حصہ چہارم
۔۔۔۔۔
گناہ اور سائنس Sin and Science
آزاد محبت
نومبر 1917 کے انقلاب نے زار شاہی معاشرے کی جھوٹی چمک کو خاک میں ملا دیا
نیم جاگیرداری کا نظام پہلے سے ہی متزلزل تھا اور انقلاب کے ایک ہی ریلے سے تہس نہس ہو گیا
جو رسمیں اور حقوق صدیوں سے مقدس اور مسلم مانے جاتے تھے وہ فوراً ختم ہو گئے
روس کا معاشی، سیاسی اور سماجی بحران اور بھی شدید ہو گیا اور سوویت حکومت کافی مدت تک بدکاری اور بد اخلاقی کے خلاف کوئی موثر اقدام نہ کر سکی
لیکن انقلاب کے پہلے دن ہی سے کمیونسٹ رہنمائوں کو احساس تھا کہ جو معاشرہ حقیقی معنون میں آزاد ہونے کا دعویٰ کرتا ہے
وہ ایک لمحے کے لئے بھی ایسے اخلاقی نظام کو برداشت نہیں کر سکتا جس کی بنیاد لاتعداد عورتوں کی غلامی پر ہو
جہاں انقلابی حکومتوں کے ہاتھ میں طاقت آتی وہاں پولیس کا انتظام بھی عوام کے ہاتھ میں آ جاتا اور سب سے پہلے جو اقدام کیا جاتا
وہ پیلے پٹے کے سسٹم کا خاتمہ ہوتا
1917 کے بعد اشتراکی حکومت نے پیشہ ور عورتوں ںسے ہر قسم کے ٹیکس کی وصولی بند کر دی
تاہم اس تبدیلی کا آنا لازمی امر تھا
کیونکہ انقلاب تھا ہی منظم مزدور طبقے کا اور لایا ہی محنت کش طبقے کے لئے تھا
مزدور طبقے کی حمایت نہایت ہی مفلس کاشت کاروں نے کی تھی
چونکہ روس کی طوائفوں کی بھاری اکثریت شہر اور دیہات کے مفلس اور نادار طبقوں سے جبراً بھرتی کی گئی تھی
لہٰذا نئی حکومت ان بدقسمت اور معصوم عورتوں کا وحشانہ استحصال کب دیکھ سکتی تھی
یوں پیلا پٹہ غائب ہوا اور تمام عورتوں کے شہری حقوق بحال کر دیئے گئے
لیکن اسی سخاوت پر قناعت نہیں کی گئی
انقلابیوں میں بھی بعض سیاسی رہنما خیال پرست تھے
ان کا خیال تھا کہ بدکار عورت کو مہذب عورت کے پہلو بہ پہلو استعمال رائے کا حق دے دینے سے اس کا انسانی وقار بحال ہو جائے گا
لیکن انہوں نے بہت جلد منہ کہ کھائی
قدیم زار شاہی حکومت کے زوال کے بعد ہر قسم کی بدکاری جس میں فیشنی عصمت فروشی بھی شامل ہے حقیقتاً بہت زیادہ بڑھ گئی
بہت جلد ایک نئی حقیقت کا انکشاف ہوا کہ انقلاب سے جو نئی آزادیاں ملی ہیں انہیں عجیب و غریب قسم کے معنی پہنائے جا رہے ہیں
ایک اشتراکی نعرہ کہ تمہیں اپنی زنجیروں کے سوا کھونا ہی کیا ہے
کارل مارکس کا یہ انقلابی نعرہ اقتصادی لوٹ کھسوٹ سے متعلق تھا
بہت سے روسیوں خاص طور سے نوجوانوں اور دانشوروں نے اس نعر ے کو یہ معنی پہنا کر عام کر دیئے
کہ ”تمہیں اپنی رکارٹوں کے سوا کھونا ہی کیا ہے”
ان لوگوں نے سوچا کہ زار شاہی کے ساتھ ہی اخلاق کے سرمایہ دارانہ معیار کوبھی ختم کر دینا چاہئے
جس طرح ان لوگوں کو توقع تھی کہ لینن ایک ہی جھٹکے سے سوشلسٹ سماج پیدا کر دے گا
جس میں ہر چیز ان کی دسترس میں ہو گی
اسی طرح ان باتونیوں سے روس کی لڑکیوں اور عورتوں کو یقین دلایا کہ محبت اب پیچیدہ شے نہیں رہی
بس جیسے کھانا کھا لیا اور پانی پی لیا
ویسے ہی محبت کر لی
آزاد محبت کا نظریہ بہت پرانا ہے
آج ہمارے ہاں اکثر نوجوان اس کے حامی ہیں
لیکن اسے انقلابی لفاظی میں لپیٹ کر پیش کیا گیا تو بعض روسی مردوں میں یہ خاصا ہر دلعزیز ہو گیا
بعض حضرات یہاں تک بڑھے کہ ایک نیا نظریہ لے کر میدان میں آئے اور کہنے لگے
کہ زنا کاری کو ختم کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ جنسی تعلقات پر سے ہر قسم کی پابندی ختم کر دی جائے
بداخلاقی سے متعلق یہ نیا نظریہ آگے چل کر نہایت ہی نفرت انگیز اور واضح الفاظ میںپیش کیا جانے لگا
بعض حضرات کھلم کھلا دلیلیں دینے لگے کہ جب آپ کو بھوک لگتی ہے آپ کھانا کھا لیتے ہیں اور جب پیاس لگتی ہے پانی پی لیتے ہیں
اسی طرح جب آپ پر شہوت غالب آئے تو جو عورت بھی آپ کی دسترس میں ہو اس سے محبت کیجئے ایسا کرنا کوئی بداخلاقی نہیں
ان لوگوں کے مغز میں یہ بات نہ آئی کہ اخلاق کا یہ معیار قائم ہو گیا تو اخلاق کا جنازہ ہی نکل جائے گا
روس کے دانشوروں کی اکثریت نے تو اخلاقی فلسفے کو سرے سے بور ژوائی فلسفہ ہی قرار دے دیا اور کہنے لگے
