حصہ سوئم
۔۔۔۔۔
گناہ اور سائنس Sin and Science
۔۔۔۔۔
بدکاری کا پاسپورٹ سسٹم ..
روس کی موجودہ حکومت نے سوویت یونین کی عنان انتظام 1917کے انقلاب کے دوران میں سنبھالی
کمیونسٹوں کے پلے ایک ایسی قوم پڑی جو نہ صرف معاشی اور جسمانی بلکہ اخلاقی اعتبار سے اتنی گر چکی تھی کہ یقین نہیں آتا
روس میں بداخلاقی کی بنیاد عصمت فروشی کا باضابطہ نظام تھا جس کی حوصلہ افزائی اور پشت پناہی زار کی ریاست کرتی تھی
یہ نظام ان دنوں داغ بدنامی کی طرح دنیا بھر میں مشہور تھا ”اسے پیلا پٹہ” کہتے تھے
زار شاہی روس میں تمام شہریوں کے پاس اپنے نام اور حلیے کی سند ہوتی تھی
جسے پاسپورٹ کہتے تھے
اس پاسپورٹ کے ذریعے زار کی پولیس روس کے باشندوں کی نہایت ہی سخت نگرانی رکھتی تھی
پاسپورٹ کے بغیر سفر کرنا خطرے سے خالی نہ تھا اور مسافر کو ہر وقت گرفتاری کا ڈر لگا رہتا تھا
یہ چھوٹا سا کارڈ نہایت ہی اہم دستاویز تھی
گویا یہ جینے کا اجازت نامہ تھا
لیکن بے شمار افراد کو اپنی مرضی سے اپنا پاسپورٹ پولیس کے پاس جمع کرانے کی اجازت تھی اور اکثر افراد کو ایسا کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا
یہ ایسی عورتیں ہوتی تھیں جو عمر بھر کے لئے عصمت فروشی کا پیشہ اختیار کرتی تھیں
زار کے عہد حکومت میں یہ کام مردوں کی صحت کے لئے لازمی سمجھا جاتا تھا
عورت کی سماجی حیثیت اور اس کی بدکرداری سرکاری قانون کے ماتحت تھی
ان قوانین کے مطابق جو عورت بازار میں بیٹھنا شروع کر دیتی تھی اسے حق شہریت سے ہاتھ دھونا پڑتے تھے
اور اسے پاسپورٹ کی جگہ رسوائے عالم پیلا پٹہ لینا پڑتا تھا
یہ پٹہ پولیس کی جانب سے عام جاری کیا جاتا تھا
یہ پٹہ سرکاری اجازت نامہ تھا اور اسے رکھنے والی عورت کو پولیس کے قوانین کے مطابق کھلے بندوں عصمت فروشی کا حق مل جاتا تھا
اس سسٹم کا سب سے مذموم پہلو یہ تھا کہ جو لڑکی ایک مرتبہ یہ حیثیت قبول کر لیتی تھی اسے اپنی تمام عمر بدکاری کے جہنم میں گذارنا پڑتی تھی
اس کے لئے کوئی راہ نجات نہ تھی
ہر عورت اپنا پاسپورٹ پیلے پٹے سے تبدیل کرا سکتی تھی
اس کے لئے کوئی راہ نجات نہ تھی
ہر عورت اپنا پاسپورٹ پیلے پٹے سے تبدیل کرا سکتی تھی
لیکن قانون اسے دوبارہ اپنا پاسپورٹ بدلنے کی اجازت نہ دیتا تھا
یہ پٹہ اس داغ کی طرح دائمی اور انمٹ تھا جو قرون وسطیٰ میں چوروں کے ہاتھوں پر جلا کر کھود دیا جاتا
روس کی مقامی حکومتوں کا دستور تھا کہ وہ لائسنس یافتہ عورتوں کی زندگی اور پیشے کی تفصیلات اور قواعد مرتب کرتی تھیں
ہم ان عورتوں کے کارو بار کی تفصیلات میں جانے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتے
صرف اتنا ہی بتا دینا کافی ہے کہ جو عورت ایک مرتبہ اپنے لئے یہ پیشہ منتخب کر لیتی تھی اسے ہمیشہ کے لئے کوئی باعزت روز گار تلاش کرنے کی ممانعت تھی
کیونکہ پاسپورٹ کے بغیر ملازمت کا ملنا ناممکن تھا اور وہ اپنا پاسپورٹ پولیس کے پاس جمع کرا چکتی تھی
زار کے عہد میں بدکاری عورتوں اور لڑکیوں کی اصلاح کی ذرا بھی کوشش نہ کی جاتی تھی
اس کے برعکس قانون کی رو سے کسی پیشہ ور عورت کو دوبارہ باعزت روزگار تلاش کرنے کی ممانعت تھی اور وہ زندگی بھر اپنے پیشے کی حدود میں رہنے پر مجبور تھی
بصورت دیگر عدالتیں انہیں مجرم گردان کر سخت قسم کی سزائیں دیتی تھیں
شرافت کے تقاضے کے پیش نظر ہم زار شاہی قوانین کی تفصیلات میں نہیں جا سکتے
