حصہ دوئم
۔۔۔۔۔
گناہ اور سائنس Sin and Science
وکٹری گرل
ایسے حضرات جن کا کام محض عیب جوئی ہے اس شاندار بہانے سے کہ گناہ تو آدم اور حوا سے چلا آتا ہے
تمام اخلاقی مسائل کی ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کندھوں سے دور اٹھا پھینکتے ہیں
یہاں ہمیں گناہ کی ابتدا کے مذہبی تصور سے متعلق کچھ نہیں کہنا
جہاں تک موجودہ زمانے کی جمہوریت پسند قوموں کو بدکاری کے خلاف اقدام پر ابھارنے کا تعلق ہے
ایک سائنسدان سب سے زیادہ مبارک باد کا مستحق ہے
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے محکمہ صحت کے سابق سرجن جرنل ڈاکٹر ٹامس پیران نے 1936میں ایک رسالے میں ایک تاریخی مقالہ لکھا
اس مقالے کو پڑھ کر لاکھوں انسان دم بخود رہ گئے
ایک بین الاقوامی شہرت کے مالک ڈاکٹر نے پہلی مرتبہ جنسی امراض کے موضوع کو اس ریاکارانہ سنسر شپ سے آزاد کر دیا جس نے بزعم خویش اسے عام تعلیم یافتہ لوگوں سے چھپا رکھا تھا
اس نے دو ایسی بیماریوں آتش اور سوزاک کو ہر نوجوان وپیر کے آگے رسوائے اشاعت کر دیا جن کا ذکر اخباروں کے اداریوں میں کرنے کی سخت ممانعت تھی
وہ حیران کن حقائق جو سرجن جنرل نے افشا کئے مختصر ادرج ذیل ہیں
1936میں تیس لاکھ سے زیادہ امریکی آتشک میں مبتلا تھے اور تقریباً نوے لاکھ سوزاک کے مریض تھے
مزید بریں ہر سال پانچ لاکھ افراد آتشک سے متاثر ہوتے تھے اور اس سے تگنے سوزاک سے
ہر سال لاکھوں افراد دل کی بیماریوں سے مرتے تھے جن کا سبب آتشک تھا
آتشک سے پاگل ہونے والے لوگوں کی حفاظت پر ہر سال کروڑوں ڈالر خرچ ہوتے تھے
ان دونوں بیماریوں سے براہ راست جسمانی اور ذہنی اعتبار سے ناکارہ ہونے والے لوگوں کی تعداد اس قدر بھیانک تھی جس کا تصور بھی محال ہے
کینیڈا، برطانیہ اور اکثر دوسرے ملکوں میں بھی صورت حال اتنی ہی بری تھی یا اس سے بھی بدتر
ڈاکٹر پیران نے جنسی امراض کے بارے میں حق گوئی سے کام لیا
انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ بیماریاں بعض لوگوں کے نجی گناہوں کی سزا ہیں
بلکہ انہوں نے بتایا کہ دونوں بیماریوں ایسے سماجی طاعون ہیں جو ہر قسم کے پیشہ اور مذہبی، نسلی اور معاشرتی لوگوں کی جڑ کاٹ رہے ہیں
اور اس رفتار سے بڑھ رہے ہیں کہ ان سے قوم کی مجموعی صحت خطر میں ہے
ڈاکٹر پیران نے قوم سے کچھ کرنے کی اپیل کی
ان کی دعوت عمل کے خلاف شرمیلا سا احتجاج تو ہوا لیکن بدکاری پر طبعی حملے کو شرک قرار دینے کے باوجود بہت سے پادریوں نے بھی جنسی بیماریوں کی روک تھام کے لئے ڈاکٹروں، رضا کاروں، مدیروں اور قانون سازوں کا ساتھ دیا
سرجن جنرل کے اس اعلان سے ان لوگوں کی کچھ ہمت بندھ گئی کہ سب سے زیادہ مہلک مرض آتشک کو تیس سال کے عرصے میں ختم کیا جا سکتا ہے
یہ 1936کا واقعہ ہے
مہم کہیں دو سال بعد شروع ہوئی
قانون پاس کئے گئے، ان گنت روپیہ جمع کیا گیا
رہائشی شفا خانے اور تجربہ گاہیں کھولی گئیں لاکھوں اشتہار بانٹے گئے
لاکھوں مریضوں کے خون کا معائنہ کیا گیا اور مہم کا آغاز بڑی دھوم دھام سے ہوا
ڈاکٹر پیران نے 1940میں ایک اور مقالہ لکھا جس میں انہوں نے بتایا کہ آتشک کے بیس فیصد مریض شفایاب ہو چکے ہیں لیکن سوزاک کی رفتار میں کوئی فرق نہیں آیا
جنسی بیماریوں کے خلاف جو جہاد شروع کیا گیا تھا اس میں حسب توقع کامیابی نہیں ہوئی
اس کے فوراً بعد سرکاری اعداد وشمار شائع کئے گئے جن سے پتہ چلا کہ مہم کا نتیجہ تو بالکل الٹ نکلا ہے
