اٹھارھواں حصہ
۔۔۔۔۔
گناہ اور سائنس
Sin And Sciences
۔۔۔۔۔
سوویت یونین کا سرکاری وکیل امریکہ کے وکیل کناڈا کے سرکاری وکیل سے ملتا جلتا ہے
سوویت یونین میں نہ صرف وفاقی جمہوریتوں اور خود مختار علاقوں بلکہ ہر شہر اور ہر ضلع میں ایک مقامی سرکاری وکیل ہوتا ہے
لیکن ہمارے عدلیہ کے برعکس سوویت یونین کا محکمہ وکالت سرکار ایک واحد ادارے کی طرح کا م کرتا ہے اور وہاں پرچھوٹے بڑے سرکاری وکیل کے فرائض تقریباً ایک سے ہیں
غرضیکہ سوویت یونین کے ہر چھوٹے بڑے سرکاری وکیل کافرض منصبی یہ ہے
کہ وہ قانون کی یکساں اور فاقی تشریح کرے اور دیکھے کہ اس تشریح پر ہو بہو عمل ہو
اس کا یہ کام خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ اس کی ذمہ داری ملک کے باشندوں سے تعمیل کرانے تک ہی محدود نہیں ہے
بلکہ وہ تمام سرکاری اداروں اور خود عدلیہ سے بھی تعمیل قانون کراتا ہے
لغوی معنوں میں سوویت یونین کا سرکاری وکیل دراصل محافظ قانون ہے
ہر ایک سوویت سرکاری وکیل اپنے حلقے کے تمام سرکاری افسروں ، حتیٰ کہ خود ججوں سے بھی بالا تر ہوتا ہے اور وہ محض عدلیہ کا مدد گار نہیں ہوتا
یہ تفوق بہت اہم ہے
جب سے قانون کا عمل ہوا ہے اسی وقت سے اس کی اصلاح و ترمیم کے لیے مسلسل تحریک بھی جاری ہے
اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ریاستوں، ان کی پولیس ، ان کے مستغیثوں اور ان کے تمام امدادی اداروں کا رویہ ظالمانہ رہا ہے
جسے ایک عام شہری کے لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے
قانون عوام کاشکار کرتا ہے
قانون لوگوں کا دشمن ہے۔ حقیقی انصاف کے نام سے تمام قانونی اور عدلی اصلاح وترمیم کی تحریک کا مقصد ہمیشہ سے اسی خامی کو دور کرنا ہے
سوویت یونین میں قانونی اور عدلی اصلاح نہ تسلی بخش بلکہ بے حد موثر بھی
سوویت وکیل سرکار کے دو اہم فریضے ہیں
پہلا یہی قانون کی تعمیل، قانون شکنی کا سدباب اور قانون توڑنے والوں کو سزا دینا
دوسرا فریضہ مفاد عامہ کا تحفظ ہے
دوسرے فریضے میں ان لوگوں کی صفائی کی ذمہ داری بھی شامل ہے جو قانون شکنی میں ماخوذ ہوں، اس کے علاوہ اس فریضے میں نفاذ قانون اور عدل کے اداروں کی سخت نگرانی بھی شامل ہے
لہٰذا سوویت یونین کے سرکاری وکیل کے اختیارات بے حد وسیع ہیں اور اسے اپنے اختیارات کو جس غیر جانبداری سے استعمال کرنا پڑتا ہے
کسی دوسرے ملک کے سرکاری وکیل کے لیے ممکن نہیں
ہم بجاطو رپر سوال کر سکتے ہیں کہ ایسی غیر جانبداری حقیقی ہے یا محض نظری؟
سوویت یونین کے ضابطہ فوجداری کو وضع ہی اس مقصد کے لیے کیا گیا ہے کہ سرکاری وکیل صحیح معنوں میں عوام کا محافظ ثابت ہو
مثلاً روس کی سوشلسٹ جمہوریتوں کے وفاقی آئین کے مطابق ابتدائی تفتیش کرنے والے افسر کا فرض ہے
کہ وہ نہ صرف ان حالات کی تحقیق اور تعین کرے جن کی بنا پر کسی شہری کو جرم سے بری الذمہ قرار دیا جا سکتا ہے
بلکہ ان حالات کا بھی جائزہ لے، جن کے سبب اس کے جرم کو سنگین یا معمولی قرار دیا جا سکتا ہے
مقدمے کی ابتدائی تفتیش کرنے والا شخص خود سرکاری وکیل ہوتا ہے
یا اس کا کوئی ماتحت افسر، فرد جرم میں ان تمام شہادتوں کا درج ہونا ضروری ہے جو ملزم کے حق میں ہوں یا خلاف
سوویت یونین کے ضابطہ فوجداری کا اہم اصول یہ ہے کہ سرکاری وکیل اس وقت تک کوئی مقدمہ نہیں جیت سکتا
جب تک تمام شہادتوں سے ارتکاب جرم ثابت نہ ہو
ضابطہ فوجداری کی دفعہ 306کے مطابق اگر متغیث کو یقین ہو جائے کہ مقدمے کی سماعت کے دوران میں جن حقائق کا انکشاف ہوا ہے ۔ ان سے فرد جرم کو کو تقویت نہیں پہنچی تو اسے مقدمہ واپس لینے کا اختیار ہے
مزید بریں سرکاری وکیل کافرض ہے کہ مقدمے کے بعد عدالت کے فیصلے پر نظر ثانی کرے ہمارے ہاں سرکاری وکیل اس بنا پر اپیل کر سکتا ہے
کہ سزا جرم کے مقابلے میں کم ہے
سوویت یونین میں بھی یہی دستور ہے
لیکن وہاں سرکاری وکیل کا یہ بھی فریضہ ہے کہ وہ سزا کو جرم کے مقابلے پر زیادہ سنگین پائے
تو عدالت عالیہ سے اپیل کرے
خصوصاًاس صورت میں جب کہ مقدمے کی سماعت میں ایسی قانونی اور عدلی خامیاں رہ گئی ہوں جو مجرم کے مفاد کے خلاف جاتی ہوں
دوسرے لفظوں میں سوویت وکیل سرکارمدعی بھی ہے اور مدعا علیہ بھی