تاہم یہ بات قابل توجہ ہے کہ پیشہ ور عصت فروشی اور زنا کار عورتوں کا وجود سماج کے لئے ضروری سمجھا جاتا تھا
اکثر مقامات پر پیلے پٹے والی عورتوں کو مخصوص مکانات میں رہنے پر مجبور کیا جاتا تھا
جنہیں سرکاری طور پرحرام کاری کے اڈے کہا جاتا تھا
جہاں ایسا ممکن نہ ہوتا وہاں خاص علاقے مخصوص کرائے جاتے تھے
بسا اوقات پیشہ ور عورت کے لیے لازمی ہوتا تھا کہ وہ دوسرے کرایہ داروں کی طرح اس مخصوص علاقے میں داخلے کے مکان اپنا نام درج کرائے لیکن اس صورت میں پولیس اس کے نام کے ساتھ اس کا پیشہ بھی ضرور درج کرتی تھی
ہمارے لئے اس سے زیادہ اخلاقی پستی کا تصور بھی محال ہے
1917کے انقلاب سے پہلے روس بھر میں حرام کاری کا وجود مسلمہ تھا
دراصل پیشہ ور عورتوں کو اپنا اتا پتا بتانے پر اس لئے مجبور کیا جاتا تھا کہ جو عورت عارضی افلاس سے تنگ آ کر ایک مرتبہ بھی عصمت فروشی کی ذلت کے گڑھے میں گر جائے وہ دوبارہ پولیس اور اس کے رائج کردہ پیلے پٹے کے سسٹم کے شیطانی چکر سے نہ نکل سکے
روس میں حرام کاری کا انتظام خاص اہتمام سے کیا جاتا تھا
بظاہر اس کا مقصد بدکاری کی روک تھام تھا لیکن کوئی سمجھدار آدمی اس سرکاری مکاری سے دھوکا نہیں کھا سکتا
دراصل بدکاری کے بندوبست کا خصوصی پہلو یہ تھا کہ پیشہ ور لڑکیوں اور عورتوں کے بہ لحاظ حسن و سن مختلف درجوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا
سب سے زیادہ کم سن اور حسین وجمیل لڑکیوں کو اعلےٰ درجے میں رکھا جاتا تھا اور وہ امیروں، وزیروں اور بڑے بڑے تاجروں کے لئے مخصوس ہوتی تھیں
جو عورتیں خاص دل کشی کی مالک نہ ہوتی تھیں انہیں عمر بھر چکلوں میں رہ کر گھٹیا سے گھٹیا جرائم پیشہ لوگوں کے تیر ہوس کا نشانہ بننا پڑتا تھا
قانون کے مطابق پیلے پٹے والی عورت مسلسل پولیس کی نگرانی میں رہتی تھی
قانون میں پیشہ ور عورتوں کے لئے باقاعدہ ڈاکٹری معائنے اور چکلوں کی تلاشی کی شرط بھی تھی لیکن اونچے طبقے کے لئے مخصوص چکلے اس قباحت سے بری تھے اور پولیس اکثر بدنام قسم کے چکلوں پر ہی چھاپہ مارتی تھی
اس نظام کی برکت سے ایسے گندے اور ہولناک افعال سرزد ہونے لگے کہ آدمی کو یقین نہیں آتا
بعض اوقات چکلوں میں عورتوں کی قلت ہو جاتی ہے اور بعض اوقات فوجی افسر شکایت کرتے کہ سپاہیوں میں آتشک کی وبا پھیل رہی ہے
لہٰذا قانون پر سختی سے عمل درآمد کرانے کے بہانے پولیس کو پے در پے چھاپے مارنے کے موقعے مل جاتے
پولیس بالا روک ٹوک مزدور بستیوں میں جا گھستی اور تمام بازاروں، گھروں اور تفریح گاہوں کی تلاشیاں شروع ہو جاتیں
جہاں اصل پیشہ ور عورتوں گرفتار کیا جاتا وہاں نہایت چالاکی سے بہت سے ایسی لڑکیوں کو بھی دھر لیا جاتا جن کی پاک دامنی اور نیک چلنی پرشبہ تک نہیں کیا جا سکتا
ان معصوم لڑکیوں کوعدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا اور ان پر پیلے پٹے یعنی لائسنس کے بغیر پیشہ روی کا الزام لگایا جاتا
قانون کی اس خلاف ورزی کا جرمانہ پانچ ہزار روبل یعنی تقریباً تین ہزار سات سو پچاس روپے تھا
ظاہر ہے غریب ملزمہ سے اتنی بڑی رقم وصول نہیں کی جا سکتی تھی
اس لئے قانون میں اس کا بدل موجود تھا
عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں بے قصور اور مجبور ملزمہ سے پاسپورٹ چھین لیا جاتا اور پیلا پٹہ دے دیا جاتا
پولیس اپنے چھاپوں کا منصوبہ بڑی ہوشیاری سے تیار کرتی تھی
