حصہ ہفتم
۔۔۔۔۔
گناہ اور سائنس
Sin And Sciences
جنسی وبا سے متعلق نظریوں میں جس سست رفتاری سے ترقی ہوئی ہے اسے دیکھ کر آدمی حیران رہ جاتا ہے
کہ ابھی لوگ حال میں جنسی بیماریوں سے متعلق کچھ بھی جانتے تھے
جدید ماہرین خیال ہے کہ اس بیماری کے متعلق صحیح علم اس لئے دیر بعد ہوا
کہ اس سلسلے میں ظاہری شرافت اور مذہب حائل رہا اور اس بیماری کو روکنے کے لئے سائنٹیفک اقدامات بہت دیر بعد کئے گئے
علاوہ ازیں وہ اوہام کو بھی اس کا موجب سمجھتے ہیں
دراصل بات یہ ہے کہ علم طب کے سائنٹیفک بن جانے کے کافی عرصہ بعد تک جنسی زندگی کے تمام پہلوئوں کے بارے میں سائنٹیفک علم پیدا نہیں ہوا تھا
اگر چہ یہ بات ناقابل یقین معلوم ہوتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ انسان کو مجامعت اور پیدائش کا صحیح علم ابھی حال ہی میں ہوا ہے
یونانی تہذیب سے پہلے بچے کی پیدائش کو مافوق الطبیعاتی مظہر خیال کیا جاتا تھا
لیکن یونانی فلسفیوں نے جن کی قوت مشاہدہ اور عقل کو رومانی تاریخ دانوں نے اسے زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے
اس قیاس کو صرف اتنی ترقی دی کہ انہوں نے بچے کی پیدائش کا معجزہ خدائوں سے چھین کر ماں سے منسوب کر دیا
بقراط نے اپنی مشہور تصنیف ”انسان کی فطرت میں” جو چار سال قبل از مسیح لکھی گئی
قیاس آرائی کی کہ بچے کی پیدائش زنانہ و مردانہ بیجوں پر منحصر ہے
لیکن اس نے اس خیال کو ماہواری حیض کے ساتھ بری طرح گڈ مڈ کر دیا
ارسطو نے اس خیال کو یہ ترقی دی کہ انسان کے جنسی افعال جانوروں کے افعال سے مشابہ ہیں
قرون وسطیٰ میں انسان کو دیگر مخلوقات سے محض روائتاً افضل شمار کیا جاتا تھا
اس خیال کی بنیاد کوئی سائنٹیفک علم نہ تھا
البتہ مغربی سائنس کے عروج سے بہت عرصہ پہلے اس سلسلے میں چینیوں نے بہت زیادہ ترقی کی تھی
انہوں نے اندازہ لگایا تھا کہ زنانہ اور مردانہ عناصر ہوتے ہیں جو الگ الگ حمل نہیں ٹھہرا سکتے
علاوہ ازیں چینی زبان میں ایسے لفظ موجود تھے جن کے معنی ”اووری” یعنی اندادانی اور ”منی” کے ہوتے ہیں اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ حیض کا حمل سے کوئی تعلق نہیں ہے
قرون وسطیٰ کے زمانے میں انسان کو زندگی کے بنیادی حقائق کا قطعی علم نہ تھا
جنس کے متعلق سنجیدہ علم کی بجائے تو اہم اور جادو ٹونے کا دور دورہ تھا
یہ نہ بھولنا چاہیئے کہ کسی کے ذہن میں کبھی خیال تک پیدا نہ ہوا تھا کہ بچے کی پیدائش کا علم قابل ادراک ہے
سولہویں صدی عیسوی میں لی یروین ہوک نے خوردبین ایجاد کی
لیکن اس ایجاد کے سو سال بعد اس کے شاگرد ہام نے منی کے جراثیم دریافت کئے
انہی دنوں اس کے ساتھی گراف نے انڈادانی کے متعلق نئی معلومات مہیا کیں
اب حمل کی سچی کہانی تیار کرنے کا امکان پیدا ہوگیا
لیکن سو سال یونہی گزر گئے اور اس کے بعد کہیں جا کر سپیلن زانی نے منی کے کیڑوں کو حرکت کرتے ہوئے دکھایا
اور تقریباً ایک صدی اور گزر جانے کے بعد ہرٹ برگ اس قابل ہوا کہ منی کے کیڑے کو انڈادانی میں داخل ہوتے ہوئے دکھا سکے