وہ عدالتوں سے اونچانہ ہوتے ہوئے بھی ایک حد تک تمام عدالتی کاروائی کی نگرانی کرتا ہے
قوانین مذکور کی دوسری دفعہ کے مطابق سرکاری وکیل کو نالش کرنے کا اختیار ہے
اور اسے ریاست یا عوام کے مفادات کے تقاضے کے پیش نظر مقدمے میں مداخلت کا حق حاصل ہے
خواہ مقدمہ کسی بھی مرحلے میں ہو
یہ تمام نظام وکالت ایک مرکز کے ماتحت ہے
گویا یہ نظام ایک ایسا وفاقی مرکز ہے
جسے تمام جمہوریتوں، خود مختار علاقوں اور خطوں کے قانونی اور عدلی نظام پر کلی اختیارات حاصل ہے
اس نظام کا مقصد تعمیل قانون میں ہمہ گیری اور یکسانیت پیدا کرنا ہے
ایک خاص بات یہ ہے کہ اس نظام کو لینن نے سوویت حکومت کے ابتدائی ایام ہی میں قائم کر دیا تھا
لینن نے اپنے ایک خط میں استالین کو لکھا
سرکاری وکیل کا واحد حق اور فرض یہ ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ مقامی اختلافات اور موثرات کے باوجود تمام ری پبلک (سوویت یونین) میں قانون کی صحیح معنوں میں گیر تشریح وتعمیل ہو
ہمارا اپنا تجربہ شاہد ہے کہ ایسے اصولوں کی پیروی سے بے شمار خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں
لیکن سوویت یونین کا نظام عدل ان اصولوں کی سختی سے حمایت کرتا ہے اور وہ بالکل نئے قانونی اصولوں پر مبنی ہے
سوویت عدالتوں کا بڑا کام سنگین ضابطہ قانون کی پیروی نہیں
بلکہ محنت کش طبقے میں نظم وضبط، بالخوص رضا کارانہ نظم وضبط پیدا کرنا ہے
کیونکہ یہ عدالتیں اسی طبقے کے اختیارات حکمرانی کی نمائندہ ہیں
انہیں سوویت نظام کے ہمہ گیر مدرکات کے مطابق منظم کیا گیا ہے اور یہ دوسرے ملکوں کی عدالتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ جمہوری ہیں
کوئی سوویت عدالت نسل، قومیت یا جائیداد کے تفوق کو تسلیم نہیں کرتی
ججوں کا آزادانہ انتخاب ہوتا ہے
وہ نہ صرف عوام کے چنے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ عوام میں سے ہوتے ہیں
یہی کچھ ان کی قانونی تربیت ہے اور اکثر سوویت یونین کے جج ابتدا میں وکالت پیشہ نہ تھے
بلکہ وہ شہروں یا دیہات کے محنت کش مرد یا عورتیں تھیں
عدالتی تقرر کے اس نئے طریقے کا فائدہ ہر خاص و عام پر واضح ہے
کیونکہ سوویت یونین کا نظام عدل بالکل اسی طرح جمہوری ہے
جس طرح ہمارے ہاں کی مجلس بلدیہ یا میونسپل کمیٹی
ہمارے ہاں کے کونسلروں اورسکول بورڈ کے ٹرسٹیوں کی طرح سوویت جج عوام کے لیے ہیں
جب سے جدید ریاست نے جنم لیا ہے اس وقت سے لے کر آج تک سوویت یونین کے علاوہ کسی دوسرے ملک میں اس اصول پر عمل نہیں ہوا
کیوں؟
اس لیے کہ اس اصول سے مراد قانون کی میکانکی اصلاح و ترمیم نہیں
بلکہ اس کا تقاضا ہے کہ تمام قانونی اور عدلی ڈھانچہ لوگوں کے مفاد کے عین مطابق ہو
ورنہ عوامی جج یاتو قانونی تضاد کے سبب کام ہی نہیں کر سکیں گے یا ان قوانین پر عمل پیرا ہونے کی کوشش میں جو عوام کے کسی ادنیٰ گروہ کے خلاف ہوں
جو بنیادی حقوق کو تسلیم ہی نہ کریں
یا جو کسی طرح بھی خصوصی تو جیحات کو روا رکھیں
وہ بہت جلد قانون کی تعمیل کرانے والی مشینری کو توڑ دیتے ہیں
یہ نکتہ ان نام نہاد مصلحین پر انقلاب فرانس کے وقت ہی سے روشن ہو گیا تھا
جو اس کلاسکی عیاری سے کام لینا چاہتے تھے کہ قانون امیر اور غریب دونوں کی روٹی کی چوری سے روکتا ہے
لیکن عوامی ججوں کے لیے مشکل ہے کہ وہ ان لوگوں کے خلاف مقدمے لیں جوا س لیے روٹی چرائیں کہ وہ بھوکے تھے
سوویت یونین میں نہ صرف عوامی جج اور عدالتیں بھی نہایت کامیابی سے کام کر رہی ہیں
بلکہ گزشتہ 25 برس کے عرصے میں اکثر و بیشتر قوانین کی تعمیل انہی نے کرائی ہے
اعلیٰ عدالتیں تو چند ایسے مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے مخصوص ہیں جو ریاست کے تحفظ سے متعلق ہوں
ان کا خاص کام عوامی عدالتوں کی اپیلون کو سننا ہے
سوویت دستور و رایت میں جسے سوویت اکادمی کے علوم کے شعبہ قانون نے شائع کیا ہے
ججوں کی آزادی کی یوں تشریح کی گئی ہے
سوویت جج خود مختار ہیں، کیونکہ سوویت عدالت صرف ایسے قانون کی پابند ہے جو لوگوں کو پسند خاطر ہو اور وہ خاص مقدمات کا فیصلہ کرنے میں ہر قسم کے اثر و رسوخ سے آزاد ہو
