پندرہواں حصہ
۔۔۔۔۔
گناہ اور سائنس
Sin And Sciences
ڈاکٹر موصوف نے پیش گوئی کی:
آئندہ دس سالوں میں نابالغوں میں جرائم عام ہوں گے اور اخلاق اس قدر پست ہو جائے گا کہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملے گی
اس کے ایک ہفتہ بعد شکار گویونیورسٹی میں عمرانیات کے پروفیسر ڈاکٹر ارنسٹ نے بیان دیا
آئندہ چندسالوں میں عجلت کی شادی کا رجحان جو جنگ کے زمانے کا ایک خاصہ ہے
ملک کے لیے ایک حقیقی مصیبت بن جائے گا
معمولی شناسائی، مختصر کورٹ شپ اور اتفاقی ملاقاتوںپر ہی شادیاں ہونے لگیں گی، کیونکہ اکثر نوجوان ازدواجی زندگی کی ان لذتوں کے کسر نکالنے کے لیے بے تاب ہوں گے
جن کے حصول سے وہ لڑائی کے دنوں میں مجبوراً محرام رہے
انہوں نے مزید کہا
اکثر مردوں کی عمر شادی کے وقت بہت زیادہ پختہ ہو چکی ہو گی۔ کیونکہ انہیں جنگ کی وجہ سے کئی سال تک مجرد رہنا پڑا
اگر ایسے ہی طرز عمل کی تکرار ہوئی۔ جیسا کہ گزشتہ جنگ عظیم کے بعد دیکھنے میں آیا تھا تو یہ مرد کمسن لڑکیوں کی طرف مائل ہوجائیں گے
معمر عورتیں شادی کی منڈی میں اپنی نا قدری دیکھ کر مردوں کی فوری حصول کے لیے بلا سوچے سمجھے ہاتھ پائوں ماریں گی، نتیجہ طلاق کی شرح میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا
چونکہ امریکہ میں جنگ سے پہلے طلاق کی اوسط 16 فیصد سے قدرے زیادہ ہی تھی
اس لیے ڈاکٹر موصوف نے اندازہ لگایا کہ مستقبل قریب میں یہ شرح 25 فیصد ہو جائے گی
لیکن وہ ڈاکٹر ایڈ منز کے مقابلے میں قدامت پسند نظر آتے ہیں
جنہوں نے پیش گوئی کی ہے کہ طلاق کی شرح اوسط 40 فیصد ہو گی
شکا گو کے ماہر عمرانیات، یعنی ڈاکٹر ارنسٹ نے ذرا تفصیل میں جا کر بیان کیا:
میدان جنگ سے واپس آکر شادی کرنے والے پانچ سپاہیوں میں سے ایک سپاہی تو بالضر ور عدالت طلاق کا دروازہ کھٹکھٹائے گا
اگر انہیں تجربہ کا ر مشیر نہ ملے اور وہ غیر معمولی طور پر سخت جان ثابت نہ ہوئے تو باقی چار بھی زدد یا بدیر یہ راستہ اختیار کریں گے
مزید 30 فی صد سپاہی پریشانیوں سے بھر پور زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں گے
دس میں سے صرف ایک سپاہی توقع رکھ سکتا ہے کہ وہ شادی کر کے اطمینان کی زندگی گزارے گا
اور یہ سوچا ہی نہیں جاتا کہ ایسی شادیوں ںسے جو بچے پیدا ہوں گے ان کا کیا کیا جائے گا
ہمیں سوویت یونین کو ایک بداخلاق، مادہ پرست قوم کاطعنہ دیتے ہوئے ایک زمانہ بیت گیا ہے
اس دوران میں ہمارے ہاں ازدواجی زندگی جس قدر تباہ ہوئی ہے اور جس قدر اخلاق گرے ہیں
اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی
لیکن اس بھیانک صورت حال کے تدراک کے لیے کوئی منظم کوشش نہیں ہو رہی
ایک طرف تو ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ عیسائی تہذیب کی بنیاد ہی خاندان یا کنبے کے تقدس پر ہے اور دوسری طرف خاموشی سے بداخلاقی اور طلاق کے بے پناہ طوفانوں کے منتظر بیٹھے ہیں
ادھر سوشلسٹ ریاست کا یہ حال ہے کہ وہ خاندان کو نئی اور بلند تر سطح پر لے جانے کی جدوجہد میں متواتر کا میابیاں حاصل کر رہی ہے
کتنے نکتہ چین ایسے ہیں جنہوں نے سوویت یونین کے نئے قوانین تحفظ مادر کا مقابلہ دوسرے ملکوں کے قوانین سے کیا ہے؟
یقینا ایسے ناقدوں کی تعدادبہت ہی تھوڑی ہے
بعض نے یہ کہہ دینا ہی کافی سمجھا ہے کہ یہ قوانین ماں کو اس کا اصل مقام واپس دلاتے ہیں
ہم بتا چکے ہیں کہ کس طرح سوویت یونین میں ایک طویل عرصے تک مائوں کے حفاظتی مرکز کھولے گئے اور وہاں عورتوں کی حالت سدھارنے کے لیے کس طرح انتھک کوششیں کی گئی۔ لیکن ہمارے ہاں کچھ بھی نہیں ہو رہا
ماوں کے تحفظ کے قانون پاس کرنے سے پہلے سوویت یونین نے ان کے لیے ہمہ گیر سرکاری امداد کا بندوبست کیا
چنانچہ معصوم بچوں کے لباس اور خوراک کی سالانہ امداد کی مالیت پندرہ کروڑ ڈالر تھی۔ یہ کوئی زکوٰہ نہ تھی، بلکہ اسے اسی طرح قبول کیا جاتا تھا
جیسے ہم اپنے پبلک سکولوں کی خدمات قبول کرتے ہیں
ماوں کے تحفظ وظائف کی صورت میں بھی امداد دی جاتی تھی
ساتویں بجے کی پیدائش پر یہ وظیفہ چار سو ڈالر سالانہ کے قریب ہو جاتی تھی
اس منصوبے کے تحت لاکھوں خاندانوں کو وظیفے ملتے تھے
مقصد یہ تھا کہ بڑے کنبے عام کنبوں سے مادی استفادے کے اعتبار سے خسارے میں نہ رہیں
نئے قوانین مزید ارتقا کا پتہ دیتے ہیں لیکن ان میں بھی مسلمہ اشتراکی اصولوں سے سر موانحراف نہیں کیا گیا
ان میں ماں کی افضلیت کا اعتراف تین عطیوں کی صورت میں کیا گیا ہے
یہ عطیے تمغوں کی شکل میں دیئے جائیں گے۔ پہلے کا نام میٹرنٹی میڈل’ دوسرے کا آرڈر آف مدر زگلوری اور تیسرے کا نام ہیروئن مدر ہے