ان اعداد وشمار کے مطابق 1942میں امریکی افواج میں جنسی بیماریوں کے مریضوں کے تعداد 1939کے مقابلے میں بڑھ گئی تھی
یہ صورت حال دیکھ کر امریکی فوج کے منتظمین نے اپنے طور پر مہم چلائی
انہوں نے پوری طاقت سے بدکاری کا صفایا کرنے کی ٹھان لی
ان حضرات نے ماضی کے تجربے سے آنکھیں بند کر لیں اور گشتی گاڑیوں میں گناہگاروں کا پیچھا کرنا شروع کر دیا
انہوں نے جنم جنم کی مظلوم، قربانی کی بکری طوائف کی نگرانی اور بھی کڑی کر دی
اس قسم کے اخلاق پرست لوگ جو موقع بے موقع، سرم، جرم اور سزا کی رٹ لگائے رکھتے تھے وہ بڑے جوش وخروش سے سزا کا مطالبہ کرنے لگے
اللہ اللہ کہاں وہ موثر سنہری سیکم جہاں چند سال پیشتر جنسی بیماریوں کو سائنسی شائستگی کے ساتھ ملیا میٹ کرنے بیڑا اٹھایا گیا تھا اور کہاں یہ سزا کا نعرہ
دیوالیہ پن کی انتہا اس وقت ہوئی جب کہ بہت سی مشہور و معروف ہستیوں خصوصاً جین ٹیٹے نے مردوں سے شریفانہ اپیلیں شروع کر دیں کہ گناہ کرنا چھوڑ دو
عورت کو بھول جاؤ اور بیماری کا خاتمہ اس ابدی قدر سے کر دکھائو جسے زہد و تقوی کہتے ہیں
لاکھوں فوجی سپاہی کچھ عرصے کے لئے اپنے آپ کو نامرد تصور کرنے پر مجبور ہوئے اور انہیں یوگی بننا پڑا
اس اصول کی بنا یہ سچائی تھی کہ یوگی کو جنسی بیماری نہیں لگتی اس طرح زربفت میں لپٹا ہوا سائنسی جہاد وکٹوریائی موعظت پر ختم ہوا
1943 کے شروع میں برعظیم امریکہ ایک بار پھر چونک گیا
فوجی افسروں اور دفاع صحت اور بہبود کے محکموں کے منتظمین کے درمیان ایک اچھوتی جھڑپ جاری ہو گئی
یہ محکمے امراض کے بڑھتے ہوئے طوفان پر بوکھلا گئے اور شور مچانے لگے کہ تمام بڑے بڑے شہروں میں ”بے حیائی کے اڈوں” سے عورتوں کو نکال دیا جائے
انہوں نے مطالبہ کیا کہ خطرناک مقامات کو دوسری آبادی سے قطعاً الگ تھلگ کر دیا جائے
پادریوں کو جو موقعہ ملا انہوں فوراً اس تجویز کی حمایت کا اعلان کیا اور وہ منظم بدکاری کے خلاف لوگوں کو ابھارنے لگے
اور عصمت فروشی کے خلاف لوگوں کے جذبات بھڑکانے میں آسانی سے کامیاب ہو گئے
حالانکہ بہت سے لوگ یہ یقین کر بیٹھے تھے کہ یہ علت ایک مدت سے ختم ہو چکی ہے
لیکن افواج نے اس مہم کے خلاف بھی زبردست احتجاج کیا تو یہ لوگ اور بھی بھونچکے رہ گئے
بعض فوجی منتظمین نے اس مسئلے کے متعلق اپنے نقطہ نظر کو اس قدر آزادی کے ساتھ پیش کیا کہ اخلاق پرست حضرات لاحول پکار اٹھے
انہوں نے کہا کہ بدکاری کے اڈوں سے عورتوں کو نکال دینے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ شہر میں ان کا تعاقب جاری ہو جائے گا
انہیں مخصوص اور محدود علاقوں میں اپنا کاروبار جاری رکھنے دیا جائے
تو فوجی پولیس کم از کم اتنا تو کر سکتی ہے کہ باوردی سپاہیوں کو ان علاقوں میں نہ گھسنے دے
ایڈیٹروں اور رضا کاروں کی تو گویا زبانیں گنگ ہو گئیں
ان کے لئے یہ فیصلہ کرنا بہت دشوار ہو گیا کہ وہ اس خطرناک جھگڑے میں کس کا ساتھ دیں
لیکن دفاع صحت اور بہبود کے محکموں کے ایک افسر مسٹر چارلس پی ٹافٹ کو اپنی تجویز کی کامیابی کا سو فیصدی یقین تھا
اعداد و شمار ایک نہایت ہی لذیذ لقمہ لے کر آگے بڑھے
ان کی ایجنسی ک پاس یہ ثبوت تھا کہ ایک طوائف اپنے کوٹھے میں ایک رات میں کوئی پچاس سپاہیوں کو بیماری لگا سکتی ہے
اس کے برعکس اس عورت سے اس کا اڈہ چھین لیا جائے اور اسے گلی محلے میں چوری چھپے کاروبار چلانا پڑے تو وہ ایک رات میں زیادہ سے زیادہ آدھی درجن گاہکوں کو بیماری لگا سکے گی
