حصہ ہشتم
گناہ اور سائنس Sin And Sciences
۔۔۔۔۔
پہلے حصے میں ملیشیا کے فریضے وضاحت سے بیان کئے گئے
ملیشیا کا فوری کام یہ تھا کہ وہ بدمعاشی کے تمام اڈوں کا سراغ لگائے کیونکہ یہ بدطنیت لوگوں کو لئے حصول منفعت کا ایک بڑا اور مستقل ذریعے تھے
جو شخص اڈوں کو چلانے والا یا ان مکانوں کا مالک یا کرائے پر دینے والا نکلے
یا ان اڈوں کے لئے گاہک یا عورتیں مہیا کرنے میں جس شخص کا کسی طرح بھی کوئی ہاتھ ثابت ہو اسے فوراً گرفتار کیا جائے
اور ضابطہ فوجداری کی دفعات کے مطابق سزا دی جائے
جن مکانوں میں عصمت فروشی کا کام ہوتا ہو ان کے مالکوں یا مالکنوں، دلالوں یا کٹنیوں وغیرہ کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے
جو انسانوں کے سودا گروں کے ساتھ کیا جانا چاہیئے
ملیشیا کو تنبہیہ کی گئی کہ وہ بدمعاشی کے مشہور اڈوں پر چھاپے کے فوراً بعد تفریح گاہوں، ریستورانوں کی طرف خاص طور سے توجہ کرے۔ تفریح گاہ یا ہوٹل وغیرہ کا مالک خواہ لاکھ عذر پیش کرے
کہ اسے قطعاً کوئی علم نہیں کہ اس عمارت میں کیا ہوتا ہے
اسے بہر صورت پکڑا جائے
اور اس پر الزام لگا کر سزادی جائے جس مکان میں بدکاری کے متعلق ثبوت مل جائے
اسے اس وقت تک لازماً بند رکھا جائے جب تک اس کے مالک اور اس کے مدد گاروں کو قرار واقعی سزا نہ مل جائے
یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایسے سخت اور لازمی اقدام کے متعلق ہمارے ہاں کے قانون سازوں نے کبھی سوچا تک نہیں
ہمارے ہاں عصمت فروشی کا اڈہ روپیہ لگانے کا سب سے اعلیٰ ادارہ ہے
کیونکہ پولیس خواہ جتنی مرتبہ چاہے چھاپے مارے اس کے مالک کا کھوج ہی نہیں ملتا اور وہ ہر طرح بری الذمہ رہتا ہے
اس قانون کا دوسرا حصہ بالکل اچھوتا ہے اس میں ملیشیا اور عوام کو تنبہیہ کی گئی کہ بدکار عورت کے خلاف کسی قسم کا ذاتی اقدام نہ کیا جائے
حتیٰ کہ ایک دفعہ کے ذریعے طوائفوں کی گرفتاری ممنوع قرار دے دی گئی
انہیں عدالت میں صرف ان کے تاجروں کے خلاف گواہوں کی حیثیت سے طلب کیا جا سکتا تھا
تاہم اس قانون میں ایک استثنا ئی دفعہ بھی تھی جس کے تحت ملیشیا کو اختیار تھا کہ وہ کم سن نوجوان لڑکیوں کو حکومت کی ایک خاص تحقیقاتی تنظیم
یعنی مزدوروں اور کسانوں کی تحقیقاتی مجلس کے سامنے پیش کر سکتی ہے
اس قانون میں اس طریق کار کو مفصل طور پر بیان کیا گیا جسے بدمعاشی کے اڈوں پر چھاپہ مارتے وقت اختیار کرنا ملیشیاکے لئے ضروری تھا
ملیشیا کے ارکان کے لئے لازمی تھا کہ وہ عورتوں کو سماجی لحاظ سے اپنے برابر سمجھیں
انہیں جرائم پیشہ لوگوں کی بے بس اور بد نصیب شکار جانیں
اور خواہ وہ ان کے ساتھ کسی طرح پیش آئیں وہ ان سے شریفانہ انداز میں گفتگو کریں اور ان پر ہزگر ذاتی حملے نہ کریں
حد تو یہ ہے افسروں کو بدکردار عورتوں کے نام اور پتے حاصل کرنے کی بھی اجازت نہ تھی
لیکن ہمارے ہاں کے پولیس افسر کے قریب یہ تمام اقدام عجیب اور نا قابل عمل ہیں
کیونکہ یہاں رسماً طوائفوں کے ساتھ انسان سے نچلے درجے کی مخلوق ایسا سلوک کیا جاتا ہے
لیکن روس میں یہ نئے قوانین نہایت ہی کار گر اور کامیاب ثابت ہوئے
ملیشیا اور دوسری عوامی تنظیمیں مثلاً ٹریڈ یونینیں جو بدکاری کے خلاف جدوجہد کر رہی تھیں