پہلا تمغہ درمیانے کنبے کے لیے ہے۔ دوسرا اس سے بڑے کنبے کے لیے اور تیسر اسب سے بڑے کنبے کے لیے ہے
اعلان کیا گیا ہے کہ آئندہ تمام مائوں کے وظیفے برھا دیئے جائیں گے
باقاعدہ مالی امداد اور مفت طبی امداد کے علاوہ ہر حاملہ عورت کو تیسرے بچے کی پیدائش پر اسی ڈالر وظیفہ ملا کرے گا
چوتھے بچے کی پیدائش پر ڈھائی سو ڈالر نقد اور سولہ ڈالر ماہوار اور پانچویں بچے کی پیدائش تین سو چالیس ڈالر نقد اور چوبیس ڈالر ماہوار
غرضیکہ گیارہویں بچے کی پیدائش پر اس کی ماں کو ایک ہزار ڈالر نقد اور ساٹھ ڈالر ماہوار وظیفہ ملا کرے گا
صرف سنجیدہ اخلاقی زاویہ نگاہ کے سبب بلکہ جنگ سے پیدا شدہ حل طلب مسائل کے پیش نظر بھی سوویت یونین کی بن بیاہی لڑکیوں اور بیوہ عورتوں کو زیادہ سے زیادہ مالی امداد دی جاتی ہے
انہیں ہر ماہ سرکاری وظائف کی صورت میں خود بخود امداد پہنچنے لگتی ہے
اور یہ وظیفے 12 سال تک جاری رہتے ہیں اور فی بچہ 20 سے 40 ڈالر کی مالیت کے ہوتے ہیں
نرسریاں اور رہائشی سکول عام ہیں
جہاں ماں اپنے بچے کو جتنا عرصہ چاہے چھوڑ سکتی ہے، بچہ اسی کا رہتا ہے
اس سے چھینا نہیں جا سکتا۔
تمام حاملہ عورتوں کو کام سے 11 ہفتے کی باتنخواہ رخصت ملتی ہے۔پانچ ہفتے بچے کی پیدائش سے پہلے خانہ نشین ہونے کے لیے اور چھ ہفتے بچے کی پیدائش کے بعد تک جنگ کے دوران میں انہیں دگنا راشن ملتا رہا
علاوہ ازیں تمام سوویت یونین میں وسیع پیمانے پر نئی نرسریاں اور کنڈر گارٹن کھولے جائیں گے
بداخلاقی کے انسدادکی جدوجہد اور انسانی فطرت کی اصلاح کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں سوویت یونین کی بے مثال کا میابیاں یہ ہیں:
1 ۔ سوویت یونین میں پہلے اسقاط حمل کو قانوناً جائز قرار دیا گیا اور اس کے بعد سائنسی اقدامات کے ذریعے اس علت کو یکسر ختم کر دیا
2 ۔ جب معاشی، سماجی اورا خلاقی ارتقا نے اسقاط حمل کر حرکت کو نا قابل معافی بنا دیا تو اسے فرد اور سماج کے خلاف ایک جرم قرار دے دیا گیا
3 ۔ پہلے محض درخواست پرطلاق کی اجازت دے دی گئی، اس کے بعد بیس برس کے عرصے میں طلاق کے واقعات تقریباً نا پیدا ہو گے
4 ۔ اب مصالحتی عدالتیں قائم کر دی گئی ہیں۔ تاکہ طلاق کی مصیبت سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا ملے
5۔ جنسی بیماریوں کا قلع قمع کر دیا گیا
6 ۔عصمت فروشی کو سماجی اتفاقات کی سطح تک پہنچا دیا گیا ہے
7 ۔ ماں کے راستے میں جور کاوٹیں تھیں انہیں دور کر دیا گیا
8۔ مردوں اور عورتوں میں عملاً حقیقی مساوات قائم ہو چکی ہے
9۔ سوویت یونین انسانی محبت اور شادی کو ایک ایسی وحدت میں منتقل کرنا چاہتا ہے جو اخلاقیات کے نئے شریفانہ شعور پر مبنی ہو گی اور دنیاوی وروحانی جبر سے آزاد ہو گی
عرصہ ہوا کہ کارل مارکس کے زندگی بھر کے ساتھی، سوشلسٹ فلسفی فریڈرک انیگلس نے پیش گوئی کی تھی
رفتہ رفتہ ایک نئی انسانی نسل معرض وجود میں آئے گی، یہ ایسے مردوں پر مشتمل ہو گی
جنہیں زندگی بھر میں پتہ نہیں چلا ہو گا کہ روپے یا کسی دوسری سماجی طاقت کے ذریعے سے کسی عورت کی سپرد گی خریدنے کے کیا معنی ہیں
اور یہ نسل ایسی عورتوں پر مشتمل ہو گی جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی نہ جانا ہو گا کہ محبت کے علاوہ کسی دوسرے خیال سے اپنے آپ کسی مرد کے سپرد کرنے کے کیا معنی ہیں
اور یہ پیش گوئی آج سچ ثابت ہو گئی ہے
شراب کی ممانعت سنگینوں کے بل پر
اب تک ہمارے بحث صرف ایسے مسائل تک محدود رہی ہے
جن کا تعلق جنسی بے رہروی سے براہ راست تھا
لیکن بداخلاقی کے اور بھی مظہر ہیں اور ہم نے ابتدا میں سماج کے لیے مضر بدکرداریوں کا ذکر بھی کیا ہے
اس کے باوجود اکثر قاریوں کو ہماری خطرناک فرد گذاشت کا احساس ہو گیا ہو گا
جس کی طرف ہم نے کہیں کہیں اشارہ کرنے پر کفایت کی ہے۔ ہمارے دہ فرو گذاشت نشہ بازی، بدکاری کا وہ محرک شراب ہے
نشہ بازی ایک سماجی مسئلہ ہے، شراب نوشی، بداخلاقی کا ایک جزو اور نشہ بازی کی عادت کی ایک صورت ہے
جسے کوئی گناہ تصور کرے یا نہ کرے اس کا نتیجہ سماج کے لیے ہمیشہ خطرناک اور نقصان دہ ہوتا ہے
شراب کے حق میں یا اس کے خلاف ازل سے بحث چلی آتی ہے
اور ہمارا ارادہ اس بحث میں نئی یا پرانی دلیلوں کا اضافہ کرنا نہیں ہے
کیونکہ سوویت یونین میں دونوں قسم کی دلیلوں کا جواب سائنسی اور عملی طریقے سے دیا جا چکا ہے
اور انہیں سچ ثابت کیا جا چکا ہے یا جھٹلایا جاچکا ہے
اور اب ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہاں شراب کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا چکا ہے
