سترہواں حصہ
۔۔۔۔۔
گناہ اور سائنس
Sin And Sciences
۔۔۔۔۔
امریکہ میں شراب کی کھپت دن رات تیزی سے بڑھ رہی ہے
محکمہ تجارت نے 1944 کے بارے میں اعداد وشمار شائع کئے ہیں
ان کے مطابق متوسط درجے کے شخص نے اس سال کے دوران میں چون دالر شراب پر خرچ کئے
منشیات سے قومی آمدنی کے بل کی قدر سات ارب ڈالر تھی جو تمام قومی آمدنی کا پانچ فیصد ہے
لیکن محکمہ والوں نے متنبہ کیا کہ قومی آمدنی میں اضافے سے براہ راست شراب کی کھپت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا
وجہ یہ ہے کہ 1943 میں شراب پر ٹیکس برھا دیئے گئے تھے
اور اس طرح جو شراب بکی، اس کی مالی قدر تینتالیس فی صد زیادہ تھی
اور اس فاضل آمدنی کا نصف ٹیکسوں کے ذریعے وصول ہوا
غرضیکہ امریکہ میں ایک سال کے عرصے میں شراب کی کھپت تقریباً بیس فی صد بڑھ گئی
جنگ کے سالوں کے متعلق سویت یونین کے اعداد وشمار بھی تک دستیاب نہیں ہوئے ہیں
ظاہر ہے کہ وہ بہت زیادہ کم ہوں گے، کیونکہ وہاں فوجی اقدامات کے سبب بہت سی کشید گاہیں تباہ ہوگئی تھیں
لیکن شراب کی پیداواراور کھپت میں کمی کایہ ایک اتفاقی سبب ہے
اسے ملک یا قوم کا وصف قرار نہیں دیا جا سکتا
لہٰذا مقابلے کے لیے جنگ سے پہلے کے سالوں کے اعداد وشمار موجود ہیں
1936 تک تمام سوویت یونین میں شراب کی کھپت گھٹ کرفی کس تقریباً 4/5 گیلن سالانہ رہ گئی تھی
اس کا مقابلہ امتناعی مہم کی ناکامی کے دوسرے سال سے کیجئے
جبکہ فی کس 12/5 گیلن کی اوسط تھی
گویا اوسط کمی تقریباً پچاس فی صد یا فی کس 3/5 گیلن سالانہ کے قریب ہے
شاید آپ اس سے متاثر نہ ہوئے ہوں
سوویت یونین کی آبادی پر غور کیجئے، آج سے دس برس پہلے وہاں کروڑ نفوس آباد تھے
لہٰذا سوویت یونین کی امتناعی سرگرمیاں اس قدر کامیاب رہیں کہ مہم کے ابتدا میں دس سال تمام قوم میں شراب کی کھپت دس کروڑ گیلن سالانہ کے حساب سے اور کم ہو گئی
یہ ایک بے مثال واقعہ ہے
لیکن سوویت یونین کی امتناعی مہم کی کامیابی کو عصمت فروشی اورجنسی بیماری کی انسدادی مہم کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جا سکتا
وجہ ظاہر ہے کہ شراب نوشی کا مسئلہ نزاکت کے اعتبار سے جنسی بیماری اور عصمت فروشی سے کم اہم ہے
دراصل سوویت یونین کے طبی ماہرین میں آج کل شراب کے متعلق اختلاف رائے پایا جاتا ہے
سرخ فوجوں کے بعض ڈاکٹر میدان جنگ میں کام کرنے والی نرسوں کو جوریڈ کر اس سوسائتی کی رکن ہیں
دوائوں میں ودوکا سپلائی کرتے ہیں اور خاص حالات میں ڈاکٹر پی اے پینی کوف جیسی ہستیاں شراب کی قدر و قیمت کو تسلیم کرتی ہیں
ڈاکٹر موصوف کے اس مشہور نسخے میں دواونس ودوکا بھی شامل ہے جو معدے کے زخموں کے لیے ہے
آج کل روس میں شراب نوشی کے متعلق کوئی مہم نہیں چل رہی اور خود ہمارے ہاں کے ماہرین محسوس کرتے ہیں
کہ حقیقی مسئلہ الکحل بازی کو ختم کرنا ہے نہ کہ شراب نوشی کی ہر صورت کو
کیونکہ بین الاامی تقاریب میں رسمی طور پر پینا اور بعض دوائوں میں شراب کا ملانا گزیر ہے
الکحل بازی یا محض نشے کی خاطر عام شراب نوشی سوویت یونین میں نا پید ہو چکی ہے۔ ان کا امتناعی جہاد کامیاب ہے
اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہاں کے لوگ اب بہت پیتے ہیں یعنی ایک سال میں دس کروڑ گیلن کم
بچوں کے تحفظ کی عدالتیں
تو قتل نہیں کرے گا تو چوری نہیں کرے گا
