حصہ ششم
گناہ اور سائنس Sin And Sciences
۔۔۔۔۔
علم حیات کا یہ اصول تمام قوانین اوراخلاقیات پر بھاری ہے کہ عورت اور مرد جسمانی اعتبار سے برابر نہیں
اس لحاظ سے عورتوں کو مردوں پر فضلیت حاصل سے مباشرت سے دونوں کا مقصد صرف وقتی تسکین ہوتا ہے
لیکن بچے کی پیدائش انسانی نسل کی بقا اور خاندان کا وجود ایسا افضل ترین فریضہ صرف عورتیں ہی ادا کر سکتی ہیں
اور معاشرہ اس فضیلت کوعملی زندگی میں کس طرح تسلیم کرتا ہے
مادریت پر سخت سزائیں عائد کر کے
عورت حاملہ ہو جائے تو اپنے کام کاج سے بھی جائے
بچے کی پیدائش کے وقت عورت کو جو جسمانی تکلیف ہوتی ہے اسے وہی جانتی ہے
معصوم بچوں کی حفاظت کی ذمہ دار ہے تو عورت
جس طرح آج ہمارے ملکوں میں دستور ہے اسی طرح بداخلاقی کے خاتمے سے پہلے روس میں بھی کوئی عورت ماں پن یعنی اولاد کی پرورش کا بوجھ صرف اسی صورت میں ہلکا کر سکتی تھی
جب کہ وہ اپنے اوپر ایک مرد یعنی شوہر کا مکمل قبضہ تسلیم کرے
عورت شادی کر کے دوسرے کی دست نگر بن جاتی ہے
لیکن مرد اس پابندی سے آزاد ہے
لہٰذا ان حالات میں اصناف کی برابری کا دعویٰ خالی لفاظی ہے
تسلیم کہ جمہوریت اور سرمایہ داری نے عورت کو ایک ایسے مرد سے شادی کرنے کی مذموم پابندی سے نجات دلائی
جس سے اسے کوئی محبت نہ ہو
یعنی عورت کو ایک ایسا خاوند قبول کرنے سے آزادی مل گئی جسے اس نے منتخب نہ کیا
بلکہ جاگیردارانہ اصولوں کے مطابق دوسرے لوگوں نے چنا ہو
لیکن عورتیں حق مادریت سے فائدہ اٹھانا چاہتی تھیں
تو ان میں سے اکثر کے راستے میں ہزاروں قسم کی سماجی اور معاشی رکاوٹیں تھیں
شادی کر کے اسے آزادی جیسی مقدس چیز کی قربانی کرنا پڑتی تھی
عورتوں کے تمام نجات دہندوں اور حامیوں کی سب کوششیں اس لئے ناکام رہیں کہ ہمارے سماج میں عورت جن زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے
ان کی ہئیت اقتصادی ہے اور حیاتی حقائق کے فولاد سے گھڑی گئی ہے
یہ بات قابل توجہ ہے کہ ہٹلر کے عہد حکومت میں جرمنی کے اخلاق پرستوں نے جدید عورت کی پس ماندگی سے خوب فائدہ اٹھایا
خود ہمارے ہاں کے رجعت پسند حضرات نازیوں کے اس نعرے میں بہت زیادہ کشش محسوس کرتے ہیں
کہ عورتوں کو انہیں بچے عطا کر دو
کھانا پکانے کے آہنی چولہے دے دو اور کلیسا بخش دو
ہٹلرکے اس گھسے پٹے جاگیردارانہ نصب العین کو قدیم مذہب کا درجہ عطا کرنے سے کافی عرصہ پہلے اشتراکی ماہرین سمجھتے تھے
کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت اور مرد میں مکمل مساوات نہیں
وہ کہتے تھے کہ جدید دنیا میں بداخلاقی کابنیادی سبب ہی عدم مساوات ہے
سوال نامہ
۔۔۔۔۔
لیڈی اور لارڈ پاس فیلڈ نے اپنی مشہور کتاب
'سوویت اشتراکیت ایک نئی تہذیب' میں سوویت یونین کا مفصل حال بیان کیا ہے
اور وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ”لینن اور اس کے ساتھیوں نے روسی قوم کی اصلاح کا کام آدم کی بجائے حوا سے شروع کیا
اس پر بھی اشتراکی رہنمائوں نے کبھی بڑ نہیں ماری کہ وہ صنف نازک کے نجات دلانے والے ہیں
انہوں نے اپنی جدوجہد کو اسی قسم کے ادنےٰ حقوق تک محدود نہیں رکھا کہ عورتیں اونچی قمیض پہنیں چاہے نیچی