کیونکہ اسے عصمت فروشی اور بدمعاشی کے ساتھ ہی حل کیا جاچکا ہے
لیکن پھر بھی کوئی صاحب سوال اٹھا سکتے ہیں کہ آیا شراب نوشی واقعی کوئی مسئلہ ہے
سوویت یونین میں بیس سال پہلے اورہمارے ملکوں میں آج تک شراب نوشی ایک ایسا محرک تھا
لیکن پھر بھی کوئی صاحب سوال اٹھا سکتے ہیں
کہ آیا شراب نوشی کوئی مسئلہ ہے
سوویت یونین میں بیس سال پہلے اور ہمارے ملکوں میں آج تک شراب نوشی ایک ایسا محرک تھا
اور ہے جس کے ذریعے بدمعاشی اورجنسی بیماری پھیلتی ہے
ہمارے اس دعویٰ کی تصدیق ہر ایماندار پادری، پولیس افسر، ڈاکٹر، محکمہ صحت عامہ کا افسر اور رضا کار کرے گا
گناہ کا سوال اٹھایا بھی نہ جائے ، تو بھی یہ ایک مسلمہ امر ہے
کہ اکثر مرد عورتیں اور نوجوان شراب کے نفسانی محرکات سے اثر پذیر ہوتے ہیں، جن سے ترغیب بدکاری کی قدرتی مزاحمت کا جذبہ بے حد کمزور پڑ جاتا ہے
وضاحت کے لیے یہ مثال دی جا سکتی ہے
کہ پوری طرح اپنے ہوش و حواس میں ہوتے ہوئے کوئی سپاہی یا جہاز شاید ہی کسی طوائف کے پاس جانا پسند کرے گا
نا بالغوں کے جرائم سے متعلق عدالتی کاغذات اس حقیقت کے شاہد ہیں
بہت کم نوجوان نا بالغ لڑکیاں پہلے شراب پیئے بغیر جنسی بد فعلی کی مرتکب ہوئی ہیں
فوجی ڈاکٹروں کا تلخ تجربہ ہے کہ متعدد بار شراب پینے کے اکثر سپاہی اپنی قوت فیصلہ اور فرائض سے اس درجہ غافل اور عاری ہو جاتے ہیں
کہ وہ نہ صرف بری سے بری عورت کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ بلکہ جنسی بیماری سے بچائو کی دوا کو استعمال کرنا بھی بھول جاتے ہیں
فعلیات (علم وظائف الاعضائ) اور نفسیات کے ماہر متفق ہیں
کہ شراب سے تمام قوت مزاحمت ہوا ہو جاتی ہے
تاہم شریفانہ طریقے پر بھی بہت زیادہ شراب پی جاتی ہے
اخلاقی اور سماجی اعتبار سے یہ بھی کوئی کم اہم مسئلہ نہیں
ہارورڈ میڈیکل سکول کے پروفیسر اور مساچوسٹس جنرل ہسپتال کے ماہر اعلیٰ امراض نفسیہ، ڈاکٹر سٹیلنے کوب نے شراب نوشی کے اس طبی پہلو پر بڑی صفائی سے روشنی ڈالی ہے
جس کا جنس اور جرائم سے کوئی تعلق نہیں
ڈاکٹر کوب کا قول ہے کہ اس برعظیم میں ساٹھ لاکھ افراد ذہنی بیماریوں میں اس حد تک مبتلا ہیں کہ وہ ایک طرح ”جنون کے لگ بھگ پہنچے ہوئے ہیں
ان میں پندرہ لاکھ ایسے ہیں کہ وہ نہ شراب سے ہی بناہ کر سکتے ہیں اور نہ اس کے بغیر رہ سکتے ہیں
دوسرے لفظوں میں آج کل ہمارے ہاں تقریباً پندرہ لاکھ افراد پکے شرابی ہیں
درست ہے کہ ان میں سے ابھی تک جنسی اعتبار سے ناکارہ نہیں ہوئے
اور آتشک سے مبرا ہیں تاہم وہ رفتہ رفتہ اپنے آپ کو تباہ کر رہے ہیں
اپنی صلاحیتوں کوختم کر رہے ہیں۔ اپنے گھروں اور عزیزوں کا سکون و مسرت تباہ کر رہے ہیں
اور سماج پر برا اثر ڈال رہے ہیں۔ معاشرتی نقطہ نظر سے ہم ان کی عادت شراب خوری کو بد اخلاقی سے تعبیر کریں گے
سوویت یونین میں جو صورت حال ہے
اس کے متعلق ہمارے ہاں بے حد دلچسپی ظاہر کی گئی ہے
سوویت یونین میں شراب کے مسئلے کے بارے میں ہمارا علم صرف سنی سنائی باتوں تک محدود ہے
وہاں کے حالات کے بارے میں خبریں اکثر متضاد ہوتی ہیں
آج ہم یہ پڑھتے ہیں کہ سرخ فوج کا ایک مشہور کما ن افسر پکا صوفی ہے
وہ مطلقاً شراب نہیں پیتا
اس خبر کو تحریک امتناع کے علمبردار اور رضا کار خاص دلچسپی اور انہماک سے پڑھتے ہیں
لیکن دوسرے ہی دن یہ پڑھ کر وہ چونک جاتے ہیں کہ اس سے بھی دو بڑے اور مشہور جرنیلوں سے اتحادیوں کی کامیابی کی خوشی میں شراب پی
اور یہ کہ ودو کا (آتش ناک روسی برانڈی، اور شراب) سوویت یونین کی سرکاری دعوتوں کے موقعوں پر پیش کی جاتی ہے
لہٰذا یہ حضرات فرض کر لیتے ہیں کہ وہاں شراب نوشی آداب معاشرت کا ایک ایسا مظہر ہے
جسے سوویت حکومت نے فرد کے ضمیر پر چھوڑ رکھا ہے
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کے ماہرین نے، جو شراب نوشی کے مسئلے کے مطالعے میں بری طرح کھوئے ہوئے ہیں
آج تک یہ دریافت کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی کہ سوویت یونین میں شراب کے ساتھ آخر کیا بیتی
صورت حال یوں ہے کہ اشتراکی سائنس دانوں نے بدکاری، عصمت فروشی اور جنسی بیماری کی انسدادی جدوجہد کے دوران میں محسوس کیا
کہ جنسی مسائل اس وقت تک پوری طرح حل نہیں ہو سکتے
جب تک ان کے ساتھ ہی شراب کے مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا
لہٰذا وہ اسی طریقے پر میدان عمل میں کود پڑے جو جنسی بداخلاقی کے خلاف ان کی کامیاب جدوجدہ کاخاصہ تھا
سوویت میں شراب کے انسداد کی جدوجہد سماجی تجربات کی تاریخ کا ایک دلچسپ باب ہے