لہٰذا تاریخ کے آغاز سے لے کر 1875 تک انسان کو حمل کی حقیقت کا کوئی علم نہ تھا
یہ بات خاص طور سے یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ہمیں 1875 کے بعد ہی علم ہوا کہ انسانی اور دوسری حیوانی زندگی کا آغاز کس طرح ہوتا ہے
اور ہمیں اس حقیقت کی روشنی میں جنس سے متعلق انسانی علم کی پیچیدہ ترقی کا جائزہ لینا چاہیئے
اگر ہم جنسی بیماریوں کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے تو اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ ہم جنسی عوامل کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے تھے
اس سلسلے میں ہمارا تمام علم قیاسات، تو ہمات اور قصے کہانیوں کا مجموعہ تھا
حاصل کلام یہ کہ جنسی بیماریوں کے خلاف جدوجہد آج سے کوئی تین سو سال پیشتر شروع ہوئی اور یہ پہلے پہل بالکل غیر سائنسی تھی
جب ہم نے دیکھا کہ آتشک کا مرض اپنے دوسرے اور تیسرے درجے میں کس قدر خطرناک صورت اختیار کر جاتا ہے تو رفتہ رفتہ ا س کے علاج کے طریقے دریافت ہونے لگے
جلد ہی طوائف سماجی بیماری کا سر چشمہ مانی جانے لگی
لیکن بد معاشی کے اڈے ہزاروں سال سے جائز سماجی اداروں کی حیثیت سے قائم تھے۔ اس لئے تجارتی عصمت فروشی کے خلاف رفتہ رفتہ ہی نفرت پیدا ہوئی
عصمت کی تجارت کی مخالفت ہوئی تو اس پر طبی حملہ کیا گیا
اور اس کے بعد کلیسا اور قانون نے دھاوا بول دیا
لیکن دو سال تک بدکاری کے خلاف جو جدوجہد جاری رہی وہ بالکل غیر منظم تھی او رغیر موثر ثابت ہوئی
بعد ازیں عصمت فروشی کو ” سرکاری طور پر تسلیم” کرنے کا زمانہ آیا
خطرے کے مقامات کو دوسری آبادی سے الگ کیا گیا اور اس علاقے کو بظاہر طبی نگرانی میں رکھا جانے لگا
اس کے ساتھ ہی تجارت کی وسیع ترقی نے جسے ہم بزنس کہتے ہیں بدکاری پر بھی گہرا اثر ڈالا
اور نوجوان لڑکیوں کی تجارت شروع ہوئی
لڑکیوں کو باقاعدہ طور پر عصمت فروشی کے لئے بھرتی کیا جانے لگا
اور تمام منافع چکلوں کے چودھریوں کی جیبوں میں جانے لگا
ایک وقت آیا کہ عصمت کی فروخت کو قانوناً منع کر دیا گیا
لیکن یہ دھندا چوری چھپے جاری رہا اور اس قدر نفع بخش ثابت ہوا
کہ اسے ختم کرنا قانون کے بس کا روگ نہ رہا
نتجتہ عصمت فروشی اور بدکاری کے خاتمے کی تحریک پیدا ہوئی
نئے قانون پاس کئے گئے
اکثر ملکوں میں حرام کاری کے خلاف جدوجہد کے لئے پولیس کے خاص محکمے کھولے گئے
ڈاکٹروں نے جنسی بیماریوں کے خلاف پر زور پراپیگنڈہ کیا
اور کلیسائوں نے زبردست تبلیغ شروع کر دی
ان سب کو ششوں کو مقصد بدی کو ختم کرنا تھا
لیکن انسان کی جہالت نے اس نیک کام کو سرے نہ چڑھنے دیا
یہاں تک کہ 1938 تک سوزاک اور آتشک کا اخباروں اور رسالوں تک میں ذکر شرافت کے خلاف سمجھا جاتا تھا
پہلی جنگ عظیم کے بعد عصمت فروشی کی ممانعت کے تمام قانون اور بدکاری کے خاتمے کے پروگرام ڈھانچہ دھڑام سے نیچے آیا
تمام ملکوں میں بدکاری اور جنسی وبا زور پکڑ گئی
لہٰذا اس کے خلاف سائنٹیفک بنیادوں پر دوبارہ مہم چلانے کی کوشش کی گئی
سینکڑوں مریضوں کی داستانیں عبرت کے طور پر اخباروں اور رسالوں میں چھاپی گئیں