یہ حکم ان احکام خداوندی میں سے ایک ہے جو قدیم زمانے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئے تھے
جرائم کے انسداد کی جدوجہد ان سے بھی پرانی ہے
صدیوں تک اس جدوجہد کا نتیجہ سوائے ناکامی کے کچھ نہ نکلا
جدید زمانے میں سائنس نے ترقی کی اور تمام اسرار قدرت کی باقاعدہ تحقیق کا آغاز ہوا
تو اس کے ساتھ ہی جراثیم کی تحقیقات بھی شروع ہوئی
1936 میں بلجیم کے ایک محقق، اے کوئیے لٹ نے شماریات جرائم پر تاریخ میں سب سے پہلا تحقیقی مقالہ لکھا
اس کا نام انسان اور اس کی صلاحیتوں کا ارتقا تھا
یہ برسلز سے نکلنے والے ایک جریدہ صحت عسے ڈی فزیک سوشیل میں شائع ہوا
اس مقالے میں انہوں نے لکھا
سماج کے شکم میں ہر جرم کا ہیولی پہلے سے موجود ہوتا ہے
جس کا ظہور بعد میں ہو کر رہتا ہے
خود سماج ایسے حالات پیدا کرتا ہے، جن میں جرائم پروان چڑھتے ہیں
بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ جرائم کے لیے سماج ہی زمین تیار کرتا ہے
مجرم تو محض ایک آلہ ہے یہی وجہ ہے، کہ ہر معاشرے کی تنظیم اور جرائم پیشہ لوگوں کو وجود دونوں لازم و ملزوم رہے ہیں
اس محقق نے اپنے بیان کو انقلابی کہا اور اعلان کیا
ہوسکتا ہے کہ میرا بیان بادی النظر میں یاس انگیز معلوم ہو
لیکن گہری نظر سے دیکھا جائے تو اس میں امید کی جھلک موجود ہے
کیونکہ ا س میں اشارةً کہہ دیا گیا ہے کہ سماج کے اداروں افراد کی عادتوں، تعلیم اور طرز زندگی پراثر انداز ہونے والی ہر شئے کی تبدیلی سے انسانی فطرت کی اصلاح ہو سکتی ہے
لیکن یہ محقق اور اس کے پیرو ماہرین علم جرائم ایسی قابل عمل تجاویز پیش کرنے میں بری طرح ناکام رہے
جن سے انسان کی فطرت کی اصلاح کی جا سکتی ہے
فرانسس دلاور کی مسئلہ شراب کے متعلق تاریخی تحقیق کی طرح کوئیے لٹ کے اس فیصلے کو بھی سن کر بھلا دیا گیا
جس میں سماج کو جرائم کاجنم داتا کہا گیا ہے
آج تک علم جرائم اور قانون کے ماہریں کی زیادہ تر توجہ بدکاری کے اسباب کی تلاش کی بجائے سزا کی جستجو پر مرکوز رہی ہے
سائنس تقریباً سوسال سے ثابت کر چکی ہے کہ جرائم کی ذمہ داری فرد کی بجائے سماج پر عائد ہوئی رہی ہے
لیکن اس اثنا میں ہمارے قانون کا رخ الٹی طرف رہا ہے
اور فرد کو مجرم قرار دیا جاتا ہے
قانون دان حضرات کا ایمان چلا آتا ہے کہ صرف سزا ہی وہ جادو کا ڈنڈا ہے جس سے مجرم کو دوبارہ قانون شکنی نہ کرنے کا سبق سکھایا جا سکتا ہے
لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ سزا بالکل بیکار چیز ہے
خود ہمارے قانون سازوں نے اس کا عملاً اعتراف کرتے ہوئے اکثر جرائم کی سزائوں کو کافی نرم کر دیا ہے
آج کل ہم اس دور سے بہت آگے نکل آئے ہیں
جب کسی مرد یا عورت کو خرگوش چوری کرنے کی پاداش میں پھانسی کے تختے پرلٹکا دیا جاتا تھا
یا غیر اخلاقی افعال پر کوڑے مار مار کر ہلاک کر دیا جاتا تھا
اس کے باوجود ہم اس نظرئیے پر جمے ہوئے ہیں کہ محرکات جرائم بے شک سماجی ہیں
لیکن مجرم کو قرار واقعی سزا دینے سے جرائم کو ختم نہیں تو کم تر ضرور کیا جا سکتا ہے
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اکثر جرائم کی رفتار دن بدن تیز ہو رہی ہے اور بعض نئی قسم کے جرائم جنم لے رہی ہیں
نازیوں نے اس نقطئہ نظر کو انتہا پر پہنچا دیا تھا
جرمنی کی وزارت عدل وانصاف کے رکن مسٹر فویضلر نے ہٹلری علم جرائم کا نصب العین ان الفاظ میں بیان کیا تھا