مسٹر ٹافٹ تقدس اور زہد وتقویٰ میں ہر گز یقین نہ رکھتے تھے
انہوں نے فوجی افسروں سے کہا کہ حرام کاری کو شہر کے ممنوعہ علاقے میں بند کر کے اس پر قابو پانے کی کوشش کرنے سے صرف ایک ہی نتیجہ نکلے گا
اور وہ یہ ہے کہ اس سے عام سپاہیوں میں عموماً اور نوجوان سپاہیوں میں خصوصاً گناہ کی رغبت پیدا ہو گی اور حرام کاری کا پرچار ہو گا
لیکن ایک بحث کا مفید نتیجہ ضرور نکلا
لاکھوں شریف انسانوں نے شدت سے محسوس کیا کہ عصمت فروشی کا منظم کا روبار کتنی نفرت انگیز چیز ہے
اور اس حقیقت کا احساس پیدا ہوا کہ گاہکوں کی بڑی تعداد ایسے شہریوں پر مشتمل ہو گی جو مضافات میں رہتے ہیں
مسٹرٹافٹ اور ڈاکٹر پیران کی قائم کردہ کمیٹیوں نے تین سو سے زیادہ شہروں میں چکلے بند کرا دئیے
اس سے بہت سے مقامات پر جنسی بیماریوں کا پھیلائو عارضی طور پر رک گیا
اس کے بعد سیہ کاری کے خاص اڈوں مثلاً سستے ہوٹلوں، سیاحوں کی رہائش گاہوں، تفریح گاہوں وغیرہ کے خلاف مہم شروع ہو گئی
بری اور بحری فوج نے اپنی طبی سرگرمیاں تیز ترکر دیں
رخصت پر جانے والے سپاہیوں اور جہازیوں کو مانع امراض دوائیں پہلے سے زیادہ استعمال کرائیں گئیں
چند ماہ کے بعد یہاں وہاں سے جو اعداد و شمار جمع کئے گئے وہ کافی حوصلہ افزا تھے
سپاہیوں میں بحیثیت مجموعی جنسی امراض میں کمی واقع ہوئی
لیکن اس کا ایک سبب یہ تھا کہ سپاہیوں کو سمندر پار میدان جنگ میں بھیج دیا گیا تھا
البتہ شہری آبادی میں جنسی امراض میں کمی کی رفتار حوصلہ افزا نہ تھی
اس اثنا میں سہ کاری کے مخالفین کی لغت میں کیا نئے لفظ………وکٹری گرل کا اضافہ ہوا
امریکہ کی بحری فوح کے دو ڈاکٹروں نے اچانک اشاعتی تارپیڈو داغ دیئے
لفٹیننٹ کمانڈر روشن گرائو نے نیویارک کے رہنے والوں کو اپنے بیان سے حیران کر دیا
کہ دنیا کے سب سے بڑے شہر نیویارک میں طوائف اتنی خطرناک چیز نہیں رہی
چار سے تین جہازیوں کو غیر پیشہور لڑکیوں سے بیماری لگتی ہے
یہ جہازی خیال کرتے تھے کہ اتفاقاً ہاتھ لگی ہوئی چیز بےضرر ہوتی ہے
لفٹیننٹ کمانڈر بکلے نے فلاڈیفیا کے اعداد وشمار جمع کئے اور نتیجہ نکالا
کہ نوجوان اوباش لڑکیوں کی تعداد بدکار عورتوں سے چوگنی ہے
آخر یہ لڑکیاں کون تھیں
چودہ برس یا اس سے زیادہ عمر کی دو شیزائیں
اخبار ٹائم کے نامہ نگار مقیم نارفوک نے لکھا ہے کہ پرل ہاربر پر جاپانیوں کے حملے سے پہلے نار فوک میں طوائفوں کی اکثریت پیشہ ور تھی
اور آج پچاسی سے نوے فیصدی طوائفیں عام فیشن پرست عورتوں پر مشتمل ہیں
ان میں بہت سی نوجوان لڑکیاں ہر ہفتے سینکڑوں کی تعداد میں آتی ہیں زرعی فارموں میں کام کرنے والی اور شہروں میں کلر کی کا کام کرنے والی لڑکیوں کے لئے اپنی پسند کا مرد تلاش کرنے کا یہ بڑا ہی آسان طریقہ ہے
امریکہ کی میڈیکل ایسوسی ایشن نے اپنے جرنل میں ان حقائق کی تصدیق کی اور لکھا کہ پرانی وضع کی طوائف کی حیثیت اب ثانوی ہوتی جا رہی ہے
طوائف کی نئی قسم انیس بیس سالہ نوجوان لڑکی ہے
در حقیقت جنسی بیماریوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے والا اور پھیلانے والا ہمیں میں سے ایک ہے
بحراوقیانوس کے اس پار برطانوی میڈیکل ایسوسی ایشن نے بھی اپنے جرنل میں انگلستان سے متعلق اس قسم کے حقائق کا انکشاف کیا اور انگلستان میں جنسی بیماریوں سے متاثر ہونے والے لوگوں کو تعداد اتنی ہی بتائی جتنی مسٹر بکلے نے فلاڈیفیا کے بارے میں بتائی تھی