پلان کے مطابق پولیس افسر اصل پیشہ ور عورتوں کے ہمراہ جہاں ان لڑکیوں کو پکڑ لاتے ہیں جنہیں بعد میں پیشے کی لعنت میں مبتلا کرنا مقصود ہوتا تھا
وہاں بہت سی غریب اور شریف عورتوں کو بھی لے آتے
جن میں اکثر حاملہ ہوتیں اور بچوں کو دودھ پلاتی مائیں بھی شامل ہوتیں
جن کو مجرم گردانتا مقصود ہوتا تھا
جج صاحبان ان کے علاوہ سب کو باعزت طور پر رہا کر دیتے تھے
اس طرح پولیس چکلوں میں پیشہ ور عورتوں کی قلت کو دور کرنے کے لئے جو ذلیل اور انسانیت سوز طریقہ اختیار کرتی تھی وہ قانونی طور پر جائز ہوتا تھا
خیال رہے کہ زار شاہی کی عدالتوں کے رو برو تقریباً تمام عورتوں کی حیثیت نہایت ہی مظلومانہ اور پست تھی
لیکن پیشہ ور عورتیں تو نہایت ہی مظلوم اور بے بس تھیں
ٹالسٹائی کے ناول ”قیامت” میں ایک ایسی ہی لڑکی کی لرزہ خیز داستان بیان کی گئی ہے جسے حرام کاری کی زندگی پر مجبور ہونا پڑا
فاضل ناول نگار نے بتایا ہے کہ زار کے افسر عورتوں کے ساتھ اس قدر سنگدلانہ برتائو کرتے تھے کہ امیر طبقے کے لوگ بھی ان کے سامنے بے بس تھے
پیلے پٹے کے معنی دراصل مکمل تباہی کے پاسپورٹ کے تھے
قانون کی رو سے عورتیں صرف دو صورتوں میں پولیس کی نگرانی سے چھوٹ سکتی تھیں
پہلی یہ کہ عورت کی بیماری اتنی خطرناک ہو جائے کہ وہ مردوں کے قابل نہ رہے اور دوسری موت
ان حالات میں جنسی بیماریاں خوب پھلتی پھولتی تھیں
کبھی کبھار ایسے با اثر روسی لوگ جو ٹالسٹائی کی کتابوں جیسی تحریروں سے متاثر ہوتے یا بعض مشہور ڈاکٹر جو اونچے طبقے کے خاندانوں میں آتشک کے پھیلنے سے گھبراتے تھے
وہ جنسی بیماری کی روک تھام سے متعلقہ دفعات قانون پر سختی سے عمل درآمد کراتے
لہٰذا احکامات جاری ہوتے اور جھوٹی مہمیں چلائی جاتیں
پولیس جن ڈاکٹروں کو معائنے کے مامور کرتی تھی انہیں معائنوں کے حساب سے فیس دی جاتی تھی
بسا اوقات کمپونڈروں کو معائنہ کے کام پر لگا دیاجاتا تھا
اکثر ایسا بھی ہوتا کہ پولیس چند افسروں کو جمع کر لیتی اور ان کے سامنے فی گھنٹہ چار سو کے حساب سے معائنے کے لئے عورتیں پیش کی جاتیں
ہر ڈاکٹر زیادہ سے زیادہ مریض بھگتانے کی کوشش کرتا اور معائنے کے وقت مریضوں کے لباس اتارنا ضروری نہ خیال کیا جاتا تھا
ظاہر ہے ان حالات میں جو تشخیص کی جاتی ہو گی وہ نہایت ہی غیر تسلی بخش اور غلط ہوتی ہو گی
چونکہ مرض دریافت ہونے کی صورت میں علاج کرانا لازمی تھا اور علاج کے لئے بے شمار روپے کی ضرورت تھی
لہٰذا بد نصیب عورتیں سستا طریقہ اختیار کرتی تھیں اور پولیس اور ڈاکٹروں کو نقدی کی صورت میں رشوت دے کر گلو خلاصی کرا لیتی تھیں
لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ روس کے ماہر ڈاکٹر پیلے پٹے کے مذموم سسٹم سے نجات کا راستہ تلاش کرنے کی بالکل کوشش نہ کرتے تھے
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ تمام حل جنہیں زمانہ جدید کے ماہرین دریافت کر رہے ہیں
انقلاب سے پہلے روس میں دریافت کئے گئے آزمائے گئے
اور ”ریاکارانہ گریز” کہہ کر ترک کر دئیے گئے
پورے تیس سال کا عرصہ گزرا کہ ڈاکٹر ابراہام فلیکسلز نے ایک مشہور کتاب لکھی تھی
جس کا نام یورپ میں ”عصمت فروشی” رکھا گیا تھا
اس میں انہوں نے آخری اور فیصلہ کن دلیلوں کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ عصمت فروشی پر کنٹرول سرے سے نامعقولیت اور حماقت ہے
جنسی امراض کے پھیلاؤ کو کسی خاص عرصے کے لئے نہ تو چکلوں کی نگرانی نہ دوسرے طریقے یعنی طوائفوں پر پولیس کا تشدد ہی کم کر سکتا ہے