اور بدکاری کے متعلق نام نہاد سائنسی مواد کا اتنا بڑا ڈھیر لگ گیا
کہ انسانی اخلاق، محبت شادی اور خاندان کے تمام اہم سوال اس کے تلے دب گئے
نفسیاتی تجزیے سے کام لیا جانے لگا
اور گناہ سے متعلق جو نئے نظریئے پیدا ہوئے ان میں سے اکثر کو طبی حمایت بھی مل گئی
اس کے باوجود یہ ابدی سوال بد ستور قائم رہا کہ عورتیں حرام کاری پر مجبور کیوں ہوتی ہیں
روس کے علاوہ دوسرے ملکوں میں بدکاری کے عجیب و غریب وجوہ بیان کئے گئے ہیں
جن سے شاید آپ بھی آگاہ ہیں
ان میں سے بعض یہ ہیں
1: طوائفیں فطرتاً بد اخلاق ہوتی ہیں
اس لئے جب تک سائنٹیفک طریقے پر انسانی نسل کی پرورش شروع نہ ہو جائے
یا مذہب کے ذریعے انسان کی اصلاح نہ کی جائے اس وقت تک بدکاری کے خلاف کچھ نہیں کیا جا سکتا
2: چونکہ مرد جنسی زندگی میں ذائقے کی تبدیلی کو فطرتاً پسند کرتا ہے ا س لئے زنا کا خاتمہ نا ممکن ہے
بدکاری باقی رہے گی
3: صرف مرد ہی حرام کاری کے ذمہ دار ہیں اس لئے وہ برے فعلوں سے بچنے کا حلفاً وعدہ کریں
اور ایسے افعال کی حمایت نہ کریں تو شاید یہ بدعت ختم ہو جائے
4: بہت سی بدکار عورتیں ایسی ہیں جو شروع میں شروع شریف لڑکیاں تھیں لیکن بری صحبت میں پڑ کر خراب ہو گئیں
لہٰذا علاج کلیسا اور گھر سے شروع ہونا چاہیئے
5: چونکہ دنیا میں عورت ہمیشہ رہے گی
اس لئے بدکاری بھی ہمیشہ رہے گی کیونکہ عورتیں زندگی کی نعمتوں کے حصول کے لئے آسان طریقہ اختیار کرتی ہی رہیں گی
6: تقریباً تمام پیشہ ور عورتیں فیکٹری میں کام کرنے والی لڑکیوں سے بھرتی کی جاتی ہیں
اس لئے حرام کاری کو ختم کرنا ہے تو عورتوں کو صنعتوں میں کام کرنے سے روک دیا جائے
7: جو لڑکیاں بعد میں پیشہ اختیار کرتی ہیں وہ شادی سے پہلے مائیں بننے کا تجربہ کر چکی ہوتی ہیں
8: بدکار عورت نفسیاتی علاج سے بہت جلد متاثر ہوتی ہے
لہٰذا بہت سی پیشہ ور عورتوں کو نفسیاتی تجزیے کے ذریعے ان کا کھویا ہوا اور وقار واپس مل سکتا ہے
اب آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ اس سفید جھوٹ اور نیم حقیقت کا کیا کیا جائے
لہٰذا بدکاری اور عصمت فروشی کے خلاف جہاد کرتے کرتے قانون ساز اسمبلیاں مفلوج ہو گئیں
تو حیرانی کی کوئی بات نہیں
اور پھر کوئی مثال بتایئے کہ کوئی قانونی اقدام اس قسم کی مخالفت کے بغیر اٹھایا گیا ہو کہ یہ لا محالہ نا کام رہے گا
چند سال پیشتر پال ڈی کروئف نے مردوں کے ایک رسالے میں اپنا ایک سنسنی خیز مقالہ شائع کیا
جس میں اس نے بدکاری کے خلاف جدوجہد کرنے کا ایک نیا طریقہ پیش کیا
یہ مقالہ اچھا خاصا افسانہ تھا
جس میں ایک ایسی دوا کی موجودگی کی اطلاع دی گئی تھی جسے عورتیں استعمال کریں تو نہ صرف یہ ہو گا کہ دوسروں کو ان سے بیماری نہیں لگے گی
بلکہ بیماری کا زور ٹوٹ جائے گا
دوسرے لفظوں میں ا س کا مطلب یہ ہے کہ اس دوا کے استعمال سے کوئی خوف باقی نہیں رہتا
اور ان گنت بار زنا کیا جا سکتا ہے
بچے کی ضرورت ہی کیا ہے مقصد تو بیماری سے بچنا ہے
لیکن یہ امسٹر کروئف کے زرخیز تخیل کی پیداوار نکلی