سزا اس قدر سنگین ہونی چاہیئے کہ کوئی آدمی دوبارہ جیل کا مزا چکھنے کی جرأت نہ کرے
یہ تو اس دور کی طرف مراجعت ہوئی جس میں آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت کا وحشیانہ اصول کار فرما تھا
آج کل مہذب لوگ اس سے سخت نفرت کرتے ہیں
لیکن آپ کسی پولیس کورٹ میں چند دن جائیے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا
کہ ہمارے قانون اب تک سزا اور انتقام کے اصول پر مبنی ہیں
ہم نے حضرت یسوع مسیح کی اس ہدایت کو بالکل بھلا دیا ہے
امتحان نہ لو کہ تمہارا بھی امتحان نہ ہو
ہمارے ہاں علم جرائم کے بہت سے سائنٹیفک مکاتب خیال ہیں اور وہ کافی حد تک انسان دوست ہیں
لیکن جہاں تک عمل کا تعلق ہے
علمائے جرائم بالکل کورے ہیں
گذشتہ پچاس برس میں مجرمین کے ذہنی امراض کے علاج کے متعلق کئی مقالے ہمارے سامنے آئے ہیں
بعض حضرات نے قانون شکنی کے سماجی اسباب کو محض زبانی تسلیم کیا ہے
ان کا مجوزہ طریق کار سراسر انفرادیت پسندانہ ہے اور وہ تحلیل نفسی یا عندو کرین غدود (بے نلکی کے بعض غدود اپنے سیال کو براہ راست خون میں داخل کرتے ہیں) پر طبی عمل یا جدید ترین اصلاحی قید خانوں کو واحد حل تصور کرتے ہیں
علم جرائم کے طبی ماہرین جرائم پیشہ لوگوں کی صحت کی بحالی پر تو زور دیتے ہیں
لیکن ان کے مرض کے سبب کو نظر انداز کر جاتے ہیں
یہ طریقہ ویسا ہی غیر سائنسی ہے
جیسے کسی طوائف کو آتشک سے شفاپانے کے بعد دوبارہ بازار میں بٹھا دیا جائے
راز شاہی حکومت نے جرائم کے انسداد کے لیے ویسا ہی طریق کار اختیار کیا
جیسا کہ بدمعاشی اور شراب نوشی کے خلاف جدوجہد میں بیان کیا گیا ہے
روسی عدالتیں عام طور سے جرائم پیشہ لوگوں کے لیے سائبیریا کی مشقت گاہیں اور قرون وسطیٰ اسی تنگ و صتاریک کو تھڑیوں میں قید تنہاہی درہ زنی اور ایسی ہی دوسری ایذائیں تجویز کرتی تھیں
حالانکہ روس کا ہر جج، وکیل، جیل کا نگران اور پولیس کا سپاہی اس نظریئے کو غلط ثابت کر تا تھا
سزائوں کے ذریعے جرائم کا انسداد ہو سکتا ہے
شاہی حکمران جواباً اور بھی سنگین سزائیں دیتے تھے
انقلاب سے بیس سال پہلے خطا کار بچوں پر خاص طور سے ظلم ہوتا تھا
اس عرصے میں دس سے سترہ سال کی عمر کے گمراہ بچوں کی تعداد پہلے سے دگنی ہو گئی
اور زار شاہی روس میں ہر طرف آوارہ مزاج، چور، شرابی، بیمار، اور بدمعاش بچوںکی فوجیں گھومتی نظر آنے لگیں
مسلح ڈاکوئوں اور قتل کے واردات میں دہشت ناک اضافہ ہو گیا
انقلاب کے بعد عام ہنگامی صورت حال کی وجہ سے 1922 تک جرائم کے خلاف کوئی باقاعدہ اور منظم مہم نہ چلائی جا سکی
لیکن اسی سال یعنی 1922 میں سوویت حکومت نے پہلا ضابطہ فوجداری شائع کیا
ان قوانین کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ جرائم اور سماج کے سائنسی ادراک پر مبنی تھے
سوویت یونین کے سرکاری وکیل (پروکیوریٹر) اے دشنکی نے نئے قانونی نظر کی یوں تشریح کی ہے
عام افلاس بے روزگاروں کی لا تعداد فوج
حقوق یا فتہ طبقوں کی بدعنوانیاں چھوٹے سوداگروں کا زیادہ سے زیادہ نفع کی امید پر سامان خرید نے کے لیے جنونی مقابلہ تجارتی دستاویزات
(یعنی اسٹاک) کواندھا دھند فروخت کرانے والے دلال
ناجائز اثر ورسوخ کے بل پر چلنے والے لاکھوں مجرمانہ کاروبار
غبن اور جعلسازیاں یہ ہیں
