حصہ نہم
۔۔۔۔۔
گناہ اور سائنس Sin And Sciences
عیسائیت اور ڈاکٹر
ہم نے ابھی تک اس جدوجہد کے بارے میں کچھ نہیں کہا جو روس میں جنسی بیماری یعنی آتشک کو ختم کرنے کے لئے کی گئی
سوویت حکومت نے زار شاہی سے دوسری سماجی لعنتوں کے ساتھ زرد پٹے کے نظام، یعنی عصمت کی تجارت کو بھی ورثے میں پایا
اور اس کے ساتھ ہی جنسی بیماری کا ہولناک مسئلہ بھی، اس زمانے میں روس میں آتشک کا مرض بری طرح پھیل چکا تھا
اس موذی مرض کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کا علاج نہ کیا جائے تو یہ چہرے کے خدوخال کو بگاڑ دیتا ہے
چنانچہ روس کی بعض چھوٹی قومیں، خصوصاً جو دریائے والگا کے کنارے آباد تھے
اس لاعلاج بیماری کے ہاتھوں اپنی بدوضعی کے لئے ملک بھر میں مشہور تھے
اس پر طرہ یہ کہ آزاد محبت کے نئے تجربوں نے دونوں جنسی طاعونوں، یعنی آتشک اور سوزاک کو اور بھی ہوا دی
اس نازک صورت حال کے باوجود روس کے طبی ماہروں نے حتی الوسع دوسرے سرمایہ دار ملکوں کی پیروی کرنے سے گریز کیا
کیونکہ ان ملکوں میں جنسی بیماری کے خلاف جتنی مہمیں چلائی گئی تھیں وہ سب بے اثر ثابت ہو چکی تھیں
لہٰذا انہوں نے اپنی توجہ اکیلی جنسی بیماری کے خلاف طبی جدوجہد پر مرکوز نہیں رکھی
وہ اپنے اس درست فیصلے پر جمے رہے کہ جنسی بیماری صرف اسی وقت ختم ہو سکتی ہے
جب کہ عصمت فروشی کے خلاف عام بداخلاقی کا بھی انسداد کیا جائے
انہوں نے اخلاقی مسئلے کو بنیادی قرار اور اس نتیجے پر پہنچے کہ عام اخلاقی مسئلے کو حل کر لیا گیا
تو سوزاک اور آتشک پر سائنسی طریقے سے حملہ کرنا آسان ہو جائے گا
اور ان دونوں علتوں کا انسداد اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ انہیں عام سماجی بیماریوں مثلاً تپ دق، شراب نوشی وغیرہ کا ایک جزو قرار دے کر ان کے خلاف قومی پیمانے پر وسیع مہم چلائی جائے
اس وقت ایسا کرنا آسان بھی ہو گا
کیونکہ لوگوں میں کسی قسم کی بے چینی اور گھراہٹ پیدا نہیں ہو گی جو اس صورت میں پیدا ہو سکتی ہے
جب کہ آتشک اور سوزاک کے ازالے کو عام اخلاق سدھار مہم سے الگ کر لیا جائے
سب سے پہلے ضروری تھا کہ اس فضول حجت بازی کو رد کیا جائے کہ کسی قسم کی عورت سب سے زیادہ بیماری پھیلانے کا موجب ہو سکتی ہے
سیدھی بات یہ ہے کہ ہر بیمار عورت اور مرد دوسروں کے لئے وبا کا سر چشمہ ہے
سوویت حکومت نے موجودہ اور آئندہ نسلوں پر جنسی بیماریوں کے مضر اثرات پر بڑی سنجیدگی سے غور کر کے ضابطہ فوجداری میں ایک نئی دفعہ کا اضافہ کر دیا
اس قانون کے رو سے قرار پایا کہ آئندہ کوئی شخص یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ جنسی بیماری میں مبتلا ہے اور اس سے دوسروں کو بیماری لگ سکتی ہے جنسی فعل کا ارتکاب کرے گا
تو اس کی یہ حرکت سنگین جرم شمار کی جائے گی
اس طرح جنسی بیماری کے انتقال کو فرد کے ضمیر پر نہ چھوڑا گیا
بلکہ ملزم کو ریاست کے سامنے جواب دہ بنا دیا گیا
یہاں بھی اشتراکی حکومت صرف قانون پاس کر کے نہیں بیٹھ رہی
