدعو کرتے تھے، پرتکلف دعوتوں اور شکارسے ان کا دل بہلاتے تھے، رشوتوں سے ان کو خوش کرتے تھے، انگریز انہیں خدمت، وفاداری کا معاوضہ سرکاری اداروں کی تقریبات میں دعوتوں، اسلحہ کے لائسنسوں کے اجرا یا ' آفرین نامے' (تشکرکے خطوط) ، حتی کہ کپڑے کے تھان کی شکل میں ادا کرتے۔ اس کے علاوہ سر، نواب، خان بہادر وغیرہ کے خطابات سے بھی نوازتے۔
1843 میں سندھ پر قبضے کے بعد سرچارلس نیپیر نے انتظامی معاملات طے کرنے کی غرض سے یہ اعلان کیا کہ 24 مئی 1844 کو اس کے سامنے سلام کے لئے پیش ہونے والے جاگیرداروں کو ان کی جاگیریں لوٹا دی جائیں گی۔ جو جاگیردار آئین گے، ان کو ' پروانہ سلام' دیا جائے گا۔ اور وہ دوامی جاگیر کے حق دار ہو جائیں گے۔ " سندھ میں برطانیہ حکومت کی اس پالیسی کے تحت سندھ کے جاگیردار موروثی ہو گے۔ ورنہ اس سے پہلے وراثت کاکوئی اصول نہین تھا اور جاگیر دار مرنے کے بعد اس کی جاگیر حکومت کے پاس چلی جاتی تھی۔ جسے وہ کسی اور عہدہ دار یا فوجی کے حوالے کردیتی تھی۔ اس پالیسی کے نتیجے میں صرف حیدرآباد کلکٹریٹ میں ایک لاکھ ستر ہزار ایکڑ اراضی داعمی جاگیرداروں کے پاس چلی گئی۔
جاگیروں کو ' پروانہ سلام' کے تحت موروثی بنانے سے سندھ کے جاگیرداری نظام کی تشکیل نو ہوئی۔ کیونکہ اس سے پہلے (مغلوں) حکومت کی جانب سے جو جاگیریں دی جاتی تھی، کہ بوقت ضروت جاگیر دار فوجی افرادی اورفوج کی مدد کا سامان فراہم کرے گا، نیپئر نے ان کو کہا کہ اب جاگیرداروں کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ فوجیں رکھیں اور حکومت کو فوجی امداد دیں۔ اس کے بدلے وہ زراعت کو فروغ دیں اورکاشت کاروں کو اوزار اور سہولتیں فراہم کریں۔
1855 میں حکومت نے ایک کمیشن برائے جاگیر مقرر کیا تاکہ وہ جاگیروں کے معاملات کی چھان بین کرے۔ اس کی تحقیق کے نتیجے میں یہ بات واضح ہوئی کہ تالپور حکمرانوں نے اپنے دورحکومت میں بہت کم درجے کے لوگوں کو حمائت حاصل کرنے کی غرض سے جاگیردار بنا دیا تھا۔ جبکہ انگریزوں کو ایسے لوگوں کی ضرورت تھی جو باثرہوں اس لئے ان جاگیرداروں کے بارے میں یہ فیصلہ ہوا کہ دوسری نسل کے بعد حکومت ان کی جاگیریں واپس لے لے گی۔ ۔
اس طرح 1858 میں جاگیرکمشنر کی تحقیق کے مطابق جاگیرداروں کو چار درجوں میں تقسیم کردیا گیا۔
1) وہ جاگیردار جن کی اسناد 1783 سے قبل کی تھی
2) وہ جاگیردار جن کی اسناد 1787 سے 1810 تک کی تھی
یہ زمینیں ان کو وراثت میں دے دی گئی، کیونکہ یہ رقبے میں زیادہ نہیں تھیں۔ دوسرے ان کے قدیم حثیت کی وجہ سے حکومت کو ان کی ضرورت تھی۔
3) وہ جاگیر دار جن کی اسناد 1810 سے 1837 کے درمیان تھی۔ ان کی جاگیروں پر موجود جاگیرداروں کے مرنے کے بعد حکومت نے قبضہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