جرائم کی پیداوار کی زرخیز زمین جن کی ذمہ داری سماجی تعلقات کے اس نظام پر عائد ہوتی ہے
جس میں ذاتی ملکیت کا عمل ہے اور جس کی خاطر ہزاروں بدکاریاں اور ناجائز حرکات بلا خوف سزا سر انجام پاتی ہیں
سوویت یونین کا ضابطہ فوجداری اس لحاظ سے ان تمام ضابطوں سے نرالا تھا
کہ رومن قانون سازوں کے وقت سے لے کر آج تک اس قسم کا ضابطہ قانون وجود میں نہ آیا تھا
جو نئی قسم کے سماجی تعلقات پر مبنی ہو
اس نئے نظام میں فرد کے ذاتی مالی واسباب کے علاوہ باقی تمام شخصی جائداد کا کوئی خاص احترام نہیں کیا گیا
ضروری مال و اسباب کے علاوہ باقی کے ذخیروں کو حقیقتاً خلاف اخلاق تصور کیا گیا تھا
اس ضابطے کا مقصد چور، خائن اور جرائم پیشہ لوگوں کو سزا دینا نہ تھا
بلکہ انہیں یہ سمجھانا تھا کہ اب ملک میں ایسے حقوق یافتہ طبقے باقی نہیں رہے
جو بلا خوف پاداش قانون جرائم کا ارتکاب کر سکیں
سوویت یونین میں صحت مندانہ تعمیرات رونما ہو رہے تھے
ذاتی خود غرضانہ اور مالی منافعوں کی ہوسناک لڑائی کا رخ قومی خوشحالی کی جدوجہد کی طرف موڑا جا رہا تھا
اور جرائم کے خیابان میں بل چل رہا تھا
1923 میں سوویت عدالتوں میں جتنے مقدمات جرائم فیصل ہوئے
ان کا اشاریہ سو فرض کیا جائے تو یہ 1926 میں تریسٹھ اور 1929 میں صرف ساٹھ تھا
چھ سال کے عرسے میں دس میں چار جرائم ختم ہوگئے تھے
اس کے علاوہ سوویت یونین کے ماہرین علم جرائم اپنی جدوجہد کے آغاز کو 1930 سے شمار کرتے ہیں
جب کہ زراعت اور صنعت کی برق رفتار اجتماعی ترقی کے پیش نظر سوویت یونین کے ضابطہ فوجداری میں نمایاں تبدیلیاں کی گئیں
کئی سال سے قومی جائداد کی چوری میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا
اور اس قسم کے چوروں کے خلاف مقدموں کی تعداد تمام مقدموں کی تعداد کے نصف سے بھی زائد تھی
جرائم پیشہ لوگوں کی اخلاقی تعلیم اور معاشی بحالی کے منصوبے کی بدولت پانچ سال کے عرصے میں جرائم کی تعداد میں ساٹھ فی صد
اور اس کے ساتھ ہی ہر قسم کے جرائم کی مجموعی تعداد میں ایک تہائی کمی واقع ہو گئی
یہ کامیابی کیسے ہوئی؟
بعینہ ان طریقوں سے جو شراب نوشی اور بدکاری کے انسداد کی جدوجہد میں بروئے کار لائے گئے
لہٰذا ان کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، سوویت یونین میں جرائم پیشہ لوگوں کی اصلاح کے لیے جو طریقے اختیار کئے گئے
ان کے متعلق دوسرے ملکوں کے بہت سے اہل قلم حضرات تفصیل سے لکھ چکے ہیں
سوویت یونین کے سرکاری وکیل، مسٹر وشنسکی نے ان کا جامع خلاصہ ان الفاظ میں پیش کیا
جن جرائم پیشہ لوگوں کے ساتھ سرمایہ دار ملکوں میں آوارہ گردوں اورا چھوتوں کا سا سلوک کیا جاتا ہے
سوویت یونین میں انہیں ملک کی اقتصادی ترقی میں حصہ لینے کی ترغیب دلائی جاتی ہے اور وہ سوشلسٹ سماج کے سرگرم معمار بن جاتے ہیں
بحیرہ ابیض اور بحیرہ بالٹک کو ملانے والی نہر اور دریائے والکا سے ماسکو جانے والی نہر کی کھدائی اور تعمیر سے سینکڑوں جرائم پیشہ لوگوں کو عملی تعلیم ملی
جنہیں ان نہروں کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے کام پر لگا دیا گیا
اس تجربے کے بعد زندگی کے متعلق ان کا نقطہ نظر ہی بدل گیا اور ان میں ایمان دارانہ روزی کمانے کا شوق پیدا ہوا
سوویت یونین کی انسداد جرائم کی مہم کا نقطہ عروج وہ واقعہ ہے
جو دوسری جنگ عظیم کے آغاز سے کچھ عرصہ پہلے رونما ہوا