اس جرنل کی رپورٹ کے مطابق طوائف سے ایک مرد کو بیماری لگتی ہے تو شوقین پیشہ ور عورتوں سے چار کو آسٹریلیا کے ڈاکٹروں نے اپنے ملک کے نوجوانوں میں بدکاری اس سے بھی کہیں زیادہ بتائی
کینیڈا کے صاحب اقتدار حضرات نے کھلے بندوں اندازہ لگانے سے گریز کیا
لیکن نوجوانوں کے خلاف مقدموں سے متعلق عدالتی کاغذات سے اندازہ لگایا گیا کہ تیرہ سے انیس برس کی لڑکیاں ملک بھی میں باقاعدہ گناہ کی طرف مائل ہیں
مذکورہ بالا حقائق کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ یہ اخلاقی گراوٹ محض جنگ کی وجہ سے تھی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جنگ کے دوران میں کثیر آبادی کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا
اور عارضی صنعتی ترقی اور خوشحالی اخلاقی گراوٹ کا باعث بنتی ہیں لیکن سماج کے ایک نئے خطرناک عنصر نئی قسم کی بد کردار لڑکی سے نفرت کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی
کیونکہ حقیقت تو اس نئے رجحان کی طرف جاتی ہے۔ جس کا اخلاق اور شرافت سے کوئی تعلق نہیں اس سلسلہ میں ہم دو مشہور کتابوں کا حوالہ دینا ضروری سمجھتے ہیں جو 1939 شائع ہوئی تھیں
پہلی کا نام تھا ”نوے گنا زیادہ مجرم” جس کا مصنف ہک تین پاول تھا
دوسری کا نام ”رنگین نقوش” جس کا مصنف کو راٹنے ریلے کوپر تھا
یہ دونوں کتابیں بداخلاقی پر تھیں اور ان میں بتایا گیا تھا کہ نئی پود کی نوجوان لڑکیوں کو بد اخلاق سمجھنے کا خیال 1925سے چلا آتا ہے
امریکی پار لیمان کے ایک ممبر کلاویپر کی سر کر دگی میں ایک ذیلی کمیٹی جنگ کے زمانے کی صحت و تعلیم کا جائزہ لینے کے لئے قائم کی گئی تھی
اس کمیٹی نے 1943کے آخر میں اپنی رپورٹ تیار کی جس میں بتایا گیا کہ حال ہی میں نوجوان میں جرائم کی تعداد میں جو اضافہ ہوا ہے اسے جنگ سے منسوب نہیں کیا جا سکتا
یہ اس قدرتی عمل کا نقطہ عروج ہے جو پہلی جنگ عظیم کے بعد شروع ہوا جب کہ اچھے اور برے اشخاص کے درمیان سماجی حدود تیزی سے مٹ گئیں
مذکورہ بالا حقائق سے دو نتیجے نکالے جا سکتے ہیں
پہلا یہ کہ جنسی امراض پر طبی حملہ ناکام رہا اور ڈاکٹر پیران کا یہ دعویٰ کہ آتشک کو رہائشی شفاخانوں اور تعلیم کے ذریعے تیس سال کے عرصے میں ختم کیا جا سکتا ہے ناقابل قبول ہے
بہت سے ترقی پسند مذہبی راہنمائوں نے بھی ڈاکٹر پیران کی طرح پیشگوئی کی تھی لیکن انہوں نے بھی منہ کی کھائی کیونکہ ہر اتوار کو گرجوں میں پندونصائح کو جو چکر جاری ہے
اس سے باہر نکل کر دیکھا جائے تو یہ حقیقت بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ جنسی امراض کو بداخلاقی کے پورے مسئلے سے الگ نہیں کیا جا سکتا
جس طرح لوگوں کو نیک بننے کی تلقین کرنے سے جنسی بیماریوں ختم نہیں کی جا سکتیں
اس طرح بزے بزے طبی منصوبے اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے
جب تک لاکھوں انسانوں میں جنسی تعلقات کا تاوان ادا کرنے کی مقدرت نہ ہو
دوسرا نتیجہ ذرا کم واضح ہے ایسا لگتا ہے کہ جنسی بیماریوں کے خلاف جہاد کرنے والے ایک خاص قسم کی بیماری میں مبتلا ہیں وہ ایک ہی آنکھ سے دیکھنے کے عادی ہیں ان کا اندازہ یہاں تک خطا سے مبرا ہے
کہ وہ بعض عورتوں اور لڑکیوں کو جنسی بیماریوں کی ذمہ دار سمجھتے ہیں
اور ٹھیک ٹھیک بتا سکتے ہیں کہ ایک وکٹری گرل ایک رات میں کتنی مرتبہ اپنے دامن کو داغدار بنا سکتی ہے