رفتہ رفتہ محسوس کرنے لگیں کہ جس عورت کی گذر ان گناہ پر ہے اسے مادی حالات کا دبائو اور نفع اندوز جرائم پیشہ لوگوں کا مفاد ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے
حیران قوانین سے حقیقی نتائج کیا نکلے؟
بدمعاشی کے اڈوں کے مالک اور بدمعاشی کے کاروبار میں ان کے شریک کار فیق عدالتوں میں قطار اندر قطار پیش ہونے لگے
اور انہیں جیلوں کا راستہ دکھایا جانے لگا
جیسا کہ توقع تھی ان لوگوں نے مزاحمتی مہم چلانے کی کوشش کی
سوویت یونین کے اخباروں کے ”ایڈیڑکی ڈاک” کے کالم دن بدن پھیلنے لگے
یہ خط اخلاقی چاشنی لئے ہوتے تھے
ان میں سوویت حکومت پر عموماً الزام لگا یا جاتا کہ وہ طوائف کی حفاظت کر کے اور بدمعاشی کے اڈوں کے کرایہ دار مالکوں ایسے گناہگار لوگوں کو سزائیں دے کر ہولناک بداخلاقی کی مرتکب ہو رہی ہے
پس پردہ رہ کر عصمت فروشی کا کاروبار چلانے والے افراد کے خلاف ملیشیا کی جدوجہد جتنی تیز اپنی سرگرمیاں پہلے سے زیادہ تیز اور وسیع کر دیں
جن بڑے بڑے چکلہ داروں کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا تھا
انہوں نے جلد ہی سوویت حکومت پر الزام لگانا شروع کر دیا
کہ وہ صاحب جائداد لوگوں یعنی ہوٹلوں کے مالکوں وغیرہ کو غیر منصفانہ سزائیں دے رہی ہے
امور داخلہ کی مجلس نے ان لزامات کے جواب میں کہا کہ کوئی سماج اپنے کسی رکن کو منظم عصمت فروشی جیسے قبیح فعل کی حمایت کا حق نہیں دے سکتا
اور اس دلیل کے جواب میں طوائفوں کو بھی اپنا پیشہ جاری رکھنے کا حق حاصل ہے
سوالنا مے سے اخذ کردہ نتیجے کی طرف اشارہ کر دیا جاتا کہ عصمت فروشی ایک تلخ معاشی ضرورت ہے
اور عورتیں اسے اختیار کئے ہوئے ہیں انہیں نجات دلانا اور قابل عزت کام عطا کرنا سماج کا فرض ہے
1924 کے اواخر میں ایک نئی شکل کا سامنا ہوا
اسے اخبار ” ازدستیا” نے اپنے ایک ضممیے میں ماسکو کے باشندوں کے سامنے پیش کیا اور بتایا کہ سوویت یونین میں اخلاقی منصوبہ بندی کافی حد تک کامیاب رہی ہے
اس وقت تک عصمت فروشی کے خاتمے کی جدوجہد کے لئے صرف مذکورہ بالا اقدام اٹھائے گئے تھے
لیکن اب ایک نیا اخلاقی مسئلہ اٹھایا گیا یعنی ہماری اصطلاح میں ”آگ کا رخ گاہکوں کی طرف کر دیا گیا”
”از دستیا” نے اطلاع دی کہ عصمت کی تجارت سے نفع کمانے والوں کو ختم کرنے میں بہت بڑی کامیابی ہوئی ہے
اور اپنے ادارئیے میں تنبیہہ کی کہ عصمت فروشی کے خاتمے میں کامیابی اسی وقت ہوسکتی ہے
جب کہ تما م عورتوں کے لئے ملازمت کا بندوبست کیا جائے
اخبار مذکور نے ساتھ ہی یہ بھی اشارہ کیا کہ جدوجہد کی کامیابی کے لئے یہ بھی لازمی ہے کہ مردوں میں نیا اخلاقی نظریہ پیدا ہو
اس مسئلے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا تھا
اگر ایک شہری کے لئے کسی عورت کی لوٹ کھسوٹ پر بسر اوقات کرنا جرم ہے
تو مردوں کا عصمت کو خرید کر کسی عورت کے وقار کو تباہ کرنا بھی برابر کا جرم ہے
ہم نے بدکاری کی تاریخ کا تجزیہ کرتے وقت بتایا تھا کہ یہ مسئلہ سب سے پہلے سماجی حیثیت میں اس وقت سامنے آیا
جب کہ جاگیر داری زوال پذیر ہو چکی تھی اور محبت اور شادی کے بارے میں سماج کا نقطہ نظر بنیادی طور سے بدل گیا تھا
لیکن روس میں نئی بات یہ ہوئی کہ اس مسئلے کو لاکھوں مردوں کے آگے پہلی مرتبہ پیش کیا گیا