اس اقدام کے ساتھ ہی باقاعدہ منصوبے کے تحت ملک بھر میں جنسی امراض کی تشخیص کے مرکز اور علاج کے رہائشی شفاخانے کھولے گئے
یاد رہے کہ یہ مرکز آج سے تقریباً بیس سال پہلے کھولے گئے تھے
اس وقت آتشک اور سوزاک کی تشخیص اور علاج کے طریقے مقابلتہً گھٹیا تھے
علاوہ ازیں سوویت یونین اقتصادی مشکلوں میں بری طرح گرفتار تھا
اور اس کے لئے ڈاکٹری سامان اور دوائیاں وساور سے منگوانا تقریباً ناممکن تھا
اس کے باوجود یہ شفاخانے اس قدر کامیاب رہے کہ ان کے سامنے ہمارے ہاں کی تمام طبی مہمیں ہیچ ہیں
اس کا سبب بالکل واضح اور عام فہم ہے
سوویت روس میں ان شفاخانوں یعنی ”صحت گاہوں” عصمت فروشی اور بدکاری کے انسداد کی مہم کا ایک جزو بنا دیا گیا
ان کی کوئی جدا گانہ حیثیت نہ تھی
ان مرکزوں کو ابتدا ہی سے اس طرح منظم کیا گیا، جس طرح صحت افزا پہاڑی مقامات پرتپ دق کے اسپتالوں کا بندوبست کیا جاتا ہے
ان میں رہائشی مریضوں اور عام بیماروں، دونوں کا علاج ہوتا تھا
مہم کے آغاز میں بڑے بڑے شفاخانوں نے اپنی تمام تر توجہ صرف طوائفوں پر مرکوز کرنا مناسب سمجھا
لیکن پیشہ ور عورتوں کے خلاف ضابطہ فوجداری کو اندھا دھندا ستعمال نہیں کیا گیا
عدالتوں نے ایسی طوائفوں کو بھی پیشہ جاری رکھنے پر سزا نہ دی
جنہیں معلوم ہوتا کہ ان سے دوسروں کو بیماری لگ سکتی ہے۔
کیونکہ انہیں ایک ایسی سماجی علت کی شکار مانا جاتا تھا
جو ان کے بس کی بات نہ تھی
کوئی ملزم طوائف عدالت میں پیشی بھگت چکتی تو اس سے معزز شہریوں کی ایک کمیٹی ملاقات کرتی اور اسے شفاخانے میں داخل ہونے پر راضی کرتی
تاکہ کم سے کم اس کی حالت اتنی بہتر ہو جائے کہ اس سے دوسروں کو بیماری لگنے کا احتمال نہ رہے
اس طریقے کار پر عمل شروع ہوا تو ایک نیا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا
ہمارے ہاں کی پولیس اور ڈاکٹر اس مسئلے سے اچھی طرح آگاہ ہیں اور وہ یہ ہے کہ ایسی عورت کا علاج لا حاصل ہے
جو پھر سے پیشہ شروع کر دے اور جلد ہی دوبارہ بیمار ہو جائے
اشتراکی سائنس دانوں نے اس مسئلے کا حل بھی فوراً تلاش کر لیا
انہوں نے زنانہ شفا خانوں کو نئے سرے سے منظم کیا اور نئے ادارے کھولنے کی بجائے انہی صحت گاہوں کو فنی تربیت کے سکولوں اور ملازمت گاہوں میں بدل دیا
تاہم بنیادی مقصد یہی رہا کہ بیماروں کا علاج کیا جائے اور انہیں جلد از جلد شفا حاصل ہو
ان شفاخانوں میں مریض عورتوں کا داخلہ جبری نہ تھا
ان کی نگرانی کے لیے افسر مقرر نہ کیے گئے اور نہ ہی راز داری کا کوئی خاص پر تکلف اہتمام کیا گیا
اس پلان کی خصوصیت یہ تھی کہ علاج کے دوران میں تمام مریضوں کو ایک ایسا پیشہ سیکھنے موقع دیا جاتا جو عام زندگی میں ان کے کا م آ سکے
چنانچہ علاج کے دوران میں ہی اکثر مریض کام سیکھ کر روپیہ کمانے لگے
اس کا نفسیاتی پہلو بالکل واضح ہے
سزا، وعظ و تلقین یا نفسیاتی علاج کی بجائے زیر علاج عورتیں علم و فن ملازمتیں اور باعزت روز گار سے روپیہ حاصل کرنے لگیں
