سولہواں حصہ
۔۔۔۔۔
گناہ اور سائنس
Sin And Sciences
۔۔۔۔۔
روس کے ایک پردٹسٹنٹ پادری، تقدس مآب پردخونوف جو پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے کل روس یونین کے صدر تھے
ایک مرتبہ امریکہ آئے تو انہوں نے مذکورہ بالا صورت حال کا ذکر ان الفاظ میں کیا
قانون امتناع شراب کے نفاذ سے پہلے اگر ہر درمیان گھرانے میں ایک شخص شرابی تھا
تو بندش کے زمانے میں ہر گھر بہ یک وقت کشید گاہ اور شراب خانہ بن گیا
ہر کہیں عورتوں اور مرد کھلے بندوں قانون کو توڑ کروودکا تیار تھے
لوگ پی کر سوتے تھے
ناشتے پر پیتے تھے
نشے کی حالت میں کام پر جاتے تھے۔ بیہوشی کے عالم میں کلیسا جاتے اور مائیں اپنے بچوں کو کھانے کے ساتھ شراب بھی دیتی تھیں
شراب نوشی کے انسداد سے متعلق بے شمار متضاد خیالات اور آرائوں میں سے صرف 5 بڑے نظریے چنے گئے
چونکہ ہمارے ہاں ان میں سے ہر ایک کے بے شمار حامی ملتے ہیں اس لیے ان کا مختصر ساجائزہ لینا مناسب معلوم ہوتا ہے
1 ۔ امتناع:
زار روس نے یہ طریقہ اتنی خوبی سے آزمایا تھا کہ سوویت حکومت اس کی ہمسری نہ کر سکتی تھی نہ کرنا چاہتی تھی
یہ طریقہ اس تجربے سے بھی زیادہ بری طرح ناکام رہا تھا جو ان دنوں امریکہ میں کیا جا رہا تھا
شراب کی قانونی ممانعت کا طریقہ بالکل لچر ہے
اس کے علاوہ اسے اشتراکی اخلاقی سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا
کیونکہ اشتراکی اخلاق جبر کے بجائے ترغیب کے حامی تھے
2 ۔ تعلیم:
اس سلسلے میں سوویت حکومت نے شہزادہ اسکندر کی تعلیمی مہم کامطالعہ کیا
جس کا کوئی امید افزا انتیجہ نہ نکلا تھا
ایسی تعلیم شرابی کے لیے ہوئے سے کم نہ تھی
کیونکہ اس میں شرابی سے ذاتی قرابی کا مطالبہ کیا جاتا تھا
شرابی کو یہ کہہ دینا کہ اس کی صحت اچھی ہو جائے گی اور اسے ذاتی سکون ملے گا بالکل الٹی منطق تھی
کیونکہ لوگ ذاتی تسکین ہی کے لیے تو پیتے ہیں
سبب خواہ کچھ بھی ہو، تاریخ ثابت کر چکی تھی کہ محض تعلیم کے ذریعے قوم سے نشہ بازی چھڑائی نہیں جا سکتی
3 ۔ مذہب:
آج ہمارے سامنے پوشیدہ شرابیوں کی اصلاح کی تنظیم کی صورت میں مذہبی تجربہ موجود ہے
مسئلہ شراب کو حل کرنے کی یہ کوشش بھی امید افزا نہیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ طریقہ بعض نفسانی بیماریوں میں موثر ثابت ہوتا ہے
لیکن سوویت حکومت اس کی حمایت نہ کر سکی
کیونکہ تمام کلیسا ان دیہاتی پادریوں کی طرح بد نام تھاجو بری طرح شراب کے عادی تھے
4 ۔ نفسیات:
نفسیاتی طریق علاج کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا
کیونکہ ساری دنیا میں بھی اتنے ماہرین امراض نفس موجود نہیں تھے کہ اکیلے ماسکو کے شرابیوں کے لیے کافی ہوتے
عملی نقطہ نظر سے نفسیاتی طریق اور مذہب میں کوئی فرق نہیں
کیونکہ اس کا دائرہ عمل چند لوگوں تک محدود ہے
لیکن یہاں سوال قوم کا تھا
اگرچہ اس کے موقل دعویٰ کرتے ہیں کہ اسے تمام قوم کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے
لیکن کسی نے آج تک یہ نہیں بتایا کہ اس کا اطلاق لاکھوں افرادکس طرح کیا جائے
علاوہ ازیں اشتراکی کی ماہرین کی عقل سلیم یہ نہ مانتی تھیکہ روس کے لاکھوں باشندے ذہنی امراض میں مبتلا ہیں
انہوں نے محسوس کیا کہ شراب نوشی کا سبب جسمانی اور ذہنی خلل کے علاوہ کچھ اور ہے
5 ۔ سرکاری کنٹرول:
اس سلسلے میں بھی حکومت کے پاس پہلے سے بے شمار تجربے موجود تھے
جنہیں وسیع پیمانے پر آزمایا گیا تھا
ان کے مطالعے سے یہی پتہ چلا کہ روس کے شہنشاہ ہوں