اس جدوجہد کا آغاز تو ماضی بعید میں ہو چکا تھا
ہزار ہا سال سے روس جانے والے سیاح گواہی دیتے آئے تھے۔ کہ سلطنت زار میں شراب نوشی کی بدعت عام ہے
ہمہ گیر شراب نوشی اور ہمہ گیر جرائم زنا، عصمت دری، آتشز دگی قتل منظم قتل عام
یہ جرائم شاہی محل سے لے کر کسان کے غلیظ جھونپڑے تک زار شاہی روس کے ہر طبقے میں پھیلے ہوئے ہیں
روس کے مشہور ناول نگار ترجنیف رقمطراز ہیں
عام طور سے ایک شہری خود فراموشی تک کفایت کرتا ہے
لیکن ایک پادری کسی مقدس موقعہ پر خوب پیٹ بھر کر پیتا ہے
روس کے کٹر مذہبی لوگ سال بھر میں بے شمار تہوار مناتے تھے
اور عیسائی اور تاروں کی یاد میں بے حد و حساب پیتے تھے
حتیٰ کہ کثرت شراب خوری مذہبی تہواروں کی ایک مستقبل خصوصیت بن گئی تھی
لیکن انقلاب کے بعد صرف پندرہ سال کے عرصے میں یہ صورت حال یکسر بدل گئی
اور امریکہ کے مشہور ڈاکٹر کنگس بری اور نیو شولم یہ اطلاع دینے کے قابل ہو گئے
کہ ہم نے ایک تہوار کے دن بحیرہ سود سے دریائے والگا کے منبع کی طرف دور تک سفر کیا
لیکن ہم نے بہت کم شراب نوشی ہوتے دیکھی، اور کسی فرد کو شراب کے نشے میں بے ہوش نہ پایا
حالانکہ خود جہاز میں اور ہر بندر گاہ بے روک ٹوک شراب بک رہی تھی
اب ہم اس ظاہری تضاد کی اصلیت بیان کریں گے
ہمارے ملکوں میں اصل حقائق کو ابھی تک خفیہ رکھا گیا ہے
آخر کیوں؟
اس لیے کہ وہ اس بات کا ناقابل تردید ثبوت مہیا کرتے ہیں
کہ امتناعی قوانین سے بے نیاز رہتے ہوئے سائنسی اصولو ں سے کام لے کر شرا ب نوشی کی لعنت کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکتا ہے
جو لوگ ہمارے ملکوں میں امتناع کی تحریک چلا رہے ہیں
وہ بھول کر بھی سوویت یونین کا حوالہ نہیں دیتے
شاید وہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ روس نے سو سال سے زیادہ عرصے تک شراب نوشی کے خلاف ہر ممکن طریقے سے وسیع پیمانے پر جدوجہد کی
لیکن ہر بار ناکامی ہوئی
حتیٰ کہ ایک واحد عملی حل تلاش کر لیا گیا
اور اسے آزمایا گیا
یہ آخری طریقہ پہلے تمام طریقوں سے اس لیے افضل ہے کہ یہ کامیاب ہوا
روس میں شراب نوشی پر قابو پانے کی منظم کوششیں 1819 شروع ہوئیں اس وقت تک روس میں ہر جگہ شراب فروشی ہوتی تھی
اور جس کا جی چاہتا تھا یہ بیوپار شروع کر لیتا تھا
ان دنوں امریکہ اور انگلستان میں جوتجاویز پیش ہو رہی تھیں
زار کی حکومت نے سب سے پہلے ان پر عمل کیا اور شراب کی بکری پر سرکاری اجارہ داری قائم کرنے کا فیصلہ کیا
یہ نظام اجارہ داری آٹھ سال تک قائم رہا اور حکومت کے لیے بہت نفع بخش ثابت ہوا
لیکن شراب نوشی پر اس کا کوئی اثر نہ پڑا
اس رفتا روہی رہی
علاوہ ازیں اس سسٹم کا نفاذ بہت دقت طلب تھا اور رشوت ستانی کے سبب جلد ہی بدنام ہو گیا
آخر کار 1926 میں زار روس نے شراب کی تقسیم کا انتظام پرائیویٹ کارپوریشنوں (بڑی کمپنیوں) کے حوالے کر دیا
اور ساتھ ہی شراب کی بکری پر ٹیکس لگا دیا
اس طرح ایک ایسے نظام کی بنیاد پڑی
جو اپنی ابتدائی شکل میں ٹیکس کی بھر مار کے باوجود
شراب کی روز افزوں بکری کے موجودہ نظام سے مشابہ تھا
اور یہی طریقہ ابھی تک بہت سے ملکوں میں رائج ہے
مقصود تھا کہ شراب کو اوسط درجے کے شہری کے لی مہنگی اور ریاست کے لیے منفعت بخش بنا دیا جائے
زار شاہی روس میں شراب پر سرکاری کنٹرول حکومت کے لیے بہت نفع بخش ثابت ہوا
ایسے لوگوں کی جیبوں سے بے شمار روپیہ کھینچا جو ودوکا کی مقدار میں کمی کرنے کی بجائے ضروریات زندگی کو قربان کرنا زیادہ مناسب سمجھتے تھے
لیکن ٹیکس کے بتدریج اضافے پر بھی شراب کی کھپت کم نہ ہوئی
کوئی تیس سال تک شراب نوشی ترقی پر اور سلطنت زار زوال پر رہی
جب حالت بہت خراب ہو گئی تو پادریوں نے وعظ و تلقین اور توبہ کا پر چار شروع کیا
سیاسی اصلاحات کی جو تحریک انیسویں صدی کے وسط میں شروع ہوئی
وہ 1859 میں اپنے عروج پر پہنچی
تو کلیسا نے زار کو شراب کی کشید کے تمام کارخانے بند کرنے پر راضی کر لیا
لیکن زار کی رعیت بھی آخر اسی طرح کے انسان تھے
جیسے دوسرے ملکوں کے لوگ ان پر الٹا رد عمل ہوا
اور جو لوگ محض بیئر (جوکی شراب جو ہلکی ہوتی ہے) پر کفایت کرتے آئے تھے
شراب کو ترک کرنے کے بجائے ودو کا (تیز برانڈی) پینے لگے
تین سال بعد سرکاری کنٹرول کا نیا طریقہ رائج ہوا جس سے ہم سب اچھی طرح آگاہ ہیں
یعنی لائسنس کا طریقہ جاری کر دیا گیا
اور شراب کی پرچون کی دوکانیں گھٹا دی گئیں
زار نے یہ اقدام تحریک امتنا کے لیڈروں کو خوش کرنے کے لیے اٹھایا تھا