وہ لمبے بال رکھیں چاہیے یا چھوٹے یاوہ سر عام سگریٹ پی سکتی ہیں اور قانون کے آگے مردوں کے برابر ہیں
انہوں نے جہاں عورتوں کے عام مردوں سے تعلقا ت کی مخالفت کی وہاں مردوں کے اس حق کی بھی مخالفت کی کہ وہ عام عورتوں سے جنسی تعلقات رکھ سکتے ہیں
خاص بات یہ ہے کہ سوویت یونین میں عورتوں کی آزادی کا پروگرام صرف عورت کو پیش نظر رکھ کر نہیں بنایا گیا بلکہ عام انسانیت کی بھلائی کے لئے تیار کیا گیا
اشتراکی سائنس اس نتیجے پر پہنچی انسانی کی اصلاح اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک مرد اور عورت کے درمیان مساوات قائم نہیں ہو جاتی
انہوں نے بداخلاقی اور حرام کاری پر حملہ کرنے سے پہلے اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ انسانیت نا قابل تقسیم ہے اور کسی ایک طبقے کی اصلاح الگ سے ممکن نہیں
سوویت یونین سے باہر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ آج سے پچیس سال پہلے لینن نے اعلان کیا تھا کہ عورتوں کا مسئلہ انہیں عدم مساوات کی ذلت سے چھڑانے تک محدود نہیں
بلکہ ان اہم مسئلوں میں سے ایک ہے جن سے آج تک کی دنیا دوچار ہے
اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوویت یونین کے وسیع علاقے میں سب سے پہلے اسلامی ریاستوں میں اصلاح کا کام شروع کیا گیا
اور دوسرے سیاسی فریضوں پر عورتوں کی آزادی کی جدوجہد کو ترجیح دی گئی
اس سلسلہ میں جو عملی اقدام اٹھائے گئے وہ ایک مدت سے سوویت یونین کے قانون میں شامل ہیں اور ان کا خلاصہ یہ ہے
1۔ عورتوں کو رائے دینے اور تمام سرکاری اداروں کے لئے منتخب ہونے کا حق دیا گیا
اکثر مہذب ملک اس حق کو تسلیم تو کرتے ہیں لیکن عملاً اسے نظر انداز کر جاتے ہیں
ہمارے ہاں عورتیں رائے دے سکتی ہیں
لیکن تمام قانون مرد ہی بناتے ہیں اور وہی ان پر عمل در آمد کراتے ہیں
2 ۔ تمام قانونی فرائض اور شہری حقوق عورتوں اور مردوں میں برابر تقسیم کئے گئے
تاریخ میں پہلی مرتبہ عورت اور مرد کو عدالت کے سامنے برابر کی ذمہ داریاں اور حقوق دیئے گئے
3۔ ہر ایسے شخص کے لئے سخت سزائیں مقرر کی گئیں جو عورت کو کسی طرح اس کی مرضی کے خلاف شادی کرنے پر مجبور کرے
اس سزا سے والدین کو بھی بری نہ کیا گیا
اس قانون میں اس کے سوا کوئی خاص انقلابی بات نہ تھی کہ اس پر سختی سے عمل دار آمد کرایا گیا
ہمارے ہاں ہولناک قسم کے جسمانی تشدد کی صورت میں ہی ایسے قوانین کا سہارا لیا جاتا ہے
4 ۔ عورت کی مکمل معاشی آزادی کے تحفظ کے لئے بیسیوں کے لئے قوانین بنائے گئے اور احکام جاری کئے گئے
ہمارے ملکوں میں بیاہی ہوئی یا کنواری عورتوں کے حق ملازمت کے تحفظ کے لئے شاید ہی کوئی قانون بنایا گیا ہو گا
لیکن سوویت یونین میں عورتوں کو ملازمت کی ضمانت حاصل ہے جس کا تحفظ قانون کرتا ہے
بظاہر یہ امتیاز مصنوعی معلوم ہوتا ہے کیونکہ ہم نے کم از کم جنگ کے دوران میں تو دیکھا ہے کہ عورتوں کے لئے ہر کہیں ملازمت موجود تھی لیکن یہ صورت حال مردوں کی انتہائی قلت کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی
اور سال ہی میں عورتوں کو گھر واپس بلانے کی تحریک شروع ہو چکی ہے
اس تحریک کا محرک یہ خدشہ ہے کہ جنگ کے بعد کے زمانے میں تمام مردوں کے لئے کام مہیا نہیں کیا جا سکے گا