تمام جج سزا دینے یا فیصلہ کرنے میں صرف قانون کے تقاضوں یا اپنی داخلی رایوں کے پابند ہیں
جن پر وہ تمام حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد پہنچیں
ان معنوں میں سوویت عدالت، عوامی عدالت (یعنی پنچایت)حقیقتاً آزاد عدالت ہے
سوویت آئین کی دفعہ نمبر 110 کے مطابق تمام عدالتی کاروائی وفاقی جمہوریت، خود مختار جمہوریت یا خود مختار علاقے کے لوگوں کی مادری زبان میں کی جاتی ہے
جو لوگ متعلقہ زبان نہ جانتے ہوں
انہیں ایک ترجمان کے ذریعے مقدمے کے تمام مواد سے پوری طرح آگاہ ہونے اور عدالت میں اپنی مادری زبان استعمال کرنے کا حق حاصل ہے
چند مستشینات کے علاوہ تمام مقدمے کھلی عدالت میں سنے جاتے ہیں
مستشینات میں ایسے مقدمے ہیں جن میں عدالت کے لیے شخص کی ذاتی زندگی کے رازوں کا تفصیلی جائزہ لینا ناگزیر ہو یا جن سے فوجی یا ڈپلومیسی کے اسرار وابستہ ہوں
آخری بات یہ ہے کہ ججوں کو چننے والے لوگ چاہیں انہیں واپس بلا سکتے ہیں
سوویت یونین میں بالغ مجرمین کے مقدمات کی سماعت کے طریقے کی دو امتیازی خصوصیات ایسی ہیں
جن سے ہماری عدالتیں آشنا تک نہیں
پہلی خصوصیت یہ ہے کہ ہر مقدمے کی سماعت تین جج کرتے ہیں
ان میں صرف ایک جج قانون دان ہوتا ہے اور دوسرے دونوں عام شہری ہوتے ہیں
جنہیں کمسن مجرمین کے معاملات کا پورا تجربہ ہوتا ہے
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ باقاعدہ عدالت میں پیش ہونے والے ہر بچے کے لیے ایک وکیل صفائی کا مفت بندوبست کرے
اس حفاظتی اقدام کا مقصد تمام بچوں کا زیادہ سے زیادہ قانونی تحفظ ہے
ہمیں یقین ہے کہ ہمارے ہاں کے تمام تجربہ کا روکیل اور قانون دان حضرات اس طریقے کی پرزو رحمایت کریں گے
کیونکہ اس سے بچوں کی عدالتوں کے خلاف اس بڑے اعتراض کا ازالہ ہو جائے گا
کہ عدالت کی رائے اور غیر جانبداری پر حد سے زیادہ اعتماد کرنے سے خطرناک نا انصافی کا امکان ہے
سوویت عدالتوں میں مقدمے کی سماعت کا طریقہ بالکل سیدھا سادا ہے
ہماری عدالتوں کے معمول کے برعکس وہاں قانونی اصطلاحات اور پرانی مثالوں کے حوالوں سے حتی الوسع گریز کیا جاتا ہے
اور تینوں جج مل کر روز مرہ کی زبان میں حکم تیار کرتے ہیں
ہر شخص کو اپیل کا حق حاصل ہے اور اپیل پر کچھ خرچ نہیں آتا
کیونکہ وکلائے صفائی کی فیس سمیت تمام اخراجات حکومت خود برداشت کرتی ہے
تاہم سوویت یونین میں بچوں کے مقدمات کی سماعت کے طریقے کی مکمل وضاحت کے لیے یہ بتانا ضروری ہے
کہ وہاں ملزم کو مجرم یا معصوم ثابت کرنے پر زور نہیں دیا جاتا
بلکہ ان حالات ومحرکات کا تعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے
جن کے تحت کسی جرم کا اقدام ہوا ہو
لہٰذا ہمارے معمول کے برعکس وہاں بچوں کو مقدمات جرائم میں بہت زیادہ شہادتیں لی جاتی ہیں
مزید بریں عدالت کا فرض ہے کہ جرم کا خاص سبب دریافت کرے
اس طرح جو فیصلے صادر کئے جاتے ہیں وہ ہمارے لیے واقعی حیران کن ہیں
مثال کے طور پر سوویت جج اکثر گواہوں یاجرائم کار بچے کے ایسے پڑوسیوں پر برس پڑتے ہیں
جو شہادت دیں کہ بچے کے والدین بہت بداخلاق یا شراب کے عادی ہیں
یا بچہ کافی مدت سے آوارہ گردی کے لیے مشہور ہے
کیوں کہ ان کی غفلت یہ ہے کہ انہوں نے بچے کے خطرناک مجرم بن جانے پہلے رفیقانہ عدالت کو اطلاع نہ دی
مقصد یہ ہے کہ جرم کی تکرار نہ ہو
بچہ بھی اس جرم کا دوبارہ مرتکب نہ ہو اور یہ حرکت اجتماعی پیمانے پر بھی دہرائی نہ جائے
اس طریقے پر کسی مقام یا علاقے کے بچوں میں جرائم کے جڑ پکڑنے سے پہلے ہی انہیں ختم کر دیا جاتا ہے
عدالت فوجداری میں شاذ و نادر ہی کسی بچے کا مقدمہ پیش ہوتا ہے
اور جب کبھی ایسا اتفاق ہو تو عام اجتماعات اور مجالس میں اس پر بحث چھڑ جاتی ہے
اخبارات میں اس پر تنقید و تبصرہ شروع ہو جاتا ہے
اس طرح متعلقہ علاقے کی برادری کی اخلاقی اورمعاشرتی تعلیم کے ساتھ عدالتی مشینری کی پڑتال بھی ہو جاتی ہے
آج کل سوویت یونین میں جرائم بچگان کا مسئلہ فضول نظریہ بازی سے نکل چکا ہے اور اسے سائنسی طریقے سے حل کیا جا رہا ہے
اقدام اتنے عام فہم اور عملی ہیں کہ جس شخص کو اس مسئلے سے تھوڑا بھی مس ہے وہ ان طریقوں کی قدر و منزلت سے فوراً آگاہ ہو سکتا ہے