ان مریضوں میں بہت سی عورتیں ایسی تھیں جو کسی طرح بھی پیشہ ور نہ تھیں
وہ ایسی بے روز گار لڑکیاں تھیں جو زار شاہی میں باعزت روز گار حاصل کرنے میں ناکام رہی تھیں
جب بیمار لڑکیوں کی اچھی خاصی تعداد اس قابل ہو جاتی کہ ان سے دوسروں کو بیماری لگنے کا خدشہ نہ رہتا
تو انہیں شفاخانے کی بجائے اپنے گھروں میں سونے کی اجازت دے دی جاتی
لیکن دن کے وقت تربیت اور مزیدی علاج کے لیے شفاخانوں میں باقاعدہ حاضر ہوتی تھیں
اچھی اور بری عورتوں میں کوئی تمیز روا نہ رکھی گئی
تمام مریضوں میں یہ احساس پیدا کیا گیا کہ وہ اپنے آپ کو ایسے شہریوں سے گھٹیا خیال نہ کریں
جو آتشک اور سوزاک کی بجائے دوسری بیماریوں مثلاً تپ دق وغیرہ میں مبتلا ہیں
اور انہی کی طرح مختلف شفاخانوں میں زیر علاج ہیں
اس طرح سوویت یونین کی صحت گاہیں عملاً منظم بدکاری یعنی تجارت کے خلاف جدوجہد کے مرکز بن گئے
تھوڑے عرصے میں ماسکو شہر کے شفاخانوں میں پچاس لاکھ روبل سالانہ کی مالیت کی اشیائے استعمال تیار ہونے لگیں
یہ مرکز لوگوں میں بہت جلد مقبول ہو گئے
پہلے پہل رضاکار عورتوں کے دستے چکلوں میں جا کر پیشہ ور عورتوں کو شفاخانوں میں مفت ور عورتوں علاج کرانے کی ترغیب دیتے تھے
رضاکار عورتوں کے سامنے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ کس طرح پیشہ ور عورتوں کے دل سے یہ خوف نکالا جائے کہ شفاخانے دراصل نئی قسم کی جیل ہیں
اس مقصد میں کامیابی ہوئی تو اکثر طوائفیں خود بخود شفاخانوں میں آنے لگیں
چونکہ اس سلسلے میں جو پروپیگنڈا کیا گیا اس کی بنیاد ان اطلاعات پر تھی
جو مشہور سوال نامے کے ذریعے اکٹھی کی گئی تھیں
اس لیے علاج معالجے کے اس نئے طریقے کو مقبول بنانے کی ہر کوشش حقیقت پسندانہ تھی اور اس کی کامیابی لازمی تھی
منتظمین نے جلد ہی یہ فیصلہ کیا کہ جو عورتیں شفاخانوں میں زیر علاج ہیں وہ کم سے کم دو سال اور وہیں رہیں
اس دو سال کی مدت شامل نہ تھی
جو ابتدائی علاج میں صرف ہوئی تھی
اس فیصلے کے بعد شفاخانوں کے ورکشاپوں کا انتظام جمہوری اصولوں کے مطابق کیا جانے لگا
عورتوں نے اپنی قوت ایجاد سے کام لے کر خود ایک ضابطہ اخلاق مرتبہ کیا
اور اس سے انحراف کرنے والی کے لیے سخت سے سخت سزا یہ تجویز کی گئی اسے شفاخانے سے خاج کر دیا جائے
اشتراکی صحت گاہوں کا اصل کام جنسی بیماریوں کی روک تھام تھا
کیا وہ اس مقصد میں کامیاب ہوئیں؟
اس کے جواب میں ایک ہی مثال کافی ہے جو اعداد وشمار کی بھاری بھر کم کتابوں پر حاوی ہے
امریکہ میں جنسی بیماری کے انسداد کی کوشش ایک مدت سے جاتی ہے
اس پر بھی امریکہ میں جو صورت حال پائی جاتی ہے
اس کا مقابلہ ان نتائج سے کیا جائے جو روس میں صحت گاہوں کے قیام کے بعد حاصل ہوئے جن کا مقصد نہ صرف جنسی بیماری کی روک تھام تھا
بلکہ اس سے بھی بڑے مسئلے کا حل یعنی عام اخلاقی اصلاح کرنا تھا
تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔
امریکہ کے محکمہ صحت عامہ کے منتظمین نے بڑے فخر سے اعلان کیا ہے کہ
1935سے 1940 تک پانچ سال عرصہ میں جنسی بیماری کے انسداد پر جو دوائیں ریاست میں صرف ہوئیں ان کی مقدار پہلے سے دو گنا تھی
لیکن دو سال بعد نتیجہ نکلا کہ جنسی بیماریوں کے متعلق مہم کو تیز تر کرنے اور طریقہ علاج کو بہتر بنانے کے باوجود آتشک اور سوزاک پہلے سے بھی زیادہ پھیل گئے
سوویت یونین میں انسدادی مہم کو 1926 کے قریب باقاعدہ اور موثر طریقے پر منظم کیا گیا
اگلے پانچ سال تک اسے بڑھایا گیا
1931کے اختتام تک یہ سکیم اتنی کامیاب ثابت ہوئی، کہ مریضوں کے فقدان کے باعث شفاخانوں کے دروازے بند ہونے لگے
اس کے دو سال بعد جنسی بیماریوں کے خاص انسدادی مرکز بالکل بند ہو گئے
1938 تک سرخ فوج اور بحریہ سے آتشک اور سوزاک کو بالکل ختم کر دیا گیا
اور شہری آبادی میں بیماری کی حیثیت ، صحت کے ایک معمولی مسئلے کی رہ گئی
کیونکہ اس وقت تک تمام صحت گاہیں بند ہو چکی تھیں اور عصمت فروشی ختم ہو چکی تھی
اس حیران کن مہم کی مزید تفصیلات دوسرے ذریعوں سے مل سکتی ہیں
ڈاکٹر جے۔ اے۔ اسکاٹ نے 1945میں برطانیہ کے ماہرین کے سامنے سوویت یونین کے کام کا جائزہ لیا جو جنسی بیماریوں سے متعلق برطانوی رسالے کے مارچ 1945 کے شمار میں شائع ہوا
ڈاکٹر موصوف نے بیان کیا، کہ اشتراکی حکومت کے بر سر اقتدار آنے سے پہلے روس میں صرف تیرہ میڈیکل سکول تھے
اور آج ستر ہیں
1914میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ زار کی سلطنت میں آتشک کی وبا دنیا کے تمام ملکوں سے زیادہ ہے یا کوت کے علاقے میں تیس فی صد آبادی آتشک میں مبتلا تھی
ماسکو شہر میں اس کی شرح 338فی ہزار تھی
اس بیماری کے عام انتشار کے سبب کے علاوہ روس کے ڈاکٹروں کو بعض نئے اسباب کا مقابلہ کرنا پڑا
یہ سب جنسی اختلاط نہ تھا
اس مرض کے پھیلائو کے دوسرے اسباب ہمہ گیر قسم کی رسمیں تھیں
مثلاً مقدس تصویروں کو بوسہ دینا، مشترکہ حقہ نوشی اور بچوں کو دانتوں سے چبا کر روٹی کھلانا
چنانچہ 1921 کے بعد ڈاکٹر برنر کو خاص طو رسے ان گندی رسموں کے خلاف تعلیمی مہم چلانے کا کام سونپا گیا
طوائفوں کے علاج کے لیے جو اقدام کیے گئے ان کے علاوہ ملک کی آبادی میں جنسی وبائوں کے انسداد کے لئے ایک خاص اور وسیع تنظیم بنائی گئی
ڈاکٹر اسکاٹ کے قول کے مطابق جنسی بیماری کی ڈسپنریاں جن میں سے اکثر حرکت پذیر تھیں
دوسرے طریقوں سے زیادہ کامیاب ثابت ہوئیں
یہ ڈسپنسریاں دراصل باقاعدہ اور مکمل شفاخانے تھے
اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ چلتے پھرتے شفاخانے سال میں ایک مرتبہ اپنے علاقے کے ہر باشندے کے پاس ضرور گئے
چھوٹی سے چھوٹی ڈسپنسری میں دو طبی ماہر، دو غیر سند یا فتہ طبی کار کن، ایک معائنہ کرنے والی عورت، ایک کلرک اور دو اردلی ہوتے تھے
قانون کے رو سے کم سے کم اتنے عملے کا ایک ڈسپنسری میں موجود ہونا ضروری تھا
