حصہ پنجم
۔۔۔۔۔
گناہ اور سائنس Sin And science
یوشی دارا کے قوانین میں 1876میں ترمیم کر دی گئی اور بڑے بڑے چکلے کھولنے کی اجازت دے دی گئی
نئی چکلہ کوٹھیاں جو امیروں اور فوجی افسروں کے لئے مخصوص ہیں اچھے خاصے محل ہیں
انہیں کے نقشے پر جاپان کے دوسرے شہروں میں چکلہ کوٹھیاں تعمیر کی گئی ہیں لیکن ٹوکیوں کی چکلہ کوٹھی دنیا میں اپنی نظیر نہیں رکھتی
ہزاروں نوجوان لڑکیاں زرق برق لباس پہن کر خوبصورت پردوں کے پیچھے بیٹھتی ہیں
ان کو دیکھ کر ایک فرنگی کے دماغ میں وکٹور یائی عہد کا ایک مشہور گیت…..”سنہری پنجرے کی چریا” تیرنے لگتا ہے
اعلے ترین چکلوں میں حسین ترین ”پنجرے” ہیں
حال ہی میں یہ فیشن چل نکلا ہے کہ اعلےٰ درجے کی چکلہ کوٹھیوں کے مالک اور راہگیروں کے سامنے لڑکیوںکی بجائے ان کی تصویروں کی نمائش کرتے ہیں
یوشی دارا کے اندر ہر گاہک کوکئی طرح کی رسومات ادا کرنا پڑتی ہیں
اس کے پیش نظر بعض سادہ لوح فرنگی یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ یہ محل محض سماجی یا تفریحی ادارے ہیں
بہرحال ایک گھنٹے کی بیوی”کو حاصل کرنے کیل ئے ایک سجے ہوئے کمرے میں بیٹھ کرنا مہ وپیام شروع کیا جاتا ہے۔ جہاں اعلیٰ چکلوں کے مالک ضرورت مند گاہکوں کو اپنے ”ہیروں” کی تصوریں دکھاتے ہیں ان میں سے بعض کے پاس اپنے مخصوص نشان امارت ہیں جو باہر محراب پر لٹکتے رہتے ہیں
تاہم سستے چکلے اس قسم کے تکلفات سے بری ہیں
دیہاتی علاقوں میں عصمت فروشی کا نظام اس قدر گھٹیااور غلیظ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں اس کی مثال نہیں
جیشا گرل عموما اوسط درجے کی صاحب عقل اور تربیت یافتہ لڑکی سے بلندتر طوائف ہوتی ہے
قصہ کو تاہ جاپان کے نظام بدکاری میں یونانی نظام کے خدوخال بھی ملتے ہیں اور قرون وسطیٰ کے نظام کے بھی
قرون وسطیٰ کے اختتام پر یورپ میں عصمت فروشی کے خلاف بے پناہ تحریک پیدا ہوئی اوراس رواج کو بداخلاقی کی علامت تصور کیا جانے لگا
بے شمار سائنس دانوں نے اس تبدیلی کے محرکات اور وجوہ بتانے کی کوشش کی ہے
ان کے خیال میں اس ذہنی انقلاب کا موجب مردوں کے دماغ میں پراسرار خیالات کی پیدائش، تعلیم کی ترقی مذہب، جنسی بیماریوں کی روک تھام کی ضرورت وغیرہ ہے
لیکن اشتراکی سائنس دانوں نے اس تبدیلی کی تفتیش کی تو انہوں نے جو سبب دریافت کیا وہ دوسرے سائنس دانوں کے خیال سے مختلف بھی ہے اور حیران کن بھی
ان کے خیال میں محبت کے متعلق جدید تصور پیدا ہوا تو بدکاری کے خلاف سماجی احتجاج کا آغاز ہوا یعنی اس انقلاب کا محرک محبت کا نیا نظریہ ہے
سوال کیا جا سکتا ہے کہ سائنس کو ایک ایسے جذبے سے کیا واسطہ جو وہبی یا جبلی ہے؟ کیا مرد اورعورت ازل سے ایک دوسرے پر عاشق نہیں ہوتے آئے
اشتراکی سائنس دان جواب دیتے ہیں کہ آج ہم جس چیز کو ”محبت” کہتے ہیں وہ انسانی زندگی کا ایک بالکل نیا عصر ہے