ہم اپنے برعظیم امریکہ میں گمراہ بچوں کے لیے کیا کر رہے ہیں؟
امریکہ ایک مدت سے جدید قید خانوں، اصلاحی جیل خانوں اور بچوں کے حوالات والی قوم کی حیثیت سے مشہور ہے
یہ بلند نظریہ زیادہ تر چند مقامی نمائش گاہوں کو مشتہر کرنے کے لیے گھڑا گیا ہے
1944 میں بالٹی مور کی ضلع کچہری کے ایک جج رچرڈ ڈبلیوو کس نے پروبیشن نامی جریدے میں مندرجہ ذیل حقائق تحریری کئے
1. میں نے ایک نہایت غلیظ قید خانہ دیکھا جس میں اسی قیدی ایک ساتھ بند تھے
ان میں 20 بچے تھے، جن کے لیے مردوں سے الگ کوئی انتظام نہ تھا
2. ایک شہر کے قید خانے میں یتیم بچے بھی بند تھے
کیونکہ وہاں لاوارث بچوں کی پرورش کا کوئی بندوبست نہیں
بچوں کی عدالت کا تو خیر ذکر ہی کیا
3. عورتوں کا ایک قید خانہ اتنا غلیظ تھا کہ میرے کپڑے بدبو میں بس گئے
نوجوان لڑکیوں کے لیے الگ کمرے نہ تھے
خاص طور سے دو ایسی طالبات کے لیے کوئی الگ انتظام نہ کیا گیا
جو دو لڑکوں کے ساتھ چوری کی کار میں آوارہ گردی کرتی ہوئی پکڑی گئی تھیں
اس جیل کی تمام لڑکیاں پست اخلاق افراد میں گھری ہوئی تھیں
وہ طوائفوں کے ساتھ کھانا کھاتی تھیں اور انہیں کے ساتھ سوتی تھیں
4. قیدی بچیوں کا خاص کھانا پھلیاں اور دن میں دوبار کالی چائے تھی
انہیں پینے کو دودھ نہ ملتا تھا
ان کے لیے نہانے دھونے کے لیے گرم پانی کا بندوبست نہ تھا
یہ لڑکیاں سیمنٹ کے فرش پر بچھی ہوئی چٹائیوں پر اٹھتی بیٹھتی اور سوتی تھیں
ان کے محافظوں میں کوئی عورت شامل نہ تھی
5۔ بچوں کی میعاد قید ایک سے تین مہینے تک تھی، انہیں کسی قسم کی عدالتی کا روائی کے بغیر جیل بھیج دیا گیا تھا
کیونکہ اس شہر میں بچوں کی عدالتیں نہ تھیں اور تعلقہ دار کوفی قیدی کے حساب سے روزانہ معاوضہ ملتا تھا
قصبوں اور بڑے شہروں کے قید خانوں کی یہی حالت تھی
امریکہ کی سب سے بڑی انسانی دولت اس کے تین کروڑ بچے ہیں
لیکن ان کے لیے کیا کچھ کیا جا رہا ہے؟
ان کے زبوں حالی کے متعلق جو کچھ عوام کو بتایا جاتا ہے وہ اس سے کہیں بری صورت حال میں گرفتار ہیں
1944 میں ہٹن کی ایک خاتون جج اینا ایم کر اس نے کہا
کہ سرکاری عہد یدار بچوں کی جرائم کاری کے اعداد و شمار کو دانستہ کم تر دکھاتے ہیں
امریکہ میں نیویارک سٹیٹ کی عورتوں کے کلبوں کے وفاق کا تجزیہ، کینیڈا میں وہاں کی بار ایسوسی ایشن کے لیے مرتب شدہ میکروئر رپورٹ اور انگلستان میں دوران جنگ کی متعدد تحقیقات میں متفقہ طور پر تسلیم کیا گیا ہے
کہ بچوں میں جرائم اور بداخلاقی اس قدر عام ہے کہ صرف پولیس ہی کو اس کا صحیح علم ہے
لیکن متحرمہ کر اس کا کہنا ہے کہ ہر ریاست کے دفاتر کی الماریاں گرد آلود تحقیقات سے اٹی پڑی ہیں
میامی کی عدالت بچگان کے جج والٹر بکہام کا قول ہے کہ انہوں نے گزشتہ سال کی نسبت 50 فیصد زیادہ مقدمات جرائم کی سماعت کی
انہوں نے بتایا کہ ان مقدمات کے دوران میں بعض ایسی مفلوک الحال پردیسی دوشیزائوں کو دیکھا جو عصمت بیج کر اپنا پیٹ پالنے پر مجبور تھیں
اور عدالت انہیں گھر واپس جانے کے لیے ٹکٹ خرید دینے کی مجاز نہ تھی
امریکہ کے ایک فوجی افسر کرنل ہو مرگیریزن فرماتے ہیں کہ:
ہمارے ملک میں گزشتہ دو سال سے بچوں کے جرائم میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے
انطاریو کے چیف جسٹس ذرا بلا غت سے فرماتے ہیں کہ:
میری پریشانیوں کا موجب صرف بچوں کی بڑھتی ہوئی جرائم کاریاں ہی نہیں بلکہ ان کے مقابلے میں ہمارا عجز بھی ہے
عجز یا پریشانی جسٹس صاحب؟
اب ہم امریکہ کے صاحب اختیار حضرات کی رایوں اور نظریوں کے نمونے پیش کرتے ہیں
سب سے پہلے ایک ہائی سکول کے پرنسپل رالف سی سمتھ کو لیجئے جنہیں روٹری کلب نے اظہار خیال کے لیے مدعو کیا تھا
انہوں نے فرمایا کہ میں نے نوجوانوں میں پندرہ سال گزارے ہیں
اس اثنا میں مجھے ایک لڑکی یا لڑکا ایسا نہیں ملا
جسے پیدائشی بدکردار کہا جا سکے
لیکن میں نے بہت سے بچوں کومصیبت میں مبتلا پایا
ان کے حالات کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے ان کے گھروں، سکولوں کلیسائوں، برادریوں یا ان کو ان کی مصیبتوں کا ذمہ دار پایا ہے
قومی رضا کار اور پولیس اس حقیقت سے ایک مدت سے آشنا ہے