اور ہمارے ہاں یہ اصول مسلمہ ہے کہ کام کی قلت کے دنوں میں مردوں کو عورتوں پر ترجیح دی جائے
علاوہ ازیں ہمارے ٹریڈ یونین اس جدوجہد میں تو کامیابی حاصل کر چکے ہیں کہ محنت کش عورتوں کو ایک جیسے کام کا مساوی معاوضہ ملنا چاہیئے
لیکن صنعتی اداروں میں بچہ گھروں کے قیام کے مطالبے کے فوری ضرورت کی طرف بالکل توجہ نہیں دی جاتی
تاکہ ان میں محنت کش مائیں اپنے بچوں کو چھوڑ سکیں
اور بے فکری سے اپنا کام کر سکیں
اس کا سبب یہی ہے کہ عورتیں کارخانوں سے دور ہی رہیں
سوویت یونین کی عورتوں کی موجودہ نسل ملازمت کے بارے میں بالکل مختلف نظریہ رکھتی ہے
وہ اپنے آپ کو مردوں کے بالکل برابر سمجھتی ہیں
اشتراکی ملکوں میں مردا ور عورت کو ملازمت کا حق دینے کی محرک معاشی ضرورت سے زیادہ اخلاقی اہمیت تھی
اشتراکی سائنس دان اور سیاست دان جانتے تھے کہ عورت کی آزادی کی تمام باتیں اس وقت تک فضول اور بے کار ہیں جب تک ان پر معاشی پابندیاں عائد ہیں
علاوہ ازیں انہیں یہ احساس بھی تھا کہ عورتوں کو معاشی مساوات کا درجہ ”قلم کے ایک جھٹکے” یا ”قانون کے نفاذ” سے حاصل نہیں ہو سکتا
کیونکہ بدکاری کے تمام مسائل ابھی جوں کے توں باقی تھے
اشتراکی انقلاب کے چار سال بعد 1921میں دیکھا گیا کہ قوم میں بدکاری پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے
یہ صورت حال اس عام بحران کا نتیجہ تھی جو غیر ملکی حملہ آور فوجوں کے خلاف طویل جنگ کی وجہ سے پیدا ہو گیا تھا
اس وقت باقاعدہ منصوبہ بندی پر عمل نہ ہو سکتا تھا
بے روز گاری بہت بڑھ گئی تھی
بے کاروں میں دو تہائی تعداد عورتوں کی تھی
ملک جنگ سے تباہ حال تھا اور خاص طو ر سے عورتوں کی مصیبتوں میں اضافہ ہو گیا تھا
دو سال تک حرام کاری بتدریج بڑھتی گئی
اشتراکی سائنس دان 1923 میں اس قابل ہو گئے کہ بدکاری کے خلاف عام مہم کا آغاز کر سکیں
انہوں نے حرام کاری پر پہلا وار کیا تو ملک میں سنسنی پھیل گئی
اس قسم کی کوشش آج تک کہیں نہ کی گئی تھی
اس مہم کا آغاز ایک مطبوعہ سوال نامے سے کیا گیا
یہ سوال نامہ ہمارے ہاں کے گیلپ پول کی طرح نہ تھا
بلکہ اسے خفیہ طو رسے کئی ہزار عورتوں اور لڑکیوں میں تقسیم کیا گیا
یہ سوالات دونوں صنفوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں ماہر نفسیات، ٹریڈ یونین رہنمائوں اور دوسرے ماہرین نے تیار کئے تھے
ان سوالات کو تمام تر دہرانا یہاں ممکن نہیں
ان سب کا واحد اور غیر معمولی مقصد یہ تھا کہ ان حالات کا پتہ لگایا جائے جن کے تحت عورت اپنا جسم بیچنے پر مجبور ہوتی ہے
اپنے طرز کا یہ پہلا تجربہ تھا کہ مقصد کے پیش نظر کیا گیا کہ عورتیں زنا کارکیوں بن جاتی ہیں
مرد اس دلچسپ سوال کو سینکڑوں سال سے اٹھاتے آئے تھے
اس مسئلے سے متعلقہ ادب مشہور پیشہ ور عورتوں کو سنسنی ”خیز اعترافات” سے بھر پور ہے اور زیادہ تر ایسے رنگین اور مفصل بیانات پر مشتمل ہے جو بالکل اعتماد کے قابل نہیں
علم طب اور نفسیات کے ماہرین نے گناہ کے نظریوں کے متعلق مسلسل قیاس آرائیاں کی تھیں
لیکن سوویت یونین میں اس اہم سوال کا جواب چند بد اخلاق نوجوانوں سے سوال وجواب کے ذریعے یا ان کے نفسیاتی تجزیئے سے حاصل نہیں کیا گیا