اور زنا کار عورتوں اور مردوں کا طبی معائنہ اس وقت تک قطعاً ناممکن ہے جب تک ہم ایک ایک ڈاکٹر کو گھیر کر ایک وسیع فوج میں منظم نہ کر لیں
جن کا کام صرف جنسی امراض سے متاثر لوگوں کا معائنہ کرنا ہو
خون کے معائنوں اور دواوں کے ذریعے آتشک اور سوزاک پر قابو پانے کے لئے اس بر عظیم (یورپ) میں اتنے شفاخانے کھولنے کی ضرورت ہے جتنے آج گیس سٹیشن قائم ہیں
زار شاہی روس کے حکمران اس سماجی برائی سے متعلق مندرجہ بالا تلخ حقیقت سے واقف تھے لیکن انہوں نے اس کے خلاف کچھ نہ کیا
کیونکہ وہ معذور تھے
انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ بدکاری پر سرکاری کنٹرول کا نتیجہ لامحالہ یہ نکلے گا کہ قانون پر عمل در آمد کرانے والا محکمہ خود خراب اور رشوت خور بن جائے گا
اس لئے انہوں نے اس خرابی کو تسلیم کیا اور اسے قانونی حیثیت دے دی
ہر طواف کو پیلے پٹے کی بل پر کاروبار کرنے کا حق حاصل کرنے کے لئے فیس دینا پڑتی تھی اور اپنی آمدنی کا ایک مقررہ حصہ مجسٹریٹ یا دوسرے سرکاری افسر کو ادا کرنا پڑتا تھا
ایسی صورت حال کو آج ہم ہرگز گوارا نہیں کر سکتے
1917 کے پہلے کے روس میں جو بداخلاقی کا مسئلہ پایا جاتا تھا
اس میں اور ہمارے ہاں کے آج کل کے مسئلے میں ایک اعتبار سے حیران کن مشابہت ہے
ان دنوں روس میں زنا کاری دن بدن بڑھ رہی تھی
زار کی وزارت انصاف کے اعداد و شمار کے مطابق بدکاری اور جرائم میں پہلی جنگ عظیم کے پہلے کے بیس سالوں میں مسلسل زیادتی ہوئی
قتل و تشدد آمیز جرائم میں پچاس فیصد اضافہ ہوا
حرام کاری پہلے کی نسبت تین گنا بڑھ گئی
پیلے پٹے کے سسٹم کے رائج ہونے سے بھی اس میں کمی واقع نہ ہوئی بلکہ حرام کاری نے اور بھی زور پکڑا
1913 میں سینٹ پیڑزبرگ (لینن گراڈ) کے شہر میں ساٹھ ہزار رجسٹر ڈ پیشہ ور عورتیں تھیں
اس کے ساتھ ہی شراب کی کھپت میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوا
کیونکہ شراب اور زنا دونوں لازم و ملزوم ہیں
خاص طور پر نوجوانوں میں شراب نوشی کی عادت زور پکڑ گئی
اندازہ لگایا گیا کہ دس سال کے عرصہ میں نوجوانوں کی اخلاقی حالت پہلے کی بہ نسبت دوگنی پست ہو گئی
اگرچہ زار کی عدالتیں ایسے نوجوانوں کے خلاف مقدمات کی سماعت بھی کرتی تھیں جن پر شدید ترین جرائم کے ارتکاب کا الزام ہو
لیکن وہ نوجوانوں میں بدکاری سے متعلق اعداد و شمار کو یکسر نظر انداز کر جاتی تھیں
روس میں انقلاب عظیم کی آمد کے وقت دس میں سے آٹھ طوائفیں ایسی تھیں جن کی عمر اکیس سال سے کم تھی
طوائفوں کی نصف تعداد نے یہ پیشہ اس وقت سے اختیار کیا تھا جب کہ وہ اٹھارہ سال کے سن کو بھی نہ پہنچی تھیں
دس میں سے چار طوائفوں نے حرام کاری کی زندگی کا آغاز سولہ سال کی عمر سے کیا تھا
اور بہت سی چودہ سال کے سن کو پہنچنے سے پہلے ہی زینت بازار بن گئی تھیں
ہم ان حقائق کو یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کر سکتے کہ یہ خرابیاں زار روس کے عہد ہی کا خاصہ تھیں
ان کا جواب ہمارے ہاں موجود ہے
ہمارے ہاں کی وکٹری گرلز بھی ہائی سکول کی طالبات کی عمر کی لڑکیاں تھیں
سماجی تاریخ شاہد ہے کہ بداخلاقی زور پکڑتی ہے تو سیہ کاروں کی اوسط عمر اسی تناسب سے کم ہو جاتی ہے
یعنی بدکاری کا آغاز نسبتاً کم سنی سے ہونے لگتا ہے
اس مسئلے سے متعلق ہم نے حال ہی میں غفلت ترک کی ہے
ڈاکٹروں نے اپنی مساعی دگنا کر دی ہیں