کہ یہ زار شاہی دور کی چیز ہے
اسے نئے سماج میں جگہ نہ دینا ہی بہتر ہے
ظاہر ہے ان لوگوں کو زار شاہی سماج سے دلچسپی تھی نہ سوویت سماج سے
وہ تو مزدور اور کسان طبقے کی عورتوں کو آزاد کرانا چاہتے تھے
ان کا قول ہم اوپر بیان کر چکے ہیں
وہ چاہتے یہ تھے کہ آزاد محبت کے نظریے کو فوراً تسلیم کر لیا جائے
آزاد محبت کے نظریئے کو جذباتی شاعروں سے لے کر اخلاقی خوردبین کے نیچے رکھیئے تو آپ پر اس کی حقیقت فوراً عیاں ہو جائے گی
کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ ”آزادی” کے نام سے تمام عورتیں زنا کاری شروع کر دیں
اشتراکی رہنمائوں کے نظریات اور پروگراموں میں آزاد محبت کے لئے کوئی جگہ نہ تھی
اس کے برعکس اشتراکی حکومت کے رہنما جانتے تھے کہ انفرادی آزادی کے پردے میں جس قسم کی آزادی محبت کی وکالت کی جاتی ہے
وہ سوشلسٹ سماج کے راستے میں روڑے اٹکائے گی
انہیں یہ بھی احساس تھا کہ دنیا کی جو طاقتیں اشتراکی حکومتیں کا تختہ الٹنے کی تیاریاں کی رہی ہیں
وہ آزاد محبت کے نظریئے کو خوب استعمال کریں گی جسے وہ عورتوں کی ”مشترکہ ملکیت” کا نام دیتی تھیں
سوویت حکومت کے خلاف جو پراپیگنڈا کیا جاتا تھا
اس میں اس بات پر خاص طور سے زور جاتا تھا کہ بالشویک اخلاقیات کی بنیاد اسی پالیسی پر ہے
کہ تمام عورتیں ہر مرد کی دسترس میں ہونی چاہئیں
یعنی عورتوں کو مشترکہ ملکیت قرار دے دیا جائے
شادی کا نظام ختم کر دیا جائے
تمام بچوں کی ریاستی اداروں پر ورش کی جائے اور بچہ باپ کی تمیز سے آزاد ہو وغیرہ وغیرہ
میکسم گورکی عمر بھر زار شاہی روس کے پر فریب اور ظالم نظام کے خلاف جدوجہد کرتا رہا
لیکن اس نے چند سال اشتراکی نظام کی مخالفت بھی کی
نئے نظام پر اس کا ایک بڑا اعتراض یہ تھا کہ کروڑوں مزدوروں اورکسانوں کی نجات کے دوران میں ناقابل تغیر انفرادی حقوق بھی پامال نہ ہو جائیں
گورکی ان مشہور تاریخی ہستیوں میں سے تھا جنہوں نے شخصی آزادی کے لئے سخت جہاد کیا تھا
لیکن اس نے آج کل کے خطیبوں کی طرح چند چوٹی کے افراد کی شخصی آزادی کی خاطر تلوار نہیں اٹھائی
کیونکہ آزادی سے اس کا مطلب سب کی آزادی، لاکھوں انسانوں کی آزادی
عوام کی آزادی تھا
گورکی نہایت ہی مخلص مجاہد تھا
وہ جانتا تھا کہ خامی کہاں ہے
اس نے یہ نہیں کہا کہ نئے اخلاقی رجحان کے ذمہ دارا شتراکی رہنما ہیں
بلکہ جو شخص اس رجحان کو ہوا دیتے تھے اس نے انہیں ہی ملزم ٹھہرایا اور سخت الفاظ میں اس رجحان کی مخالفت کی
اس نے 1920 میں جو کچھ کہا وہ آج ہمارے لئے مشعل راہ ہے
اس نے اپنے ایک مشہور ناول میں لکھا
”میں محبت کی بحث چھیڑنا نہیں چاہتا
تاہم اتنا ضرور کہہ دیتا ہوں کہ میرے خیال میں نوجوانوں کی موجودہ پود نے جنسی تعلقات کی حد سے زیادہ سادہ بنا لیا ہے
میرے خیال میں یہ ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا انہیں جلد یا بدیر لیکن ضرور ملے گی”
ان حالات کو دیکھتے ہوئے لینن نے آزاد محبت کے پرچارکوں پر سرکاری طور سے حملہ کیا
وہ عرصہ سے کسی موقع کی تلاش میں تھا
کلاراز یتکین نامی ایک انقلابی عورت نے لینن سے اس مسئلے پر ملاقات کی تو اس نے اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھایا
کلا رانے نئے انقلابی خیال کی طرف لینن کی توجہ مبذول کرائی کہ جنسی خواہش بھی پیاس کی طرح ایک فطری، جسمانی حاجت ہے اور جب کبھی خواہش پیدا ہو
پیاسے کی طرح پیاس بجھا لینی چاہئے
اس نے نئے نظام کے رہنما سے سوال کیا کہ اس کا اس بارے میں کیا خیال ہے
لینن نے کہا۔ ”ہاں” پیاس بجھانا ضروری ہے
اس کے بعداس نے اخلاقی ظاہر داری اور تکلفات سے نفرت کا اظہار کیا اور نئے رجحان کی سخت مخالفت کی
اس نے کہا۔
”عام حالات میں ایک صاحب ہوش آدمی کو پیاس لگے تو وہ نالی میں لیٹ کر گندے کیچڑ میں سے پانی پی لے گا یا ایک ایسے گلاس میں پانی پی لے گا
جس کے کنارے بے شمار ہونٹوں کی نمی سے چکنے ہو رہے ہوں