بلکہ ایسی بے شمار عورتوں سے بلا واسطہ سوال کئے گئے جو ہر عمر، ذات اور سماجی حیثیت سے تعلق رکھتی تھیں
تمام جواب تحریری تھے اور پوری طرح خفیہ رکھے گئے تھے
اس عجیب وغریب سوال نامے سے قدیم مسلمہ اعتقادات کا بھرم کھل گیا
چونکہ عورتوں کو پوری طرح یقین دلایا گیا تھا کہ ان کی رائے بالکل پوشیدہ رکھی جائے گی اس سوال کا جواب جس آزادی سے دیا گیا اس پر خود اشتراکی رہنما حیران رہ گئے
اس رائے شماری سے جو چونکا دینے والا نتیجہ نکالا گیا
وہ یہ تھا کہ پیشہ ور عورتوں اور عام عورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے
کیونکہ بیاہی ہوئی اور کنواری دونوں قسم کی عورتوں کی ایک بڑی تعداد نے انکشاف کیا کہ وہ ایک نہ ایک وقت پر خاص حالات کے تحت زنا پر مجبور ہو چکی ہیں
بعض نے اطلاع دی کہ انہیں صرف ایک مرتبہ زنا کی تلخ تجربے سے گزرنا پڑا
اور بعض نے بتایا کہ وہ کئی بار ایسا کر چکی ہیں
بعض نے تسلیم کیا کہ وہ زندگی میں کئی بار مختلف مدتوں کے لئے پیشے پر گذران کر چکی ہیں
تاہم وہ طوائف کا لیبل لگنے سے محفوظ رہی ہیں
بعض عورتیں اپنی دوسری ہمراز عورتیں کے تجربے کے پیش نظر یہ فیصلہ نہ کر سکیں کہ وہ اپنے آپ کو پیشہ ور کہیں یا نا
جن عورتوں نے زنا کاری کا اعتراف کیا ان کی ایک بھاری اکثر یت نے بیان کیا کہ ان کی جائز آمدنی بہت قلیل تھی اس لئے وہ بدکاری کے ذریعے اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے پر مجبور ہوئیں تاکہ وہ خود اور ان کے بال بچے اچھی زندگی بسر کر سکیں
ہم آگے چل کر اس بے نظیر مشاہدات کو ذرا تفصیل سے بیان کریں گے
چونکہ اشتراکی ماہرین کے اخذ کردہ نتیجے ان نتائج کی ضد تھے جو ہمارے ہاں کے سائنس دان یا ماہرین اخلاقیات نکالتے رہے ہیں
لہٰذا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم کچھ دیر ٹھہر کر اس مشاہدے سے پہلے کی تحقیقات کا اجمالی تجزیہ کریں
طوائف کی اصلی تعریف کیا ہے؟
عام طور سے اس ترکیب کا اطلاق ایسی عورتوں پر کیا جاتا ہے
جو روپے کے عوض اپنا جسم مختلف آدمیوں کے پاس بیچیں لیکن جس وقت سے جدید سماجی تحقیق پیدا ہوئی ہے
طوائف کی مذکورہ تعریف کو تسلی بخش نہیں مانا جاتا
تمام بااختیار حضرات متفق ہیں کہ جنسی بیماریوں کو جگہ جگہ پھیلانے والوں میں دو تہائی تعداد ایسی لڑکیوں کی ہے
جنہیں اصلی معنوں میں طوائف نہیں کہا جا سکتا
وکٹری گرلز تو شوقین پیشہ ور عورتوں کا ایک ہی طبقہ ہے
ہم اس مسئلے کی دوسری انتہا کو دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ماہرین نفسیات نے ایسے تمام جنسی تعلقات کو زنا کاری کا نام دینے کی کوشش کی ہے جو دو ایسے افراد کے درمیان پائے جائیں
جنہیں ایک دوسرے سے محبت نہ ہو
لیکن یہاں بھی حقائق ہمیں عجیب الجھن میں ڈال دیتے ہیں
امریکی تحقیقات اور اشتراکی سوال نامے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عورتوں کی بڑی تعداد جس قلیل معاوضے پر اجنبی مردوں سے محبت کرنے پر رضا مند ہو جاتی ہے
اس کی قدر شام کی تفریح کے اخراجات سے کسی صورت بھی زیادہ نہیں ہوتی
اخلاقی نقطہ نظر سے دو ایسی لڑکیوں میں کس طرح سے تمیز کی جا سکتی ہے