پھر بھی ایسی دوا کی ایجاد نا ممکنات میں سے نہیں چونکہ اب تک کوئی ایسی دوا موجود نہیں ہے
اس لئے طبی تحقیقات کا رجحان زیادہ تر اس طرف ہے کہ مانع مرض اور دافع مرض دوائیں ایجاد کی جائیں
سائنس دانوں کی اچھی خاصی تعداد کا خیال ہے کہ یہ جڑواں بہنیں ایجاد ہو گئی
تو حرام کاری سے پیدا شدہ مصیبت خود بخود ختم ہو جائے گی
کیا اہم ان سے اتفاق کر سکتے ہیں
اس سوال کے جواب کے لئے کسی خاص سوچ بچار کی ضرورت نہیں
آج کل بیماری لگنے اور حمل ٹھہرنے کے دو ایسے قدرتی خوف ہیں جن کے پیش نظر بہت سے نوجوان اور دوشیزائیں جنسی تعلقات میں محتاط ہیں
اور ایسا لگتا ہے کہ بدکاری ایک حد تک قابو میں ہے
جونہی یہ خدشہ جاتا رہے گا ہر قسم کی بدکاری میں کمی کی بجائے اضافہ ہو جائے گا
عام لوگ جتنی مقدار میں جنسی بیماری سے بچائو اور ضبط تولید کے طریقوں کا علم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس سے زیادہ گناہ میں اضافہ ہو رہا ہے
یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ سوویت یونین کے سواہر ملک میں عصمت فروشی کا قوی امکان ہے
کیونکہ سوویت یونین میں سائنس کا کام محض جنسی بیماری اور ناجائز پیدائش سے اعداد شمار جمع کرنے تک محدود نہیں کیا گیا تھا
بلکہ وہاں اس سے کہیں زیادہ اہم اخلاقی مسائل در پیش تھے
اشتراکی حکومتوں کو تو اس بات کی لگن تھی کہ انسانی نسل کی اصلاح کیسے ہو اس کی فطرت کو کیسے بدلا جائے
عصمت کی تجارت کا خاتمہ
روسی عورتوں نے سوال نامے کے جواب میں متفقہ طور پر بتایا
کہ عورتیں معاشی دبائو غریبی سے مجبور ہو کر عارضی یا مستقل طور پر بدکاری اختیار کرتی ہیں
لیکن اس سوال کا یہ جواب ادھورا ہے
روس کی غریب عورتوں کی اکثریت نے بدکاری کا غریبی کا حل سمجھ کر اختیار نہ کیا تھا
اس کی وجہ؟ کیا ان کی حالت اس بدنصیب اقلیت سے اچھی تھی جنہوں نے عصمت فروشی کو اپنی غریبی کا علاج سمجھا تھا؟
ہر گز نہیں؟ روسی عورتوں نے اس سوال کا بھی موثر جواب دیا
جو عورتیں عصمت فروشی کی لعنت میں گرفتار تھیں انہوں نے بتایا کہ وہ دوسرے لوگوں کے اکسانے پر عصمت کی تجارت کرنے لگیں
یہ اکسانے والے کون تھے؟
عموماً یہ ایسے مرد نہ تھے جو سب سے پہلے ان کے گاہک بنے بلکہ یہ ایسی عورتیں اور مرد تھے جو عصمت کی تجارت سے نفع کماتے تھے
اور یہ لوگ دلال یا چکلوں کے چودھری اور مالک تھے
بعض قاری یہ خیال کریں گے کہ مذکورہ بالا ہر دو حقائق کا اطلاق صرف روسی عورتوں پر ہی ہو سکتا ہے
انہیں چاہیئے کہ وہ اس سلسلہ میں فلیکسز اور کوپر کی کتابیں پڑھیں اور کتابوں سے معلوم ہو گا کہ ان دونو ں حقیقتوں کا اطلاق 1923 کے روس کی طرح آج روس کے علاوہ ہر ملک پر ہوتا ہے
اور اس سے دنیا کا کوئی ملک مستشنے نہیں
عصمت فروشی کے دو سبب ہیں
پہلا سبب یہ ہے کہ دنیا میں بے شمار مفلوک الحال اور بے یار مددگار لڑکیاں پائی جاتی ہیں
اور دوسرا یہ کہ عصمت کی باقاعدہ اور منظم تجارت سے بھاری منافع حاصل ہوتا ہے
بدنصیب لڑکیوں کو ان منافعوں سے کوئی خاص حصہ نہیں ملتا
رومانی اور خیالی اندازوں کے برعکس پیشہ ور لڑکیوں کی ماہوار آمدنیاں نہایت قلیل ہیں