لیکن اس امر کو سماجی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ اور بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے
پانی پینا ایک ذاتی فعل ہے
لیکن محبت دو زندگیوں کے باہمی تعلقات کا نام ہے اور اس سے تیسرے نئی زندگی جنم لیتی ہے
لہٰذا سماجی اہمیت اور قومی فرض کے پیش نظر ایک کمیونسٹ کی حیثیت سے مجھے پانی کے گلاس والے نظریئے سے کوئی دلچسپی نہیں
حالانکہ اس پر ”تسکین محبت” کا حسین لیبل لگا ہوا ہے
بہر حال اس قسم کی محبت نہ کوئی نئی چیز ہے نہ اشتراکی تمہیں یاد ہو گا کہ گذشتہ صدی کے وسط میں رومانی ادب میں اس نظریئے کا پرچار ”دل کی نجات” کے نام سے کیا جاتا تھا
لیکن عملاً یہ نظریہ نفس کی آزادی بن گیا
ان دنوں آج کے مقابلے میں نہایت ہی سلجھے ہوئے طریقے سے پرچار کیا جاتا تھا
جہاں تک عمل کا سوال ہے میں کوئی فیصلہ نہیں دیتا
جب لینن سے سوال کیا گیا کہ وہ کس حد تک جنسی آزادی کے مخالف ہیں تو انہوں نے جواب دیا
میری تنقید کا مقصد یوگ کا پرچار نہیں
اشتراکیت یوگ نہیں بلکہ زندگی کی مسرت اور قوت کا نام ہے
اور مطمئن محبت کی زندگی ا س کا موجب ہو گی
آج کل ہر کہیں جنسی معاملات پر حد سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے
میری رائے میں اس سے زندگی کو مسرت اور قوت حاصل نہیں ہوتی بلکہ چھنتی ہے
ایک عظیم انقلاب کے زمانے میں اس قسم کے رجحان کا پایا جانا بری بات ہے بہت بری بات ہے
نوجوانون کو خاص طور سے زندگی کی مسرت اور قوت کی ضرورت ہے
جنسی مسائل کے متعلق دائمی نظریوں، مباحثوں اور نام نہاد ”جی بھی کے جینے” کے نظریئے کے مقابلے میں صحت بخش کھیل، مختلف قسم کی ذہنی دلچسپیاں تعلیم ، مطالعہ تحقیق وغیرہ نوجوانوں کے حق میں زیادہ مفید ہیں
جسم تندرست ہے تو ذہن بھی تندرست ہے”
جنسی تعلقات کے بارے میں اشتراکی رہنمائوں کا سرکاری عندیہ کیا تھا
لینن کا مذکورہ جامع بیان اس کا آئینہ ہے
لہٰذا ان طویل بحثوں کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں جن کو لینن کے مختصر بیان نے ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا
البتہ ہمیں ایک چیز ضرور ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اشتراکی پروگرام روس کے معاشرے کی اقتصادی اور سیاسی منصوبہ بندی تک محدود نہ تھا بلکہ اس سے کہیں زیادہ وسیع اور دور رس تھا
سوویت حکومتیں نہ صرف روز مرہ کی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کا عزم کئے ہوئے تھیں بلکہ وہ خود انسان کی فطرت کو بدل دینا چاہتی تھیں
اس مقصد کو ماسکو سپورٹس کلب نے اپنے موٹو میں نہایت ہی ڈرامائی انداز میں پیش کر دیا تھا
”ہم اقتصادی بنیادوں پر محض انسانی معاشرے کی نئی سرے تشکیل نہیں کر رہے بلکہ ہم سائنسی اصولوں کے مطابق بنی نوع انسان کی اصلاح کر رہے ہیں۔”
ہم اس موٹو کے پہلے حصے کو ہر گز رد نہیں کر سکتے
کیونکہ آج ہم بھی اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کی اقتصادیات کو بدلنے کی ضرورت ہے لیکن ”سائنسی اصولوں کے مطابق بنی نوع انسان کی اصلاح ” ایک بالکل ہی مختلف مسئلہ ہے
یہ چند الفاظ ان تمام فلسفیانہ اور اخلاقی خیالات کے آئینہ دار ہیں جن پر صدیوں سے بحث چلی آتی ہے
سب سے پہلے اس موٹو میں یہ بتایا گیا ہے کہ نسل انسانی کی اصلاح کی ضرورت ہے
اس کے بعد اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انسانی فطرت بدلی جا سکتی ہے
آخر میں یہ عجیب وغریب خیال کہ سائنسی اصولوں کی مدد سے انسانی فطرت کو بدلا جا سکتا ہے
یعنی انسانی فطرت کی اصلاح ایسے طریقوں سے کی جائے جنہیں پہلے تجربے کی کسوٹی پر پرکھا جائے اور درست ثابت ہوں تو بلا خوف ناکامی ان پر عمل کیا جائے
ہمیں محض فلسفے سے کوئی سروکار نہیں بلکہ ہمارا تعلق حقائق سے ہے
اور یہ امر واقعی ہے کہ انسانی تاریخ میں انسانی اخلاق کے بارے میں جو سب سے پہلا تجربہ کیا گیا اس کی بنیاد انہیں تین اصولوں پر یقین محکم تھا جن کا ذکر ابھی ابھی اوپر کیا گیا ہے