سوویت یونین کے مردوں کے سامنے ایسے حقائق تھے
جن سے گریز نا ممکن تھا وہاں ایک ایسا سماجی نظام قائم ہو چکا تھا
جس میں عورتوں کو مردوں کے برابر پوری قانونی، سماجی برابری دے دی گئی تھی
محبت اور شادی کے ذریعے جنسی خواہش کی تسکین کے راستے سے تمام روکاوٹیں دور کی جا رہی تھیں ان حالات میں کسی مرد کا ضمیر جنس کی خریداری کیسے گوارا کر سکتا ہے؟
مرد کب تک نہ صرف عورت کو اخلاقی پستی کے گڑھے میں گراتے رہتے بلکہ اپنے وقار کو بھی پہنچاتے رہتے
سوویت ماہرین کو پہلے سے علم تھا کہ یہ مسئلہ اٹھے گا
”از دستیا” کے مقالہ افتتاحیہ کے بعد پروفیسر ایلسترانوف نے اسے جنسی بیماریوں کے خلاف جدوجہد کی دوسری کانگرس کے موقع پر اور زیادہ ٹھوس اور واضح طریقہ سے پیش کیا
اس نے کہا کہ عورتوں کی لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کے خلاف ملیشیا کی کامیاب جدوجہد کا اب یہ تقاضا ہے
کہ ان مردوں پر سماجی دبائو ڈالا جائے جو ابھی تک بدمعاشی کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں
اس نے دعویٰ ہم اس مسئلے کو تنگ اخلاقی نقطہ نظر سے نہیں دیکھتے
بلکہ اسے ایک نہایت ہی اہم سیاسی مسئلہ سمجھتے ہیں، سوویت یونین ایک ایسی ریاست ہے جس کی بنیاد انسانوں کی ہر قسم کی لوٹ کھسوٹ کے خاتمے پر رکھی گئی ہے
جو شخص عورتوں پر یہ ہولناس ظلم روا رکھتا ہے وہ اپنے آپ کو ہمارے سماج کا فرد نہیں سمجھ سکتا
درست کہ پروفیسر صاحب کا بیان ہمارے کانوں کو ایک وعظ لگتا ہے
لیکن یہاں بھی اشتراکی ماہرین نے پہلے نظریہ پیش کیا پھر سائنسی منصوبہ بندی کے مطابق عملی اقدام کیا امور داخلہ کی مجلس نے اس مسئلے کو محض مسئلہ نہیں سمجھا بلکہ اسے فوراً ملیشیا کے حوالے کر دیا تا کہ وہ مناسب کا روائی کرے
سچ مچ ایک حیران کن قانون منظور کیا گیا
اس کی رو سے ملیشیا کے افسروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ آئندہ بدمعاشی کے کسی اڈے پر بھی چھاپہ ماریں
خواہ وہ کوئی مکان ہو یا شراب خانہ ہو یا محض کوئی کالی گلی تو جتنے بھی مرد وہاں ملیں ان کے نام اور گھر وں ، کارخانوں وغیرہ کے پتے ضرور درج کریں
لیکن انہیں گرفتار نہ کیا جائے
اگلے دن ان تمام مردوں کے نام اور شناخت کی فہرست کسی ایسے مقام پر چسپاں کر دی جاتی جہاں عام لوگ آتے جاتے یا جمع ہوتے
فہرست کا عنوان ہوتا ”عورتوں کا جسم خریدنے والے” یہ فہرست ایک خاص مدت کے لئے چسپاں رکھی جاتی
عام طور سے ایسی فہرستیں سرکاری عمارتوں کے باہر فیکٹریوں کے نوٹس بورڈوں پر چسپاں کی جاتی تھیں
ظاہر ہے یہ قانونی اقدام بہت زیادہ موثر ثابت ہوا
ہمارے ملکوں میں پولیس ایک ان لکھے قانون کے تحت مجبور ہے کہ وہ مردوں سے راز داری اور عزت کے ساتھ پیش آئے
کیونکہ اسے پورا احساس ہے کہ وہ ایک ایسے شریف آدمی کا ننگا کر دے جو کسی چکلے کا سر پر ست ہو تو اس بیچارے کی عزت دو کوڑی کی ہو کر رہ جائے گی
سوویت حکومت نے صرف اتنا کیا کہ اس طاقتور اور خفیہ سماجی احساس کو ایک موثر حربے میں ڈھال دیا
اس نے قلم کی ایک ہی جنبش سے آدمی کے ضمیر کو عوام کا ہدف تنقید بنا دیا
سوویت حکومت نے گنا ہگاروں کو سزا دینے اور اخلاقی جعلسازی کے خلاف تلقین کرنے کی بجائے ایسا اقدام کیا کہ مردوں کے لئے آئندہ اپنی فریب کاری کو جاری رکھنا نا ممکن ہو گیا