اس کے بعد تقریباً تیس سال کے عرصے میں زار کی حکومت شراب کی کشید کے سرکاری اور لائسنس یا فتہ کارخانوں کی تعداد ڈھائی لاکھ سے ایک لاکھ پندرہ ہزار کرنے میں کامیاب ہو گئی
لیکن اس اثنا میں ودو کا کی بکری پہلے سے بھی بڑھ گئی
1846 میں ڈاکٹر سیمیو نووچ الیگز یف امریکہ آئے
یہ انسان دوست ڈاکٹر مشہور مصنف اور فلسفی کونٹ طالسطائی کا گہرا دوست تھا
امریکہ میں ان دنوں جو امتناعی سرگرمیاں جاری تھیں
اسے ان سے روشناس کرایا گیا
اور وہ یہ جذبہ لے کر اپنے وطن واپس گیا کہ وہ روس کے عوام کو رضا کارانہ طور پر شراب چھوڑنے کی تلقین کرے گا
اس نے مشہور امتناع پسند جماعت انتی سیون لیگ کے انداز میں کئی کتابیں لکھیں
اس کی کوشش کا صرف ایک نتیجہ نکلا کہ زار نے ایک قانون کے ذریعے اس قدیم رواج کو جرم قرار دے دیا
جس کے مطابق کارخانہ دار اپنے مزدوروں کو تنخواہ کا ایک حصہ نقدی میں اور دوسرا حصہ ودوکا کی صورت میں ادا کیا کرتے تھے
اس طرح روس کے صنعتی مرکز امریکہ کے قدیم کانوں کے مرکزوں کی طرح مغربیائے گئے
یعنی کارخانہ داروں نے اب کارخانوں کے قریب ہی شراب کی دوکانیں کھول لیں
اور مزدور لوگ اپنی تنخواہ وصول کرتے ہی ان کی نذر کرنے لگے
لیکن بے روک آزاد شراب نوشی کے منفی اثرات صنعتوں سے منافع کی تخفیف کا موجب ثابت ہونے لگے
اس وقت تک روس کے دیسی اور غیر ملکی سرمایہ داروں نے مل کر زار کی وسیع اور زرخیز سلطنت اور لاکھوں مزدوروں کو خوب لوٹنا شروع کر دیا تھا
انہوں نے پیداوار کے جدید اصول رائج کئے مشینی صنعت کے فروغ کے ساتھ مزدوروں کے ہنر اور محنت کی لوٹ کھسوٹ بڑھی
ایک مزارع تو شراب کے نشے میں دھت ہوتے ہوئے بھی اپنے قدامت پرست جاگیر دار کے کھیتوں میں اس کے حسب منشا کام جاری رکھ سکتا تھا
لیکن شراب کی عادت اور اس سے پیدا ہونے والی خرابیاں کارخانہ داری کے نئے نظام کے لیے وبال بن گئیں
لہذا انیسویں صدی کے اختتام پر روس میں امتناع شراب کی طاقتور اور شدید تحریک پیدا ہوئی
اس تحریک کا سرغنہ کلیسا تھا
نہ حکومت بلکہ اس کے پیچھے نئے صنعتی سرمایہ دار تھے
ان جدید سرمایہ داروں کو ڈالر نکولائی گریگو ریف جیسا قابل لیڈر مل گیا
اس نے 1994 میں قاصد امتنا ع کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا
اس کی مہم پوری طرح منظم تھی اس نے شراب کی تجارت میں حکومت کی کثرت شرکت کو بداخلاقی سے تعبیر کیا
اور بتدریج بڑھتے ہوئے ٹیکسوں کی سخت مخالفت کی
ڈاکٹر گر یگوریف نے شراب پر سرکاری کنٹرول کا پردہ تار تار کر دیا
اس کی پروپیگنڈہ مہم کے نئے صنعتی سرمایہ داروں کی بے پناہ مالی امداد حاصل تھی
لیکن یہ مہم بری طرح ناکام رہی
اور حکومت کے ٹیکسوں کی سنگین دیوار سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئی
جب تک زار تحت شاہی پر برا جمان رہا
اس کی آمدنی میں شراب کے ٹیکسوں کی بدولت بالکل اسی طرح اضافہ ہوتا رہا
جس طرح آج کل امریکہ کے ریاستی بجٹ یا مستعمرہ کینیڈا کی آمدنی میں آئے سال اضافہ ہوتا رہا ہے
جہاں سرکاری کنٹرول اور ٹیکسوں کی بھرمار کی بدولت شراب کی کھپت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے
تاہم جو طوفان شراب کے خلاف اٹھا تھا
اسے دبایا نہ جا سکا
1898 میں زار کے اپنے حلقوں میں پھوٹ پڑ گئی
اور زار کا ایک طاقتور چچا زاد بھائی شہزادہ سکندر اس قصیئے میں حکومت کا زبردست مخالف بن گیا
اس نے امیروں وزیروں کو اپنا حامی بنانا شروع کیا اس کے مقاصد کافی حقیقت پسندانہ تھے
وہ ایک امیر جاگیردار تھا
جس نے یہ دریافت کر لیا تھا کہ صوفی مزدور کی طرح صوفی کسان بھی زیادہ مفید اور نفع بخش محنت کش ہے
دوسرے ملکوں میں جو امتناعی مہمیں جاری تھیں
ان کے مطالعے کے بعد اس نے اپنا سارا زور روس میں امتناعی تعلیم پھیلانے پر صرف کر دیا
سب سے پہلے اس نے تمام شراب دشمن گروہوں کو ایک جماعت یعنی انجمن امتناع میں متحد کیا
اس نے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے سرمائے سے انجمن کا خزانہ بھر دیا
جس میں نہ صرف ہزاروں بلکہ لاکھوں روبل اس وقت جمع ہو گئے
جب کہ روبل کی قدر نصف ڈالر کے برابر تھی
اس کے بعد اس نے ہر طرف روپے کا چھٹا دے دیا
اس مہم کا سرچشمہ ماسکو میں الیکس محل امتناع تھا
اس ہیڈ کوارٹر میں تربیت یافتہ کارکنوں کا ایک بڑا عملہ تھا
جس نے دنیا میں سب سے پہلے امتناعی تعلیم کے سائنسی مرکزوں کا منصوبہ بنایا اور تعلیمی مہم کا آغاز کر دیا
انہوں نے ایک دوسری عمارت میں ہزاروں کتابوں پر مشتمل ایک کتب خانہ کھولا
کیمیائی اور وظائف اعضاء کے معائنے کی تجربہ گاہیں کھولیں
جن کا عملہ بہترین ماہرین فن پر مشتمل تھا
انہوں نے تنخواہ وار محقق، اہل قلم مقرر اور استاد رکھے