ہمیں ان اصولوں کو فی الحال اسی حد تک تسلیم کرنا پڑے گا
جہاں تک ہمارے ذاتی اعقادات اجازت دیں
لیکن اگر ہم یہ جاننے کے لئے بے تاب ہیں کہ اشتراکی حکومتیں سماج سے جنسی بیماریوں، بدکاری، زنا اور شراب نوشی جیسی بدعتوں کو کس طرح ختم کرنے میں کامیاب ہوئیں تو ہمیں ذرا غیر جانبداری سے کام لینا پڑے گا
چلئے! ہم دیانت داری سے غیر جانبدار ہیں لیکن اس خیال کو کیسے تسلیم کر لیں کہ سائنسی اصولوں کی مدد سے انسانی نسل کی اصلاح ہو سکتی ہے؟
ہم نے وہ بڑی بڑی طبی مہمیں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں
جو ہمارے ملک میں بڑی شدومد سے چلائی گئیں اور اگر چہ وہ جنسی بیماریوں پر قابو پانے تک محدود تھیں لیکن فائدہ پھر بھی کچھ نہ ہوا
اس کے بعد کسی ذمہ دار سائنس دان نے دوبارہ یہ جرأت نہیں کہ کہ وہ بداخلاقی کا واحد علاج محض تحقیقات بتائے
پھر اشتراکیوں کی یہ خوش فہمی کہاں تک درست ہے کہ انجام کار بدی پر نیکی فتح پائے گی؟
اشتراکی سائنس دانوں نے سب سے پہلے یہ بتایا کہ بداخلاقی دراصل ہے کیا چیز اور اس پراسرار پردے کو چاک جو گناہ کے گرد لپٹا ہوا تھا
سرمایہ داری نے محبت کو قابل احترام بنایا
شہوت ایک انسانی جبلت ہے
یہ بھوک اور پیاس سے اس لحاظ سے مشابہ ہے کہ یہ بھی اپنی تسکین چاہتی ہے لیکن علم حیات، فلسفے اور تاریخ کے روسی ماہرین نے اس گھٹیا مادی نظریئے کا تجزیہ کیا جسے لینن نے ”پانی کے گلاس” والی تشبیہہ سے یاد کیا تھا
تو وہ متفقہ طور پر اس نتیجے پر پہنچے کہ شہوت اور پیاس میں ایک بنیادی فرق ہے
بچے میں جنسی خواہش پیدائش سے موجود نہیں ہوتی بلکہ رفتہ رفتہ پیدا ہوتی ہے اور جوانی کے دنوں یعنی بارہ چودہ سال تک پوری ترقی کر جاتی ہے
جنس خواہش کے جوان ہوتے ہی لڑکے اور لڑکی کے جسم اور ذہن میں نمایاں تبدیلیاں ہو جاتی ہیں
انسانی دماغ کی رنگ آفرینیوں، خیالات تصورات اور سپنوں کے ذریعے جنسی تسکین کی لذت، مسرت اور آرزو بہت بڑھ جاتی ہے لیکن جس کو زندہ رکھنے کے لئے لازمی ہے کہ بھوک اور پیاس کی پیہم اور متواتر تسکین ہوتی رہے۔ جنسی خواہش کی تکمیل کے جذبے کا یہ عالم نہیں
اس خواہش کی کبھار تسکین ہوتی رہے تو کافی ہے۔ لیکن نفسانی خواہش کا حیاتی مقصد بہت ہی زیادہ اہم ہے۔ بوقت ضرورت اس خواہش کی تکمیل سے ہم والدین بنتے ہیں۔ انسان پیدا ہوتے ہیں اور انسانی نسل قائم رہتی ہے۔
یہ ایسے حقائق ہیں جن سے ہر کس وناکس واقف ہے۔ اس طرح یہ حقیقت بھی سب پر آشکارا ہے کہ جنسی خواہش کی تکمیل سے بے حد مسرت حاصل ہوتی ہے او رانسان کا ذہن اس راحت کو اس قدر پرکیف اور گونا کوں بنا دیتا ہے کہ اسے بھوک اور پیاس سے تشبیہہ دینا ممکن اور غلط ہے
اشتراکی سائنس دان اس نکتے پر پہنچ کر اپنے پیش رو اخلاقی نظریہ بازوں سے الگ ہو گئے ہیں۔ انہوں نے جنسی مسئلے کو ابدی مسئلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور دعویٰ کیا کہ جدید سماج کے افراد جنسی تعلقات کے اعتبار سے پرانے زمانے کے مردوں اور عورتوں سے اتنے ہی مختلف ہیں جتنے آج ہم اپنے عصر جانوروں سے
انہوں نے اس چیز کا ایک اچھوتا تصور پیش کیا جسے ہم ”محبت” کہتے ہیں۔ انہوں نے محبت کی اس ادنےٰ تعریف کو کافی نہیں جانا کہ محبت محض ایک مسرت بخش خواہش کا نام ہ
ان کے خیال میں یہ تعریف تو محبت کی تو ہیں کی مترادف تھی کیونکہ محبت…. اس سے کہیں افضل شے ہ
تاریخی حقائق کی روشی میں اشتراکی سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے کہ محبت کا جدید تصور انسانی سماج کی عظمت، ترقی پسندی اور انقلابی ارتقا کا مظہر ہے اور محبت کے مکمل شعور اور مسلسل عروج کی بنیاد پر ہی اصل معنوں میں ایک بااخلاق سماج قائم کیا جا سکتا ہے