سب سے زیادہ حیران کن ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ہمارے جدید اقتصادی نظام یعنی سرمایہ داری نے جاگیرداری نظام معیشت پر فتح پر کر دائمی محبت کا تصور پیدا کیا اور محبت کو ذلت کے گڑھے سے نکال کر قابل احترام درجہ عطا کیا۔ اس نے محبت کو ایک ایسا اخلاقی رشتہ بنا دیا جو بدکاری کا مزاحم ہے
جن طریقوں سے اشتراکی حکومتوں نے بدکاری پر فتح پائی۔ ان کو سمجھنے کے لئے مذکورہ بالا غیر معمولی نتیجے کا ادراک ضروری ہے۔ اشتراکی سائنس دانوں کی معلومات اتنی مشکل نہیںکہ سمجھ میں نہ آ سیکں
ہم اوپر بتاچکے ہیں کہ بربریت ہی کے عہد میں صرف ایک عورت سے شادی کرنے کی رسم پیدا ہو چکی تھی
قدیم تہذیب کا آغاز ہوا تو اس نظام شادی میں ایک خاص تبدیلی پیدا ہوئی
تاریخ انسانی کے اشتراکی ماہرین بھی اس بات پر دوسرے تاریخ دانوں سے متفق ہیں کہ دنیا میں جہاں کہیں یک زوجیت پیدا ہوئی
وہاں عصمت فروشی بھی پہلو جاری رہی
بلکہ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ یونانی اوررومی تہذیبوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ایک ہی عورت پر کفایت کرنے کا محرک ایک خاص اقتصادی مقصد تھا۔ قانون نے یک زوجیت کو اسی لئے مسلمہ قرار دے دیا کہ شوہر کی جمع کی ہوئی تمام پونجی اس کی وفات کے بعد چند وارثوں میںآسانی سے تقسیم کی جا سکے
اور خاص طورسے ان بچوں میں تقسیم کی جائے جو اس کی جائز بیوی کے پیٹ سے ہوں
اس اقدام کا اصل مقصد حرام کی اولاد کو حق وراثت سے محروم کرنا تھا۔ تاکہ دولت محض اعلےٰ طبقوں کے ہاتھوں میں جمع رہے
ہمارے خیال کے برعکس یک زوجیت ایک مرد کے ایک ہی عورت سے عشق کے جذبے پر مبنی نہ تھی۔ یہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ یونان وروم کے مہذب وموقر مرد اپنی معشو قائوں سے شادی کرنے کی آرزو تک نہ کرتے تھے
اس کے برعکس وہ فیشن کے طور پر ایسی نا قابل شادی عورتوں سے محبت کرتے تھے جو ان کی ہم مذاق ہوتی تھیں
قدیم دنیا کے مردوں کے لئے شادی ایک قانون ضرورت تھی۔ اس کی بدولت وہ جائیداد اور دولت حاصل کرتے تھے
جسے وہ ا پنی جائز بیویوں کی اولاد کے نام منتقل کرتے تھے لیکن غریب مرد کے نزدیک شادی کا مقصد صرف اتنا تھا کہ اسے ایک خادمہ اور بچے پالنے والی عورت مل جاتی تھی
البتہ تما م مرد اپنی خواہش کی تسکین غیر عورتوں سے کرنے کی خواہش کیا کرتے تھے یہ رواج عین اخلاق سمجھا جاتا تھا
ظاہر ہے کہ اس قسم کی شادی سے صرف عورتوں پر پابندی تھی
مرد کو قانونی اوراخلاقی طور پر اپنی منکوحہ عورت کے علاوہ مال خرچ کر کے ہر عورت سے مباشرت کرنے کا حق حاصل تھا۔لیکن عورت پر پابندی تھی۔ زنا کار عورت کے لئے سخت ترین سزا کا حکم تھا۔منکوحہ عورت کا اپنے جائز شوہر کے علاوہ دوسرے مرد سے تعلق قائم کرنا بداخلاقی تھی
کیونکہ اس طرح خاوندکی جائداد حرام کی اولاد کے ہاتھوں میں چلے جانے کا خطرہ تھا
اور حرام کی اولاد حق وراثت سے قانوناً محروم تھی۔ تاہم مرد کے لئے زنا کاری اخلاقا جائز تھی