لیکن جو نہی مردوں کے چلن کی پڑتال کا وقت آتا ہے تو وہ آنکھیں بند کرکے گزر جاتے ہیں یہ اندھے مصلح حضرات بیماریوں میں مبتلا غیر ذمہ دار اور بد کردار لڑکی سے خفا ہو کر ان کے خلاف اقدام کے لئے میزوں پر گھونسے مار مار کر چلاتے ہیں۔ حیرانی کی بات ہے
کہ عورتوں کا سوال اٹھے تو فوراً اس کے خلاف مہمیں پیش کر دی جاتی ہیں لیکن مردوں کا سوال اٹھے تو یہ مہمیں اعداد و شمار سے آگے نہیں بڑھتیں
لڑکیوں کی نگرانی، تعاقب، گرفتاری سزا اور ان کی اصلاح لازمی ہے
لیکن مردوں کے لئے محض علاج معالجہ، تنبیہہ، مانع امراض چیزیں یا محض وعظ کافی ہے
سائنسی لٹریچر کو عموماً غیر جانبدار کہا جاتا ہے
لیکن یہ غیر جانبداری بھی نام نہاد ہی ہے کیونکہ یہاں بھی حقیقت کو ایک آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے
ڈاکٹر لوگ ہمیشہ یہی کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ عورتیں بیماری لگاتی ہیں اور مردوں کو بیماری لگتی ہے
اس کے الٹ کبھی نہیں سنا گیا
جہاں تک سماجی برائیوں کے حل کا تعلق ہے
اس کے لئے جو طریقہ پیش کیا جاتا ہے وہ بالکل غیرموثر اورسطحی ہے بدکاری کی ایک ہی مصیبت یعنی جنسی بیماریوں کو پیش نظررکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ ایک کیسا مسئلہ بن چکا ہے
جس کے سماجی نتائج نہایت ہی تباہ کن ہیں اور ہمارے مذہبی اور سائنسی راہنما ئوں نے اسے حل کرنے کی کوشش میں اور بھی الجھایا ہے
اخلاقیات کے اکثر ماہرین کو بلاتا مل سہل انگار کہا جاسکتا ہے سہل انگاری کیا ہے یہ کیا لا علاج روحانی درد ہے
جسے نامعقولیت اور تعصب کے جڑواں ذہنی کیڑے پیدا کرتے ہیں
لغت میں عام طورسے سہل انگار کی تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ ایک ایسا شخص ہے جسے ندرت خیال چھو سکتی ہے نہ بلندی نصب العین
لیکن مشہور ناول نگار میکسم گور کی سہل انگار حضرات کو انسانی مسرتوں کے جانی دشمن سمجھتا تھا
اور ان کا ذکر کرتے وقت اس کے قلم سے چنگاریاں جھڑنے لگتی تھیں
ایک مرتبہ اس نے کہا کہ جس چیز کو ہم ”قانون کی روح” یا ”روایت کہتے ہیں اس سے سہل انگار کے ذہن میں ایک ایسے مشینی ڈھانچے کا تصور پیدا ہوتا ہے جو کسی کلاک سے مشابہ ہو جس کا بڑا سبب سہل انگار نکتہ چین کے خیالات کے چکر کو حرکت میں لانا ہے
اس نے اپنے طنز کو ان الفاظ پر ختم کیا ہر سہل انگار کا مقولہ ہے کہ چیزیں جیسی ہیں ویسی ہی رہیں گی
سہل انگار نکتہ چین ایک مردہ مچھلی ہے جس کا سر سب سے پہلے سڑتا ہے
کتنے سخت الفاظ ہیں بظاہر ان کا گناہ سے کوئی تعلق نہیں لیکن مقصد پوری طرح واضح ہے جمہورکی اخلاقی مصیبتوں کو دور نہ کر سکنے کا بڑا سبب یہ بھی ہے
کہ ہم ایسے مفکروں میں گھرے ہوئے ہیں جو بظاہر گناہ کی مذمت کرتے ہیں
لیکن ان کی اپیلیں اتنی فضول اور اکتا دینے والی ہیں جیسے کہ کلاک کی دوآوازیں ٹک اور ٹک وہ ہمیں اس سے آگے نہیں لے جا سکتے
یہی خالص سہل انگاری ہے اسی کوگندے ماضی سے چمٹ کر دل کو جھوٹی تسلیاں دینے کی کوشش کہتے ہیں قصہ کو تاہ سہل انگاری کبھی کی مرچکی ہے، سڑچکی ہے
لیکن سٹراند کو کسی صورت بھی برداشت نہیں کر سکتے
ہماری موجودہ نسل تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے
ہم اپنے ماضی کی گندگیوں کو ختم کرنے کی وسیع پیمانے پر جدوجہد کر رہے ہیں
ہم افلاس اور مکر کے ایک ایسے قید خانے کو ملیامیٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں بنی نوع انسان کو صدیوں تک پابند سلاسل رکھا گیا ہے
تمام انسان تیز رفتاری سے اپنے شاندار مستقبل کی تعمیر کر رہے ہیں