مختلف نے شراب کی فروخت پر کنٹرول کے جو متعدد طریقے استعمال کئے تھے
ان کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ نکلا کہ شراب اور زیادہ کثرت سے پی جانے لگی
حتیٰ کہ اس کی کھپت فی کس 12/5 گیلن سالانہ جا پہنچی
لہٰذا سوویت ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ سرکاری کنٹرول کا طریقہ بھی ناکارہ ہے
اس سے شراب نوشی کثرت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا
یہ حقیقت بڑی دلچسپ ہے کہ یہ نتیجہ کینیڈا میں کس طرح سچ ثابت ہوا
شراب پر کئی سال تک کامیاب اور شاندار صوبائی کنٹرول کے باوجود آج مستعمرہ کینیڈا میں شراب کی کھپت پہلے سے بڑھ گئی ہے
جنگ کے زمانے کی سخت راشن بندی سے پہلے کینیڈاوی قوم کو کثرت سے پینے والوں کی قوم نہ مانا جاتا تھا
لیکن1941 میں کینیڈا والوں نے ایک کروڑ دو لاکھ گیلن شراب پی
جس میں شراب کے علاوہ بیئر اور انگور کی شراب بھی شامل ہے
گویا وہاں کی کھپت ا س قدر بڑھ جائے گی کہ زار شاہی روس کی مثال زندہ ہو جائے گی
خیر مذکورہ بالا تجزیے کے بعد سوویت حکومت نے جو بنیادی نتیجہ اخذ کیا
اس جامع اظہار کے لیے شاید عیسائی عورتوں کی انجمن امتناع کی بانی اور تادم مرگ اس کی صدر،
فرانسس دلارد کے مشہور مگر ایک عرصے سے بدنام مقولے سے بہتر الفاظ نہیں مل سکتے
وہ الفاظ یہ ہیں اکثر لوگ اس لیے مفلوک الحال نہیں کہ وہ پیتے ہیں، بلکہ ا س لیے پیتے ہیں کہ وہ مفلوک الحال ہیں
یہ ہے شراب کی اصل حقیقت
لیکن المیہ یہ ہے کہ مذکورہ انجمن کی اراکین نے نیک نیتی اورخلوص کے باوجود اس زبردست اور اہم حقیقت کوسالہا سال سے بھلا رکھا ہے
فرانسس دلارد نے نفسیاتی، مذہبی، تعلیمی اور سرکاری کنٹرول کے پھیلائے ہوئے انتشار کو کوڑے کرکٹ کی طرح اٹھا کر الگ پھینک دیا
اور وہ مسئلہ شراب کی تہ تک جا پہنچا
یہ مسئلہ صرف معاشرتی اور معاشی ہے
لوگ اس لیے پیتے ہیں کہ وہ مایوس اور پریشان ہیں
ان کی زندگی بربادی، محرومی اور بے اطمینانی کی زندگی ہے
جب تک اکثریت کے لیے ایک ایسا ساز گار ماحول پیدا نہ کر دیا جائے
کہ اس میں شراب ایک ضرورت نہ رہے اس وقت تک وعظ، تلقین، تعلیم اورجبری امتناع سبھی بےکار ہیں
اور ٹھیک اسی طرح بیکار ہیں
جس طرح جنسی اخلاق کا سدھار اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک معاشی طاقتیں مرد و عورت ہر دو کو عصمت کی خرید اور فروخت پر مجبور کرتے ہیں
زار روس کی رعایا شراب کی طرف اس لیے مائل ہوئی کہ ان افلاس ایک ناقابل تردید حقیقت تھی
لہٰذا سوویت یونین کے ماہرین کو ایک ہمہ گیر قومی فلاح و بہبود کے پروگرام ہی میں نجات کی صورت نظر آئی
یہ تھا پہلا بنیادی نتیجہ
دوسرا بنیادی نتیجہ جو اشتراکی ماہرین نے اخذ کیا، یہ ہے کہ کوئی فرد اگر ماحول سے متاثر ہو کر پیتا ہے تو قوم کی ترغیب دلانے والی چیز وہ بے شمار سرکاری آمدنی ہے جو شراب کی فروخت پر ٹیکسوں کی صورت میں حاصل ہوتی ہے
لہٰذا عملی اقدامات؟
طلاق اور اسقاط حمل کے انسدادی اقدام کی طرح سوویت حکومت نے شراب نوشی کے تدراک کے لیے جو پہلا قدم اٹھایا
وہ بھی الٹا نظر آیا 1926 میں سوویت حکومت نے ایک سنسنی خیز اعلان کیا
سوویت حکومت نے شراب کی ناجائز فروخت سے منافع کمانے والے لوگوں کا کاروبار ختم کرنے کے ساتھ ہی شراب پر سے تمام قسم کے ٹیکس ہٹا دینے کا فیصلہ کیا
اور یہ کام بڑی برق رفتاری سے ہوا