ہر ڈسپنسری میں آتشک اور سوزاک کے جراثیم اور مریض کے خون کا معائنہ کرنے کا پورا سامان موجود تھا
اور ان میں مردوں اور عورتوں کے علاج کے لیے علیحدہ جگہ اور وقت کا انتظام بھی تھا
کسی زمانے میں وسویت یونین میں چلتی پھرتی قسم کے تقریباً دو ہزار شفا خانے تھے
جنسی بیماریوں کے انسداد کے بعد انہی ڈاکٹروں نے ان شفاخانوں میں جلد کی متعدی بیماریوں کی تشخیص اور علاج کا کام شروع کر دیا
ان ڈسپنسریوں کے اسٹاف کے ذمے طبی اور سماجی دونوں قسم کے کام تھے
یہ لوگ جنسی بیماری، عصمت فروشی اور عام جنسی مسائل پر لیکچروں اور مختصر عرصے کے تدریسی نصابوں کا انتظام کرتے تھے
فلموں، اشتہاروں اور نمائشوں کے ذریعے عوام کی حمایت حاصل کی جاتی تھی
اسی کام کا نتیجہ تھا کہ عوام کی طرف سے کسی قسم کی مخالفت، نفرت اور مزاحمت نہیں ہوئی
اور ہمہ گیر ڈاکٹری معائنے کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی
جو لوگ ایک مرتبہ شفایاب ہو جاتے تھے ان میں سے شاید ہی کوئی جنس بیماری میں دوبارہ مبتلا پایا گیا
ڈاکٹر اسکاٹ بیان کرتے ہیں کہ روس میں جو عورتیں یا مرد ادتاً یا دانستہ بیماری کا خطرہ مول لیتے ہیں
یا دوسروں کو یہ مرض لگاتے ہیں وہ ملک کے قانون کے مطابق چھ مہینے سے تین سال تک سزا کے مستوجب ہیں
لیکن اختیارات کو استعمال کرنے کی نوبت شاذو نادر ہی آتی ہے
ڈاکٹر اسکاٹ بتاتے ہیں کہ سوویت یونین میں جنسی بیماریوں کے جدید شفاخانے آرسینی کلز Arsenicals اور سلفانومائیڈرز sulfonamides ہر دو کا استعمال کرتے ہیں
لیکن یہ بات پنسلین pencillin کی ایجاد سے پہلے کی ہے جنسی بیماری کے علاج کے لیے سوویت یونین کے ڈاکٹروں نے جو دوائیں تیار کی ہیں
ان میں سب سے زیادہ کامیاب دو اگلوکوز ٹرٹیپو سائیڈ glucostreptocid ہے
جو گلوکوز مالی کیول glucosemolecule اور سلفانو مائیڈ کا مرکب ہے
جرمن حملے سے پہلے روس میں آتشک کی ابتدائی اور وبائی صورتوں کا قلع قمع کیا جا چکا تھا
یہاں تک کہ 1939میں ماسکو کے میڈیکل سکولوں میں ڈاکٹری کے طالب علموں کے مشاہدے کے لیے بھی کوئی مریض دستیاب نہ ہوتا تھا
البتہ سوویت یونین میں تیسرے درجے کا آتشک ابھی تک پایا جاتا ہے جو بیماری لگنے کے تیس سال بعد یکا یک پھوٹ پڑتا ہے
لہٰذا وہاں آتشک کی بیماری کے اس درجے کی تشخیص اور علاج ابھی تک جاری ہے
ڈاکٹر اسکاٹ کی رپورٹ پر تنقید کرتے ہوئے ڈاکٹر آرفارگن نے کہا کہ روس کی فیکٹریوں میں حفظان صحت کا جو وسیع کام ہوا ہے
اس کا مقابلہ اس کام سے کیا جائے جو آج کل انگلستان میں ہو رہا ہے تو روس کی کامیابی ہمارے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری وزارت صحت اور وزارت محنت فیکٹریوں حفظان صحت کے کام کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں
لیکن وہ اپنے منصوبے میں روس سے بہت پیچھے ہیں
ڈاکٹر موصوف نے دونوں حکومتوں کے طرز عمل کا مقابلہ کرتے ہوئے کہا کہ دو سال پہلے یہ تجویز پیش کی گئی تھی