پادری نصیحت کرنے اور ڈرانے لگے ہیں اور سیاست دان حضرات ماہرین کی کمیٹیاں قائم کرنے لگے ہیں
اس سے 1910کے زار شاہی روس کی یاد تازہ ہو جاتی ہے
جب کہ ایسے لوگوں نے زار کی حکومت پر دبائو ڈالنا شروع کیا تھا کہ بدکاری کی روک تھام کے لئے کچھ کیا جائے
جو سلطنت زار کے اندر گناہ اور جرائم کی بڑھتی ہوئی رفتار پر خاموش نہیں رہ سکتے تھے
روس میں دوسرے ملکوں کے سیاح جاتے تھے تو وہ بلا جھجک کہہ دیتے تھے کہ مہذب دنیا پیلے پٹے کے سسٹم کو نہایت ہی نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتی ہے
اس پر امیروں، وزیروں اور ڈاکٹروں کے طبقے سے تعلق رکھنے والے ایماندار لوگ مارے ندامت کے عجیب الجھن میں پھنس جاتے تھے
انقلاب روس سے سات سال پہلے اخلاق سدھار تحریک نے اس قدر زور پکڑا کہ زار نے بدکاری کے خلاف منظم جہاد شروع کرنے کے سوال پر غو ر کرنے کے لئے ایک کانگرس بلائی
اس کا نگرس کے سامنے سب سے بڑا بحث طلب سوال تھا
حرام کاری سے متعلقہ قوانین کی تنسیخ یعنی عصمت فروشی پر سے سرکاری کنٹرول اٹھانے کی تجویز
روس کے ٹرید یونین رہنمائوں نے ا س کانگرس کو کافی اہمیت دی اور انہوں نے اس میں اپنے مندوب بھیجے
پولیس نے ہر چند دبائو ڈالا کہ ان نمائندوں کو نہ سنا جائے
لیکن اس کے باوجود انہیں اظہار خیال کا موقع دیا گیا
جب انہوں نے اس کہاوت کے مطابق کہ ”سوسنار کی ایک لوہار کی” اعلان کیا کہ روس میں بڑھتی ہوئی بدکاری کا موجب زار شاہی نظام ہے
تو مجمع حیرت میں پڑ گیا
انہوں نے معاشی اور سیاسی زبوں حالی کو بدکاری کے اضافے کا سبب ٹھہرایا
اور دعویٰ کیا کہ موجودہ مطلق العنان حکومت عصمت فروشی اور جنسی بیماریوں کو دور کرنے کی جو بھی کوشش کرے گی وہ انجام کار ناکام ثابت ہو گی
اس پیش گوئی کو اس لئے زیر بحث نہ لایا گیا کہ مبادا وہ کانگریس ہمیشہ کے لئے سائبیریا کی جیلوں میں منتقل کر دی جائے
لہٰذا پولیس شاہی نے فتح پائی
اس کے خیال میں پیلے پٹے کا نظام بہتر تھا اور دوسرے ملکوں میں حرام کاری کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے جو صورت حال پائی جاتی تھی
یہ نظام ا س پر قابل ترجیح تھا
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نچلے طبقے کی چند ہزار عورتوں کا عمر بھر کے لئے عصمت فرشی اختیار کر لینا اس سے بدر جہا اچھا ہے کہ شریف خاندانوں کی بیٹیاں بھی سیہ کاری کی لپیٹ میں آئیں
ان کی لمبی چوڑی تقریروں اور ریاکارانہ دلیلوں کے پیچھے جو تلخ حقیقت پوشیدہ تھی اسے دو لفظوں میں یوں بیان کیا ہے
کہ سلطنت روس میں بدکاری پر باقاعدہ سرکاری کنٹرول حکومت کے لئے نہایت ہی منفعت بخش تھا دراصل بدکاری پر کنٹرول کرنے کے بہانے روس کی عورتوں سے قانوناً کثیر رقم وصول کی جاتی تھی
چوساری کی ساری زار کے بددیانت اور رشوت خور افسروں کی جیبوں میں جاتی تھی
چونکہ زار شاہی صرف پولیس کی آمریت کی بدولت قائم تھی
اس لئے اعلیٰ حکمرانوں نے فیصلہ کر دیا کہ محکمہ پولیس کوجو آمدنی نوجوان لڑکیوں کی عصمت کی تجارت سے ہوتی ہے اس میں دخل نہ دیا جائے
لہٰذا جو کانگریس بدکاری سے متعلق قوانین کی تنسیخ کے لئے بلائی گئی تھی وہ اس عیارانہ نتیجے پر پہنچ کر ختم ہو گئی
کہ ”نچلے طبقوں” کی عورتیں خطرناک حدتک بدکار ہیں
کیونکہ ان کی گذر ان ہی عصمت فروشی پر ہے چرچ نے اس فیصلے کو اپنی ازلی انداز میں سراہا اور اعلان کیا کہ انسان ازلی گناہ گار ہے