زار کی طرح مسلح سپاہیوں کی مدد سے نہیں، بلکہ نہایت عام اور سادہ طریقے سے یعنی شراب پر سے تمام ٹیکس اڑا کر اور ودوکا کی پرچون قیمتوں کوفی کوارٹ (چوتھائی گیلن) پنیسٹھ سنٹ (ایک ڈالر میں سو سنٹ ہوتے ہیں) تک گرا کر
ظاہر ہے شراب نوش حضرات حیرت و مسرت سے بھونچکا رہ گئے
اس فیصلے کے اعلان کے ساتھ ہی روس کے اخباروں میں زار کی تجارت شراب کے متعلق پورے اعداد وشمار شائع کئے گئے
اور بتایا گیا کہ لوگوں نے سابقہ حکومت کو شراب کے ٹیکسوں کی صورت میں بے شمار روپیہ ادا کیا
اشتراکی منتظمین کو پہلے سے معلوم تھا کہ اس افشائے راز کا نتیجہ کیا ہو گا
اس سے شرابی اور صوفی دونوں بے حد متاثر ہوئے
انہوں نے دیکھا کہ ان کی نئی حکومت ودوکا پرٹیکس لگا کر منافع کمانا نہیں چاہتی
اور پر چون سے جو تھوڑا بہت منافع حاصل ہو گا
اسے انسداد شراب نوشی پر خرچ کرنے کے لیے صحت عامہ اور تعلیم کے محکموں کے سپرد کر دیا جائے گا
عوام کی حیرت اور دلچسپی کوئی حد نہ تھی
شراب کی قیمت میں انتہائی کمی کے اعلان کا دن روس میں غیر سرکاری تہوار یا میلے کا دن تھا
حکومت نے جو نئی قسم کی مصفےٰ اعلی اور سستی ودوکا مہیا کی وہ منول منر فروخت ہوئی اور ناجائز طور شراب تیار اور فروخت کرنے والے لوگ اسی دن سے دیوالیے ہوگئے
ادھرمے نوش برادری میں مسرت کی پہلی دھیمی ہوئی
ادھر سوویت حکومت نے نئے قوانین کا اعلان کر دیا
ان کی رو سے آئندہ تمام کارخانوں کے قریب مزدوروں اور سرکاری ملازموں کی تنخواہ کے دنوں اور تہواروں کے موقعوں پر شراب بیچنے کی ممانعت کی دی گئی
اور ملیشیا کو کمسن شرابیوں اور ایسے لوگوں کو سخت سزائیں دینے کا اختیار دے دیا گیا جو نشے میں بے ہوش پائے جائیں
اس کے بعد روس کے طول وعرج میں ایک نئی قسم کی پروپیگنڈائی مہم چلائی گئی
مہم سائنٹیفک تھی
اصولاً یہ امتناعی انجمن کی مہم سے قدر ے مختلف تھی
کیونکہ اب شراب کے خلاف پروپیگنڈا کرتے وقت شرابی کی ذات پر شراب کے برے اثرات کا ذکر تک نہ کیا جاتا تھا
جہاں تک شراب کے علمی حقائق کا تعلق ہے انہیں نظر انداز بھی نہ کیا جاتا تھا او ران کو بڑھا چڑھا کر بھی نہیں بتایا جاتا تھا
سوویت یونین کے ماہرین فعلیات و (علم وظائف اعضائ) نے بتایا کہ شراب ایک عام نشہ آور دوا سے زیادہ کچھ نہیں
یہ سکون آور ہے اور بعض اوقات مفید بھی
کیونکہ یہ وقتی طور پر عضوی فعالیت کو موقوف کر دیتی ہے
اور دماغ اور مرکزی نظام عصبی کو متاثر کرتی ہے
اس اعتدال سے زیادہ استعمال کیا جائے تو صرف شرابی کی قوت کار کردگی میں مزاحم ہوتی ہے
اس کے مستقل عادت سے خون میں آکسیجن کے امساک کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے
شراب اعضا کے حیات آفرین نظام میں خطرناک اختلاف بھی پیدا کر سکتی ہے
شراب اور چند دماغی بیماریوں میں خاص تعلق ہے
یہ کئی ذہنی امراض کا باعث ہو سکتی ہے
سب سے بڑھ کر یہ کہ کثرت شراب نوشی اکثر لوگوں کو دائمی تکان، حادثات اور بیماریوں کے خطرے میں ڈال دیتی ہے
قصہ کوتاہ روسی عوام کو شراب کے بارے میں جو فیصلہ سنایا گیا
اس میں واضح طو رپر بیان کیا گیا کہ شراب ایک ضرورت نہیں
اس کا جسم اور دماغ پر مفید اثر نہیں پڑتا
اگرچہ یہ مختلف افراد پر مختلف طریقے سے اثر انداز ہوتی ہے
لیکن فائدہ کسی کو بھی نہیں پہنچاتی
جس طریقے سے یہ حقائق عوام کے ذہن نشین کرائے گئے وہ اپنی مثال آپ تھے
اس سلسلے میں سینما اور تھیٹر سے بہت زیادہ کام لیا گیا
ڈراموں اورفلموں میں روسی عوام کی روز مرہ کی سرگرمیوں کے ذریعے شراب کے متعلق ایسی چیزیں بتائی گئیں
جن کابراہ راست تعلق روس کو ایک طاقتور، صنعت کار ادر زراعت پیشہ قوم بنانے کے منصوبے سے تھا