ان کی زندگی نہایت ہی ہولناک اور ان کا ماحول نہایت ہی غلیظ اور پست ہے
البتہ چند لڑکیاں ایسی بھی تھیں
جنہوں نے عصمت فروشی کو مستقل پیشہ بنانے کے لئے اختیار کیا تھا
ہزاروں لڑکیوں نے اعتراف کیا کہ وہ نا سمجھی میں بدکار بن گئیں اور ان پر حقیقت حال بعد میں کھلی اکثر نے یہ دھندا مجبوراً اختیار کیا
وہ فاقوں مر رہی ہوتیں یا ان کا کام غیر دلچسپ اور اکتا دینے والا ہوتا
یا وہ نہایت قلیل اجرت پر حد سے زیادہ مشکل اور ناقابل برداشت کام کر رہی ہوتیں
یا فرصت کے وقت ان کے پاس دل بہلاوے اور تفریح کا کوئی سامان نہ ہوتا
تو اس حالت میں کوئی دلال مرد یا عورت وار ہوتی
وہ نہایت چالاکی سے سنہری جال بچھاتی اور لڑکی کے ساتھ تاریخ اور معاوضہ طے کر جاتی عام طورسے یہ معاوضہ قلیل ہوتا تھا
اشتراکی محققوں نے معلوم کیا کہ اکثریت کو کسی خاص معاوضے کا وعدہ نہ دیا جاتا تھا
وہ اس قدر خستہ حال ہوتی تھیں کہ ان کے لئے معمولی معاوضہ بھی گناہ کی زبردست ترغیب ثابت ہوتا
کوپر نے اپنی کتاب میں بتایا کہ امریکہ میں بھی یہی صورت حال پائی جاتی ہے
اس نے لکھا ہے کہ لڑائی سے چند سال پہلے فی ہفتہ اکیس بکس (bocks) خالص منافع کے وعدہ پر لڑکیوں کو عصمت فروشی کے لئے بھرتی کیا جاتا تھا اور یہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ گناہ کی جڑ نہایت افلاس میں ہے
مذکورہ بالا سوال نامے کی تیاری کے وقت سوویت حکومت نے ملک کی صنعتی اور زرعی زندگی کو نئے سرے سے منظم کرنا شروع کیا ہی تھا
اس وقت عورتوں کے لئے تقریباً کوئی نوکری یا عہدہ خالی نہ تھا اور اگر کوئی تھا بھی تو تنخواہ بہت ہی تھوڑی تھی
سوال نامے میں عورتوں کو کوئی ملازمت پیش نہیں کی گئی تھی
اور نہ کوئی باعزت روز گار کے ذریعے اپنی اخلاقی زندگی کو بحال کرنے کے لئے بیتاب ہیں
انہیں اپنی اخلاقی پستی کے معاشی وجوہ کا پورا احساس تھا
ان بدنصیب عورتوں کی اکثریت بچوں کی پرورش کر رہی تھی
اور وہ ہر وقت یہ خواب دیکھتی تھیں کہ بچوں کے باشعور ہونے سے پہلے اپنے ذلیل پیشے سے نجات حاصل کر لیں
تاکہ وہ ان کے لئے ندامت کا داغ ثابت نہ ہوں
اس سوال نامے سے ایک اور حقیقت کی تصدیق ہوئی جسے آج ہر ماہر نفسیات، مصلح اور زانی مرد اچھی طرح جانتا ہے
لیکن اس سے بہت کم شریف عورتیں آگاہ ہیں
وہ حقیقت یہ ہے کہ ایسی لڑکیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جو ہوس پرستی یا حد سے زیادہ بڑھی ہوئی جنسی خواہش کی تسکین کی خاطر عصمت فروشی اختیار کرتی ہیں
روسی عورتوں نے متفقہ طور پر بتایا کہ اس قسم کی زندگی کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طبیعت جنس سے قطعاً اچاٹ ہو جاتی ہے
اور دل کو جنسی فعل سے نفرت ہو جاتی ہے
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ بدکاری کی طرف مائل ہوئیں تو لذت کشی کا خیال تک ان کے قریب نہ پھٹکا تھا
اشتراکی ماہرین نفسیات نے اس سوال نامے کے جوابوں کی روشنی میں اس عام تجربے کی تصدیق کی
کہ اکثر طوائفیں نفسیاتی اعتبار سے صحت مند ہوتی ہیں