جن میں سے ایک اپنے کمرے کا کرایہ ادا کرنے کی ضرورت سے مجبور ہو کر چند ڈالروں پر محبت کے لئے تیار ہو جاتی ہے
اور دوسری محبت میں نقدی کے دخل کو بھیانک تصور کرنے کا بہانہ کرتی ہے
لیکن نہایت چالاکی سے ایک پر تکلف دعوت اور سینما کے تماشے کی صورت میں معاوضہ قبول کرتی ہے
ایسی دو لڑکیوں میں فرق ہے تو صرف اتنا کہ غریب لڑکی ایماندار ہے
کیونکہ دونوں صورتوں میں محبت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
اس سلسلہ میں مذہبی نقطہ نظر یہ ہے کہ شادی کے بغیر ہر قسم کا جنسی تعلق بداخلاقی کی دلیل ہے خواہ اس کا محرک محبت ہو یا روپیہ
یہاں تمہیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ ہم میں سے بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ سوویت یونین میں بھی سالہا سال سے جنسی تعلقات کے بارے میں بعینہ یہی نقطہ نظر پایا جاتا ہے
طلیکن ہمارے ہاں کے پادری اور سوویت یونین کے کمیونسٹ رہنما اپنے اپنے اخلاقی نظریوں میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں
کیونکہ نظریہ وہی سچا جو عمل میں درست ثابت ہو
جنگ کے دوران میں جن لوگوں کو روس جانے کا اتفاق ہوا
انہیں یہ جان کر سخت حیرت ہوئی کہ روس میں آج کل ایسی عورت ناپید ہے جو اپنے خاوند کے سوا کسی غیر آدمی سے کسی قسم کا قریبی تعلق قائم کرنے کا خیال تک گوارا کرے
انتہا یہ ہے کہ روس کی نوجوان نسل کئی سال سے باہم چہل بازی کو بھی برا خیال کرتی ہے
اور ان کے فلم، اخبار اور اشتہار تک کسی قسم کے جنسی اشارے سے پاک ہوتے ہیں
اس لحاظ سے ہمارے جمہوریتوں اور اشتراکی جمہوریتوں میں جو فرق ہے وہ نہایت ہی تکلیف دہ معلوم ہوتا ہے
آئیے ہم اس فرق اور تضاد کو مکمل کر دیں
اس سے انکار نہیں کہ اکثر لوگ شادی کو ایک مقدس سماجی رواج تصور کرتے ہیں جو ان کے نزدیک ابدی ہے
اور اس طریقے سے جنسی تعلقات جائز ہیں
خواہ مرد اور عورت ایک دوسرے سے مسلسل محبت کرتے رہیں یا نا
بلکہ اکثر مذہبوں میں تو محبت کے ختم ہو جانے پر بھی شادی برقرار رہتی ہے
ہر باشعور عورت نصف درجن کے قریب سہیلیوں کے نام گنا سکتی ہے جو محض اس لئے شادی میں بندھی رہتی ہیں
اور اپنے خاوند کی اطاعت کرنے پر مجبور رہتی ہیں کہ ان کے لئے کوئی راہ نجات نہیں
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اور اس کے بچے معاشی اعتبار سے شوہر کے غلام ہیں
کیا ایسی رشتہ داری کی کوئی اخلاقی بنیاد ہے
جدید ماہرین نفسیات کے قریب اس قسم کی شادی عورت کے لئے بدکاری کے مترادف ہے
کیونکہ اس کا نتیجہ کچھ کم خطرناک نہیں ہوتا
سوویت یونین کے باشندے ایسی شادی کو انتہائی بداخلاقی اور بدکاری کی دلیل تصور کرتے ہیں
ذاتی عقائد کا احترام مسلم، شادی کے مسئلے کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو بھی اعلےٰ اخلاقی معیار کا تقاضا ہے
کہ ایسے تمام افراد کے درمیان جنسی تعلقات ناجائز ہیں
جنہیں ایک دوسرے سے محبت نہ ہو
اور ایسے تمام طریقے قابل نفرت ہیں جن میں کسی نہ کسی صورت میں نقدی کا استعمال کرنا پڑے۔
ہم اسی موقف بد اخلاقی کے خلاف جدوجہد کا تجزیہ کریں گے
جب تک سرمایہ دارانہ جمہوریت نے جاگیرداری نظام کا خاتمہ نہیں کر دیا