بچوں جوانوں، مردوں اور عورتوں کی چست ڈرامائی انداز میں بتایا گیا کہ شراب نوشی مستقبل کے معماروں یعنی انجنوں کے ڈرائیوروں، ٹرکوں، ٹریکٹروں
فصل کاٹنے کی مشینوں اورکارخانوں کی قیمتی مشینوں کو چلانے والے مردوں اور عورتوں نئے بجلی گھروں کے خاکے
اور منصوبے بنانے والے انجنیرئوں، یونیورسٹی کے طالب علموں اور کوئلہ کھودنے والے کارکنوں پر کس بری طرح اثر انداز ہوتی ہے
کہانیوں میں شرابی پر نکتہ چینی ہر گز نہ کی جاتی تھی اوریہ نہ کہا جاتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو تباہ کر رہا ہے
بلکہ دکھایایہ جاتا تھا کہ یہ شخص کتنا نادان ہے
یہ اتنا سادہ ہے کہ اسے ابھی یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ نئے سماج کی تعمیر میں حصہ لینے لگے تو اس کی زندگی کی کس قدر پر لطف اورمسرت بخش ہو جائے
کسی سے ہر گزنہ کہا جاتا تھا کہ مت پیو
کہانی میں شرابی کو ایک گنہہ گار فرد کی طرح نہیں پیش کیا جاتا تھا بلکہ اسے ایک مضحکہ خیز، آداب مجلس سے بے خبر شخص کی حیثیت سے دکھایا جاتا تھا
ظاہر ہے اس طریقے سے پکے شرابی متاثر ہ ہو سکتے تھے
ان کے لیے سوویت منصوبے میں ایک دوسری چیز موجود تھی
انہیں خطرناک مجرم تو نہیں کہا جا سکتا تھا
البتہ وہ ساری قوم کے فلاح و بہبود اور ترقی کے راستے میں ایک زبردست رکاوٹ ضرور تھے
خاص طور جس وقت ودوکا پنیسٹھ سنٹ فی کوارٹ جیسی سستی قیمت پر دستیاب ہو رہی ہو
تو ان کے ذہن قومی فلاح وبہبود کے خیالات کو کس طرح قبول کرنے کے لیے تیار ہو سکتے تھے؟
ایسے لوگوں کے لیے ترک شراب کے جو طریقے اختیار کئے گئے
وہ ان طریقوں سے ملتے جلتے تھے
جن سے عصمت فروشی میں کام لیا گیا تھا
جن علاقوں میں شراب خوری ایک نازک مسئلے کی صورت اختیار کر گئی تھی
وہاں امتناع شراب کے سائنسی ادارے کھولے گئے
ودوکا کی امتناعی مہم کے کسی کارکن کو کوئی بے ہوش شرابی ملتا تو وہ اسے قریب کے امتناعی مرکز میں لے جاتا
اس کے بعد اس کا نام، گھر کا پتہ اور دفتر یا کارخانے کا نام لکھ لیا جاتا اور اسے چھٹی دے دی جاتی
اس کے دفتر یا کارخانے کے ٹریڈ یونین کو اس کے متعلق پوری رپورٹ بھیجی جاتی
ہر دفتر اورکارخانے میں ایک خاص کمیٹی مقرر تھی وہ رپورٹ ملتے ہی ایک لمبا چوڑا اشتہار تیار کر لیتی
اس میں متعلقہ شخص کی تصویر یا کارٹون ہوتا
جس کے نیچے اس کا نام لکھا ہوتا
علاوہ ازیں اس کی بوتل سے شراب پینے کی کیفیت سے لے کر بعد کی تمام حالت کا نقشہ کھینچا ہوتا تھا
یہ سب کچھ اس شخص کے دوبارہ کام پر واپس آنے سے پہلے مکمل ہو جاتا، وہ کام پر واپس آتا تو اس اشتہار سے اس کا شایان شان خیر مقدم کیا جاتا
لہٰذا وہ دفتر یا کارخانے میں بدنام ہو جاتا اگر وہ شخص دو یا تین بار یہی حرکت کرتا تو اسے لوگوں میں اور بھی زیادہ سواکیا جاتا
جن لوگوں کو بار بار گھیر کر امتناعی مرکزوں میں لے جایا جاتا اس کے خلاف ان کی یونین اور دوسری عوامی ادارے سخت نضباطی کاروائی کرتے
یہ طریقہ شرابیوں میں بے شمار امتناعی کتابچے تقسیم کرنے سے بھی زیادہ موثر ثابت ہوا۔شرابی کے لیے دیوالیہ پن، آدارہ گردی، فاقوںاور گھر یلو جھگڑے اتنے زیادہ ڈرائو نے نہ تھے
لیکن اسے دوستوں میں شرمندہ کرنے اور قوم کی ترقی میں دوڑ اٹکانے والے شخص کی حیثیت سے بدنام کرنے کا یہ طریقہ قوم کے لیے اصلاح اخلاق کا یا ایک کار گر ذریعہ بن گیا
چند سالوں میں ہی اس طریقے سے روس میں شراب نوشی تقریباً ختم ہو گئی