4) وہ جاگیریں جو تالپوروں کے آخری دس برسوں میں دی گئی تھی، وہ تاحیات دے دی گئی۔۔
میروں کے عہد میں فوجی خدمات کے علاوہ علما، صوفیا اورپیروں کو بھی مدد معاش زمینیں دی گئی تھی۔ ان لوگوں نے اپنی دولت کو استعمال کرتے ہوئے نئی زمینیں خرید کر اپنی جائدادوں کو وسیع کرلیا۔ ، اس طرح یہ بڑے جاگیر دار بھی روحانی پیشواوں کے ساتھ ہوگے،
ان قدیمی جاگیرداروں کے علاوہ انگریز حکومت نے وقتا" فوقتا" اپنے وفادارحامیوں کو جاگیریں دیں۔ برطانوی حکومت جاگیرداروں کے نظام کی تشکیل نو کرنے کے بعد اس قابل ہوگئی کہ اسے حمایتیوں اور وفادار لوگوں کا ایک مضبوط طبقہ مل گیا جس نے اس کے استحکام میں حصہ لیا اور لوگوں کو انگریز حکومت کا تابع بنائے رکھا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی جاگیردار کے روایتی اختیاربھی چھین لئے۔ جن میں اس کی زمہ داری تھی اپنے علاقے میں امن و امان رکھے اورفیصلے کرے۔ اب یہ اختیارات پولیس اور عدالتوں کو دے دیئے گے۔ جاگیرداروں کو اب اجزات نہیں تھی، کہ فوج رکھیں، اور حکومت کی فوجی مدد کریں۔ اب حکومت کی اپنی کل وقتی فوج تھی۔ اب جاگیردار فوج نہ ہونے کی وجہ سے اپنی روایتی حثیت برقرار نہیں رکھ سکتے تھے۔
اب کلٹر، کمشنر، گورنر، وائسرائے کی اتھارٹی اہم تھی۔ اب جاگیردارحکومت کا حصے دار تھا، جو مکمل طور پرحکومت کے سہرارے قائم تھا۔ برطانوی حکمرانوں نے اندازہ لگایا کہ زرعی پیداوار میں اضافے کے لئے آب پاشی کا نیا نظام بنانے کی ضرورت ہے۔ 1903 میں برطانوی ہند نے کمیشن برائے آب پاشی سندھ قائم کیا۔ جس نے سفارش کی ، نہریں اور سکھر کے قریب بہت بڑے بیراج بنائیں جائیں۔ اس طرح ہائیڈرواسٹیشن کی تعمیر 1923 میں شروع ہو کر 1932 میں اختتام کو پہنچی۔ بمبئی کے گورنرسرلائڈ جارج کے نام سے ماوسوم اس بیراج کا افتتاح وائسراے ہند لارڈ ولنگٹن نے 31 جنوری 1932 کوکیا۔ بیرض کی لاگت چارکروڑ چار لاکھ روپے تک پہنچ گئی۔ اس کے علاوہ پانچ گنا مزید رقم پورے آب پاشی کے نظام کی تعمیر پرلگائی گئی ۔ نہروں کی لمبائی دس ہزار کملومیٹر سے زیادہ تھی۔ مختلف پل، تنظیمی تنصیبات، ریگولیٹر، ماڈیولز، ڈاک بنگوز وغیرہ تعمیر کئے گے۔ ان تعمیرات میں 60 ہزار افراد مصروف تھے۔
۔۔۔۔
(ہمارے ہاں لیفٹ کا طبقہ انگریزوں کے دور کے خلاف بکواس کرتا رہتا ہے، نوآبادیات توتھی، لیکن انگریزوں نے ہمیں انتہائی پس ماندہ جمے ہوئے ماحول سے نکال کر دور جدید میں لائے)