ماسکو کے قریب جرائم پیشہ لوگوں کے اصلاح وتربیت کے لیے کئی سال سے ایک ادارہ مصروف کار تھا
جو بولشیفو کالونی کے نام سے مشہور ہے، یہ مرکز کئی لحاظ سے ان فیکٹریوں سے مشابہ تھا
جو پیشہ ور عورتوں کی اصلاح کے لیے قائم کی گئی تھیں
اس ادارے کو ہزاروں سیاحوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا
اس کی سرگرمیاں رفتہ رفتہ وسیع سے وسیع تر ہوتی گئیں
اور اس کالونی کی معاشی اور تہذیبی زندگی اور قدر خوش گوار اور دل کش بن گئی
کہ 1939 میں ایسے گریجویٹوں کی تعداد جو شادی کر کے وہاں مستقل سکونت اختیار کرنا چاہتے ہیں
ان نوواردوں کو ملا کر بھی بڑھ گئی
جنہیں عدالتیں سزا کے طور پر وہاں بھیج رہی ہیں
اس صورت حال کے پیش نظر بولشیفو کالونی میں اصلاحی پروگرام کو ترک کر دیا گیا
لہٰذا یہ بستی ایک اصلاحی ادارے کی حیثیت سے ختم ہو گئی
اور اسے نئے سرے سے معزز شہریوں کی آزاد بستی کی حیثیت سے آباد کیا گیا
جن لوگوں نے امریکی نظام اصلاح پر وارڈن لادیس کی مشہور تصنیف ”سنگ سنگ میں بیس ہزار سال پڑھی ہے
ان کے لیے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جرائم کے انسداد کے متعلق ہماری ان تھک جدوجہد اور سوویت یونین کی عملی کامیابی میں کتنا زیادہ فرق ہے
جہاں بولشیفو کالونی تھوڑے عرصے میں قید خانے سے آزاد برادری میں تبدیلی ہو گئی
سوویت یونین میں اب بھی کئی قید خانے موجود ہیں
لیکن ان کی تعداد ماضی کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے
جرائم کے مقدمات کی سماعت کرنے والی عدالتوں میں ہر سال کم سے کم تر مقدمے آتے ہیں
ہمارے لیے شاید سوویت یونین کی انسداد جرائم کی جدوجہد کا سب سے زیادہ موثر کن پہلو وہاں کے نوجوانوں کی سیرت میں انقلابی تبدیلی ہے
عملی تجربے کے پندرہ سال بعد 1935 میں روسی بچوں کی جرائم کاریوں میں متعدبہ تغیر رونما ہوا
اور بچوں کی اصلاح کے عملی تجربے کے اٹھارہ مہینوں کے درمیان ہی ان کے جرائم میں بائیس فیصدی کمی واقع ہو گئی
ادھر ہماری حکومت ہمیں ابھی سے متنبہ کر رہی ہے کہ ہمیں جنگ کے بعد خطا کار بچوں کی تعداد میں اور بھی اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا
آج بھی یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے جس سے لاکھوں گھر انوں کی مسرت اور مستقبل خطرے میں ہے بے شمار اسکیمیں اور نظرئیے پیش کئے جا رہے ہیں
لیکن ہمارے بچوں کے نام نہاد مصلحین میں جو اختلاف اور انتشار پایا جاتا ہے
وہ اس سے بھی زیادہ حوصلہ فرسا ہے جو انسداد بدکاری اور شراب کے مجاہدوں کی صفوں میں دیکھا گیا
سوویت یونین نے بچوں کی اصلاح کے لیے جس تکنیک سے کام لیا
اسے منظر عام پر لانے کی ہر کوشش کو روکا گیا ہے نئے سوویت قانون میں گمراہ بچوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے
پہلا گرو بلا امتیاز جرائم بارہ سال تک کی عمر کے بچوں پر مشتمل ہے
دوسرا گروہ بارہ سے سولہ سال تک عمر کے ایسے نوجوانوں پر مشتمل ہے
جو ادنیٰ قسم کے قانون شکنیوں کے مرتکب ہوتے ہیں
تیسرے حصے میں بارہ سے سولہ سال کی عمر کے وہ نوجوان شامل ہیں
جو سنگین جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں
اور سولہ سال سے زیادہ عمر کے جرائم کار نوجوانوں کو بالغوں کی طرح باقاعدہ عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے
قانون کی رو سے پہلے دو گروہوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو گرفتار کر کے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا
خواہ انہوں نے اس جرم کا اقدام کیا بھی ہو جس میں وہ پکڑے گئے ہوں
وہ ضابطہ فوجداری کے موجب بیگناہ اور معصوم ہیں
ان کے جرائم کی ذمہ داری ان کے والدین، معلمین، بالغ لوگوں، سکولوں یا ہمسایوں یا خود سماج پر عاید کی جاتی ہے
لیکن یہاں ہمارے کان ایک ناقابل فہم شور سے پک گئے ہیں
ہم ججوں، پولیس والوں اور پادریوں کو یہ چلاتے سن سن کر تھک گئے ہیں
کہ والدین گھر، سکول اور کلیسا اپنے فرائض کی سرا نجام دہی میں کو تاہی کر رہے ہیں
اور وہی بچوں کی تفصیروں کے ذمہ دار ہیں
لیکن سوویت یونین میں انہیں حقیقتاً ذمہ دار ٹھہرایا گیا
ان کے خلاف مقدمے چلائے گئے اور مجرم ثابت ہونے پر خاطر خواہ سبق سکھایا گیا
بعض خطا کار بچوں کے خلاف سوویت یونین کے عام شہری نالش کرتے ہیں
لیکن اکثر یت ایسے بچوں کی ہے جنہیں ملیشیا (قومی رضاکار) یا پولیس عدالت میں پیش کرتی ہے
ملیشیا یا پولیس کے کارکنوں کو حکم ہے کہ وہ نابالغ لڑکوں اور لڑکیوں کو بازاروں، عام عمارتوں یا جگہوں پر بالخصوس سکول کے اوقات میں آوارہ گردی کرتے دیکھیں
یا جب کبھی ان کے متعلق کوئی شبہ پیدا ہو تو انہیں ٹوکیں
بچوں کی یہ سخت نگرانی محض انہیں گمراہ ہونے سے بچانے کے لیے کی جاتی ہے
اگر کوئی بچہ جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے پایا جائے وہ سکول اور گھر سے اپنی غیر حاضری کی کوئی وجہ بیان نہ کر سکے
یا معلوم ہو جائے کہ اس کی مناسب دیکھ بھال نہیں ہو رہی تو ملیشیا والے اسے حوالات لے جاتے ہیں
یہ حوالات ہمارے ہاں کے حوالات سے بالکل مختلف ہیں
یہ چھوٹے چھوٹے گھروں پر مشتمل ہوتے ہیں، جن میں عموماً دو یا تین کمرے ہوتے ہیں
ان میں سے ہر ایک میں خصوصی تربیت یا فتہ معلم ہر وقت موجود رہتا ہے
اس کی امداد کے لیے چند رضا کار بھی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔ پولیس یا ملیشیا والا لڑکے یا لڑکی کے بارے میں مفصل رپورٹ درج کراتا ہے
اور اسے وہاں چھوڑ کر چلا جاتا ہے لیکن گرفتاری کا تکلف روا نہیں رکھا جاتا
کیونکہ قانون کے رو سے بچوں کو تھانوں میں لے جانا یا بالغ مجرمین کے ساتھ رکھنا منع ہے
مذکورہ بالا معلم بچ کے والدین یا وارث اور سکول کو فوراً اطلاع دیتا ہے
ان کے آنے تک بچے کو کھیل، مطالعے اور آرام کی کھلی چھٹی ہو تی ہے
اس اثنا میں معلم یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے
کہ اصل نقص کہاں ہے
اور وارثوں کے آنے تک یقین کرتا ہے کہ بچہ اتفاقاً گمراہ ہو گیا ہے یا وہ کسی خاص مشکل میں گرفتار ہے
پہلی صورت میں والدین اور وارثین کو متنبہ کیا جاتا ہے
اور خاص ہدایات دینے کے بعد بچے کو لے جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے
اگر یہ معلوم ہوجائے کہ والدین بچے کی نگرانی اور دیکھ بھال کی طرف سے غافل ہیں
یا بچہ کسی گھر یلو مشکل میں پھنسا ہواہے تو باقاعدہ تحقیقات کا بندوبست کیا جاتا ہے
اور ہو سکتا ہے کہ والدین کے خلاف فرد جرم بھی مرتب کر لی جائے
ادنیٰ قسم کی بیشتر قانون شکنیوں کو اسی طرح دور کیا جاتا ہے
اور کسی قسم کی عدالتی کاروائی نہیں کی جاتی
اگر قانون کی رو سے پہلے دو گروہوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کے خلاف نالش نہیں کی جا سکتی