ان کے دماغوں میں خلل ہوتا ہے تو زیادہ سے زیادہ اس قدر، جتنا کہ عام با خلاق عورتوں کے دماغوں میں پایا جا سکتا ہے
یعنی ان کی ذہنی حالت عام عورتوں کی سی ہوتی ہے۔ شائستگی اور حیا سے بے حیائی اور بدکاری کی طرف میلان کاباعث نفساتی دباو نہیں بلکہ معاشی دبائو ہے
آج کل ہمارے ہاں یہ خیال عام پایا جاتا ہے کہ بداخلاق لڑکی کی سماجی حیثیت کو بحال کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے
کہ اسے کافی عرصہ تک نفسیاتی شفاخانے میں رکھا جائے
یہ نظریہ سائنس اور عقل کے خلاف ہے
اس کے نتیجے کے طور پر بے شمار مضحکہ خیز سکیمیں تیار ہونے لگتی ہیں
مثلاً عورتوں کے لئے نجات گھر اور اصلاح گاہیں تعمیر ہونے لگتی ہیں
لڑکی کو پہلے جرم پر قید کی سزا دی جاتی ہے اور اس کے دوران میں ایک افسر اس کی نگرانی کرتا ہے
وہ تصدیق کر دے کہ ملزمہ کا اخلاق درست ہو گیا ہے
تو اسے تجربتاً رہا کر دیا جاتا ہے
ایسی سکیموں سے کوئی مقصد حاصل ہوتا ہے تو صر ف یہ کہ جرائم اور بدکاری کا عام سبب یعنی افلاس وقتی طور پر پس منظر میں چلا جاتا ہے
روسی عورتوں نے بد معاشی کے معاشی اسباب پر بہت زیادہ زور دیا
اور نہایت موثر الفاظ میں مطالبہ کیا کہ ہمیں کوئی باعزت کام دیجئے
مناسب تحفظ کا یقین دلا دیجئے ہم اپنے آپ کو فوراً بحال کر لیں گی
وہ جواب خاص طور سے بصیرت افرور تھے جو عصمت کی تجارتی لوٹ کھسوٹ سے متعلق تھے
ان سے اس فریب کی قلعی کھل گئی کہ عصمت فروشی کے اڈوں کو چند امیر اور صاحب دماغ آدمیوں کا گروہ چلاتا ہے
اور اس پر اسرار گروہ کا راز فاش ہو گیا
جسے عصمت کا تاجر کہتے ہیں
کیونکہ سوال نامے نے ثابت کر دیا کہ بدکاری سے نفع کمانے والے لوگ عام عورتیں اور مرد ہوتے ہیں
ان دنوں روس میں بدکاری سے نفع کمانے والوں کی اکثریت عام اور گمنام قسم کے لوگ ہوتے ہیں
ان میں تانگے والے ہوٹلوں کے بیرے، عام جرائم پیشہ اور نشہ کے عادی لوگ ہوتے ہیں
اور گھٹیا درجے کے ناچ گھروں، ہوٹلوں ریستور انوں اور تفریح گاہوں کے مالک اور سب سے بڑھ کر ایسے جا گیردار اور صاحب جائد اد لوگ شامل ہیں جو سستے ہوٹلوں سرائوں اور سیاحوں کی قیام گاہوں کے مالک ہوتے ہیں
اب ہم نکتہ اختلاف یعنی اس مسئلے پر پہنچ گئے ہیں جس کا سامنا اشتراکی ماہرین کو عصمت فروشی کے خلاف مہم چلانے سے پہلے کرنا پڑا
دوسرے لفظوں میں یہ ایسا نکتہ ہے جو اشتراکی مہم کو باقی تمام مہموں سے ممیز کرتا ہے جو کسی دوسرے ملک میں عصمت فروشی کے خلاف چلائی گئیں
اس نکتے کی آسان تشریح یہ ہے کہ سوویت یونین میں بدمعاشی کے خلاف زبردست مہم چلانے کی ٹھان لی گئی
تو فیصلہ کیا گیا کہ اس مہم کا رخ طوائف کے خلاف ہر گز نہیں ہو گا کیونکہ منظم بدکاری ایک سماجی برائی ہے اس کا بنیادی سبب عورتوں کا افلاس ہے
اور نفع اندوزی کا لالچ اس لعنت کو برقرار رکھے ہوئے ہے
اس پالیسی کی اخلاقی بنیاد کیا ہے؟
اس کی مکمل تشریح میکسم گور کی ان الفاظ میں کر چکا ہے
اب ہم نکتہ اختلاف یعنی اس مسئلے پر پہنچ گئے ہیں جس کا سامنا اشتراکی ماہرین کو عصمت فروشی کے خلاف مہم چلانے سے پہلے کرنا پڑا