ہمیں یہ بات کتنی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے کہ سائنس دان اٹھیں اور محبت کے متعلق نظر یہ سازی شروع کر دیں۔ یہ تو ایک تضاد ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخ انسانی کا ایک ماہر پروفیسر محبت کے متعلق وہ تخیل آرائیاں کر سکتا ہے کہ ہمارا ادراک وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ اگر ہم اشتراکی سائنس دانوں کے وسیع مطالعے اور تحقیق سے اہم نتیجے اخذ کریں تو ان کا خلاصہ کچھ اسی سے ملتا جلتا ہو گا
قدیم وحشی انسانوں میں جنسی تعلقات جانوروں کے سے تھے۔ قوت شہوی مرد کی امتیازی خصوصیت تھی اور عورت محض لذت کشی کا آلہ اور بچے جننے کی مشین تھی۔ قدیم مرد علم حیات کے حقائق سے بالکل بے بہرہ تھا
وہ یہ نہیں سمجھتا تھا کہ عورت کیونکر حاملہ ہوتی ہے۔ اس لئے وہ والد ینیت کے حقیقت سے بھی آشنانہ تھا۔ یعنی وہ یہ نہ جانتا تھا کہ دو افراد مردو عورت کے ملاپ سے بچہ پیدا ہو سکتا ہے اور دونوں کا اس پر برابر کا حق ہے
لہٰذا زمانہ وحشت کے ایک خاص سماجی گروہ کی عورتیں اس گروہ کے تمام یا اکثر مردوں سے وقتاً فوقتاً ملتی تھیں
یہ رواج وحشی سماج کی امتیازی خصوصیت تھا۔ لہٰذا تاریخ سے پہلے کی دنیا سے متعلق سب افسانے حماقت پر مبنی ہیں۔ قدیم مرد رومانی تصورات سے بالکل عاری تھا۔ اس کی عورت محض بچے جننے اور پالنے کی مشین تھی اور گھٹیا درجے کی محنت کش
اس ابتدائی قدیم سماج سے رفتہ رفتہ اس سماج نے جنم لیا جسے ہم عہد بربریت کہتے ہیں۔ اب صرف ایک ہی عورت سے شادی کرنے کا رواج پیدا ہوا اس رواج کی بنیاد علم حیات کے ابتدائی حقائق کے ادراک پر تھی
یعنی مرد اب یہ سمجھنے لگا تھا کہ وہ ایک ہی عورت سے ملے تو بچہ پیدا ہو سکتا ہے
اس لئے اب بچہ نہ صرف عورت کا بلکہ مرد کا بھی تھا۔ لیکن عورت کی سماجی حیثیت ویسی ہی رہی پہلے وہ بہت سے مردوں کی ملکیت تھی۔ اب وہ ایک مرد کا مال بن گئی۔ وہ جسمانی اعتبار سے مرد کی مطلق غلام رہی۔ حتیٰ کہ اکثر بربر قبیلوں میں سخت محنت کا کام زیادہ تر عورت کو ہی کرنا پڑتا تھا۔
بربریت کے سماج کی کوکھ سے قدیم تہذیب نے جنم لیا
نہ صرف اشتراکی کی محقیقن بلکہ دوسرے ملکوں کے ماہرین بھی اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ انسانیت کو بربریت سے آگے بڑھانے والی قوت محض ازدواجی رشتوں کا انقلاب نہ تھا بلکہ اس کے موجب اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ عوامل بھی تھے
یہاں ان سب پر بحث کرنے کی گنجائش نہیں
لیکن اتنا سمجھ لینا ضروری ہے کہ قدیم مہذب سماج کے ارتقائی مظاہر بہت سادہ اور عام فہم تھے۔ یہ ابتدائی مہذب سماج پرانے قبائلی نظاموں کے مقابلے میں خوراک، رہائش، مکانات اور ملبوسات زیادہ پیدا کرتا تھا
اس کی اکثریت مفلس او رمحنت کش تھی چند لوگوں کونسبتاً زیادہ اور امن چین کی زندگی نصیب تھی
ایسے لوگوں کے پاس اتنا وقت ضرور نکل آنکل آیا تھا کہ وہ فطرت کی پراسرار قوتوں کے بارے میں سوچ سکیں اور مختلف تاویلیں گھڑ سکیں
قدرتاً جس چیز نے سب سے پہلے مر د کے دماغ کو اپنی طرف متوجہ کیا وہ جنس تھی
انسانی تاریخ کے ماہرین نے ثابت کیا ہے کہ قدیم مرد، جنس اور مذہب میں بہت قریبی رشتہ سمجھتا تھا
محبت کی دیوی زہرہ، اناج کی دیوی سیریز وغیرہ کی آفرنیش اور فرائض کا تعلق جنسیات سے تھا۔ قدیم مذہبی رسومات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی زرخیزی، سورج کی زندگی بخش روشنی اور دوسری مادی مظاہر فطرت کو پیچیدہ اور مسرت بخش نفسیاتی جذبات اور پراسرار مادریت سے براہ راست وابستہ سمجھتا جاتا تھا
آج ہم میں سے اکثر لوگ ان حقیقیتوں سے آگاہ ہیں اور جانتے ہیں کہ قدیم مذاہب اور آج کل کے مذہبوں میں بہت سی چیزیں مشابہ ہیں، لیکن قدیم مذاہب روحانی تصورات اور عبادت کے طریقوں کے لحاظ سے بہت سے مختلف تھے۔قدیم اور جدید مذہب میں کتنی وسیع خلیج حائل ہے
یہ حقیقت عصمت فروشی کی اصلیت سے واضح ہے عصمت فروشی نے قدیم ترین زمانے کی عبادت گاہوں میں جنم لیا