اور درجنوں کی حد تک پینے والوں کی تھوڑی سی تعداد باقی رہ گئی
یہ لوگ کل شرابیوں کا ایک فیصد تھے ان لوگوں کو باقاعدہ شفاخانوں میں بھیجا گیا
یہ خاص شفاخانے پورے سازو سامان سے آراستہ تھے اورا ن میں ذہنی اور جسمانی دونوں طرح کا علاج کیا جاتا تھا
اکثر لوگ اتنے قلیل عرصے میں صحت یاب ہو گئے
گویا وہ امتناعی مرکزوں کا تفریحی دورہ کرنے گئے تھے
جس دن انہیں شفاخانوں سے رہا کیا جاتا، اس سے اگلے دن ان کی صحت یابی کی خبر نمایاں کر کے چھاپی جاتی
لیکن سوویت یونین کے امتناعی پروگرام کی بعض شقیں ایسی بھی ہیں جو بادی نظر میں الٹی معلوم ہوتی ہیں
مثلاً ابتدا میں جو حکومت نے ریستورانوں اور ہوٹلوں میں شراب کی کھپت بڑھانے کی بہت زیادہ کوشش کی
یہ فیصلے ایسے ماہرین امراض نفیسہ کے مشورے سے کیا گیا تھا
جو شراب نوشی کے محرکات اور مواقع کو ختم کرنے کی کوشش میں مصروف تھے
کھانے کے ساتھ شراب کی اجازت کا اقدام بظاہر قدامت پسندانہ اور اصلاحی مقصد کے خلاف تھا
لیکن یہ اقدام اس لیے کیا گیا کہ ہوٹلوں میں کھانے کے ساتھ پی لینا، شراب خانوں اور ایسے ہی دیگر مقامات پر جہاں صرف شراب ہی ملتی ہے
پینے سے یا نہار منہ اور خالی پیٹ پینے سے کم مضر ہے
علاوہ ازیں شراب پر حکومت کے طویل المیعاد کنٹرول کا تجربہ ثابت کر چکا تھا
کہ بغیر کھائے شراب پینا انتہائی افلاس کی علامت ہے
اس سے شرابی کی تمام تر توجہ شراب پر مرکوز ہو جاتی ہے
اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کثرت نوشی اور عادت کی پختگی پیدا ہو جاتی ہے
لوگوں کے سامنے یہ سوال آجاتا ہے کہ کھانا کھائیں یا شراب پئیں اور اکثر اوقات نگاہ انتخاب شراب ہی پر پڑتی ہے اور کھانے کو ملتوی کر دیا جاتا ہے
ماحول اس سے بھی زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ سوویت قانون سے صرف خوبصورت، خوش انتظام اور باسلیقہ فیملی ریسورانوں میں شراب مہیا کی جا سکتی تھی
ایسے مقامات پر جا کر پینے والوں کے کردار اور سیرت میں نمایاں اور خوشگوار تبدیلی رونما ہوئی
وہ کم پیتے تھے
کیونکہ انہیں کھانا بھی کھانا ہوتا تھا اور عورتوں، بچوں اور نوجوانوں کی موجودگی میں زیادہ بھی نہ پی سکتے تھے
ورنہ تضحیک بننے کا خطرہ تھا
ایسے مقامات پر عارضی طور پر شراب نوشی کی کھلی چٹھی دے کر سوویت حکومت نے نافہم لوگوں کی توقع کے خلاف نتیجہ اخذ کیا
اس سے شراب کی کھپت بڑھنے کی بجائے بے حد گھٹ گئی لیکن ہمارے ہاں کیا صورت حال ہے؟
بلدیہ شکاگو کے محکمہ علاج امراض نفس کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ڈی بی روسٹان نے امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدہ کے ایشوع بابت مارچ 1945 میں تحریر کیا
کہ ہماری قوم کے آگے شراب کے مسائل موجودہ شدت اور خطرناک انداز سے کبھی نہ اٹھے تھے
اس نے تسلیم کیا کہ حالت اس قدر نازک ہے کہ قانون امتناع کی طرف دوبارہ رجوع کرنا پڑے گا
ڈاکٹر روسٹان نے ایک نئی ترکیب ایجاد کی
یعنی اس نے ایک نئی ہستی کے منصئہ شہود میں آجانے کا انکشاف کیا
اور اس نئی شخصیت کو اس نے دروازے کی چٹائی کا شاندار خطاب دیا
اس نے کہا کہ سمندر پار سے واپس آنے والے اکثر سپاہی اپنی بیویوں کی صورت میں ایسی دروازے کی چٹائیوں سے دو چار ہوں گے
جنہوں نے شراب نوشی کی حسین زندگی کا درباز کرنے کے لیے اپنی آموزش پر پانی کی طرح روپیہ بہایا ہو گا
یہ دروازے کی چٹائی اب شراب خوری کے نقشے کا ایک مستقل جزو ہے
یہ شخصیت پٹہ بازی کی کند تلوار اور گدیلے کی طرح دوہری حیثیت سے شراب خور مرد کے سر پر مسلط ہے