دوسرے لفظوں میں یہ ایسا نکتہ ہے جو اشتراکی مہم کو باقی تمام مہموں سے ممیز کرتا ہے جو کسی دوسرے ملک میں عصمت فروشی کے خلاف چلائی گئیں
اس نکتے کی آسان تشریح یہ ہے کہ سوویت یونین میں بد معاشی کے خلاف زبردست مہم چلانے کی ٹھان لی گئی
تو فیصلہ کیا گیا کہ اس مہم کا رخ طوائف کے خلاف ہر گز نہیں ہوگا کیونکہ منظم بدکاری ایک سماجی برائی ہے
اس کا بنیادی سبب عورتوں کا افلاس ہے اور نفع اندوزی کا لا لچ اس لعنت کو برقرار رکھے ہوئے ہے
اس پالیسی کی اخلاقی بنیاد کیا ہے؟
اس کی مکمل تشریح میکسم گورکی ان الفاظ میں کر چکا ہے
دنیا میں ایک بھی غلام اور مظلوم باقی نہ رہے تو اغلب ہے کہ انسان مثالی طور پر نیک بن جائے اور اگر ہم چاہتے ہیں
کہ دنیا میں کوئی غلام اور مظلوم نہ رہے تو ان لوگوں کے خلاف زبردست جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے
جو غلاموں کی محنت پر زندہ رہنے کے عادی ہو چکے ہیں
سوویت حکومت نے 1925 میں ایک قانون کے ذریعے اپنے نظریوں کو عملی شکل دی
اس قانون کا نام تھا عصمت فروشی کے خلاف جدوجہد کے اقدامات
اس قانون کا پیش لفظ چونکا دینے والا تھا
اس میں بدکاری اور بیماری کے بڑھتے ہوئے سیلاب کی طرف توجہ دلائی گئی تھی
اور ہر حکومتی ادارے، ٹریڈ یونین، امداد باہمی اور عوامی کو ہدایت دی گئی کہ مندرجہ ذیل امور پر فوراً عمل کیا جائے
1: حکم دیا گیا کہ ملیشیا یعنی مسلح مزدوروں کے دفاعی دستے ٹریڈیونینوں کی براہ راست حمایت حاصل کریں
اور محنت کش عورتوں کو ان کی موجودہ ملازمتوں سے ہر قیمت برطرف نہ ہونے دیں
اس بات کا خاص طور سے خیال رکھا جائے کہ غیر شادی شدہ عورتوں کو جو محنت کر کے اپنا پیٹ پالتی ہیں یا جو حاملہ ہیں
جو چھوٹے چھوٹے بچوں کی مائیں ہیں یا بے گھر نوجوان لڑکیوں کو کسی صورت میں بھی ملازمت سے بر طرف نہ کیا جائے
2: اس وقت ملک میں بہت زیادہ بے روزگاری پائی جاتی تھی
اس مسئلے کے جزوی حل کے لئے مقامی حکومتوں کے مختلف اداروں کو ہدایت دی گئی کہ غریب عورتوں کو محنت مزدوری بہم پہنچا نے کے لئے امداد باہمی بنیادوں پر زرعی فارم اور فیکٹریاں قائم کی جائیں
3: تمام عورتوں کو سکولوں اور تربیت گاہوں میں داخل ہو کر علم اورفن سیکھنے پرا بھارا گیا
اور یونینوں کو ہدایت کی گئی کہ صنعتی اور پیشہ ورانہ اداروں میں عورتوں کے داخلے کی جو مخالفت پائی جاتی ہے
اس کا کامیابی سے مقابلہ کیا جائے
–
4: رہائشی مکانوں کا بندوبست کرنے والے محکموں کو حکم دیا گیا جن عورتوں کا کوئی مخصوص ٹھکانہ نہیں
یا جو لڑکیاں ملازمت کے سلسلہ میں دیہات سے شہروں میں آتی ہیں ان کے لئے مشترکہ رہائشی ادارے قائم کئے جائیں
5: لاوارث اور بے گھر بچوں اور لڑکیوں کے تحفظ کے لئے جو قوانین بنائے گئے ہیں
ان پر پوری طرح عمل کیا جائے
6: ملک کی تمام آبادی کو جنسی بیماری یعنی آتشک کی خطرناک مصیبت اور عصمت فروشی کی لعنت سے آگاہ کرنے اور نئی جمہوریت سے ان برائیوں کے خاتمے کے لئے قومی امنگ اور عزم کے ساتھ جہالت پر عام دھاوا بولا جائے اور تعلیم کو رواج دیا جائے