تو کوئی میر یا کپڑے چراتی پکڑی جائے، یا کوئی متیکاسی وزیر کی کھڑی میں پتھر اٹھا پھینکے
تو اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے
ایسے بداخلاق بچوں کو عدالت میں پیش کیا جاتا ہے
لیکن انہیں عدالت میں تنہا نہیں لے جایا سکتا
ان کے ساتھ ان کے والدین وارثین یا کسی دوسرے بالغ شخص کو بھی عدالت کے کٹہروں میں کھڑا کیا جاتا ہے
بچوں کے خلاف ایسے مقدمے کی سماعت جس قسم کی عدالتیں کرتی ہیں
ان کی مثال سوویت یونین سے باہر کہیں نہیں ملتی
یہ وہ مشہور عدالتیں ہیں جنہیں علاقائی رفیقانہ عدالتیں کہتے ہیں
اور یہ 1931 میں قائم ہوئیں
ان عدالتوں سے زیادہ ہمارے عدالتی نظام کی متاثر کن ضد کا تصور تک محال ہے
یہ عدالتیں سوویت یونین میں ہر کہیں قائم ہیں
یہ جج عام شہری ہوتے ہیں
جنہیں متعلقہ علاقے کے باشندے صنعتی ادارے یا اجتماعی فارم کے تمام کارکن ایک سال کے لیے چنتے ہیں
ججوں کے یہ گروہ (یا پنچائتیں) ہمارے ہاں کی جیوریوں سے بہت کچھ ملتی جلتی ہیں
انہیں عام تنازعوں، ادنیٰ مقدمات فوجداری، بدکاریوں، چھوٹی چوریوں اور بچوں کے خلاف (سنگین جرائم کے علاوہ) مقدموں کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے
یہ رفیقانہ عدالتیں ملک کے تمام باشندوں کا اخلاقی معیار بلند کرنے
لوگوں میں سماجی ذمہ داریوں کے اشتراکی اصولوں کی روح پھونکتے اور پسماندہ افراد کے مجلسی اور تہذیبی ارتقا میں ممد ثابت ہوتی ہیں
ان کے وظائف کی مکمل روداد جان، این حیز رڈ کی تصنیف سوویت قانون رہائش گاہ میں دیکھی جا سکتی ہے
سوویت یونین (پنجائتی حکومتوں کے دیس)کے اس اچھوتے عدالتی نظام کی خصوصیت یہ ہے
کہ تمام جج متعلقہ ماحول اور لوگوں سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں
ان عدالتوں میں مقدمات کی سماعت عام طور سے بے تکلف مباحثے کی صورت اختیار کر لی جاتی ہے
یہ عدالتیں عموماً حاضرین سے کھچا کھچ بھری ہوتی ہیں
اور سب لوگ بحث میں حصہ لے سکتے ہیں
عدالت کا اولین فرض کسی بچے کی بد چلنی کا موجب یا اس کی بے راہروی کے ذمہ دار شخص کو دریافت کرنا ہوتا ہے
لیکن اہم کام ایسا فیصلہ صادر کرنا اور ایسی سزا تجویز کرنا ہوتا ہے کہ جرم کی تکرار کا امکان باقی نہ رہے
معمول یہ ہے کہ رفیقانہ عدالت بچوں کے لیے خاطر خواہ تفریحی سہولتیں بہم نہ پہچانے
دوستانہ امداد کے بغیر کسی خاندان کے غیر محفوظ صورت حال میں پھنس جانے
کسی نااہل معلم کو سکول میں باقی رکھنے یا اسی قسم کی دوسری غفلت پاداش میں خود اپنے آپ کو
یعنی علاقے کے تمام باشندوں کو مجرم ٹھہراتی ہے
بہرحال عدالت کا فیصلہ التزاماً کوئی ایسی تجویز ہوتا ہے، جس سے بچے اور اس کے ماحول کی اصلاح ہو جائے
اس طریقے سے خطا اور ملزم بچوں کی بھاری اکثر یت پر قابو پا لیا جاتا ہے
سولہ سال سے زائد عمر کے تمام نوجوانوں اور بارہ سے سولہ سال کی عمر کے ایسے بچون کو
جن کے خلاف بڑی چوریوں، خطرناک شرارتوں اور قاتلانہ حملوں کا الزام ہو
انہیں عدالت فوجداری میں پیش کر کے ان پر باقاعدہ مقدمہ چلایا جاتا ہے
ہمارے ہاں کی عدالتوں کا کام محض سخت سے سخت سزا تجویز کرنا ہے
اس لیے ہم بچوں کی جس قسم کی عدالتوں کا تصور کر سکتے ہیں
سوویت یونین میں کوئی عدالت نہیں کیونکہ وہاں نابالغ مجرمین کے خلاف مقدمے کی سماعت یا