چارلس بہادر یا شہنشاہ سگمنڈ ہیرا منڈی میںہفتوں گزار سکتے تھے
انتہا یہ ہے کہ یونان کے شاعر سیس جیسے لوگ شاہدان بازاری کی محبت کے نغمے کھلم کھلا گاتے تھے۔ہمارے لئے اس سے بھی زیادہ صدمہ انگیز بات یہ ہے کہ زمانہ قدیم اور قرون وسطیٰ میں عصمت فروشی کوئی گناہ نہ تھا۔ اس کے برعکس اسے سماج کے لئے ضروری خیال کیا جاتا تھا
آج سے تقریباً دو ہزار برس پہلے عیسائیت نے بھی اسی قسم کے اخلاقی نظام کو اپنایا
جس کی بنیاد ملکیت کے قانونی رشتوں پر تھی۔ اس قسم کی قانونی وراثت کی سب سے ترقی یافتہ صورت بادشاہوں کا آسانی حق تھا۔ گویا رفتہ رفتہ زمین اور دولت کے حق وراثت میں اعلےٰ سیاسی اقتدار کا حق بھی شامل کر لیا گیا
اور آخر کار جاگیرداری نظام کاتمام سماجی، معاشی اور سیاسی ڈھانچہ سخت قسم کی وراثت پرکھڑا کیا گیا
بادشاہ تخت تاج کامالک اور اس کاجائز فرزند شہزادہ ہوتا تھا
ڈیوک یا نواب اپنی جاگیر اپنے جائز فرزند کے نام منتقل کرتا تھا
جرنیل کی اولاد ہی جرنیل کہلاسکتی تھی اور پسماندہ زرعی غلام ہمیشہ کے لئے اپنے باپ کے جھونپڑے سے بندھا رہتا تھا
قرون وسطیٰ کے صنعتی دست کار بھی شادی اور وراثت کی پابندی حسداً کرتے تھے
ہم پیشہ ماہر دستکار اپنی اپنی تنظیمں بناتے تھے، جنہیں گلڈز کہتے تھے اور وہ اپناہنراپنی اولاد کے سوا دوسروں کو نہ سکھاتے تھے
نہ صرف اپنی برادری اور طبقے سے باہر شادی کرنے کی اجازت نہ تھی بلکہ محبت کی شادی بھی منع تھی
ہر لڑکی کی شادی کا بندوبست اس کے اپنے طبقے میں پیشہ ور دلالوں کو ذریعے کیا جاتا تھا
بعض اوقات بادشاہ وقت بھی دلالی کے فرائض سرانجام دیتا تھا۔ عورت کی ذاتی پسند کا خیال شاذو نادر ہی کیا جاتا تھا
اس کی رضا ایک رسمی سی بات تھی۔ اکثر اوقات لڑکی اپنے خاوند کی شکل پہلی مرتبہ نکاح کے دن ہی دیکھتی تھی
لہٰذا اس زمانے میں وہ اہم انسانی جذبہ جسے محبت کہتے ہیں قانونی اعتبار سے مسلمہ نہ تھا
نکاح کے وقت ہر لڑکی کو تاکید کی جاتی تھی کہ وہ ہمیشہ کے لئے مرد واحد یعنی اپنے خاوند کی وفادار رہے
قانون اور مذہب اس کی وفا داری کے ضامن ٹھہرتے تھے
اگر چہ لوگ جانتے تھے کہ عورت اپنے شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کی محبت میں گرفتار ہو سکتی ہے لیکن وہ اس بارے میں ایک لفظ بھی زبان پر نہ لا سکتی تھی
ادھر اس کے ہر جائی خاوند کے آوارہ جذبات کی تسکین کے لئے عورتیں فوج در فوج موجود تھیں
اس کے باوجود قرون وسطیٰ میں عورت کی محبت، وفاداری اور شرافت کا گہرا احساس پیدا ہوا
شاعروں اور داستان سرائوں نے عورت کی پاک محبت کی نغمہ سرائی شروع کر دی اور عشق بازی یا شولری پیدا ہوئی
اس کے بارے میں وکٹوریائی ادب میں جو کچھ بتایا جاتا ہے اس سے وہ بالکل مختلف شے تھی
اس کا مطلب سنگ دل مردوں کے ظلم سے مقدس نسوانیت کا دلیرانہ تحفظ نہ تھا بلکہ وہ جبر کی شادی کے خلاف عورت کی حقیقی اور رومانی محبت کا اظہار تھی