ڈاکٹر موصوف کا خیال ہے کہ شراب خور مرد بوڑھی اور بیوہ ماں، کنواری بہن یا مجبوربیوی کی صورت میں اپنے آپ کو بے شمار دورازے کی چٹائیوں میں گھرا ہوا پاتا ہے
اور شراب نوش عورت اپنے دوسرے یا تیسرے خاوند یا پھر تنہائی سے تنگ آ کر اپنے چہیتے عاشق
یا ناکام شادی کے بعد اپنے دل پسند دلبر کی صورت میں متعدد دروازے کے بوریوں سے دو چار ہوتی ہے
ڈاکٹر روسٹان نے شرابی عورتوں اور مردوں کی تعداد کے درمیان نسبت نکالی
اور ثابت کیا کہ حال ہی میں یہ نسبت، نسبت معکوس کی شکل میں بدل گئی ہے
اس نے یہ انکشاف کر کے تمام ماہرین طب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا
کہ 1931 میں چار یا پانچ مردوں کے مقابلے میں صرف ایک عورت شراب نوش تھی
اور 1943 میں دو مردوں کے مقابلے میں ایک عورت
امراض نفس کے اس ماہر نے خفیہ شرابیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کا انکشاف کیا
انہیں شراب کی کھپت میں بے پناہ اضافے کا ایک سبب قرار دیا
اور دعویٰ کیا کہ اب یہ معاملہ عوام سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے جزوی حل کی توقع بھی عوام ہی سے وابستہ کرنی چاہئیے
اس نے متنبہ کیا کہ خفیہ شرابیوں کی انجمن اصلاح کو چاہئیے
کہ وہ القائے ارادی کے زجحان کو دبانے کے ساتھ ہی جو کوئے ازم (Coueism) ہی کی ایک قسم ہے
اپنی کوتاہیوں اور کامیابیوں پر کٹری نظر رکھے
ڈاکٹر روسٹان کے خیال میں شراب خوری ایک سماجی بیماری ہے اور اکیلے ڈاکٹر اس کا تدراک نہیں کر سکتے
اس سلسلے میں وہ ییل یونیورسٹی کی تحقیقاتی کونسل بہت زیادہ تعریف کرتا ہے
لیکن اس تحقیقاتی کونسل نے بھی تو آج تک کوئی قابل قدر کارنامہ نہیں دکھایا
شراب کے معاملے میں امریکی ماہرین کا باہمی اختلاف رائے حیران کن ہے
مثال کے طور پر ہاورڈ میڈیکل کالج کے مشہور معالج امراض نفس اور محقق
ڈاکٹر ابراہام میرسن نے 1944 میں امریکہ کی ترقیات سائنس کی انجمن کو بتایا
کہ مردوں کے مقابلے میں سات گنا زیادہ عورت شراب کی عادی ہیں
اس طرح اس نے ڈاکٹر روسٹان کے اندازے کو غلط ثابت کر دیا
دراصل بات یہ ہے کہ ابھی تک ایسے اعداد شمار جمع ہی نہیں کئے گئے
ڈاکٹر مامیرسن کا خیال ہے کہ کثرت شراب نوشی بذات خود کوئی مسئلہ ہی نہیں
دراصل شراب اس وقت ایک حل طلب مسئلہ بنتی ہے جب لوگ محض نشے کی غرض سے پینے لگیں
اور جب تک پی نہ لیں، کل نہ پائیں
بالخصوص اس وقت جب کہ مے نوش سیری کی حد تک پی کر بھی ایک جام کا مطالبہ کرے
البتہ ان کے نزدیک حد سے زیادہ پینے کے معنی شراب خوری کی پختہ عادت کی شاہی سٹرک پرچل نکلنے کے ہیں
یہ ماہر منشیات چار قسم کے شرابی گنواتا ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں بھی وہ ڈاکٹر روسٹان کے دروازے کے چٹائی یا بورئیے والے نظریے کی تردید کرتا ہے
خیر وہ چار قسم کے شرابی کون سے ہیں؟
1 ۔ وہ مجہول شخص جو دو جام پئے بغیر نچلا نہیں بیٹھ سکتا
2 ۔ جو شخص ہنسی مذاق میں جان بوجھ کر بے انتہا پیتا چلا جاتا ہے
3 ۔ دماغی اعتبار سے غیر متوازن شخص جس کی شراب نوشی کی عادت ایک مرض کی علامت ہے
4 ۔ ایسا شخص جو محض شوق میں شراب کا عادی ہو جاتا ہے
وہ زندگی بھر مسرت اور لذت کی خاطر پیتا ہے اور شراب کے لیے زندہ رہتا ہے
یہاں دروازے کی چٹائی یا بورئیے والے خاندان کا نام تک نہیں
اور نہ کسی ایسے مسئلے کا ذکر ہے
جسے ڈاکٹر روسٹان شراب خوری کا دائمی مظہر کہتا ہے
نظریوں میں اختلاف تسلیم