یہ تھا ہمارے ہاں جدید تحقیقاتی مرکزوں کا باوا
اس کی مثال یصیل یونیورسٹی میں تجزیہ شراب کا سکول ہے جو حال ہی میں قائم ہوا ہے
جس کا عملہ مشہور ڈاکٹروں ماہرین فعلیات و نفسیات
ماہرین عمرانیات، قانون دانوں اور پادریوں پر مشتمل ہے
جو بڑے انہماک سے یہ تحقیق کرنے میں مصروف ہیں کہ شراب انسانی دماغ، جسم اور سماجی تعلقات پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے
گویا یہ پروفیسر صاحبان کسی شرابی باپ کے لڑکے سے تمام ضروری باتیں دریافت نہیں کر سکتے
شہزادہ سکندر کی انجمن امتناع نے حقائق اور قیاسات دونوں قسم کے مواد کا کافی ذخیرہ جمع کر لیا
اور اس نے وہ کچھ کر دکھایا
جس کے متعلق ییل کا سکول ابھی تک منصوبہ ہی نہیں بنا سکا
یعنی اس نے یہ تمام چیزیں نہایت دل کش انداز میں لاکھوں عوام تک پہنچا دیں
شہزادے نے اپنی تعلیمی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر جاری رکھیں
اس نے اس مقصد کے لیے پارک ، باغات ہر عمر کے افراد کی تفریح گاہیں عظیم الشان ریستوران، تماشا گاہیں
تھیٹر غرضیکہ ہر موقع اور مقام کو استعمال کیا
ان میں سے اکثر ادارے مفت چلائے گئے اور جب تک وہ چالو رہے نہایت مقبول عام رہے
حالانکہ وہ شراب کا قطرہ تک مہیا نہ کیا تھا
وہاں باقاعدہ وقفوں کے بعد شوقین اور کچھ سننے کے لیے بے قرار مجمع کو ہوشیار مقرر خطاب کرتے
اور شراب نوشی کی اصلیت سے انہیں باخبر کرتے
1903 اس مہم کے عروج کا سال تھا
اس پر صرف ماسکو شہر میں پچیس لاکھ ڈالر صرف ہوئے
شہزادے کی انجمن امتنا ع روس کے طول و عرض میںتین سوستر امتناعی تھیٹر چلاتی تھی
اب خرچ کا انداڑہ لگا لیجئے
نتیجہ؟ وہی ڈھاک کے تین پات
امتناعی سرگرمیوں کی مخالفت 1905 میں نقطہ عروج پر پہنچ گئی
اس سال جب کہ سیاسی دبائو ناقابل برداشت ہو رہا تھا
روس کا ایک مشہور و معروف اور جابر رئیس ڈیوک اعظم سرگش جو ماسکو کا گورنر جنرل اور زار وقت کا چچا تھا
انجمن امتناع میں شریک ہو گیا
وہ اپنے ساتھ شاہی خاندان دوسرے افراد کو بھی اس تحریک میں لایا
ان میں زار وقت کا ایک دوسرا چچا ڈیوک اعظم کونس ٹینیٹسن بھی تھا
اس نے ایک نام نہاد تنظیم، کل روس عیسائی مزدور یونین قائم کی
اور اس کی صدارت خود سنبھالی
وہ شراب کی مکمل بندش کا حامی تھا
اس پروگرام سے زیادہ با اثر اور عمدہ پروگرام ذہن میں نہیں آ سکتا
لیکن اس تحریک کا اور اس کے ساتھ ہی محنت کشوں کی بڑھتی ہوئی لوٹ کھسوٹ کا عوامی رد عمل اس وقت اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گیا
جب کہ کسی نے ڈیوک اعظم سرگس کی گود میں ایک اعلیٰ ساخت کا بمب اٹھا پھینکا
تشدد کے اس توقع کے ساتھ ہی ڈیوک اور اس کی مہم تاریخ کے ہمپٹی ڈمپٹی کرداروں دبچوں کی پوری کے کردار
جن میں انڈے کا نام ہپٹی ہے کی گود میں جا سوئی
اور اس طرح دبی کہ دوبارہ ابھر نہ سکی
تمام واعظ اور وعظ اور شراب نوشی کے متعلق حقائق اور اعداد وشمار اس طرح منتشر ہوئے کہ ان کو پھر کبھی جمع نہ کیا جا سکا
اس سلسلے میں سب سے زیادہ دلچسپ اور قابل غور بات یہ ہے
کہ کس طرح شراب کی اجارہ داری اس امتناعی مہم کی مکمل نا کامی کا باعث ہوئی
جب حکومت نے 1894 میں شراب کی فروخت خود سنبھالی تھی
تو پادریوں نے شراب کی نئی سرکاری دکانوں کی کامیابی کے لیے دعا کی تھی
اور سرکردہ امرائ، وزرا ء اور صنعتی سرمایہ داروں نے یوم افتتاح پر شراب سپلائی کرنے کے ٹھیکے، شراب کی پرچون پر سرکاری اجارہ داری جو کینیڈا کے رائج الوقت نظام سے مشابہ ہے
قائم ہونے کے پندرہ سال بعد قانونی طور پر جائز ودو کی کھپت ایک کروڑ چالیس لاکھ گیلن سالانہ سے پچیس کروڑ گیلن سالانہ ہو گئی
1904 سے 1913 کے درمیان شراب کی بکری سے حکومت کو پانچ ارب روبل منافع ہوا
بادی نظریہ میں یہ رقم معمولی ہے۔ لیکن اس کا حکومت کی کل آمدنی سے مقابلہ کیا جائے تو اصلیت واضح ہو جاتی ہے اس اثنا میں حکومت کی کل آمدنی بیس ارب تھی
یعنی اکیلی شراب سے حاصل ہونے والا منافع کل آمدنی کا ایک چوتھائی تھا
اور یہ حقیقت ہے
یہ پہلی جنگ عظیم کے آغاز پربھی زار کی حکومت کو اپنی کل آمدنی کا چوتھا حصہ صرف شراب کی بکری کے منافع سے حاصل ہوتا تھا
اس صورت حال کا موازنہ کینیڈا سے کیا جا سکتا ہے جس کے بعض صوبے کئی سال سے اپنے بجٹوں کو زیادہ تر مختلف کی شراب کی بکری سے حاصل شدہ منافعوں کے بل پر متوازن بنا رہے ہیں
روس میں امتناعی تعلیم کی وسیع مہم اور شراب پر سرکاری کنٹرول کے وقت سے لے کر
1914 تک ودو کا کی کھپت پہلے سے پانچ گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا
اور شراب پینے والوں کی جیبوں سے ٹیکس میں جانے والی رقم دن بدن بڑھتی گئی
لیکن شراب کے خلاف جدوجہد جاری رہی
اس اثنا میں ایک نئی تنظیم یعنی سکولوں میں امتناع شراب کی جدوجہد کرنے والی انجمن کی بنیاد پڑی
پہلی جنگ عظیم سے پہلے جس شدت سے روس شراب نوشی کی مصیبت میں مبتلا تھا
اس کی مثال دینا کے کسی ملک میں نہ ملتی تھی
اس سوسائٹی نے سلطنت کے طول و عرض کا دورہ کیا اور اصل صورت حال کے متعلق اعداد وشمار جمع کئے
1913 میں وہ ایسے حقائق شائع کرنے میں کامیاب ہو گئی
جن کی اجازت زار شاہی کے محکمہ احتساب (سنسر) نے دی مثال کے طور پر اسی فی صدی سے زیادہ نوجوان روسی طلبہ
اور ساٹھ فی صد سے زیادہ روسی لڑکیاں ودوکا کی عادی تھیں
ایک تعلیمی ضلع میں طلبہ کی کل تعداد پانچ ہزار سات سو تھی
سوسائٹی کے کارکن اس ضلع میں حالات کا جائزہ لینے کی غرض سے گئے
اور ڈھائی ہزار ایسے طلب سے ہم کلام ہوئے جو شراب کے نشے میں دھت تھے
یا جنہوں نے اعتدال پی رکھی تھی
کارخانہ داروں کے دبائو پر ماسکو کی بلدیہ تحقیقات کی اور معلوم ہوا
کہ ماسکو کے بالغ باشندوں میں نوے فیصد نہایت تیز شراب پینے کے عادی تھے
نوبت رفتہ رفتہ ہی یہاں تک پہنچی تھی
شاہی مشیر نکولس ڈی کریمر کو امتناعی مہم کا کھوکھلا پن پہلے ہی نظر آ گیا تھا
اس نے 1906 میں زار کے سامنے جو رپورٹ پیش کی تھی اس میں کہہ دیا تھا
کہ یہ خیال غلط ہے کہ لوگ تفریحی سرگرمیوں کی بدولت شراب پینا چھوڑ دیں گے
یا تھیٹروں اور پارکوں میں ڈرامے اور تقریریں کرنے سے شراب نوشی کا انسداد ممکن ہے
لیکن خود ڈیمی کریمر کی تجاویز بے معنی اور ناکارہ سی تھیں
اس کے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی کہ انجمن امتاع کے وسیع پراپیگندائی ادب کو ہمارے ملک کی طرح صرف وہی لوگ پڑھتے اور اثر لیتے تھے
جو خود شراب نہیں پیتے اور پکے پرہیز گار تھے
شراب نوش حضرات ایسے ادب کو ہاتھ نہ لگاتے تھے او وہ شہزادہ اسکندر کی تفریح گاہوں میں مفت جی بہلاتے تھے
اس طرح جو روپیہ بچاتے اس سے ودو کا خرید کر پیتے تھے
1910 میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ امتناعی مہم کی خیر و برکت سے شراب کی کھپت اور بڑھ گئی
اور اس مہم کی جتنی کمیٹیاں تھیں ان میں سے فی کمیٹی نو کے حساب سے سرکاری ٹھیکے چل نکلے
تاہم ناکامی اور مایوسی کے باوجود امتناعی تنظیمیں اس بدعت کے خاتمے پر غور کرنے کے لیے ایک کل روس اجتماع بلانے میں کامیاب ہو گئیں
اس اجتماع میں ٹریڈ یونینیوں نے بھی شرکت کی اور انہوں نے شراب نوشی سے پیدا ہونے والے سماجی اور معاشی مسائل اٹھا لیے
انہوں نے ڈومار زار روس کی پارلیمنٹ میں دبائو ڈالا کہ سرکاری ٹھیکوں کے اوقات فروخت کو قانوناً محدود کیا جائے
لیکن اس کا نگرس کے انعقاد سے جو نتیجہ نکلا وہ صرف یہ تھا کہ پارلیمان میں ایک بل پیش ہوا جس میں ودوکا میں نشے کی نسبت پچاس سے سنتیس فیصد کرنے کی سفارش کی گئی تھی
لیکن یہ بل بھی قانون نہ بن سکا
اس کے چار سال بعد یعنی 1914 میں زار شاہی ریاست کے لیے شراب کا مسئلہ ہنگامی صورت اختیار کر گیا
شاہی حکومت نے انگلستان اور فرانس کے ساتھ فوجی اتحاد کی پالیسی مرتب کی تھی
لہٰذا لاکھوں سپاہیوں کو جدید ترین اسلحہ جنگ سے لیس کرنے کا مسئلہ در پیش ہوا
اور زار رو س کو صنعتی سرمایہ داروں سے سمجھوتہ کئے بغیر نہ بن پڑی
لیکن شراب کے سلسلہ میں سرمایہ دار اپنی ضد پر اڑے ہوئے تھے
ان کا مطالبہ تھا کہ حکومت شراب پر ٹیکس کم کر کے کسی اور ذریعے سے بجٹ کو متوازن بنائے
اور ودوکا کی بکری کو حتی الوسع گھٹائے
لہٰذا 1914 میں زار نے اعلان کیا کہ شراب پر مزید ٹیکس نہیں لگائے جائیں
اور ان مقدار میں اضافہ بھی نہ کیا جائے گا اسی سال مشرقی محاذ پر جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے
مورچوں میں شراب نوشی جاری رہنے سے کوئی نقصان نہ تھا
لیکن کارخانوں اور دیہات میں اس کا بہت برا نتیجہ نکلا
کیونکہ پیداوار خاطر خواہ نہ ہو سکی اس لیے سرمایہ داروں نے زار روس کو الٹی میٹم دے دیا
آخر کار شراب کی خرابی کا آخری لمحہ آ پہنچا
زار نے ڈرامائی اور جابرانہ انداز سے تمام روس میں شراب کی جبری اور مکمل بندش کا اعلان کر دیا
شہنشاہ معظم نے فرمایا کہ یکم جولائی 1916 کی صبح سے ودوکا یا بیر کی کشید اور فروخت کو مابدلت کی ذات اقد س کے خلاف سنگین جرم تصور کیا جائے گا
لیکن شراب کی فروخت کے معاملے کو ہر علاقے کے مقامی حکمران کی مرضی اور فیصلے پر چھوڑ دیا گیا
اس فرمان کا اجرا اس قدر خلاف توقع تھا اور اس پر اس قدر شدت اور تکمیل سے عملدر آمد ہوا