حاصل کلام یہ کہ اس اجتماع نے بھی اس اصول کو تسلیم کیا کہ بداخلاقی اور نبی نوع انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور عورتیں ہی اس کی ذمہ دار ہیں
اس سلسلے میں ہمیں اس دلچسپ بحث کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیئے جو امریکہ میں بھی جاری تھی اور جس کا موضوع یہ خیال تھا کہ جنسی بیماری کو سماجی مسئلہ تسلیم کر لیا جائے
تو اسے بہ اعتبار نسل دو حصوں میں یعنی گورے اور کالے میں تقسیم کیا جا سکتا ہے
کارنل یونیورسٹی میڈیکل کالج کے محکمہ صحت عامہ امتناعی ادویات کے ایک مشہور ممبر ڈاکٹر ڈبلیو۔ جی سملی نے امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے رسالے بابت جون 1934 میں ایک مشہور معروف بیان شائع کیا
انہوں نے امریکی فوج کے ان سپاہیوں کا معائنہ کیا تھا جو آتشک کے مریض تھے
ان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا:
”یہ اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ میں آتشک پر قابو پانے کے لئے جو پراپیگنڈہ ہوا ہے
اس کا اکثر حصہ گمراہ کن ہے
عام طور سے بتایا جاتا ہے کہ دس ہزار افراد میں سے ایک کو آتشک کی بیماری ہے
لیکن یہ بات بالکل غلط ہے
بحیثیت مجموعی گوری نسل کے لوگوں میں آتشک کا عارضہ بہت کم پایا جاتا ہے اور وہ بھی زیادہ گوری نسل کے سب سے نچلوں طبقوں کے افراد تک محدود ہے
آتشک کی بیماری عموماً اس قسم کے گورے لوگوں میں پائی جاتی ہے جو جاہل، بد احتیاط، جرائم پیشہ اور غیر مہذب ہیں
آتشک اور دراصل ایک سماجی مرض ہے
اس کے بعد ڈاکٹر سملی نے حبشیوں میں آتشک کی شرح دریافت کرنے پر زور قلم صرف کیا ہے
وہ کہتے ہیں ”چونکہ آتشک کی بیماری گوروں کی بہ نسبت حبشیوں میں دس گنا زیادہ پائی جاتی ہے
اس لئے حکام کا چاہیئے کہ جہاں اس بیماری کا تناسب حد سے زیادہ ہے وہیں اپنے منصوبوں کودس گناہ زیادہ شد و مد سے عمل میں لائیں
اور قوم کے سیاہ فام لوگوں میں بیماری کو روکنے کے لئے اپنی تمام کوششیں وقف کر دیں
اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سفید فام لوگوں میں بھی بیماری گھٹ جائے گی
یہ دلیل حبشیوں پر ایک کھلے حملے کے مترادف ہے
کیونکہ اکثر جاہل، بداحتیاط، جرائم پیشہ اور غیر مہذب گورے لوگوں کے تعلقات حبشی قوم سے بھی ہیں
لیکن ہم ایک منٹ کے لئے فرض کر لیتے ہیں کہ ڈاکٹر سملی کی مراد کچھ اور تھی وہ ڈاکٹروں کی توجہ ایک ناقابل انکار حقیقت کی طرف دلا رہے تھے مگر وہ آگے چل کر کہتے ہیں
”یہ رجحان اب تک عام پایا جاتا ہے کہ صحت عامہ سے متعلق سرکاری حلقے اس امر کو سرسری نگاہ سے دیکھ رہے ہیں
یا یکسر فراموش کر جاتے ہیں کہ آتشک کی بیماری حبشیوں میں عام ہے
اس حقیقت کو جتنی جلدی مان لیا جائے اور موجودہ صورت حالات کی اصلاح کر لی جائے تو یہ نہ صرف حبشی نسل کے لئے اتنا ہی بہتر ہے
بلکہ بہ حیثیت مجموعی قومی صحت کے لئے مفید ہوگا”
ڈاکٹر سملی کی نیت بری نہ بھی سہی لیکن وہ خود اور دوسرے بہت لوگ جو ان کی حمایت کرتے ہیں
ان افسروں سے زیادہ مجرم ہیں جنہیں وہ ہدف تنفید بناتے ہیں
اس دلیل میں ان حقائق پر جس طرح پر دہ ڈالا گیا ہے وہ ایک سائنس دان کے شایان شان نہیں
اس میں حقیقت کو یکسر فراموش کر دیا گیا ہے
جنسی بیماری گورے لوگوں کی نسبت حبشیوں میں کیوں زیادہ ہے؟
ڈاکٹر سملی کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک نسلی خصوصیت ہے
کیا یہ سچ ہے! اور پھر گوری نسل کے اکثر غیر مہذب لوگ جنسی امراض میں کیوں مبتلا ہیں؟