یہ سب اقدامات ابتدائی قسم کے تھے اور ان کا مقصد نہایت غریب عورتوں اور لڑکیوں کی حالت کو قدرے بہتر بنانا تھا
اشتراکی حکومت کو اس امر کا پورا احساس تھا کہ بدکاری سوسائٹی کے ہر طبقے میں پائوں جما چکی ہے۔ صرف معاشی دبائو کے ہلکا کر دینے سے یہ موجودہ نسل سے تو ہر گز دور نہیں ہو سکتی
اور شاید آئندہ نسل میں بھی باقی رہے
لہٰذا اس پر براہ راست حملہ کیا گیا
اس مقصد کے پیش نظر مرکزی حکومت نے تین مزید قانون نافذ کئے
1: زار شاہی کے قانون میں بدکر دار عورتوں کے خلاف جتنے بھی ظالمانہ اقدامت روا رکھے گئے تھے انہیں قانون اور پولیس کی سرگرمیوں سے قطعاً الگ کر دیا گیا
2: مفت خوروں اور طفیلیوں کے خلاف شدید جنگ کا آغاز کیا گیا
کیونکہ ان لوگوں کا مفاد بلا واسطہ یا بالواسطہ عصمت فروشی سے وابستہ تھا۔ مقامی حکومتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اس سلسلہ میں ان بے رحموں سے بے رحمی کے ساتھ پیش آئیں
3: جو لوگ جنسی بیماریوں سے متاثر تھے انہیں ہر ممکن طریقے سے ڈاکٹر اور طبی سہولتیں مفت بہم پہنچائی گئیں
ان قوانین پر عمل کرانے کے لئے محکمہ صحت عامہ کے ماتحت ایک نیا ادارہ قائم کیا گیا
لیکن شروع ہی سے بہت سے مشکل کا سامنا کرنا پڑا
اقتصادی اقدام سے رفتہ رفتہ خاطر خواہ نتیجہ نکلنے لگا تھا
لیکن منظم بدکاری یعنی عصمت کی تجارت کے خلاف جدوجہد میں کوئی کامیابی نظر نہ آئی
زار شاہی پولیس کے وحشیانہ طریقے مسلح مزدوروں کے بعض دفاعی دستوں نے ہو بہو اختیار کے لئے جن کے قائد ایسے لوگ تھے
جو بداخلاقی سے متعلق نئے نظریئے کو سمجھ نہ سکے تھے
اس لئے 1923میں عوامی مجلس انصاف نے ضابطہ فوجداری میں ترمیم کر دی
جس کا آزاد ترجمہ حسب ذیل ہے
دفعہ نمبر 170 جو شخص ذاتی منفعت یا کسی دوسری غرض سے جسمانی یا اخلاقی دبائو کے ذریعے عصمت فروشی کی حوصلہ افزائی کرے گا
وہ اپنے پہلے جرم پرکم تین سال سزائے قید کا مستوجب ہوگا
دفعہ 171 عصمت کے تاجر اپنے پہلے جرم پر کم سے کم تین سال قید اور تمام ذاتی جائیداد کی ضبطی کی سزا کے مستوجب ہوں گے
اگر طوائف کسی ملزم کی زیر نگرانی ہو یا اس کی ملازمت میں ہو یا اس کی عمر اکیس سال سے کم ہو تو قید کی سزا بڑھا کر کم سے کم پانچ سال کر دی جائے گی
ان قوانین پر عملدر آمد کی ذمہ دای پہلے پہل محکمہ صحت عامہ کے سپرد کی گئی تھی
لیکن بعد میں جنوری 1924 میں امور داخلہ کی عوامی مجلس کے حوالے کر دی گئی
یہ ادارہ تقریباً ہمارے ہاں کے محکمہ عدل و انصاف یا سرکاری وکیل اعظم کے دفتر سے مشابہ ہے
اس کے بعد ایک اور آرڈی ننس جاری کیا گیا
جسے فوراً قانونی شکل دے دی گئی
یہ قانون عصمت فروشی کے خلاف جدوجہد میں ملیشیا کے فرائض سے متعلق تھا
یہ غیر معمولی قانون تاریخ میں ہمیشہ یاد گار رہے گا
کیونکہ یہ پہلا قانونی اقدام ہے جو منظم بدکاری کی سماجی بنیادوں کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوا
اور یہ اس قابل ہے کہ دوسرے ملکوں کو نمونے کا کام دے سکے اسے دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے
۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“