کہ وزارت محنت جس کتا بچے کو فیکٹریوں میں تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے
اس میں یہ بھی لکھ دیا جائے کہ جس مرد یا عورت کو جنسی بیماری کا شبہ ہو
اس کے لیے ڈاکٹر سے مشہور طلب کرنا یا کسی شفاخانے میں جا کر تشخیص کرانا ضروری ہے
لیکن وزارت محنت نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا
ایک اور ماہر نابیر و نے اس مہم کا حوالہ دیا جو روس کے دیہات میں جنسی امراض کے انسداد کے لیے چلائی گئی
اور بیان کیا کہ اگر سوویت یونین جیسے وسیع ملک میں ایک ایسی صورت حال پیدا کی جا سکتی ہے
تو بشرط ارادہ برطانیہ عظمی جیسے چھوٹے سے ملک میں ایسی مہم بچوں کا کھیل معلوم ہوتی ہے
لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں نیت ہی نہیں
عمل کا تو ذکر ہی کیا
ظاہر ہے مندرجہ بالا حقائق کو جھٹلایا نہیں جا سکتا
تمام سرمایہ دار ملکوں کے سائنس دان اور صحت عامہ کے منتظمین جنسی بیماری پر قابو پانے کے لیے تحقیق اور علاج کی ہر سہولت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہیں
وہ سوزاک اور آتشک کے لیے ایک دن اور ایک ہفتے کے موثر علاج دریافت کرنے کوشش میں کوشاں ہیں
چونکہ شہری آبادی کی بہ نسبت افواج میں سخت اقدام کرنا سہل ہے
اس لیے انہیں افواج میں قدرے کامیابی رہی ہے
لیکن ان کے سامنے مستقبل اور مقصد کیا ہے؟
ہمارے ہاںکے سائنس دان رفتہ رفتہ اس رائے کو تسلیم کر رہے ہیں
جو 1943 میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے محکمہ صحت عامہ کے ایک افسر ڈاکٹ راجرای ہیرنگ نے نیویارک کی تپ دق اور صحت کی انجمن کے سامنے پیش کی تھی
جنسی بیماری پر قابو پانے کے کام میں کسی پر اسرار شعیدہ بازی کی ضرورت نہیں
بلکہ مسئلے کی اہمیت کے احساس ، بیماری کے خاطر خواہ علم، انسانی خدمت کی معمولی سی واقفیت اور اس یقین کی ضرورت ہے کہ کچھ کیا جا سکتا ہے اور ضرور کرنا چاہیئے
اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ بیماریاں چھوت کی بیماریاں ہیں
ذلت کی بیماریاں نہیں
طوائف جرائم پیشہ نہیں
وہ تو ایک سماجی مسئلہ ہے جو پہلے ہی ایک طبی مسئلہ بن چکی ہے یا جلد ہی بن جائے گی
مجرم اس کی لوٹ کھسوٹ کرنے والے ہیں
مندرجہ بالا بیان کو جنسی بیماری کے خاتمے کے پروگرام سے دور کا بھی واسطہ نہیں
تاہم اس میں چند بنیادی امور کو ضرور چھوا گیا ہے
ڈاکٹر ہیرنگ نے اس واہیات مقالے کی اشاعت کی طرف بھی توجہ دلائی
جسے مسٹر پال ڈی کروئف نے ایک رسالے میں ”آتشک کا یک روزہ علاج” کے عنوان کے نام نہاد ترقی یافتہ طریقے اس خوف کو مٹا رہے ہیں جو بسا اوقات جنسی بیماری کو روکنے میں موثر ثابت ہوتا ہے
1944 میں امریکی محکمہ صحت عامہ نے اعلان کیا کہ امریکہ کی شہری آبادی میں سوزاک کی بیماری میں گیارہ فی صد اضافہ ہوا ہے
غالباً اس کا سبب علاج کے ان سنسنی خیز طریقوں کا پراپیگنڈا ہے جن میں زو داثر دوائیں استعمال کی جاتی ہیں
۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