جسے خدمت خلق کاکچھ تجربہ ہے
اس کے نزدیک اس سوال کا جواب نہایت آسان ہے حبشی قوم میں جنسی بیماریوں پر پردہ ڈالنے کی بھی ایک خاص وجہ ہے
اور وہ یہ ہے کہ حق بات کہنے سے وہ ہولناک صورت حال منظر عام پر آتی ہے جس میں حبشی لوگ زندگی گزار رہے ہیں
امریکہ کے حبشیوں کی بہت بڑی اکثریت اس قسم کی بے رحمانہ سیاسی اور سماجی لوٹ کھسوٹ کا شکار ہے
جو کبھی زار شاہی روس میں پائی جاتی تھی
حبشیوں کے آتشک میں مبتلا ہونے کے سبب بھی وہی ہے جس سے غیر مذہب گورے لوگوں کی بیماری لگتی ہے وہ سبب ہے غربت جسے نسل وسل سے کوئی واسطہ نہیں
ڈاکٹر سملی اس واضح اور ٹھوس حقیقت پر اعداد وشمار کا ایک نرم و نازک پردہ ڈال رہے ہیں
جس ایسے لوگ خاص طور سے پسند کرتے ہیں جو دانستہ یا نا دانستہ بدکاری کے بنیادی وجوہ کو چھپاتے ہیں
”آتشک دراصل ایک سماجی بیماری ہے”
آخر اس فقرے کا کیا مطلب ہے؟
جو مطلب بھی آپ چاہیں نکال لیں
معاشی بحران کے دوران میں اس قسم کے فقرے ان نام نہاد سائنس دانوں نے استعمال کئے تھے
جنہوں نے امداد یاب اور بے روزگار لوگوں کے حالات کی تفتیش کرتے وقت اپنی غیر جانبداری کا ڈھنڈورا پیٹا تھا
رجعت پسندوں نے یہ مقولہ گھڑ لیا کہ ”قابل آدمی بے کار ہو ہی نہیں سکتا
صرف ناکارہ نکمے لوگ ہی امداد طلب کرتے ہیں
آتشک یقینا سماجی بیماری ہے اوراسی طرح عصمت فروشی بھی سماجی علت ہے
لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ بداخلاقی اور اس سے وابستہ باقی تمام مسائل ہمارے سماج کی بنیادی خرابیوں کی پیداوار ہیں
ڈاکٹر سملی حبشی نژادا مریکیوں کوجرائم پیشہ اورغیر مہذب گوروں کے ساتھ ملا کر سائنسی حقیقت کے دائرے سے باہر نکل گئے ہیں اور خواہ ان کی نیت ہو یا نہ ہو ایسا کرنے سے وہ نسلی تنا فربرتنے والے لوگوں کے ہاتھوں میں ایک نہایت ہی خطرناک ہتھیار دے رہے ہیں
آتشک کا اس قسم کا تجزیہ اور بھی شیطانی فعل ہے کیونکہ یہ بیماری جنسی ہے
اور یہ سفید جھوٹ ہے کہ حبشی لوگ بہ اعتبار نسل سفید فام لوگوں کی نسبت گھٹیا اخلاق کے لوگ ہوتے ہیں
حبشی قوم کے خلاف نفرت انگیز پراپیگنڈے کی ایک بڑی بنیاد ہے اور یہی وہ زہر ہے جس سے متاثر ہو کر جنوبی ریاستوں کے فاشسٹ انتقام کے جذبے سے اندھے ہو کر قتل وغارت کا بازار گرم کرنے پر تل جاتے ہیں
جنوبی ریاستوں کے حبشیوں اور گوروں میں جو اخلاقی برائیاں پائی جاتی ہیں وہ حبشی نسل میں جنم نہیں لیتیں جو نہ صرف حبشیوں بلکہ اسی طرح سفید فام لوگوں میں بھی بد اخلاقی کو جنم دیتی ہے
لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر سملی ہمیں باور کرانا چاہتے ہیں کہ حبشیوں کا علاج ہو جائے تو آتشک ختم ہو جائے اس کا تو صاف اور سید ھا مطلب یہ ہے
کہ کالے لوگ ہی گوروں میں بیماری پھیلاتے ہیں ایسے خیالات براہ راست گوئبلز اینڈ کمپنی کی بکواسیات سے چرائے گئے ہیں
اب ہم یہ بتائیں گے کہ دوسرے ملکوں میں ”سماجی بیماری”کی نوعیت کیا ہے؟سب سے پہلے کینیڈا کو لیجئے
وہاں حبشی آبادی بہت ہی تھوڑی ہے جو تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے
اور وہاں امریکہ کی بہ نسبت معاشی ناانصافی بہت کم ہے
وہاں آج تک کسی نے آتشک کے بیماروں کے متعلق گورے اور کالے لوگوں کے لئے الگ الگ اعدد وشمار پیش نہیں کئے
میں نے کینیڈا کے ڈاکٹروں اور سوشل ورکروں سے تحقیقات کی ہے