زمانہ بربریت اورنیم مہذب دور کے مذہبی اصولوں کے مطابق تمام عورتوں کا فرض تھا کہ وہ زندگی میں کم از کم ایک بار یا متعدو مرتبہ اپنے آپ کو مہنتوں کے حوالے کریں اس سے انحراف کی سزا عمر بھر کا بانجھ پن سمجھا جاتا تھا
کیونکہ دیوتا ایسی نافرمان عورتوں کو سراپ دے دیتے تھے کہ وہ عمر بھر اولاد کو ترسا کریں
مثال کے طور پر بابل میں رہنے والی ہر غریب اورامیر عورت کو زندگی میں ایک مرتبہ محبت کی دیوی زہرہ کے مندر میں ضرور جانا پڑتا تھا
وہ عورت اس مندر کے باغ میں اس وقت تک انتظار کرتی جب تک کوئی اجنبی مگر ہم مذہب اس سے ہمکنار نہ ہوتا۔کیونکہ اس کے دل کو اس وقت تک قرارنصیب نہیں ہو سکتا تھا جب تک وہ اپنے مذہبی فریضے سے سبکدوش نہ ہو جاتی
تاریخ بتاتی ہے کہ بھدی اور بد صورت عورتوں کو بسا اوقات کئی سال تک مسلسل منتظر رہنا پڑتا تھا۔جب کہیں جا کر وہ بڑی مشکل سے کسی پجاری کو بھوگ کرنے اورنجات بخشنے پر رضا مند کر پاتی تھیں۔ لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس رسم پر سے مذہبی تقدس کا جھول بہت جلد اتر گیا
آخر مندر کی حفاظت اور پجاریوں کے لئے روپیہ کہاں سے آتا تھا؟ ہرمرد کا مذہبی فرض تھا کہ وہ مندر جائے توچاندیکاایک سکہ ضرور بھینٹ چڑھا ئے یہ رواج بے شمار غلیظ اور غیر روحانی خیالات کا ذریعہ بنا
اولاً ایسے آدمیوں کی کمی نہ تھی جو چاندی کے سکے کے بل پر دیوئوں کی کوشنودی حاصل کر لیتے تھے۔ کیونکہ نجات کا یہ طریقہ نہایت ہی سہل تھا۔ دوسرے اکثر عورتوں کو بہت جلد معلوم ہو گیا کہ وہ جتنی مرتبہ بھی چاہیں مندر جائیں اور ہر مرتبہ نئے سے نئے پجاری کو ممنوں کریں اور چاندی کا ٹکڑا بھی ساتھ لیتی آئیں
ظاہر ہے کہ بت پرست مہنتوں نے اس فاضل آمدنی سے بہت جلد اپنا حصہ مانگا
وہ کب دیکھ سکتے تھے کہ عورتیں ان کے مندر میں آئیں اور دیوتا کے درشن بھی کریں اور اشنان بھی، ہوتے ہوتے دیوتائون کی پوجا کا گھر عصمت فروشی کا اڈہ بن گیا۔ مرد تو سیدھے اپنی خواہش کے لئے جاتے
عورتیں اور مندر کے کرتا دھرتا روپیہ کماتے۔ عبادت گاہ چکلے میں بدل گئی
اس طرح بدکاری ایک سماجی کا روبار بن گیا اور کئی صدیوں تک اس کی حیثیت نیم مذہبی اورنیم تجارتی رہی
موجودہ ہندوستان میں یہ رواج بعینہ آج تک چلا آتا ہے رومانی افسانوں کی ناچنے والی لڑکیاں،دیوداسیاں، بدکردار قاصائوں سے مشابہ ہیں
جو اپنے گاہکوں سے مندروں میں ملتی ہیں اور ہر ایسے آدمی کی دسترس میں ہیں جو دکشادے سکے
عام لوگ جانتے ہیں کہ عیسائیت نے اس گندے رواج کو مغربی دنیا میں ہر کہیں منسوخ کر دیا لیکن اس سے زنا کاری کا خاتمہ نہیں ہوا اگر کچھ ہوا تو صرف یہ کہ بدکار عورت کلیسا کی حدود سے نکل کر ایک تجارتی اور غیر مذہبی قسم کے مکان میں جا بیٹھی
کافی عرصہ پہلے یہ تجربہ یونان میں آز مایا جا چکا تھا
قدیم یونانیوں کی شاعرانہ اور عالمانہ قابلیتوں کااحترام واجب لیکن ہم اس دور کی زندگی کی اصلیت کا تجزیہ کرتے ہیں تو یونان کی کلاسیکی تہذیب کی بے پناہ تعریف وتحسین غیر متوازن سی نظر لگتی ہے سیس نامی عورت جسے دیکھتے ہی اس وقت کے بڑے فلسفی ڈیموتھینس پر الہام کی بارش ہونے لگتی تھی ایک کھلی فاحشہ تھی
اسی قسم کی عورت اسپا سیا تھی
جس کا پجاری پیر یکلس تھا۔ یہ عورتیں یونان کی چوٹی کی دلربائوں میں سے تھیں۔ ان کے حسن اور قابلیت کی جس قدر بھی تعریف آج تک کی گئی ہے اس کے باوجود یہ گھنائونی حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ سکیس
اسپاسیا اور دوسری دلربانا زنینں روپے سے پیار کرتی تھیں
وہ اپنی ہم پیشہ عورتوں سے زیادہ باو قار اور علےٰ درجہ کی تھیں تو محض ا س لئے کہ ان میںوہ خوبیاں موجود تھیں جن کے باوصف وہ زیادہ روپیہ طلب کر سکتی تھیں
ان سے نچلے درجے میں ایسی عورتیں تھیں جو ان مردوں کا دل لبھاتی تھیں جو شائستہ بات چیت کی بجائے ناچ گانے کے زیادہ شوقین تھے
اس سے بھی نیچے ایک اوردرجہ تھا اس درجے کی عورتیں سب سے زیادہ غریب مردوں کی خدمت کرتی تھیں۔ان طوائفوں کے پہلے دروجے کو ہیٹی ری، دوسرے درجے کو ایلیوتریدی اور تیسرے درجے کو وکٹی ریادس کہتے تھے