لیکن جب دو ماہر ایک دوسرے کے شمار یاتی حقائق کو سرے سے جھٹلائیں
تو ہم ان کے نظریوں کو علمی تحقیق کے ہم پلہ کیسے سمجھ سکتے ہیں؟
وہ ایک بات پر متفق ہیں
ڈاکٹر مامیرسن کے قول کے مطابق یہاں بھی دماغی حفظان صحت کے تمام پروگراموں کی طرح سماج کی بدعنوانیوں
غلیظ اور گھنی آبادی کی سماجی خرابیوں اور بے روز گاری سے دو چار ہونا پڑے گا
مختصراً یہ کہ شراب خوری کے مسئلے کو اچھی طرح سمجھنے
اور اس پر قابو پانے سے پہلے معاشرے کی نفسانی بیماریوں کے علم پر ایمانداری سے عبور حاصل کرنا ہو گا
اور ڈاکٹر روسٹان صرف یہ کہنے پر اکتفا کرتے ہیں
کہ شراب خوری ایک عوامی مسئلہ ہے
آج کل علم حقائق کی بجائے ترقی پسندانہ گپ کا رجحان عام ہے
اور اصل صورت حال کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی
اس قسم کی سطحی دلیلوں کا مقصد حقیقت سے گریز کے سوا کچھ نہیں
جہاں تک شراب کی تحقیق کا تعلق ہے
اس برعظیم کے اکثر مقبول عام رسالے شراب نوشی کی نازک صورت حال کو چھپانے کے لیے محققین کے حوالے دیتے چلے آ رہے ہیں
ان رسالوں میں شراب کشید کرنے والوں کے اشتہارات جتنی زیادہ تعداد میں چھپتے ہیں
اسی قدر وہ شراب کے مسئلے انداز سے پیش کرتے ہیں
لیکن یہ امر باعث مسرت ہے
کہ حفظان الکحل کی قومی کمیٹی کے ناظم ڈائرکٹر ڈاکٹر آر’دی سلیگر
اور میری لینڈ کے ہارم لوج سینے ٹوریم کی ناظمہ وکٹوریہ کرنیفورڈ نے اپنے حالیہ بیانات میں حقائق سے گریز کرنے کی کوشش نہیں کی
انہوں نے امریکی میڈیکل ایسوی ایشن کے جرنل کے 6 اکتوبر 1945 کے ایشوع میں صاف صاف کہہ دیا کہ
امریکہ میں شراب نوشی ایک خطرناک قومی مسئلہ بن گئی ہے
ان سائنس دانوں کو یقین ہے کہ گزشتہ 25 برس میں کثرت شراب نوشی کا رجحان اس لیے پیدا ہوا ہے
کہ ہمارے موجودہ کلچر نے انسانی جذبات پر حد سے زیادہ دباؤ ڈالا ہے
انہوں نے جرائم پر شراب کے اثرات سے متعلق بحث کرتے ہوئے دعویٰ کیا
کہ ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ سماجی جرائم کا اقدام ایسے لوگ کرتے ہیں
جن کی شخصیتیں کمزور اور نامکمل ہوتی ہیں
جو جذباتی اور متلون مزاج ہوتے ہیں
جو ماحول کے ساتھ مطابقت پیدا نہیں کر سکتے
یا جو ذہنی انتشار اور مایوسی کا شکار ہوتے ہیں
بسا اوقات شراب نوش حضرات بھی سماجی جرائم کے مرتکب پائے گئے ہیں
اور ان کی عادت شراب نوشی اس امر کی دلیل ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنے ماحول کے مطابق ٹھیک طرح نہیں ڈھال سکتے
اور اس کے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتے
ان کے خیال میں جرائم کا سبب شراب نہیں چونکہ اعتدال سے زیادہ پی لینے سے قوت فیصلہ اور ضبط نفس عارضی طور پر کمزور ہو جاتا ہے
اس لیے نشے کی حالت میں مجرمانہ حرکات کے سرز د ہونے کا امکان ہے
وہ عادی شراب نوشوں کو ایک الگ طبقہ قرار دیتے ہیں
اور انہیں مندرجہ ذیل چھ اقسام میں تقسیم کرتے ہیں
1 ۔ جو لوگ جسمانی کمزوری کے سبب زندگی کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے ناقابل ہیں
اور شراب نوشی کے علاوہ دوسری بدعادتوں میں مبتلا ہیں
ایسے شخص انجام کار اخلاقاً بہت زیادہ پست اور سماج میں رہنے کے ناقابل بن جاتے ہیں
انہیں تا عمر دماغی بیماریوں کے ہسپتال میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے
2 ۔ وہ لوگ جو جذباتی اور عقلی اعتبار سے ناقص ہیں
اور نفسانی انتشار او رذہنی اختلال میں مبتلا ہوتے ہیں
اس لیے وہ شراب پی کر زندگی کی تلخیوں سے گریز کرنے کی کوشش کرتے ہیں