کہ ساری قوم سکتے میں آ گئی
پہلی سے کوئی پراپیگنڈا اور کوئی رسم افتتاح ادا نہ کی گئی تھی
لہٰذا عوام اس سخت اقدام کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے سے قاصر رہے
وہ دم بخود تماشائی بنے رہے اور ادھر دہشت آفرین خفیہ پولیس کی رہنمائی میں مسلح سپاہیوں کے دستے ایک ٹھیکے سے دوسرے ٹھیکے پر چھاپہ مارتے
شراب کے تمام ذخیرے کو بدروئو میں بہا دیتے اور دکان پر تالا چڑھا دیتے
جہاں تک کشید گاہوں کا تعلق ہے وہ بالکل مفلوج ہو کر رہ گئیں
بڑے سے بڑے رئیس یا وزیر کی جرأت نہ تھی کہ شاہی فرمان کی مخالفت کرے
مسلح سپاہیوں کے دستوں نے شراب کی ہر بھٹی اور ہر کشید گاہ پر حملہ کیا
تمام ودوکا اور بیر دریائوں میں بہا دیا
اور اس کے آلات کشید کو اس طرح تباہ کر دیا کہ دوبارہ مرمت کے قابل نہ رہے
چند ہفتوں کے اندر زار شاہی میں شراب کی پیدا وار پوری طرح بند ہو گئی
تاریخ میں یہ واحد مثال ہے کہ شراب کا قطعی امتناع اس طریق پر عمل کیا گیا
عوام پر اس کاروائی کا جو رد عمل ہوا ہو گا
وہ کبھی سامنے نہ آ سکا
شراب نوشی کے مخالف اور شرابی دونوں زار کے اس کے اس ہنگامی جبری اور مکمل اقدام پر دم بخود تھے
سولہ کروڑ باشندے خاموش، حیران اور مبہوت رہے
زار روس نے قلم کے ایک ہی جھٹکے سے اپنے مقبوضات میں شراب اور شراب خوری کاصفایا کر دیا تھا
اس سے متاثر ہو کر امریکہ میں اٹھارہویں ترمیم کے لیے زبردست تحریک پیدا ہوئی
روس کی بدرروئوں میں لاکھوں، کروڑوں گیلن شیطانی یعنی شراب کے بہائو کے تصور پر بعض مبصرین خوشی سے دیوانے ہو گئے
انہیں پراپیگنڈے کے لیے زبردست مواد مل گیا
زار روس نے کوئی امتنا عی قانون پاس نہ کیا تھا
اس نے چٹکی بجاتے ہی شراب کی جڑ مار دی تھی
اس کی تمام رعایا ڈر کے مارے چپ رہی
1916 کے نصف آخر اور 1917 کے ابتدائی مہینوں میں روس کے باشندوں کو شراب کی شکل تک دیکھنا نصیب نہ ہوئی
لاکھوں نا بالغ لڑکے جو روزانہ چالیس فیصد الکحل آمیز شراب کے پیمانے کے پیمانے پر پیمانے خالی کرنے کے عادی تھے
وہ نالی کے راستے وودکا کے غائب ہو جانے پر کافی صحت مند نظر آنے لگے
گویا یہ امتناع قدرے کامیاب رہا
اور یہ امتناع دراصل کل نو مہینے تک کامیاب رہا
جو عادت عارضی طور پر دب گئی تھی
وہ نومہینے کے بعد اچانک لاوے کی طرح پھر اچانک پھوٹ پڑی
روس کے لاکھوں انسانوں میں ناقابل برداشت پیاس بھڑک اٹھی
ادھر میدان جنگ میں روسی فوجوں کے ٹکڑے اڑ رہے تھے
ادھر روس پر بھوک اور بیماری کے بادل چھا گئے
تمام سلطنت میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی
ہر شخص فرار کا متمنی نظر آنے لگا
پراگندہ خیالات متحدہ طور پر بوتل پر جا ٹھہرے
اور انہوں نے بوتل کو پیدا کر لیا
جس سرعت سے زار نے بندش کا فرمان جاری کیا تھا اسی سرعت سے روس دوبارہ وودکا میں ڈوب گیا
شراب خانہ ساز یعنی دیسی شراب اور اس کی ناجائز فروخت کا دور آیا
کسانوں نے غلے کی جگہ آلو بوئے، میلے کچیلے ، ہر صاف نا صاف طریقے سے ان کا خمیر اٹھایا
اور شراب قطرہ بہ قطرہ ٹپکنے لگی
جو علاقے جرمن حملہ آوروں کی زد میں پڑتے تھے وہاں کے کسانوں نے غلے کے ذخیروں کو شراب میں تبدیل کر دیا
اور بڑی آسانی سے روپیہ اکٹھا کر لائے
اس دیسی شراب کو تیار ہوتے دیر لگتی تھی
لیکن شہریوں اور سپاہیوں میں آنکھ جھپکتے میں کھپ جاتی تھی
جو کچھ امریکہ میں شراب خانہ ساز کے دور میں ہوا تھا
وہ روس والوں کی ادنیٰ سرگرمیوں کی گرد کو بھی نہیں پہنچتا
زار کی سلطنت چند مہینوں میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک ناجائز شراب میں تیر رہی تھی
یہ شراب کافی حد تک زہر ناک تھی
اور اکثر مہلک ثابت ہوتی تھی
لاکھوں ردسیوں نے اپنے تلخ تجربے سے یہ سبق سیکھا
کہ خالص شراب چند آدمیوں کے لیے مضر تھی مگر شراب خانہ ساز جو طبی نگرانی سے بے نیاز تھی
زود یا بدیر مضبوط سے مضبوط جسم کو بھی کھوکھلا کر دے گی
اس قسم کی شراب میں زہر یلا مادہ اس کے نشیلے جزو کی بجائے
ان خارجی کیمیائی اجزا کی ملاوٹ سے پیدا ہوتا ہے جو غلیظ کبات اورخمیر اٹھانے اور کشید کرنے کے ناصاف طریقوں کا خاصہ ہے
اس مکمل امتنا ع کا ایک اور خاص نتیجہ نکلا چونکہ وودکا کھلے بازار میں فروخت نہ کی جا سکتی تھی
اس لیے چاء کی دکانیں اور بدمعاشی کے اڈے خلاف قانون کلال خانوں میں بدل گئے
شراب کی خفیہ فروخت کے پس پردہ ہر قسم کی بدکاری پھلنے پھولنے لگی
حالانکہ شراب کی ناجائز فروخت خرید یا استعمال کے لیے سنگین اور خوفناک سزائیں مقرر تھیں
لیکن سنگدل سے سنگدل پولیس افسر بھی ان سزائوں کو برائے کار لانے کا حوصلہ نہ کر سکا