یہ تھا یونان کا گندہ نظام جسے ڈکٹیٹرین سسٹم کہتے ہیں
اگرچہ یہ نظام غیر مذہبی اور تجارتی تھا لیکن ایک بات کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ عصمت فروشی کے اس نظام کو اخلاقی اعتبار سے ہر گز بر ا تصورنہ کیا جاتا تھا جس وقت رومی تہذیب اپنے عروج پر تھی
ان دنوں روم میں بھی زنا کاری کا ایسا نظام قائم تھا جو مکانات، باتھ یا حمام کے نام سے مشہور تھے۔ ان میں آج کل کے کوٹھوں میں صرف اتنا فرق تھا کہ باتھ آراستہ پیراستہ ہوتے تھے۔ان کا ماحول دلفریب اورفنکارانہ تھا اور ان میں حفظان صحت کی ہر سہولت کو ملحوظ رکھا جاتا تھا
عیسائیت نے زنا کار عورتوں کو کلیسا سے نکال کر ایک طرح برا ہی کیا۔ اس میں شک نہیں کہ اس نے بدکاری کے اڈوں کا کلیسا سے الگ کر کے ایک اخلاقی فتح حاصل
لیکن زنا کارعورت کو کلیسا سے نکل کر ہمیشہ کے لئے فحش اور بد اخلاقی کی زندگی اختیار کرنا پڑی اور وہ سماج میں بیماریوں کا سرچشمہ بن گئی
ہوا یہ کہ بدکاری کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرون وسطیٰ میں سینکڑوں سال تک اس کے سماجی وقار میں کوئی فرق نہیں آیا
صلیبی جنگوں کے دوران میں زنا اس قدر عام تھاکہ یقین نہیں آتا تھا
چارلس بہادر کی فوج مشرق کے کافر اور بد اخلاق لوگوں کے خلاف بڑی سج دھج سے جہاد کرنے نکلی تھی لیکن اس مقدس فوج کے ادنےٰ ملازموں اورخیمہ برداروں میں چار ہزار سے زیادہ فاحشہ عورتیں شامل تھیں۔ کھیل کود کے میلوں،عیدوں اور دوسرے مقدس موقعوں پر عیش وعشرت کا جو بازر گرم ہوتا تھا
اس کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں
اس سے جو صور حال پیدا ہوئی وہ تاریخ طب کا ایک مستقل عنوان ہے۔ ہم یہاں اس کی تفصیلات میں جانے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتے
تاہم اتنا دینا ضروری اور مفید سمجھتے ہیں کہ جس چیز کو ایک رواج کی حیثیت حاصل تھی اسے آخر ایک سماجی برائی کیونکر مانا جانے لگا
بار ھویں صدی کے وسط میں جرمنی اور انگریزی فوجوں نے مل کرلزبن پر چڑھائی کی تو فوجی افسروں نے دیکھا کہ عورتوں کے غول جو فوج کے ہمراہ ہیں وہ سپاہیوں کے لئے ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس لئے فوج میں زنا کاری اور عصمت فروشی کے خلاف انہوں نے سخت قانون نافذ کرائے
مثلاً شاہ فریڈرک اول نے حکم دیا کہ آئندہ کوئی سپاہی اپنے کوارٹر میں عورت کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا
جس کسی نے ایسا کرنے کی جرأت کی اس سے اسلحہ چھین لیا جائے گا او راسے برادری سے خارج کر دیا جائے گا اور عورت کی ناک کاٹ لی جائے گی
لیکن عورت کو بد وضع بنا دینے کا یہ وحشیانہ اقدام بھی اسی طرح ناکام رہا جس طرح فوجی جرنیلوںکے بے عزت کرنے کی دھمکی اور پادریوں کے فتوے بے اثر ہوئے۔ لیکن فریڈرک کی مقرر کردہ سزائوں کو وقتاًفوقتاًاستعمال ضرور کیا جاتا رہا اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات
آئندہ پانچ سو سال یعنی سترھویں صدی عیسویں تک یورپ کے جلا د عورتوں کی ناکیں کاٹنے میں مصروف رہے
یہ بات خاص طورسے قابل ذکر ہے کہ ان عورتوں کو ناک کاٹنے کی سزا نہ دی جاتی تھی جو رئیسوں سے ہم آغوش ہوتی تھیں۔ کم از کم امن کے زمانے میں تو ایسا ہر گز نہ ہوتا تھا
پادری ڈیوڈ جوئس نے 1180 میں ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ ملکہ فرانس اور اس کے دربار کی دوسری عورتوں کو بسا اوقات حسین وجمیل طوائفوں پر معزز بیویاں ہونے کا شبہ ہوتا تھا
بعض اوقات وہ بڑی الجھن میں پھنس جاتی تھیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر شاہ فرانس لوئیس سینرد ہم نے ایک قانون نافذ کیا جس کی رو سے درباری طوائفوں کو لبادہ پہننے کی ممانعت کر دی گئی تاکہ انہیں آسانی سے پہچانا جا سکے