شراب خوری کے مسئلے کے طرح یہاں بھی ہمیں ایک سطحی قسم کا ترقی پسند نظر یہ ملتا ہے
اور وہ یہ ہے کہ
بچوں کی گمرائی کا ذمہ دار سماج ہے
تاہم جو لوگ مسٹر سمتھ کے زاویہ نگاہ کے حامی ہیں
وہ ایک خاص محدود حلقہ اثر سے باہر عملاً کچھ کرنے سے قاصر ہیں
سمتھ صاحب کے بیان میں ایک طویل سوال نامہ شامل ہے
جس کی رو سے روٹیرین حضرات اپنی برادریوں کی بے بسی اور ناکامی کے مفروضے قائم کر سکتے ہیں
لیکن ان کا رد عمل منفی اثرات کا حامل ہو گا کیونکہ یہ سوال نامہ خود سماج کی ایک سطحی اور بہانہ جو قسم کی مذمت ہے
آخر ہم اپنے گھروں، سکولوں، کلیسائوں اوربرادریوں کا کیا کریں؟
بعض لوگ فوراً بچوں کی عدالتوں کی اصلاح کی تجویز پیش کریں گے
اور ڈاکٹر لوگ بچوں کے معیار صحت کی طرف اشارہ کریں گے۔ بعض لوگ کہیں گے کہ نفسیاتی رہنمائی کے ذریعے بچوں کی امداد کی جائے
مسٹر سمتھ پولیس عدالتی نظام، بے روز گاری اور بہت سے دوسرے عوامل کا ذکر کرنا بھول گئے
جنہیں وقتاً فوقتاً بچوں کی جرائم کاری کا مرکز ٹھہرایا گیا ہے
انہی سامعین یعنی روٹری کلب کے اراکین کو ایک مرتبہ امریکہ کے تحقیقات جرائم کے وفاقی ادارے (ایف، بی، آئی) کے افسر اعلی جے ایڈ گرہوور کے خیالات سے مستفیض ہونے کا موقع ملا
ان کے الفاظ سن کر حاضرین کے رونگٹے کھڑے ہو گئے
انہوں نے فرمایا کہ
امریکہ میں جرائم کی موجودہ صورت حال خاموش آتش فشاں کی تہ میں کھولتے ہوئے گندھک کے لاوے سے ملتی ہے
1938 میں امریکہ میں انگلستان کے مقابلے میں گیارہ گنا زیادہ لوگوں نے جرائم کا ارتکاب کیا
1943 میں 13 لاکھ سنگین جرائم کا ارتکاب ہوا
جن میں ہر تریپن منٹ کے بعد ایک قتل کی واردات بھی شامل ہے
ایف، بی، آئی کے رجسٹروں میں چھ کروڑ امریکی جرائم پیشہ لوگوں کے نام درج تھے
جنگ کے بعد سے کمسن لڑکیوں میں جرائم کی شرح 130 فیصد (تقریباً ڈیوڑھی زیادہ) ہو گئی
مسٹر ہوور بچوں کے جرائم کے ذمہ دارا داروں یعنی گھروں، کلیسائوں، سکولوں وغیرہ کی فہرست پر سے جلدی جلدی گزر گئے
اور اس فہرست میں بزنس (تجارت) کا اضافہ کیا
انہوں نے مبہم سا اشارہ کیا جو لوگ جرائم کی طرف مائل ہیں
ان پر تاجر پیشہ لوگوں کی خاص عنایت ہے
انہوں نے جو اعداد و شمار دئیے ہیں
وہ آخری اعشاریہ تک درست ہیں
لیکن ان کے تعمیری منصوبے مسٹر سمتھ کی تجویزوں کی طرح مبہم ہیں
بوسٹن کی عدالت بچگان کے جج جے ایف پرکنس نے جریدہ کرسچن سائنس مانیٹر کے 16 جنوری 1945 کے شمارے میں ایک اور ہی نقطہ نظر پیش کیا
انہوں نے قوم کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے فرمایا
بچے ازل سے جرم کرتے آئے ہیں اور ابد تک کرتے ہی رہیں گے
پولیس کی ناقابل تردید تحریری شہادتوں کے سامنے اس قسم کی دلیلیں اتنی مصلحت آمیز اور لچر ہیںکہ فاضل جج کے باقی ماندہ تبصرے کو ردی کی ٹوکری میں اٹھا پھینکنا
مناسب ہے تاہم اس میں عقل سلیم کی تھوڑی سی جھلک پائی جاتی ہے
فاضل جج نے امریکہ کی جنگی مساعی کی تعریف کی اور غیر منطقی طریقے سے نتیجہ نکالا کہ
جو تحریک اس قدر کار ہائے نمایاں انجام دے سکتی ہے
وہ فی الواقعہ ایک عجیب اور اعلیٰ شے ہے
اس کے بعد فاضل جج ہٹلر کی شاندار فوجی فتوحات کے بارے میں رائے زنی کر کے آدمی کو ورطہء حیرت میں ڈال دیتے ہیں
وہ ان فتوحات کی پیدا کردہ تباہی، بدحالی اور نتیجتہً جرائم کی کثرت کا ذکر نہیں اور سیدھے اپنے مقالے کے مرکزی خیال تک جاپہنچے ہیں کہ ہم سماج کو بناتے ہیں یا سماج ہمیں
اگرچہ اس سوال کے دونوں حصے درست ہیں
کیونکہ یہ دونوں لازم و ملزم ہیں
لیکن فاضل جج کا خیال ہے کہ سماج کو ہم ہی بناتے ہیں
جدید عمرانی نظریے کو توڑ مروڑ کر وہ ایک نئی ترکیب فلسفہ معافی ایجاد کرتے ہیں اور فرماتے ہیں
کہ ہم بدراہ بچوں کو حد سے زیادہ نرمی کے ساتھ معاف کرتے آئے ہیں
اور انہیں بتاتے آئے ہیں کہ وہ بذات خود جرائم کے ذمہ دار نہیں
بلکہ کلیسا، گھر اور سکول برابر کے ملزم ہیں
یہ ہے ان کا نیا دعویٰ
ظاہر ہے کہ وہ اپنی اصل نیت پر پردہ ڈالتے ہیں
ان کا زاویہ نگاہ ہمیں براہ راست قرون وسطیٰ کے انفرادی ذمہ داری کے اصول کی طرف لے جاتا ہے اور یہ ایک نظریہ ہے جسے ہر ایماندار سائنسدان غلط ٹھہرا چکا ہے