اس وقت تک حرام کاری کے خلاف جدوجہد نام کو بھی نہ تھی
دراصل عصمت فروشی کے خلاف منظم جدوجہد کا محرک اخلاق نہ تھا بلکہ جنسی بیماریوں کو روکنے کی ضرورت بھی تھی
۔یورپ میں آتشک کا مرض سولہویں صدی میں رونما ہوا
غالباً یہ مہلک بیماری ہیٹی سے یورپ میں آئی
امیر یگوویسپگی کی سوانح عمری گذشتہ صدی کے دوران میں چھپی
اس میں اس مرض کا ذکر ہے جسے ہم ”فرانس کی پیداوار” کہتے ہیں
اس نے دعویٰ کیا کہ یہ مرض وہ ملاح امریکہ سے یورپ لائے جو کولمبس کے ساتھ واپس لوٹے
وہاں سے یہ بیماری طوائفوں میں پھیلی پھر سپین بھر میں پھیل گئی اور چارلس ہفتم کی فوج کے سپینی سپاہی اس بیماری کو اٹلی لے گئے
دوسرے تاریخ دان بھی شہادت دیتے ہیں کہ چارلس کی فوجوں نے 1845 میں آٹھ دن تک نیپلز کی فتح کی خوشی منائی
تو اس کے بعد یہ مرض عام ہو گیا
ایک غیر مصدقہ حکایت میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ جو طوائفیں آتشک میں مبتلا تھیں انہیں دشمن کے ایسے سپاہیوں میں جسمانی تباہی پھیلانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا
جو اس وقت تک اسی آفت سے ناواقف ہوتے تھے
بہر حال اٹھارہویں صدی کے اواخر تک تمام سرکاری اور مذہبی لوگ اس نئی مصیبت پر چوکنے ہو گئے تھے
اور جنہیں یہ ہولناک مرض لاحق ہو جاتا تھا انہیں مجرم گردانا جاتا تھا
شہنشاہ میکسی ملین نے ایک حکم نافذ کیا جس میں آتشک کو ”بولسٹی بلیٹرن” یعنی ایک ایسی مصیبت کہا گیا جسے پہلے کسی نے دیکھا نہ سنا
فوجوں نے اس ہولناک پلیگ کو فرانس اور جرمنی میں پھیلا دیا
آتشک زدہ لوگوں کے ساتھ نہایت ہی وحشیانہ سلوک کیا جاتا تھا
عورتوں کو جسمانی ایذادی جاتی تھی اور انہیں قتل کر دیا جاتا تھا
ہر بیمار مرد اور عورت کو کوڑھیوں کو طرح دھتکارا جاتا تھا
انہیں گھروں سے نکال دیا جاتا تھا اور شہروں اور قصبوں سے دور باہر رہنے پر مجبور کیا جاتا تھا
چند سال کے عرصے میں یہ مرض تمام یورپ اور جزائر برطانیہ میں پھیل گیا
آئندہ صدی کے دوران میں جنسی بیماریوں کی مصیبت پر فوجی افسر خاص طور سے چوکنے ہو گئے
مسلح فوجوں کے ساتھ جو عورتیں ہوتی تھیں ان پر نت نئی پابندیاں لگائی جاتیں
1515 میں فرانسس اول نے حکم دیا کہ تمام بیمار عورتیں سپاہیوں کے ساتھ پیدل چلیں
ان کو زین اور گھوڑے دے کر ان کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے
1580 میں بلجیم کے متقی بادشاہ البرٹ کو اس مرض کے خلاف طبی تدابیر اختیار کرنا پڑیں
اور متاثر عورتوں کا فوجوں میں داخل سختی سے بند کر دیا گیا
تاہم اس وقت تک اس مرض کی تشخیص بہت ہی بھدی اور ناقابل اعتبار تھی
غالباً سب سے زیادہ خطرناک عورتوں کی کبھی شناخت ہی نہ ہو سکتی تھی
البرٹ کی طرح شاہی احکام کی خلاف ورزی پر آئے سال سخت سز ا دی جانے لگی
قانون کی رو سے آتشک کے مریض مجرم تھے
اخلاقی لحاظ سے انہیں کھلا گناہ گار سمجھا جاتا تھا
لیکن یہ رویہ محض وسواس پر مبنی تھا
کیونکہ مہذب اور عالی وقار خاندانوں کے بہت سے مرد اور عورتیں بھی اس مرض میں مبتلا تھے
سزا صرف ان بد نصیبوں کی دی جاتی تھی جو روپے اور سماجی وقار سے اپنا تحفظ کرنے کے ناقابل تھے