اس سے کوئی سو سال بعد تیر ھویں صدی عیسوی میں جب کہ فوجی کیمپوں میں زنا کاری کسی طرح بھی کم نہ ہوئی تو یورپ کی فوجوں میں وہ نظام رائج ہو گیا جسے باضابطہ عصمت فروشی کہتے ہیں
اس وقت سے لے کر آج تک بعض جگہوں پر کئی مرتبہ اس نظام کی وکالت اور حمایت کی جاتی رہی ہے
ممکن ہے کہ بعض حکمرانوں نے اس سے بھی پہلے یہ طریقہ رائج کر دیا ہو
لیکن شاہ جرمنی فریڈرک ثانی نے 1380میں اپنے مارشل کو حکم دیا کہ شاہی فوجوں میں دھندا کرنے والی عورت سے ایک مقررہ رقم وصول کی جایا کرے
اس کے بعد برطانیہ، فرانس، اٹلی اورہالینڈ کے حکمرانوں نے مختلف افسروں کے ویسے ہی اختیارات دے دیئے
آج ہم ایسے احکام کو ایک سیکنڈ کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتے
لہٰذا تفاوت راہ ابھی سوسال سے کچھ ہی زیادہ عرصہ گذرا ہو گا کہ ایلبا کے ڈیوک نے ہالینڈ پر چڑھائی کی تھی تو اس کے ہمراہ سینکڑوں عورتیں تھیںجو شہزادیوں کے لباس میں ملبوس تھیں اور ان کی رانوں تلے نہایت ہی نفیس گھوڑے تھے
بہت سی عورتیں پاپیادہ تھیں اور سب کی سب فوجی وردی پہنے تھیں۔ ان کے پاس اپنے پرچم تھے جو اسی فوج کے جھنڈے سے مشابہ تھے جس سے وہ وابستہ تھیں۔ ڈیوک نے حکم دے رکھا تھا کہ جو سپاہی مقررہ رقم ادا کر دے اسے ٹھکرایا نہ جائے
برطانیہ سمیت یورپ کے تمام ملکوں میں عصمت فروشی کی تاریخ ایک ساتھ چلتی ہے
برطانیہ کے حکمرانوں نے حملہ آوررو میوں کے رواج کے مطابق پہلے پہل زنا کاری کو باتھوں، حماموں تک محدود رکھا
ہنری اوّل کے زمانے تک خاص طو رہے وہ اڈے جو دریائے ٹیمز کے کنارے واقع تھے
عیش ونشاط کی دعوتوں اورجنسی رنگ رلیوں کے مرکز بن گئے تھے
ہنری دوم کو ان اڈوں پر کنٹرول کرنے کے لئے قانون بنانا پڑا۔ مثلاً مذہبی تہواروں کے موقعوں پر ان اڈودں کو بند کر دینے کا حکم تھا
ان اڈوں کے مالکوں کو کسی شادی شدہ عورت یا عیسائی بیراگن یانن سے پیشہ کرنے کی ممانعت تھی
کوئی عورت اپنے گاہک کے ساتھ ساری رات نہ گذارے وہ کسی معاوضے کی حق دار نہ ہو گی
قرون وسطیٰ میں شہروں کی آبادی کے ساتھ زنا کاری بھی بڑھتی گئی
فوجوں اور قافلوں کو عورتیں سپلائی کرنے والے دھڑا دھڑ روپیہ کماتے تھے
اس وقت جوصورت حال تھی ا س کی گواہی بہت سی دستاویزوں سے ملتی ہے جو اب تک محفوظ ہیں
یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ 1414میں شہنشاہ سگمنڈ آٹھ سو سواروں کے ساتھ سوئٹزر لیند کے شہر برنی میں داخل ہو ا تو برنی کی کونسل نے ازراہ مہمان نوازی کثرت رائے سے یہ فیصلہ کیا کہ معزز مہمان اور ان کے ساتھیوں کو تین دن تک کھلی چھٹی ہے کہ وہ جس طوائف سے بھی چائیں ملیں
یہ دعوت نہ صرف قبول کی گئی بلکہ بعد میں شہنشاہ نے تہ دل سے لکھ کر شکریہ ادا کیا
یہاں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ جو صورت حالات ہمیں نا قابل برداشت اور مذموم معلوم ہوتی ہے ان دنوں اسے بداخلاقی پر مبنی تصور نہ کیا جاتا تھا
بلکہ یہ رواج اس زمانے کی اخلاقیات کا ایک جزو ہے
قرون وسطیٰ میں عصمت فروشی کو عام اخلاقی زندگی کا ایک حصہ سمجھا جاتا تھا۔ تاہم ایک عرصے سے حرام کاری کو سماج میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا
تاریخ شاہد ہے کہ عصمت فروشی سماج کے مدراج ترقی کا پیمانہ رہا ہے اس سلسلہ میں جدید جاپان کی صورت حال زیر غور ہے
موجودہ جنگ کے دوران میں ٹھنگنے مہذب جاپانی نہایت ہی وحشی ثابت ہوئے اور معلوم ہو اکہ یہ مہذب لوگ بدمعاشی کے ہزاروں اڈوں کے مالک تھے
اور یہ اڈے مقدس آسمانی شہنشاہ جاپان ہیروہیشو کی حکومت کے زیر نگرانی تھے ان میں اکثر کو حکومت کوخود چلاتی تھی۔ صرف جاپان ہی ایک ایسا ملک ہے
جس میںاگر کوئی مرد ایسی عورت سے شادی کر لے جو سالہا سال تک سر بازار عامتہ الناس کی تسکین کرتی رہی ہو تو اس کے سماجی وقار اور قدر منزلت میں کوئی فرق نہیں پڑتا
ہٹلر کے عہد حکومت میں جرمنی کی اخلاقی پستی انتہاکو پہنچ گئی تھی۔ اہل جرمنی کی اخلاقی بے راہ روی اور فحاش