صاف لفظوں میں مرد کا اس عورت سے محبت کرنا جو اسے دل سے چاہتی ہو، خواہ اس کی شادی ایک ایسے مر د سے کر دی گئی ہو جس سے وہ نفرت کرتی ہو۔ عشق بازی یا شولری ہے
محبت کے جدید نقطہ نظر کے پیشہ نظر ہمیں عشق بازی محض ہوس پرستی اور زنا کا بہانہ معلوم ہوتی ہے
لہٰذا وہ پرلے درجے کی بداخلاقی تھی لیکن یہ خیال غلط ہے
ہم اسے اپنے سماجی معیار پر نہیں پرکھ سکتے
درحقیقت یہ ایک نئے اور طاقت ور اخلاق کی ابتدا تھی کیونکہ اس نے یہ سوال کیا کہ عورت کو اپنی جذباتی پسند کے آدمی سے محبت کرنے کا حق ہے نہ کہ ایک ایسے مرد سے جو اس پر ریاست یا کلیسا کی طرف سے مسلط کیا جائے
اس نئے رجحان نے ایک طرف عورت کے حق محبت کا پرچم بلند کیا اور دوسری طرف مردوں پر بھی خوشگوار اثر ڈالا
اس نے مردوں میں محبت کی روحانی قوت کا شعور پیدا کیا۔ اس نے اس قسم کی شادی کا عیارانہ پر دہ چاک کر ڈالا
جسے دوسرے طے کریں اور بدکاری کے تمام عیوب کو فاش کر دیا
شولوی ”بہادری” تھی کیونکہ اس نے عورت کو محبت میں وہ بلند مقام عطا کیا جس کی وہ مسحتق تھی
یہ عین اخلاق تھا۔ کیونکہ اس نے ثابت کر دیا کہ مردبھی وفادار اور جانثار ہیں اور وہ عورت کی مخلص محبت کے قرون وسطیٰ کے زمانہ کی نئی اور عظیم دریافت یہ تھی کہ مرد وعورت ایک دوسرے کوچاہتے ہوں تو کسی دوسری جگہ قانونی شادی کے باوجود ایک دوسرے کے جذبات شوق کا احترام کرتے ہیں
اور ہمیشہ ایک دوسرے سے ملنے کے لے بے تاب رہتے ہیں
مردو عورت محبت کے رشتے میں منسلک ہو جائیں تو وہ مرتے دم تک ایک دوسرے کے وفادار رہتے ہیں۔ ان کے لئے قانون ورواج کی زنجیروںکی ضرورت نہیں
شولری نے عورت کو قانونی اور جبری شادی کی زنجیروں سے آزاد کرنے کی کوشش کی
اس نے اسے ایک ایسے مرد سے نجات دلانے کی کوشش کی جسے اس نے خود اپنا ساتھی منتخب نہ کیا تھا۔اس ریت نے اس کے ساتھ ہی مردوں کو غیر عورتوں سے ناجائز تعلقات قائم کرنے کی لعنت سے چھڑایا اوریہ بات اس کی اخلاقی عظمت کی دلیل ہے
قرون وسطیٰ کی تمام شاعری محبت کے اس نئے نظریئے کی تعریف سے بھری پڑی ہے
ساتھ ہی اس زمانے کی تاریخ شاعروں وتشدد کے واقعات سے بھی بھر پور ہے۔ تاہم یہ نیا رجحان ایک نئے اخلاقی نظام کی حیثیت سے ابھر نہ سکا
صدیوں تک اس میں شہوت پرستی کی چاشنی رہی
لہٰذا کلیسائے وقت کو اس پر پورے غضب اور شور سے حملہ کرنے کا اخلاق موقع مل گیا تھا
لیکن اس رومانی محبت کی مخالفت کا اصل سبب کچھ اور تھا۔ اقتصادی محرکات سرمایہ داری اور اس کا جمہوردوست فلسفہ جاگیرداری نظام پر کاری ضرب لگا رہا تھا
جاگیر داری کی اخلاقی اور قانونی پشت پناہ، دوسروں کی طے کردہ شادی، وراثت کا سخت رواج اور بدکاری تھی
رومانی محبت نے جاگیر دارانہ سماج کی جڑوں پر ایک مزید ضرب لگانے کی کوشش کی۔ لہٰذا جو شاعر رومانی محبت کے گیت گانے کی جرأت کرتے تھے
انہیں ہر وقت اپنی زبان کے کٹ جانے، شکنجے میں کس دیئے جانے یا سر بازار پھانسی کے تخت پر لٹکا دیئے جانے کا ڈر لگا رہتا تھا