پولیس سینکڑوں سال تک مرض اور مریضوں کی صفائی کے لئے وقتاً فوقتاً منظم حملے کرتی رہی
جلادوں کو حکم دے دیا جاتا تھا کہ طوائف کی ناک کاٹ دی جائے اور بعض اوقات ناک کے ساتھ کان بھی کٹوا دیئے جاتے تھے
اکثر ایسا ہوتا کہ شرابی سپاہیوں کی قطاریں کھڑیں کر دی جاتیں جن کے ہاتھوں میں ڈنڈے ہوتے
طوائفوں کو ان کے درمیان دوڑنے کا حکم دیا جاتا او رسپاہی انہیں ڈنڈے مار مار کر ہلا کر دیتے تھے
بداخلاقی کے خلاف قدیم قوانین میں بادشاہ لوئیس کا آرڈیننس مجریہ مارچ 1769 سب سے زیادہ عدیم المثال ہے
اس آرڈیننس کے مطابق پیشہ ور عورتوں کو گرفتار کیا جاتا تھا اور انہیں تین مہینے تک صرف سوکھی روٹی اور پانی پر گذارہ کرنے کی سزادی جاتی تھی
اس کے بعد انہیں اس وقت تک قید میں رکھا جاتا جب تک وہ اپنی اصلاح نہ کر لیتیں
اس قید کی کوئی معیاد مقرر نہ تھی
یہ سزا مقابلتاً کم وحشیانہ تھی
اس میں مزید رعایت یوں کی گئی کہ قید کے دوران میں زنا کار عورتوں کا بھی علاج کیا جاتا
جس کا تمام خرچ فوجی خزانے سے ادا کیا جاتا تھا
چونکہ ان دنوں ابھی آتشک کا کوئی موثر علاج دریافت نہیں ہوا تھا
اس لئے یہ اندازہ لگانا بہت مشکل تھا کہ بد نصیب عورتوں کو اس اقدام سے کیا فائدہ پہنچتا تھا
اگر کوئی عورت کئی مرتبہ گرفتار کی جاتی تو اس کی قید میں پہلے کی نسبت زیادہ توسیع کر دی جاتی تھی
لیکن لوئیس نے عورتوں کی جسمانی سزا اور انہیں سر عام رسوا کرنے کی ممانعت کر دی تھی
اس وقت کے کلیسیت زدہ حضرات خے خیال میں عورتوں کے ساتھ اس غیر معمولی ہمدردی کا سبب یہ تھا کہ بادشاہ کے ہاں اکثر درباری عورتیں ہوتی تھیں
جن کے دام میں خطاب یافتہ منصب دار پھنسے ہوئے ہوتے تھے
جنسی بیماریوں کی روک تھام کے لئے مزید جو کچھ کیا گیا
اس کی تفصیل انقلاب فرانس کے مشہور مہندس، کارنٹ کی رپورٹ میں موجود ہے
کارنٹ نے 1793 میں ڈوئی کے کیمپ میں تقریباً تین ہزار عورتیں دیکھیں
اس نے آتشک کی بھیانک تباہی کا مشاہد ہ کیا اور لکھا کہ اس مرض نے اس تعداد سے تقریباً دس گنا زیادہ مردوں کو مفلوج کر دیا جتنے دشمن کی گولیوں سے ناکارہ ہوئے تھے
طبی سفارشات پر عمل نہیں کیا جاتا تھا اور نپولین کے عہد حکومت میں عورتوں کو دوبارہ وحشیانہ سزائیں دی جانے لگیں تھیں
بونا پاٹ نے بدکار اور بیمار عورتوں کے خلاف بہت سے احکام جاری کئے
ان احکام میں عام طور سے یہ ہدایت کی جاتی تھی کہ بدکار عورتوں کے سروں کے بال کاٹ دیئے جائیں اور ان کا منہ کالا کر کے بازاروں میں پھرایا جائے
تاکہ پبلک ان کا مذاق اڑائے او ر لوگ عبرت پکڑیں
تاہم اس اثنا میں علم طب میں تھوڑی بہت ترقی ضرور ہوئی
اور بعض مقامات پر مقامی مجسٹریٹوں کو بیمار عورتوں کے لئے طبی مرکز کھولنا پڑے
1811 میں جرمن فوج کے راسٹوک ہیڈکوارٹر میں ایک طبی مشن مقرر کیا گیا
یہ سب سے پہلا کمیشن تھا جسے ایک مخصوص علاقے کی تمام عورتوں کا معائنہ کرنے کا اختیار دیا گیا
اس کمیشن کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ بیمار عورتوں کے والدین سے اخراجات وصول کرنے کا مجاز تھا
یا وہ ان لوگوں سے بھی خرچ وصول کر سکتا تھا جو پیشہ ور عورتوں کے لئے مکان کرائے پر لیتے تھے