اگرچہ فاضل جج پر کنس اپنے نقطہ نظر کو موثر بنانے میں قاصر رہے ہیں
تاہم ان کی بات تو توجہ طلب ہے، گمراہ بچے کو صرف یہ بتا دینے سے کہ اس کی بدحالی کا ذمہ دار سماج ہے
کچھ حاصل نہیں ہوتا
الٹا بدراہ بچے کے دماغ میں تباہ کن، احساس کہتری پیدا ہو جاتا ہے
فاضل جج کا مقولہ درست سہی
لیکن حیرانی کی بات ہے کہ وہ ایک کھلی حقیقت سے بالکل بے خبر معلوم ہوتے ہیں
جس سے ہزاروں رضا کار نجوبی آگاہ ہیں اور وہ حقیقت یہ ہے کہ جرائم کی ذمہ داری سماج پر تو ہے
لیکن سماج کو بدلنے کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا ہے
جنگ کے دوران میں صحت اور تعلیم کے مسئلے پر غور کر نے کے لیے پسیپر کی ذیلی کمیٹی مقرر ہوئی تھی
اس کمیٹی نے 1944 میں امریکی پارلیمان کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کی
اس رپورٹ میں نہایت سنجیدگی سے بچوں کے جرائم کا تجزیہ کیا گیا
اپنے تجزیے کے دوران میں اس کمیٹی نے ان لوگوں کی شہادتیں قلمبند کیں
جو بچوں کی تربیت، تحفظ، تعلیم، تفریح، مذہب، قانون، محنت صنعت اور دوسرے اداروں کے ذمہ درا ارکان تھے
اس کمیٹی کی معلومات کا خلاصہ یہ ہے
1۔ سنسنی خیز خبروں سے قطع نظر صورت واقعی بہت نازک ہے
2۔ بچوں کے جرائم میں جنگ سے کچھ عرصہ پہلے ہی اضافہ شروع ہو گیا تھا اورجنگ کے دوران میں چند علاقوں کے سوا کہیں بھی کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا
3۔ شماریات قابل اعتماد نہیں۔ کیونکہ اعداد وشمار جمع کرنے طریقے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں
4۔ جرائم کے مختلف محرکات میں سے کسی ایک کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا
5۔ جو مائیں جنگی اسامیوں پر متمکن ہیں وہ جرائم میں اضافے کا باعث نہیں بنیں۔ محنت کش مائوں کی مذمت کرنے والے بیانات غیر ذمہ دارانہ ہیں
پیپر کی ذیلی کمیٹی کو شیلڈون اور ایلیز گلیوک کی اہم تصنیف ایک ہزار جرائم کار بچے میں جرائم کے قابل اعتماد حقائق دستیاب ہوئے
اور وہ حسب ذیل ہیں
1۔ بچے عام طو ر سے نو سال سات ماہ کی اوسط عمر میں جرم کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں
2۔ جرائم کار بچوں کی تقریباً نصف تعداد صحیح الذہن ہوتی ہے۔ تیرہ فیصد کند ذہن اورسترہ فیصد تقریباً نا کارہ ہوتے ہیں
3۔ 85 فیصد بچوں کا چلن سکولوں ہی میں قابل مواخذہ تھا
4۔ اتنے ہی بچے یعنی 85فیصد بچے شہر کے گنجان آباد اور غلیظ علاقوں میں رہتے ہیں
5۔ اتنے ہی یعنی 85فیصد بچوں کے خاندانوں کے بزرگ اراکین جرائم پیشہ تھے
6۔ 76 فیصد جرائم کار بچوں کا تعلق افلاس زدہ گھرانوں سے ہے
یہ سائنسی حقائق تشریح طلب نہیں
بچوں کی جرائم کاری واحد سبب سماجی خرابیاں ہیں
یہ خرابیاں پر اسرار، فلسفیانہ یا انفرادی نہیں
بلکہ عام فہم اجتماعی خرابیاں ہیں۔ مثلاً قلیل آمدنی، گنجان وغلیظ ماحول کے اثرات، غیر سائنسی طریقہ تعلیم، بچے کی جسمانی اور دماغی بہبود سے مجرمانہ غفلت وغیرہ
پیپر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا
تمام گواہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بچوں کی جوائم کاری کی روک تھام بہترین ذریعہ یہ ہے کہ ہم حفظ ماتقدم کے اصولوں پر کار بند ہوں
جو چیز بچے کے لیے مفید ہے وہی عام طو ر سے انسداد جرائم کے لیے بھی مفید ہے
کوئی بچہ محبت اور شفقت سے محروم نہیں ہونا چاہیئے
اس کے لیے ایک ایسا گھر ہونا چاہیے جہاں اس کی عمدہ دیکھ بھال اور خوراک ولباس کا مناسب بندوبست ہو
اور جہاں اس میں ایسے خیالات و عادات اور اخلاق کی نشوونما ہو
جو ایک اچھے شہری بننے کے لیے ضروری ہیں
محلوں میں طبی امداد و نگہداشت کا خاطر خواہ انتظام ہونا چاہیئے
جس کا خرچ کسی خاندان کے مقدور سے باہر نہیں ہونا چاہیئے
محلے کے پاس ہی ایسے سکول ہونے چاہئیں، جن میں نئی دنیا کے تقاضوں کے مطابق ان کی تعلیم و تربیت ہو سکے
مذہبی اور برادری کے اداروں اور نوجوانوں کی تنظیموں تک ہر بچے کی رسائی ہونی چاہیئے
جہاں وہ دوسرے بچوں کے ساتھ عبادت یا کھیل کود اور تفریحی سرگرمیوں میں حصہ لے سکے
اگر کوئی بچہ یا اس کا گھرانا ایسی مشکلات میں پھنس جائے