کینیڈا کے حبشی بھی اوسطاً غریب ہیں لیکن وہ اتنے افلاس زدہ نہیں ہیں جتنے امریکہ کے لاکھوں کالے خاندان اور جہاں تک جنسی بیماری کا تعلق ہے
گورے اور کالے کینیڈاوی میں تمیز روا نہیں رکھی جاتی
تاہم امریکہ کے اصلی باشندے انڈین عموماً آتشک میں مبتلا ہیں جو ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں سخت لوٹ کھسوٹ کا دور دورہ ہے
اس سے بھی زیادہ متاثر کن وہ اعداد وشمار ہیں جو کینیڈا میں تپ دق سے متعلق ہیں
جہاں تک اس مرض کا تعلق ہے کینیڈا والوں نے کبھی بھی گوروں اور انڈینوں میں خط امتیاز کھینچ لیا ہے
کیونکہ بحیثیت مجموعی ملک کی تمام آبادی کے مقابلے میں انڈینوں میں دق کا مرض بہت زیادہ ہے لیکن کینیڈا کے ڈاکٹر حقیقت کی پووہ پوشی کے مجرم نہیں
وہ اس نظریے کے ہر گز حامی نہیں کہ انڈین بہ لحاظ نسل سفید طاعون یعنی دق سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں
وہ صاف صاف کہتے ہیں کہ تپ دق ان معنوں میں سماجی بیماری ہے کہ یہ بیماری ان لوگوں کا پیچھا نہیں چھوڑتی
جنہیں سماج ہمیشہ کے لئے افلاس کے جہنم میں دھکیل دیتا ہے اور گھٹیا غذا ، گندی رہائش، جہالت اور طبی امداد سے محرومی ان کا مقدر ہو جاتا ہے
انڈینوں میں تپ دق سے مرنے والوں کی تعداد مختلف مقامات پر مختلف ہے
ڈاکٹر ۔ای۔ ایل۔ راس اور اے ایل پین نے حال ہی میں تخمینہ لگایا ہے کہ جو سفید فام لوگ مخصوص انڈین علاقے کے ساتھ آباد ہیں
ان کے مقابلہ میں انڈینوں میں تپ دق کا مقابلہ کرنے کی قوت بہت کم ہے
تاہم یہ دلچسپ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ علاج کے بعد ان کی ایک بڑی تعداد نے خاطر خواہ شفا پائی
اگر انہیں گورے لوگوں کی طرح سہولتیں اور مواقع میسر کئے جائیں تو مانع اور دافع مرض اقدامات سے وہ بھی اتنے ہی متاثر ہوں گے جتنا کہ گورے لوگ
ان محققین نے اس جاں گداز افلاس، غلاظت اور جہالت کا خاص طور سے ذکر کیا ہے
جس میں بے رحم حکومت وقت نے کینیڈا کے اصلی باشندوں کو دھکیل رکھا ہے
آتشک کا مرض امریکہ کے کالے باشندوں میں دس گنا زیادہ ہے
تپ دق کینیڈا کے گورے باشندوں کے مقابلہ میں انڈینوں میں دس سے لے کر بیس گنا تک زیادہ ہے
یقینا دونوں امراض سماجی بیماریاں ہیں او راس کے اصل معنی بالکل واضح ہیں
اور وہ معنی یہ ہیں کہ امریکہ کے حبشی اور کینیڈا کے انڈین اپنے اپنے ملک میں سماجی زبوں حالی کی ایک ہی سطح پر ہیں
وہ سب سے نچلے طبقے ہیں
وہ معاشی گڑھے کی تہ پر ہی رینگتے رہنے پر مجبور ہیں
کوئی جو شیلا اور دیانت دار منصوبہ ساز جنسی امراض کے رہائشی شفاخانے یا تپ دق کے خیراتی ہسپتال قائم کرنے کے خواہ کتنے بھی منصوبے بنائے وہ اس سماجی حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتا
ایک پشت یعنی تیس سال سے زیادہ عرصہ گذرا کہ روس کے ٹریڈ یونین رہنمائوں نے اس کا نگریس کے سامنے جو عصمت فروشی کے بارے میں غور کرنے بیٹھی تھی
یہی حقیقت رکھنے کی کوشش کی تھی جس کا اطلاق ان دنوں ان کی قوم پر ہوتا تھا
لیکن زار کی سلطنت میں حبشیوں جیسی قربانی کی بکریاں نہ تھیں
مفکرین نے سماجی بیماری کے اقتصادی وجوہ پر غور کرنے سے انکار کر دیا
انہوں نے بازو لہرا لہرا کر نچلے طبقے کی عورتوں کو بدکاری پر اور مردوں کو ابدی ہوس پر برا بھلا کہا اور بس
اور گورکی کے الفاظ میں زار شاہی اور اس کے ماہرین اخلاقیات ایک مردہ مچھلی کے مشابہ تھے جس کا سر سب پہلے سٹرتا ہے
۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“