ایسا دلیرانہ قدم اس سے پہلے کبھی نہیں اٹھایا گیا تھا جن ماہرین نفسیات نے اخلاقی جعلسازی کے خاتمے کا منصوبہ بنایا تھا
انہوں نے اس کا نفاذ عین مناسب وقت پر کیا
یہ قانون اس وقت تک نافذ نہ کیا گیا جب تک پہلے موثر قوانین کے ذریعے منظم بدکاری کی معاشی بنیادیں پوری طرح کھوکھلی نہ کر دیں
ہمیں یہ بات خاص طور پر دھیان میں رکھنی چاہیئے کہ یہ اقدام کوئی اخلاقی جبر نہ تھا
مردوں کو جنسی خواہش کی تسکین سے ہر گز نہ روکا گیا
نہ ہی انہیں عورت کا جسم خریدنے پر سزا کی دھمکی دی گئی
بلکہ انہیں صاف صاف بتایا دیا گیا کہ نئی ریاست اس فعل کو اس لئے برا تصور کرتی ہے کہ یہ انسانوں کی لوٹ کھسوٹ کی ایک ہولناک شکل ہے اور سماج کے باعزت افراد کو جو غریبوں اور بدنصیبوں کی اخلاقی پستی سے کسی قسم کا فائدہ اٹھانے کے خواہاں نہیں
یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ وہ کون لو گ ہیں جو اپنی ذاتی تسکین کے لئے اس لوٹ کھسوٹ کو جاری رکھنے پر مصر ہیں
محض قانون نافذ کرنے پر اکتفا کر لیا جاتا اور متعلقہ مسائل کو نہایت احتیاط سے واضح نہ کیا جاتا
تو یہ قانون ہر گز اس قدر موثر ثابت نہ ہوتا
اس قانون کے اجرا کے ساتھ ہی لوگوں کو باشعور بنانے کی مہم قومی پیمانے پر شروع کی گئی اس مہم کی خصوصیت کا خاص پہلو یہ تھا
کہ سوویت یونین کے تھیٹروں میں اس کی ڈرامائی پیش کش کی گئی اس ڈرامے میں ایک ایسی عدالت کا منظر دکھایا گیا
جس میں عصمت کی تجارت کے مقدمے کا فیصلہ کیا جا رہا تھا
کہانی میں بتایا گیا کہ کس طرح ملیشیا نے ایک چکلے پرچھاپہ مارا
اور کس طرح اس اڈے کے مالک، عورت اور گاہک کو عوامی عدالت کے سامنے لایا گیا
عصمت فروشی کے کاروبار کے متعلق مکمل اور واضح شہادت اور ثبوت مل جانے کے بعد چکلے کے مالک کو قید کی سزا دی گئی
طوائف کو چھوڑ دیا گیا اور گاہک کو نہ صرف اپنی اور عورت کی عزت خراب کرنے بلکہ قومی اخلاقی کے ضابطے کو توڑنے کا مجرم بھی ٹھہرایا گیا
قدرتاً یہ ڈرامہ خلاف معمول لاتعداد عوام کی کشش کا باعث ہوا
اور جس کسی تھیٹر میں بھی اسے پیش کیا جاتا اس میں تل دھرنے کو بھی جگہ نہ رہتی
اس ڈرامے کی شعوری اور بچگانہ سادگی نے اسے فحاشی کی لفظی تصویر سے بہت زیادہ بلند اور موثر بنا دیا
اس ڈرامے میں ایک سماجی مسئلے کو نہایت سیدھے سادھے الفاظ میں پیش کیا گیا تھا
یہ ہر قسم کی حماقتوں، مضحکہ خیز پیچیدگیوں اورلفظی گورکھ دھندوں سے بالکل پاک تھا
دوسرے لفظوں میں ایک کھلی سماجی حقیقت کو سٹیج پر ہو بہو پیش کر دیا گیا تھا
کرداروں نے حقیقت اور قانون دونوں کی ترجمانی کی۔ ہر تماشائی مرد، عورت اور نوجوان سمجھ گیا کہ کون سا اخلاقی مسئلہ در پیش ہے
ساتھ ہی اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ اب ضرور کچھ ہونے والا ہے
اور آئندہ جو آدمی کسی طوائف کے ہاں پایا گیا اس کا علم سب کو ہو جائے گا
اور جب اس کا نام عورتوں کے جسموں کے خریداروں کی فہرست میں شامل کر کے رسوائے عام کر دیا جائے گا
تو وہ اپنے رشتہ داروں، ساتھیوں اور تمام قوم کی نظروں میں ذلیل اور ملزم ٹھہرے گا
۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“