جسے وہ اکیلا دور کرنے سے معذور ہو تو اس کی مدد کے لیے تجربہ کار ماہرین موجود ہوں
اسے ہم مختصراً امریکی بچوں کے بینادی حقوق کا چارٹر کہہ سکتے ہیں
آج تک ہماری نظر سے بچے کی سماجی حیثیت کے متعلق اس سے بہتر بیاں نہیں گزرا
جرائم اطفال کے مسئلے کے متعلق اکثر جائزوں میں جو لفظی گورکھ دھندا پایا جاتا ہے
مذکورہ رپورٹ اس سے مبرا ہے
کیونکہ یہ رپورٹ ہمیں سیدھے سادے چند الفاظ میں اس اہم بنیادی حقیقت سے آگاہ کرتی ہے کہ
بچے بھی انسان ہیں وہ اس ماحول کی پیداوار ہیں جس میں وہ رہتے ہیں اور وہ ماحول خود سماج ہے
چونکہ کمیٹی کے ارکان سے جن لوگوں سے ملاقات سے ملاقات کی تھی ان میں سے ہر ایک نے پر زور درخواست کی تھی
کہ بچوں کے جرائم کے مسئلے میں ان کی رہنمائی اور امداد کی جائے
اس لیے اس کمیٹی نے تجویز پیش کی کہ ایک کمیشن مقرر کیا جائے اور بچوں کی ضروریات کے لیے قومی پیمانے پر نشر و اشاعت اور تعلیم کا پروگرام بنایا جائے
تمام نجی، ریاستی، وفاقی اورمقامی اداروں میں اشتراک عمل پیدا کرنے کے لیے ایک مرکز قائم کیا جائے
دوسری جمہوریتوں میں بھی یہی صورت حال پائی جاتی ہے
بچوں کے جرائم کے متعلق جو بین الاقوامی کانفرنسیں ہوتی ہیں
ان میں کینیڈا کو بہت سراہا جاتا ہے
کیونکہ وہاں جرائم اطفال کے متعلق ایک قومی قانون، نافذ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف 45 فیصد کینیڈوی بچے اس قانون سے متاثر ہوتے ہیں
مستعمرہ کینیڈا میں نظر بندی کی سہولتوں میں حیرتناک ناہمواری پائی جاتی ہے
اور ملک کے مختلف حصوں میں ایک جرم کی سزائیں تبسم آمیز سرزنش سے لے کر کسی اصلاح گاہ میں تین سال کی نظر بندی تک کافرق ہو سکتا ہے
تمام جمہوریت پسند اقوام زنانہ پولیس، مشیروں اور حوالات کے عدم موجودگی کے ساتھ عقل سلیم کا بھی فقدان ہے
بچوں کی جرائم کاری کی تحقیق و تفتیش کرا لی جاتی ہے اور بس
رضا کاروں کی تربیت اور ماہرین سے صلاح و مشورہ کا کام ایک پشت سے جاری ہے
اس کے باوجود بچوں کے جرائم میں کمی ہوتی نظر نہیں آتی
ہمارے خطا کار بچوں کی اکثریت عدالت میں پیش ہوتے وقت صدر منصف کی رحم دلی یا مزاح پسندی کے علاوہ ہر قسم کی قانونی امداد اور تحفظ سے محروم ہے
مقدمے کی سماعت اور سزا یابی کے بعد بچوں کے ساتھ جو کچھ گذرتی ہے وہ صرف قیاس کا معاملہ ہے
عوام کو تو سرے سے علم ہی نہیں کہ سزا بھگتنے والے بچوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے
اصل مجرموں یعنی بچوں کو جرائم پر اکسانے والے لوگوں کو شاید ہی کبھی سزا ہوئی ہو
بچوں کو جو سزا دی جاتی ہے یا اس کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے
اس کا کوئی تسلی بخش جواز پیش نہیں کیا جاتا
جو بچے جنسی بے رہروی میں ماخوذ ہیں ان میں سے کسی کو جنسی حقائق کی تعلیم نہیں دی جاتی
اس کتاب میں جتنے مسائل زیر بحث لائے گئے ہیں ان کے حل کے لیے جنسی بیماری اور جنسی تعلقات کی صحیح تعلیم پر بہت زور دیا گیا ہے
لیکن ہمارے ہاں اس کی اہمیت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے
کمبوڈیا یونیورسٹی کے سابق پروفیسر حیاتیات ڈاکٹر موریس اے بائجلو
نے اس موضوع پر ایک بصیرت افروز مقالہ لکھا ہے
جو رسالہ سوشل ہائجین کے فروری 1944 کے ایشوع میں شائع ہوا
اور امریکی محکمہ عامہ نے پوری طرح اس کی نشر و اشاعت کی
اس مقالے میں بڑی حد تک نظریوں کے گورکھ دھندوں میں پڑنے کی بجائے
براہ راست حقائق کا انکشاف کیا گیا ہے
اسے محکمہ صحت عامہ اور انجمن حفظان صحت کی مشترکہ امداد سے تیار کیا گیا تھا
اس کی اشاعت سے پہلے بڑی بڑی کانفرنسوں اور سرکاری عمال نے اس مسئلے پر بہت غور و خوض تھا
خود ڈاکٹر بائیجلو نے صحیح حقائق جمع کرنے کے لیے بارہ ہزار میل کا سفر طے کیا تھا
اس مقالے میں ڈاکٹر بائیجلو فرماتے ہیں
مجھے اس مسئلے کی تحقیقات کے دوران میں اپنی ذاتی ملاقاتوں یا خط و کتابت میں ایک بھی ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر، ماہر تعلیم یا وزیر ایسا نہیں ملا
جس نے اس خیال کی حمایت نہ کی ہو کہ سکول اور گھر میں جنسی مسائل کی صحیح تعلیم بچوں کی شخصیت اور سماج کی تعمیر کے لیے بے حد مفید ثابت ہوتی ہے