سوال کیا جا سکتا ہے کہ آیا عوامی دنیا کے سماج میں منظم بدکاری بھی شامل ہے کیا ہم چاروں آزادیوں کا اطلاق نوجوان لڑکیوں کی تجارت پر بھی کریں گے
کیا ہم لاکھوں نوجوانوں کی اخلاقی بحالی کے لئے کوئی پروگرام تیار کر سکتے ہیں
بدکاری سے متعلق عام بازاری خیال یہ ہے کہ سماجی برائیاں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہی ہیں اور ابد تک رہیں گی
اس خیال کا تھوتھا پن عہد غلامی کی برائیوں کے انجام ہی سے ثابت ہو جاتا ہے
انسانوں کی خرید فروخت ہزاروں سال جاری رہی
اور مذہب پرست، سہل انگار لوگ نسلاً بعد نسلِِ غلاموں کی تجارت کو جائز قرار دیتے رہے اور اس نظام کے ابدی ہونے کا اعلان کرتے رہے
لیکن اس کے باوجود مہذب قوموں نے سو سال کے اندر ہی غلامی کے نظام کو تہس نہس کر دیا
اس کے بعد ہم نے ایسے طاعون ختم کئے جو سخت ہلاکت خیز تھے اور ان کے متعلق بھی بزرگان دین کا فتویٰ تھا
کہ یہ ابدی ہیں اوراب اقوام متحدہ کے ماہرین فن تمام دنیا سے قحط کو باہر نکالنے کے منصوبے بنا رہے ہیں
کروڑوں انسان صدیوں تک غلامی، بیماری اور کال کے ہاتھوں تباہ ہوتے رہے
لیکن کھاتے پیتے اور ہٹے کٹے علماء منہ بسور بسور کر کہتے رہے کہ شر ابدی ہے
میں یہاں ایک بار پھر گورکی کا حوالہ دیتا ہوں اس نے ایک مرتبہ کہا تھا ”کہ آئو تھوڑے عرصے کے لئے ہی دیانتداری برتیں اور حقیقت کو پہچانیں
جن دنوں امریکہ میں جنسی بیماریوں کے خلاف جہاد اپنے عروج پر تھا
فیڈرل سیکورٹی ایجنسی کے ایک عہد یدار فلپ ایس بروٹن نے ایک چھوٹی سی کتاب لکھی
جس کا عنوان تھا ”عصمت فروشی اور جنگ”
اور اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں میں تقسیم کیا گیا تھا
یہ کتاب امور عامہ کی کمیٹی نے شائع کی تھی اور اس کی اشاعت سے پہلے متعلقہ ایجنسیوں نے اور محکموں نے اس کے متن کی بڑی احتیاط سے جانچ پڑتال کی تھی
لہٰذا یہ کتاب مستند تھی مسٹر بروئن ایک امریکی فوجی میں بدکاری کے مثالی طوفان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں
اس قسم کا کاروبار کرنے کے لئے کسی تردد کی ضرورت نہیں یہ کام خود بخود شروع ہو جاتا ہے
اور یوں چلتا ہے جیسے شہد کے پیچھے مکھیاں اور جہاز کے پیچھے گرداب
تاریخ شاہد ہے کہ فوج کو اس سے نباہ کرنا پڑا ہے
ہر بندر گاہ اور صنعتی ترقی اورخوشحالی کا ہر دور اس کی آما جگاہ ہے
اور زنا اور جنسی امراض کا چولی دامن کا ساتھ ہے
آگے چل کر فاضل یہ درد ناک آواز بلند کرتا ہے کہ جنسی بیماریاں ابدی ہیں اور لوگوں کو شر سے بچنے کے طریقے وضاحت سے سمجھاتا ہے
گویا ہزاروں لفظوں میں اپنی تردید آپ کرتا ہے
میں مسٹر بروٹن کا بیان اس لئے درج کیا ہے کہ وہ نیم سرکاری ہے اور حرام کاری سے متعلق عام مسلمہ یاس انگیز اور سطحی نقطئہ نظر کا حامل ہے
اس کا بیان سراسر غلط ہے
سب سے بزی تاریخی فوج میں زنا کا نام تک نہیں تاریخ میں سب سے بڑا صنعتی ارتقا، بدکاری کے عروج کی بجائے اس کے زوال کے بعد رونما ہوا
گذشتہ بیس سالوں میں بیسویں صنعتی شہر اور بڑی بڑی بندر گاہیں غیر معمولی رفتار سے منصئہ شہود میں آئی ہیں
لیکن ان میں بدکرداری نے کبھی ادنیٰ سے مسئلہ کی حیثیت سے بھی سر نہیں اٹھایا
امر واقعی یہ ہے کہ روئے زمین پر ایک ایسا ملک موجود ہے جس کا سماج اٹھارہ کروڑ انسانوں پر مشتمل ہے لیکن وہاں سے عصمت فروشی جنسی بیماریوں کو عملاً ختم کر دیا گیا ہے وہ ملک سوویت یونین ہے