تاہم نئی اخلاقی محبت کوپوری طرح کچلا نہ جا سکا اور ایک وقت ایسا آیا کہ شیکسپئیر اس مسئلے کو لندن میں کھلے اسٹیج پر پیش کرنے لگا
اگر چہ ہم میں سے کوئی ناقد ایسا نہیںکہتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ”رومیوا ینڈ جیولٹ” اپنے وقت کا ایک سیاسی ڈرامہ تھا اور اس کی اثر انگیزی بے پناہ تھی۔ اس کا موضوع اب متروک ہے
لیکن عہد حاضر کے شائقین کے لئے ایک ایسا عظیم المیہ ہے
جس رومانی اور اخلاقی محبت کے سوال کو آزادانہ پیش کرتا ہے اور اپنے معشوق سے شادی کے حق انسانی کاپرچم بلند کرتا ہے
شیکسپئیر نے بے مثال فن کاری سے ثابت کیا کہ عاشق اپنے معشوق کی خاطر جان کی بازی لگادیتے ہیں
اگرچہ یہ کوئی نئی بات نہ تھی کیونکہ شاعر اس سے پہلے بھی شاہدان بازاری یا دوسرے کی بیوی سے مرد کی آزادمحبت کے ترانے گا چکے تھے
لیکن ”رومیو اینڈ جیولیٹ”میں نئی بات یہ تھی کہ اس نے حاضرین کو دوا یسے کشتگان محبت پرخون کے آنسور لائے۔ جنہیں آپس میں شادی کرنے کے حق سے جبراً اور تادم مرگ محروم رکھا گیا
آج ہم اس حق کو بلا چوں وچرا تسلیم کرتے ہیں
اشتراکی تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ محبت کی شادی کا حق اپنے زمانے میں ایک انقلابی نظر یہ تھا
ان کا دعویٰ ہے کہ قرون وسطیٰ میں شادی ایک سیا سی معاہدہ رہی ہے جس کا مقصد یہ تھا
کہ جاگیر دار اور نواب غلاموں اور شہزادوں کے مقابلہ میں اپنی طاقت مجتمع کرلیں۔ محل میں محبوس شہزادی سے لے کر کھیت سے پابستہ غلام لڑکی تک اس مقصد کا بے بس آلہ تھی
غرضیکہ قرون وسطیٰ کا اخلاقی نظام ایک طرف مردوں کے لئے کھلی زنا کاری کو ضروری قرار دیتا تھا اور دوسری طرف جبری شادی کی شکار معصوم عورت کو محبت جتانے کے خیال تک سے بھی منع کرتا تھا
اخلاقیات کے اشتراکی ماہرین نے ایک اور حیران کن نتیجہ نکالا
وہ کہتے ہیں کہ سرمایہ داری، جاگیرداری پر مکمل فتح حاصل کر چکی تو اس کے بعد کہیں محبت کی شادی کا امکان پیدا ہوا۔ جس چیز کو ہم آزاد تجارت کہتے ہیں اس نے اخلاقیات پر دیر پا اثر چھوڑا
جمہوریت کے نظریئے نے سب سے پہلی مرتبہ شخصی آزادی کے سوال کو ایک بنیادی اور اخلاقی اصول کی حیثیت سے پیش کیا
اور کہا کہ تمام انسانوں کو ہر قسم کے عمل کی آزادی حاصل ہونی چاہیئے
ہر انسان اپنی پسند کا لباس پہنے، اپنی پسند کاپیشہ اختیار کرے اور اس پر ذات پات اور اونچ نیچ کی پابندی نہ ہو
اس کی سماجی حیثیت خواہ کچھ بھی ہو وہ آزادی سے روپیہ کماسکے اور جہاں جی چاہے جا کر آباد ہو جائے
یہ خیالات اپنے زمانے میں انقلابی تھے
ان اصولوں کے زیر اثر عیسائیت میں بہت سی تبدیلیاں آئیں۔ تاہم ایسے علمائے دین کی کمی نہیں جو کہتے ہیں
کہ حضرت عیسیٰ کی تعلیم میں آزادی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے
اورکسی انسان کو ایسا فعل کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جس کے بارے میں اس کا ضمیر گواہی دے کہ وہ کام خدا کی نظروں میں برا ہے