سکھر بیراج کی سیراب کردہ زمینوں کو انگریز حکام نے بازار کی قیمتوں پر اب بیچنا شروع کردیا۔ سرکاری ملازمینوں کو رعائتی قیمت پر زمینیں فراہم کی گئی۔ جن میں زیادہ تر پہلی جنگ عظیم میں خدمات سرانجام دینے والے فوجی شامل تھے، جو سب کے سب پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے مقامی چھوٹے زمینداروں کی زمینیں بھی خریدیں۔ جنہیں پیسوں کی ضرورت تھی۔
ادھر شاہ عنایت کی ' جو کھیڑے سو کھائے' والی ہاری تحریک کے دو سو سال بعد سندھ میں ایک مرتبہ پھر ہاری تحریک نے جنم لیا، اس سلسلے میں 12 جولائی 1930 کو میرپورخاص میں انڈین نیشنل کانگریس کے تحت 'ہاری کانفرنس' منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کی استقبالیہ کمیٹی کے چیرمین جی ایم سید تھے۔
جنوری 1946 کو سندھ میں صوبائی لیجیسلیٹو کے انتخابات میں مسلم لیگ نے اکثریت حاصل کرلی تھی۔ اور اب اقتدار ان کے پاس تھا۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد سندھ کے جاگیرداروں نے نہ صرف مسلم لیگ کے کراچی کے اجلاس 1943 کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے سے انکارکردیا، جس میں زرعی اصلاحات کے نفاذ، ٹیکس کی مقدار کے استحکام ، بٹائی فراہمی، کسانوں کے حالت زندگی کی بہتری، کوآپریٹو اور ریاستی فارموں کی تشکل کو سامنے رکھا گیا تھا۔ بلکہ ہاریوں اور چھوٹے مالکوں کا استحصال مزید تیز کردیا۔ محمد علی جناح کے اصرار پر 3 مارچ 1947 کو سندھ کی قانون ساز اسمبلی نے سر راجرٹامس کی سربراہی میں کمیٹی برائے ہاری مسائل تشکیل دی۔ ہاریوں کا کوئی نمائندہ جس میں نہیں لیا گیا۔ اس کمیٹی نے جنوری 1948 میں 298 صفحات پر ایک متنازعہ دستاویز پیش کی۔ جس میں ہاریوں کی زندگی کی مشکلات کی وضاحت، حکومت کی کارروائیوں کی خامیوں، ہاریوں کی بدیانتی اور بری عادات کا ذکرتھا۔ رپورٹ میں جاگیر دار کو ایک باپ کی طرح پیش کیا گیا تھا۔ اس کمیٹی کے ایک رکن محمد مسعود جو بعد میں مسعود کھدر پوش کے نام سے مشہور ہوئے، کمیٹی سے نکل گے اور انہوں نے اپنی 'ہاری رپورٹ ' تیار کی۔
1955 میں حکمران جاگیردارون اور دیگر اشرافیہ نے مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو متحد کرنے کا نظریہ پیش کیا۔ سندھی جاگیرداروں کی اکثریت نے جمہوری قوتوں کے خوف سے اس نظریئے کی حمایت کی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمام شد۔۔۔ (مجھے دلچسپی رہی ہے، کہ بھٹو کی زرعی اصلاحات کا کیا تنیجہ نکلا تھا، اور آج کی کیا صورت حال ہے۔۔ابھی تک جو میں نے دیکھا ہے، سندھی ترقی پسند اور لبرل دوست بھی سندھی جاگیرداری اور پیری مریدی سے نظریں چراتے ہیں۔ اور Denial کے mode میں ہیں۔ سندھی قوم پرستوں کو سوائے پنجاب کو گالیاں دینے کے سوا کوئی کام نہیں اورجہاں قومی پرستی نسل پرستی کے قریب قریب پہنچ جاتی ہے )
"