لارڈ اور لیڈی پاس فیلڈ بیڑس اور سڈنی ویب اورقیور نیا لڈس جیسے محقق اور ہزاروں ماہرین طب جنہوں نے امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے سائنس کے رسالوں کو اپنی رپورٹیں بھیجیں اور اسی قسم کے بے شمار غیر جانبدار مبصرین متفق الرائے ہیں
کہ سوویت یونین میں بیس سال کے قلیل عرصہ میں بداخلاقی کے نازک سے نازک مسائل جن میں جنس اور شراب سے متعلقہ مسائل بھی شامل ہیں
ایسی کامیابی سے حل کئے گئے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے اوریہ کامیابی اس حقیقت کے پیش نظر کتنی عظیم ہے کہ آج سے کوئی بیس برس پہلے جب کہ بد اخلاقی کے خلاف روس میں مہم شروع کی گئی اور وہاں کی آبادی مجموعی حیثیت سے جنسی بے رہروی اور شراب نوشی کی لغت میں اس بری طرح گرفتار تھی کہ دنیا کی کوئی قوم اس کا تصور تک نہ کر سکتی تھی
ہٹلر نے مشرقی محاذ جنگ کا آغاز کیا ہی تھا
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بحری فوج کے کمان افسر مسٹر نارمن نے جو ان دنوں ماسکو جانے والے ہیری مین مشن کے ممبر تھے اور روس میں امریکی سفارت خانے سے ہیلتھ آفیسر کی حیثیت سے وابستہ رہ چکے تھے
اخباری نمائندوں کو بیان دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ روس کی سرخ فوج اور فضائیہ جنسی بیماریوں کی لغت سے مبرا ہیں
اور یہ بات دنیا کی کسی فوج کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی
بہت کم اخباروں نے اس بیان کو شائع کیا اور اتحادی قوموں کے ان رہنمائوں نے اس کا استقبال خاموشی سے کیا جو جنسی بیماروں کے خلاف ہمیں چلا رہے تھے
اس واقعے کے کوئی تین سال بعد پروفیسر لیبی دین کوروس کی ریڈ کر اس سوسائٹی کے نمائندے کی حیثیت سے امریکہ پہنچے تو ایسو سی ایٹیڈ پریس، امریکہ کے نمائندوں نے ان سے ملاقات کی
یہ اخباری نمائندے پروفیسر صاحب کے اس جملے پر منہ میں قلم دبا کر رہ گئے
کہ نوجوان روسیوں کی موجودہ نسل کو کبھی عصمت فروشی کے معنی تک جاننے کی ضرورت پیش نہیں آئی
اس بیان کو ایک طرف بے شمار لوگوں نے نہایت دلچسپی سے پڑھا اور دوسری طرف اسے شبہ کی نظر سے دیکھا گیا
لوگوں نے مزید تحقیقات کی ہر چند کوشش کی لیکن اس موضوع کو فوراً ترک کرا دیا گیا
آج سے پانچ سال پہلے سوویت یونین کے چند ماہرین فن کے ساتھ زنا اورشراب نوشی کے موضوع پر تبادلہ خیالات کرنے کا مجھے بھی موقع ملا
خ مجھے ان کی باتوں کی سچائی کا یقین ہو گیا تو میں نے ان سے ایک خاص سوال کر دیا
کہ ٹھیک ٹھیک بتائیے کہ سوویت حکومت نے عصمت فروشی، بدکاری، جنسی بیماریوں، نوجوانوں میں جنسی بے راہ روی اور شراب نوشی کی عادت کی روک تھام کے لئے کیا کچھ کیا
لیکن جواب میں سوائے خاموشی کے کچھ نہ پایا
یہ روسی سب کے سب نوجوان تھے
انہوں نے اپنی زندگی میں سب سے پہلے پیشہ ور عورت کی شکل نیویارک اورٹورنٹو کے بازاروں میں دیکھی تھی
البتہ انہوں نے برملا کہا کہ سوویت یونین کو ان مصیبتوں سے چھٹکار حاصل کئے مدت گذری
کم از کم دس سال کا عرصہ ہو چکا ہو گا
ہم اس وقت ابھی بچے ہی تھے ہمیں اتنا تو یاد پڑتا ہے کہ ہمارے والدین ان اقدامات پربحث کیا کرتے تھے جو بدکاری کے خلاف عمل میں لائے جاتے تھے
لیکن ہمیں ان کی تفصیلات یاد نہیں ہمارے لئے یہ کیا قصہ پارینہ ہے
ان دنوں کینیڈا اور روس کے تعلقات خوشگوار نہ تھے
میں نے بداخلاقی کے خلاف سوویت اجہتاد کی مکمل داستان ڈھونڈ نے کی کوشش کی لیکن مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ انگریزی میں ان سے متعلق کوئی واضح اور مفصل رپورٹ شائع نہیں ہوئی