تو رفیقانہ عدالتیں کرتی ہیں، یا ان کے جرائم کو سنگین تصور کیا جاتا ہے
اور ان کے مقدمے فوجداری عدالتوں کے سپرد کر دئیے جاتے ہیں
یہ لائحہ عمل پندرہ سال کے تجربے کا نچوڑ ہے
لہٰذا ہمارے ملکوں کے لیے غیر معمولی دلچسپی کا موجب ہے سوویت یونین میں خطا کار بچوں کے خلاف قانونی کاروائی کا مسلمہ طریقہ یہ ہے
کہ وہاں بچوں کو ملجاظ جرائم دو گروہوں میں منقسم کر دیا گیا ہے
1 ۔ اگر ملزم بہت ہی کم سن ہو یا اس کے خلاف ادنیٰ شرارت کا الزام ہو
تو ملزم لڑکے یا لڑکی کو گرفتار نہیں کیا جاتا اور اس کے خلاف مقدمہ نہیں چلا یا جاتا
2 ۔ ملزم بچہ عمر میں بڑا ہو اور اس نے کسی سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہو
تو اس کے خلاف باقاعدہ عدالت میں سخت مگر منصفانہ کاروائی کی جاتی ہے
تجربے سے ثابت ہو چکا ہے کہ قانون شکن بچوں کے دو گروہ ایک دوسرے سے اس قدر مختلف اور متضاد ہیں
کہ کوئی ایک عدالت بیک وقت ان سے اچھی طرح نمٹ نہیں سکتی
(ہمارے برعظیم کے بعض با عمل قومی رضا کار بھی اسی نیتجے پر پہنچ چکے ہیں
لیکن ہمارے ہاں ابھی تک رفیقانہ عدالتوں سی کوئی چیز وجود میں نہیں آئی)
وجہ یہ ہے کہ جہاں تک عمل کا تعلق ہے، بچوں کی عدالت ہے
اس کا صدر منصف مقدمے کی رہنمائی خواہ کتنی ہی بے رسمی سے کرے
عدالت کا زیادہ تر وقت بچے کی سکول سے غیر حاضری، آوارہ گردی اور ادنیٰ قسم کی قانون شکنیوں کی غیر ضروری تفصیلات ہی میں ضائع ہو جاتا ہے
علاوہ ازیں کم سن بچوں کے لیے عدالت میں پیش ہونا ایک دلچسپ ڈرامائی تجربہ ہے
اور بسا اوقات اس احساس کا نفسیاتی اثر تباہ کن ثابت ہوتا ہے
سولہ سال سے زیادہ عمر کے نوجوان اور بارہ برس سے زیادہ عمر کے وہ بچے جو سنگین جرائم کے اقدام کے قابل ہیں
ایک ایسی عدالت میں پیش ہوتے وقت جو کم سن بچوں کے ادنیٰ مقدموں کا فیصلہ بھی کرے
اپنے جرائم کو حد سے زیادہ معمولی خیال کرنے لگتے ہیں
روس میں جب کسی لڑکے یا لڑکی کو اعلیٰ فوجداری عدالت کے حوالے کرنا مقصود ہو
تو محکمہ وکالت سرکار خصوصی تحقیقات کرتا ہے
اگر مقدمے کو اعلیٰ عدالت کے سپرد کرنا ہو، تو ایک مفصل فرد جرم تیار کی جاتی ہے
اس فرد جرم میں نہ صرف مبینہ الزام کے مکمل حالات بلکہ ملزم کی شخصیت کی بھی مکمل تشریح شامل ہوتی ہے
جسے عموماًایک ماہر امراض نفس تیار کرتا ہے اور حتی الامکان جرم کا محرک بھی بتاتا ہے
بچوں کے خلاف مقدمات جرائم کی سماعت کے اشتراکی طریقے کو اچھی سمجھنے کے لیے دوسرے ملکوں او رسوویت یونین کے دستور قانون کے باہمی فرق کو جاننا ضروری ہے
اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم سوویت یونین کے سرکاری وکیل کے فرائض منصبی کا مطالعہ کریں
سوویت یونین کے دستوار ساسی کے نویں باب میں درج ہے
یہ دیکھنا کہ تمام عوامی وزارتیں اور ان کے ماتحت اداروں کے علاوہ تمام سرکاری ملازم اور شہری قوانین کی سختی سے تعمیل کرتے ہیں
سوویت یونین کے اعلیٰ وکیل سرکار کا فریضہ ہے
تمام سوویت یونین کے لیے ایک اعلیٰ سرکاری وکیل مقرر کیا جاتا ہے
اور اس کے ماتحت ہر جمہوریت اور خود مختار علاقے اور خطے کا ایک ایک سرکاری وکیل ہوتا ہے
جنہیں اعلیٰ سرکاری وکیل پانچ سال کے لیے مقرر کرتا ہے
سوویت یونین کی سب سے اونچی پنچایت سات سال کے لیے مقرر کرتی ہے
۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“