لیکن قرون وسطیٰ میں ایسا خیال یقینا کفر والحاد تھا۔ جاگیرداری کلیسا ا س قسم کے آزاد خیالات کے سراسر مخالف تھے
کیونکہ ان دونوں کی بنیاد پیدائش سے موت تک ہمہ گیر خیر پر تھی۔ جونہی پرانے نظام کوزوال آیا قانون، مذہب اوراخلاق میں بنیادی تبدیلیاں آ گئیں
سب سے پہلے سرمایہ داری نے شادی کو ایک اخلاقی رشتہ بنایا اور اسی سلسلے میں ہر قسم کے جبر کا خاتمہ کیا
اس سے پہلے شادی ایک کھلا سودا تھی جس کو بزرگ طے کرتے تھے اور اجنبی روحوں کو زنجیروں میں جکڑ دیتے تھے
جمہوریت کے نظرئیے کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھا کہ سماج میں تمام کاروباری ٹھیکے یا سمجھوتے طرفین کی رضا مندی سے طے پاتے ہیں تو دوانسانوں کو اپنی رضا مندی اور آزادی سے شادی کرنے کی اجازت کیوں نہ ملنا چاہیئے
یہ سمجھوتہ تو سب سے زیادہ مقدس ہے۔ اس میں دو جسم اور دو جانیں عمر بھر کے لئے قسمت کا فیصلہ کرتی ہیں
اس لئے لوگوں کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ محبت کی شادی کریں اور ہر وہ شادی خلاف اخلاق ہے جس کی بنیاد باہمی محبت پر نہ ہو
ہمیں یہ اقدام دلیرانہ معلوم نہیں ہوتا
کیونکہ ہمیں ایسے مرد یا عورت سے نفرت یا ہمدردی کرانا سکھایا گیا ہے جو کسی مصلحت کی بنا پرمخالف صنف سے محبت کے بغیر شادی کرلے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آسانی سے یہ اندازہ نہیں لگا سکتے
کہ جمہوری اخلاقیات کی بنیادی اہمیت کیا ہے اور یہ قدیم اخلاقیات سے کتنا متضاد ہے
اشتراکی محققین اس اخلاقی انقلاب کی توجیہہ یوں کرتے ہیں
کہ سرمایہ داری جمہوریت نے جنسی تعلقات میں جو دور رس اصلاح کی اس سے شادی کے نظام میں توکوئی خاص تبدیلی نہیں آئی البتہ عورت کی سماجی حیثیت میں ضرور انقلاب آیا۔ عورت کے اس حق کو قانونی اور اخلاقی اعتبار سے جائز سمجھ لیا گیا کہ وہ محبت کرنے پر بھی عزت واحترام کے قابل ہے
ہمارے ہاں کے اخلاق پرستوں نے ہمیں آج تک اس تاریخی حقیقت سے آگاہ نہیں کیا بلکہ اس میں بھی شبہ کی گنجائش ہے
کہ ان میں سے اس حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیت ہے بھی لیکن اشتراکی کی محققین نے اس تحقیق کواتنا اہم جانا کہ انہوں نے اخلاقی نظام کا ڈھانچہ ہی اسی بنیاد پر کھڑا کیا۔ کیوں؟
اس لئے کہ اولاً اس تحقیق سے اس مسلمہ فریب کی قلعی کھل گئی
کہ محبت شادی اور اخلاق آغاز تہذیب سے لے کر آج تک کم وبیش غیر متبدل رہے ہیں
لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ نہ صرف اخلاق بدلے ہیں بلکہ ابھی زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا کہ سرمایہ داری اور جمہوریت کے عروج کے وقت جو اخلاقی اقدار پیدا ہوئیں وہ پرانے اخلاقی اقدار کی ضد ہیں
جاگیر داری کے زمانہ میں محبت یا پسند کی شادی کا خیال تک گناہ تھا۔ ہمارے نظریئے کے مطابق محبت کے سوا کسی اور وجہ سے شادی کا خیال ہی پیدا نہیں ہو سکتا