ایسی تعلیم حاصل کرنے والے بچے آئندہ زندگی میں اپنے کردار کو قابو رکھنا سیکھ جاتے ہیں
البتہ اس مسئلے پر اختلاف تھا کہ عمومی جنسی تعلیم، جنسی بیماریوں کی روک تھام کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے
لیکن اس بات پر سب متفق تھے کہ جہاں تک بچے کے انفرادی تحفظ کا تعلق ہے
اس میں یہ احساس پیدا کر دینا کہ جنسی بیماریوں چھوت کی بیماریاں ہیں بہت بڑا تعلیمی حربہ ہے
انہوں نے ڈاکٹر پیرن کی رپورٹ کا حوالہ دیا اور کہا ہمارے لیے از حد ضروری ہے
کہ ہم ان تمام ذرائع سے جو کلیسا، سکول، سرکاری اداروں یا رضا کارانہ تنظیموں کی استطاعت میں ہیں
اپنے نوجوانوں کو شریفانہ زندگی کی زیادہ سے زیادہ تعلیم دیں
میں اس بات کا قائل نہیں ہوںکہ جنسی اخلاق کا استحکام و تنزل جنسی بیماری کے متعلق اچھے یا برے نظریے پر منحصر ہے
آتشک کی روک تھام کے لیے خوف کافی نہیں، ہمیں اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو بہترین جنسی تعلیم دینی چاہیے
ہمیں ایسے سماجی اور معاشی حالات بھی پیدا کرنے چاہئیں ، جن کے تحت ہمارا نوجوان طبقہ صحت مندنہ اور معتدل زندگی بسرکر سکے
مزید بریں پڑھنے والوں کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے
کہ امریکہ کے بہت سے مقامی ادارے اور باختیار لوگ تعلیم صحت کے بعض امور خاص سے جنسی یا مذہبی امور کی تعلیم کے سخت مخالف ہیں
اگر کسی مقام پرجنسی بیماری کی تعلیم کے خلاف تحریک پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے فائدہ کچھ نہیں ہو گا
البتہ سخت نقصان کا احتمال ضرور ہے
چند سال پیشتر ایک استاد مسئلہ ارتقاء پر بحث چھیڑ بیٹھے تھے
ان کے خلاف بالش کر دی گئی جس سے نہایت نا خوشگوار صورت حال پیدا ہو گئی
اس واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر بائیجلو فرماتے ہیں
عین ممکن ہے کہ چند والدین اور استاد جنسی بیماری کی تعلیم کی مخالفت کریں
اس لیے فی الحال ہر ریاست میں ٹینی زی کی طرح جنسی مسائل کی ابتدائی تعلیم پراکتفا کرنا مناسب ہو گا
اس بات پر بار بار زور دیا جاتا ہے کہ جنسی بیماری کی تعلیم کو نام نہاد جنسی تعلیم اور عام تعلیم صحت سے الگ رکھنے کی ضرورت ہے
حیرانی کی بات ہے، جب ایسا پروگرام ٹینی زی میں استعمال ہو سکتا ہے تو اسے قومی پیمانے پر کیوں نہیں شروع کیا جا سکتا
ڈاکٹر بائیجلو نے اپنی رپورٹ میں فرمایا کہ
سماجی حفظان صحت کے اکثر رہنمائوں میں عرصے سے یہ خیال پایا جاتا ہے
کہ جنسی بیماری کے انسدادی منصوبوں میں جنسی تعلیم کے تمام امور کو برابر کی اہمیت دینا چاہیئے
لیکن گزشتہ دس سال میں یہ خیال بدل گیا ہے اور جنسی تعلیم کی ضرورت کے حق میں جو دلائل پیش کئے جاتے ہیں ان میں سے اکثر کی بنیاد جسمانی، دماغی اور سماجی صحت کے ان اصولوں پر ہے، جن سے جنسی بیماری کا کوئی تعلق نہیں
اگر اس خیال کو قبول عام حاصل ہو گیا کہ جنسی تعلیم کا صحیح پروگرام نہ جنسی بیماری سے شروع ہوتا ہے
نہ اس کے گرد گھومتا ہے تو یہ جنسی بیماری کو تعلیم کو انسانی رشتوں کی تعلیم کا حصہ قرار دے کر ان کی تعلیم دینے میں بہت کار ثابت ہوگا
دوسرے لفظوں میں یہ امر ضروری ہے
کہ جنسی بیماری کی تعلیم عام امور صحت کے ساتھ دی جائے
اگر آتشک اور سوزاک کو تپ دق اور گلے کے امراض کے ساتھ زیر بحث لایا جائے
تو اس کی وہ لوگ بھی مخالفت نہیں کریں گے جو بچوں اور بالغوں کو جنسی تعلیم دینے کے حامی نہیں
ہمارا خیال ہے کہ حفظان صحت کے باعمل ماہرین بھی اس نقطہ نظر کی حمایت کرنے لگے ہیں
تعلیمی مقاصد کے پیش نظر جنسی بیماری کو عام جنسی مسائل سے الگ رہنے پر اصرار کرنا عصبیت پسند لوگوں کے آگے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہر گز نہیں
دراصل جنسی بیماری کو اخلاق عصمت فروشی، جرائم اطفال وغیرہ سے الگ نہ رکھنا ہی بہتر ہے
یہ معاملہ سبھی طبقوں کے لیے ایک سی اہمیت رکھتا ہے
جنسی بیماریوں کا ذکر مذکورہ طریقے سے کیا جائے اور محض جنسی موضوعات کا ذکر نہ کیا جائے تو ان بیماریوں کی تعلیمی مہم پر کوئی طبقہ یا گروہ برا نہیں مانے گا
۔۔۔۔۔
جاری ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“