3 ۔ وہ شخص جو زندگی کے نا خوشگوار حالات سے دو چار ہونے سے گھبراتے ہیں اور پیتے ہیں
اس صورت حال کا مقابلہ کرنا انہیں پسند نہیں ہوتا وہ اسے برداشت کرنے کی مقدرت نہیں رکھتے
4 ۔ ایسے افراد جو اپنی ذاتی خامیوں، کسی کمزوری کے شعور، جنسی عدم مطابقت اور اسی قسم کی دوسری کمزوریوں کے احساس کو دبانے کے لیے پیتے ہیں
5 ۔ وہ لوگ جسمانی اور روحانی کرب اور تکلیف کو فراموش کرنے کے لیے پیتے ہیں
6 ۔ ایسے افراد جو عادت، وقت اور جسمانی تغیرات کے علاوہ زندگی کے بڑھتے ہوئے
رنج و آلام کے دبائو کو کم کرنے کے لیے عام مجلسوں میں پیتے پیتے شراب کے مستقل عادی ہو جاتے ہیں
اس بیان اور ڈاکٹر مامیرسن کے اس بیان میں مشابہت واضح ہے
لیکن دونوںمیں اختلاف بھی شدید ہے
جہاں تک شراب کی تحریک دلانے والے اسباب کا تعلق ہے
سلیگر اور کرنیفورڈ اس شخصیت کی طرف اشارہ تک نہیں کرتے جسے ڈاکٹر روسٹان نے دروازے کی چٹائی یا بوریا کہا ہے
بلکہ وہ مندرجہ ذیل محرکات گنواتے ہیں
خود فراموشی کے رجحانات یعنی کسی ناشگوار ذہنی حالت کو برداشت نہ کرنے کی عادت کوئی عملی اقدام کئے بغیر ذاتی تمنائوں کی تکمیل کی کوشش
اعتدال سے زیادہ اکساہٹ
اور حیاتی مسرت کی آرزو، فرائض اور ذمہ داریوں سے جی چرانے کی عادت
جس سے خیالی پلاؤ پکانے کی عادت پیدا ہوتی ہے
خود اعتمادی، خود نمائی، راھت اور سکون جیسے لازمی محسوسات جن کو بعض لوگ شراب پی کر وارد کرنا چاہتے ہیں
یہ ماہر اس خیال کی تردید کرتے ہیں کہ مے نوشی ایک توراثی ایک توراثی چیز ہے
کیونکہ اس کا کوئی عمل ثبوت نہیں
لیکن ماہرین امراض نفس مانتے ہیں کہ بعض افراد کے آباؤ اجداد مسلسل شراب پیتے آئے ہوں
تو ان کی قوت مزامت کمزور ہو جاتی ہے
اور وہ آسانی سے شراب کی طرف راغب ہو سکتے ہیں
یہ سب مقولے اور حقائق کافی دلچسپ ہیں
لیکن سلیگر اور کرنیفورڈ کا بیان اپنے نتائج کے باعث بہت ہی اہم ہے
کیونکہ وہ عام ماہرین کی طرح شراب خوری کے معاشرے پر اثرات کا سطحی جائزہ لینے کی بجائے اس کی گہر ائی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں
چنانچہ وہ کہتے ہیں
کہ سماجی اعتبار سے شرابی کو مریض تصور کرنا چاہیئے
اور تعلیم کے ذریعے سے نئے سرے سے رہنے سہنے، جوش اور اکساہٹ کے عمل اور رد عمل، مایوسی ، انتشار کے متعلق نئی عادتیں پیدا کرنے کے قابل بنانا چاہیئے
وہ کسی شرابی عورت یا مرد کے وجود محض کو شرابی مسئلہ نہیں مسئلہ مانتے
بلکہ وہ سماجی پیمانے پر عملی اقدام کی اپیل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں
ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے سماجی ماحول کی تبدیلی یا اصلاح کے پروگرام میں وسیع انسدادی اقدامات کو شامل کریں
تاکہ وہ ذہنی کھنچائو اور پریشانی میں اضافے کے بجائے صحت مند برادرانہ زندگی کے ذریعے قدرے سکون اور تحفظ کا موجب ہو
ہو سکتا ہے کہ یہ بیان ترکیب بندی کے اعتبار سے قدرے گریز خواہ ہو
لیکن یہ ان لاتعداد بیانات سے زیادہ گراں قدر ہے
جو پچھلے دنوں شراب نوشی کے اسباب کے متعلق شائع ہوئے ہیں
اس میں شراب نوشی اور سماجی بدکاری کے دوسرے پہلوئوں کے متعلق وہی بنیادی سوال اٹھایا گیا ہے
جس کا جواب عرصہ ہوا سوویت یونین دے چکا ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ نئی زندگی کا بھر پور سماجی شعور پیدا کرنے کے ساتھ ہی خود سماج میں کس طرح تبدیلی لائی جائے
کہ تمام افراد کو خاطر خواہ تحفظ اور سکون نصیب ہو
۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“