جاگیرداری عہد میں بڑے بڑے راہنما بدکاری کے اڈوں کی کھلے بندوں سر پرستی اور تحسین و توصیف کرتے تھے اور اس بات کو شیطانی فعل تصور نہ کیا جاتا تھا۔ اس پر نہ سماج نکتہ چینی کرتا تھا نہ کلیسا
لیکن جمہوریت کے استحکام کے ساتھ ہی منظم بدکاری سماجی اعتبار سے ناقابل برداشت ہو گئی
حقیقت تو یہ ہے کہ جس قدر تبدیلی محبت، جنس اخلاق اور گناہ کے نظریات او ران سے متعلق انسانی عمل میں پیدا ہوتی ہے کسی اور شعبے میں نمودار نہیں ہوئی
تاریخی تحقیقات سے دوسرا نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اخلاقیات کو کسی معیار سے بھی جانچیں ان میں بہت زیادہ ترقی ہوئی ہے
اس بات پرایک مادہ پرست سائنس دان اور ایک پادری دونوں متفق ہیں۔لیکن دونوںکے دلائل مختلف ہوں گے۔ اخلاقی ترقی کا سبب بیان کرتے وقت سائنس دان کی نظر میں انقلاب فرانس سے پہلے کے یورپ میں آتشک کی عام وبا سے پیدا شدہ صورت حال ہو گی
تو پادری کے ذہن میں عورتوں کی وہ فوجیں ہوں گی جوقرون وسطےٰ میں زندگی بھر عصمت فروشی پر مجبور تھیں۔ بہر حال آج انسانیت ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ با اخلاق ہے
ہمارا تیسرا اور آخری نتیجہ عورتوں کی موجودہ حیثیت سے متعلق ہے۔ ہم بتا چکے ہیں کہ سب سے پہلے سرمایہ داری دو رمیںیہ خیال پیدا ہوا
کہ کسی مرد سے کسی عورت کو محبت کرنے پربھی عورت کی ذات قابل احترام ہے
اور اسے محبت کی شادی کا حق حاصل ہے لیکن اشتراکی ماہرین نے عوت کے اس حق کاتجزیہ کیا تو انہیں اس کی خامیاں بھی فوراً معلوم ہو گئیں
عورت کو اپنی پسند کی شادی کرنے کا حق قانونی ڈگریوں کے ذریعے نہیں مل سکتا۔ قانونی اعتبار سے جب تک کوئی عورت آزادی سے اپنی رضا کا اظہار نہ کرے اسے شادی پر مجبور نہیںکیا جا سکتا اور بس
آج کل تقریباً تمام مہذب ملکوں میں ایسے قانون موجود ہیں
لیکن کوئی قانون اس امر کی ضمانت نہیں دیتا کہ عورت محض محبت کی بنا پرشادی کرنے کی مجاز ہے کیونکہ اس قسم کی آزادی کا تقاضا ہے
کہ عورتیں سماجی، سیاسی اور معاشی اعتبار سے پوری طرح آزاد ہوں اورمردوں کے برابر ہوں۔ کیا وہ ہیں؟
نومبر کے انقلاب کے بعد یہ حقیقت بہت آشکار ہو گئی کہ اشتراکی حکومت کے کاغذی اعلانوں میں تو عورتوں کو مساوات حاصل ہے
لیکن وہ عملاً مردوں کے برابر نہیں
اس عدم مساوات کا ایک سبب تو ہمیں اپنے تجربے سے معلوم ہے
آزادی محبت کے نئے رجحان کو 1920 کے لگ بھگ گورکی اور لینن نے بری طرح رد کیا تھا۔ اس برے رجحان کا مقصد یہ تھا
کہ ”پانی کے گلاسوں” یعنی ”عورتوں کو پینے والوں” یعنی مردوں کی طرح شہوت پرستی کی آزادی ہو جائے
ایسی آزادی دراصل ایک شیطانی فعل تھا
اگرچہ بعض روسی عورتوں نے جو جنسی اختلاط کی عملاً حامی تھیں
اپنے آپ کو نہایت ”انقلابی” ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن ان پرزندگی کی ایک بنیادی اورعام حقیقت جلد ہی آشکارا ہو گئی
۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“