لامحالہ میں نے ایسے پرائیویٹ ذرائع سے تفصیلات اکٹھی کیں جن کا سوویت حکومت سے دور کا بھی تعلق نہ تھا
یہ مسودات تکنیکی اور مستند تھے اور اس میں عصمت فروشی اور جنسی بیماریوں سے متعلق جو مواد تھا اسے پروفیسر وی ایم برونر نے ترتیب دیا تھا
جو جنسی بیماریوں کے ماہر تھے اور محکمہ صحت کے افسر اعلیٰ کے مشیر بھی تھے
اور انہیں یورپ بھر میں جنسی بیماریوں کے ایک چوٹی کے ماہر سائنس دان مانا جاتا تھا
مذکورہ بالا ر پورٹوں میں جو کہانی موجود ہے
یہ کہانی اسی پر مشتمل ہے یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ سوویت یونین سے اکثر لوگوں کی ہمدردی ایک خاص حد سے آگے نہیں جاتی
ہم جن موضوعات پر قلم اٹھا رہے ہیں ان میں وہی مسائل اور عندئیے شامل ہیں جو سوویت حکومت پر اکثریت کے عدم اعتماد بلکہ نفرت کی بنیاد ہیں
مثلاً یہی چیز جسے پراپیگنڈہ کرنے والے حضرات ”سرخ اخلاقیات” اشتراکی آزادی محبت، اسقاط حمل اور سہل طلاق کے ذریعے خاندان بلشویکانہ تباہی وغیرہ کہتے ہیں
اس کتاب کا موضوع ہے
ہمیں بار بار بتایا جا رہا ہے کہ اہل روس ایک ایسی قوم ہیں جن کی اخلاقی اور روحانی اقدار کو سختی سے تباہ کر دیا گیا ہے
اس حقیقت کے پیش نظر کہ اب روس میں طوائف کا نام ونمود تک نہیں
بعض حضرات فوراً بول اٹھیں گے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے سرکاری قانون کے صدقے سے ہے جس کے رو سے تمام عورتوں کو مشترکہ ملکیت قرار دے دیا گیا
لیکن ان تمام بچگانہ الزام تراشیوں کا جھٹلانے کے لیے موجودہ جنگ میں تمام روسی قوم کا مجموعی کردار اور روس کے بے شمار جوانوں، مردوں اور عورتوں کا متاثر کن بلند اخلاق ہی کافی ہے
جنہوں نے حال ہی میں ہمارے ملک کا دورہ کیا ہے
روس کا مشہور جنگی ترانہ ”میری منتظررہ” ایک ایسے سپاہی شاعر کی تخلیق یقینا نہیں ہو سکتی جس کی بیوی اس کے آبائی شہر کی مشترکہ ملکیت ہو
روس کے طول وعرض میں وسیع پیمانے پرفتح کی خوشیاں منائی گئیں اور ن موقعوں پر بہت سے روسی شہری مدہوش بھی دیکھے گئے لیکن روس کی پولیس کو کسی ایک شرابی پر پستول اٹھاتے نہیں دیکھا گیا
آج بین الاقوامی حالات کی رفتار کا تقاضا ہے کہ ہم روس کو پہلے کی نسبت کہیں زیادہ حقیقت پسندانہ نظروں سے دیکھنے کی کوشش کریں
ایک پیشہ ور پراپیگنڈسٹ کی رسمی تعریف وتذلیل پر کفایت کرنے کے دن گذر گئے پھر بھی ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کے لئے یہ خیال قابل قبول نہ ہو
کہ ہم سوویت یونین سے گراں قدر اخلاقی سبق سیکھتے ہیں
کیونکہ انسانی تعلقات کا یہ ایک ایسا نازک حصہ ہے جو ہمیشہ سے ہدف تنقید بنا رہا ہے
بین الاقوامی تجارت اور دنیاوی امن کی خاطر باہمی اشتراک عمل تو ممکن لیکن روسیوں سے سبق سیکھنے کی بات تو انتہا پسندی کی دلیل ہے
حقیقت یہ ہے کہ روس کے باشندوں نے نہ کبھی ماضی میں وعظ کیا ہے نہ آج کل کرتے ہیں
وہ اتنے مصروف ہیں کہ انہیں ہمارے لئے مشنری بننے کی فرصت ہی نہیں
لہٰذا جو کچھ یہاں بیان کیا گیا ہے وہ وعظ نہیں بلکہ روس کی اخلاقی پالیسی اور منصوبے کی خارجی حقیقی رپورٹ ہے
اگر اس کے باوجود آپ اسے وعظ تصور کریں تو میں ایک بات ضرور یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ وغط سنتے سنتے آپ کو نیند نہیں آئے گی
جاری ہے ۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