اس سے کچھ عرصہ بعد آتشک کی روک تھام کے لئے ریاست کی طرف سے باقاعدہ کوششیں شروع ہوئیں
1835 میں جرمنی کی پولیس ایسے تمام اشخاص کی نگرانی کرتی تھی جن پر آتشک کے مریض ہونے کا شبہ ہو
اس پر بھی کچھ نہ بنا تو کا بینہ نے زیادہ موثر اقدام کیا
اس نے حکم دیا کہ برلن کے تمام چکلے اٹھارہ مہینے کے اندر بند ہو جانے چاہیئں اور اکثر بند بھی ہو گئے
لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات
جو سپاہی برلن کے علاقہ میں مقیم تھے ان میں آتشک کا عارضہ تیزی سے پھیلنے لگا
لہٰذا فوجی کمان افسر رینگل نے 1848 میں مجبوراً اپیل کی کہ چکلے دوبارہ کھول دیئے جائیں
اس کے بعد جرمنی اور براعظم یورپ کے دوسرے ملک کبھی اس انتہا کی طرف مائل ہو جاتے کبھی اس انتہا کی طرف مائل
کبھی پیشہ ور عورتوں کو نکال باہر کیا جاتا اور چکلے بند کر دئیے جاتے ہیں
کبھی پولیس کے مقرر کردہ ڈاکٹروں کی زیر نگرانی وہی اڈے پھر کھول دیئے جاتے
برطانیہ کا تجربہ خاص طور پر بصیرت افروز ہے
انگلستان ایک ایسا ملک ہے جس میں باقی تمام ملکوں سے محسوس کیا گیا کہ آتشک کے خلاف زبردست جدوجہد کی ضرورت ہے
اس کا سبب برطانیہ کی روائتی قدامت پسندی نہیں ہے
بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ دولت مشترکہ کے طبی ماہرین یورپ کے تجربوں کا مشاہدہ کر چکے تھے
اور انہیں ان تجربوں کی کامیابی پر بالکل یقین نہ تھا
تاہم جون 1866 میں بعض بحری اور فوجی سٹیشنوں پر چھوت کی بیماری کو زیادہ موثر طریقے سے روکنے کے لئے ایک قانون پاس کیا گیا
جسے عرف عام میں ”وبائی امراض” کا قانون کہتے ہیں
اس قانون نے پولیس کے اختیار دے دیا کہ وہ مشکوک عورتوں کو ڈاکٹروں کے پاس جبری معائنے کے لئے لے جا سکتی ہے
اور ضروری سمجھے توانہیں علاج کے لئے ہسپتال میں داخل ہونے پر مجبور کر سکتی ہے
اس قانون کے پاس ہونے کے بعد سپاہیوں اور جہازیوں میں آتشک کی وبا گھٹ گئی
لیکن پارلیمان نے کسی واضاحت کے بغیر آٹھ سال کے بعد اس قانون کو منسوخ کر دیا
پہلی جنگ عظیم کے آغاز سے عین پہلے مشہور انگریز ڈاکٹر سرولیم آسلر نے چند مشہور طبی ماہرین کو ایک خط پر دستخط کرنے پر ابھارا
اور اس خط کو وہ ”ٹائمز” میں شائع کرانے میں کامیاب ہو گیا
اس خط میں تنبہیہ کی گئی تھی کہ آتشک کی بیماری پھیل رہی ہے
اس خط کو پڑھ کر برطانیہ کے لوگ سکتے میں آگئے کیونکہ یہ پہلا خط تھا جو انگریزی بولنے والی دنیا میں اس بیماری کے متعلق شائع ہوا تھا
اور جس میں نئی بیماری کو ٹھیک آتشک کا نام دیا گیا تھا
اس خط کی اشاعت کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسکوتھ کی حکومت نے جنسی بیماریوں سے متعلق مشہور سڈن ہام رائل کمیشن مقرر کیا
اس کمیشن نے اپنی رپورٹ جنگ کے دوران میں پیش کی
اس نے آسلر کے بیان کی تصدیق کی اور بتایا کہ انگلستان کی کم از کم دس فیصد آبادی آتشک میں مبتلا ہے
اور ا سے بھی زیادہ سوزاک کی مریض ہے
آتشک سے ہر سال تقریباً تریسٹھ ہزار انگریز ختم ہو رہے ہیں
اور تپ دق اس سے بھی زیادہ اموات کا باعث ہے
آج بھی اس صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی
۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“