چودہواں حصہ
۔۔۔۔۔
گناہ اور سائنس
Sin And Sciences
۔۔۔۔۔
میں نے مندرجہ ذیل رپورٹ سوویت یونین کی ایک مشہور وکیل عورت بتیسوفہ سے حاصل کی ہے
جہاں تک حقائق کے قابل اعتبار ہونے کا تعلق ہے ہم یہ فیصلہ قاری کی اپنی عقل سلیم پر چھوڑتے ہی
وہ فرماتی ہیں
سوویت یونین کے قوانین شادی کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے عورت کو قانونی اعتبار سے آزاد کر دیا
اسے مردوں کے برابر حقوق دیئے اور عدم مساوات کے آخری قلعے میں شگاف ڈال دیا
یعنی خاندان میں مساوات پیدا کی جہاں صدیوں پرانے رواج کے مطابق عورتوں کی مظلومیت کو قانونی درجہ مل چکا تھا
اور عورتوں پر ظلم وستم وتشدد روزانہ کا معمول اورایک امر مسلمہ تھا
عورتوں کو مظلومی اور غلامی پر مردانہ قبائلی نظام کے سماجی رشتوں کے پردے پڑے ہوئے تھے
لیکن محض نئے قوانین بنا دینے سے سوویت حکومت کو پرانی شادیوں کے بارے میں جوزار شاہی قوانین کے ماتحت ہوئی تھیں
خود بخود کوئی اختیار حاصل نہیں ہو سکتا تھا
ان شادیوں کوناجائز قرار دینے کے لیے صرف یہ کہنا کافی نہ تھا کہ زار شاہی عہد میں اکثر شادیاں ایسی عورتوں کے ساتھ طے پائی تھیں
جن کو شادی جیسے اہم معاملے میں آزادانہ فیصلہ کرنے کے لیے ضروری ذرائع حاصل تھے، نہ طاقت اور آزادی
جن بنیادوں پرزار شاہی روس کے خاندان قائم تھے
اشتراکی ضابطہ قانون انہیں جائز قرار نہیں دے سکتا تھا
لیکن انہیں محض اس بنا پر توڑابھی نہیں جا سکتا تھا کہ انقلاب سے پہلے جتنی شادیاں ہوئیں وہ بے لوث محبت اور باہمی احترام کے جذبات پر مبنی نہ تھیں
بلکہ مادی مفاد اور بار سوخ رشتہ داروں کے حصول کے پیچیدہ نظام پر قائم تھیں
چونکہ انقلاب اکتوبر کا مقصد انسانوں کے درمیان ہر قسم کے عدم مساوات یعنی انسان کی انسان کے ہاتھوں ہر قسم کی لوٹ کھسوٹ کو ختم کرنا تھا
اس لیے خاندان جیسے اہم حلقہ رشتہ داری کو جوں کا توں کس طرح رہنے دیا جاتا
دسمبر 1917کے قوانین شادی نے خاندان کے متعلق ایک نیا اصول قائم کیا
وہ اصول آزاد انتخاب کا اصول تھا اس اصول کے ساتھ ہی یہ اعلاج کیا گیا کہ آج سے سوویت یونین کا ہر کنبہ محبت، باہمی احترام اور مرد وعورت کی مساوات پر قائم کیا جائے گا
ظاہر ہے ایسا کرنے کے لیے ضروری تھا کہ اشتراکی قانون وہ پابندیاں ہمیشہ کے لیے اٹھا دے جو طلاق کے رستے میں حائل تھیں
کیونکہ زار شاہی روس میں صرف کلیسا کی مداخلت پر ہی طلاق حاصل کی جا سکتی تھی اور کلیسا نے اس پرنہایت ہی اخلاق سوز پابندیاں عائد کر رکھی تھیں
جن پابندیوں کو روس کی نئی عورت اخلاق سوز کہتی ہے
وہ ہو بہو ویسی ہی ہیں جیسی کہ آج روس کے باہر اکثر ملکوں میں عائد ہیں
قصہ کو تاہ ہمارے ہاں کے اکثر قوانین طلاق کی طرح زار شاہی کے زمانے کے قوانین طلاق کی رو سے بھی طلاق صرف اسی صورت میں دی جاتی تھی جب کہ گواہ یہ ثابت کر دیں کہ مرد یا عورت نے زنا کا ارتکاب کیا ہے
اپنی دلیل کے ثبوت میں بیلسوفہ نے ان المیوں کا حوالہ دیا
جنہیں طالسطائی نے اپنے ناول ”اینا کرنینا” اور ”زندہ لاش” میں پیش کیا ہے
یہ ناول اس حقیقت کے آئینہ دار ہیں کہ قانون کی تلاش کے تلے انسانی تعلقات اور احساسات بری طرح پامال اور مردہ ہوتے جا رہے تھے
1917کے قانون طلاق کی پہلی طلاق کی پہلی دفعہ کے مطابق ایک فریق یا دونوں فریقوں کی درخواست پر شادی منسوخ کی جا سکتی ہے
دوسری دفعہ بھی اسی طرح انقلاب پسندانہ تھی
اس کے مطابق تنسیخ شادی (طلاق) کسی عدالتی کاروائی کے بغیر محض رجسٹرار کے دفتر میں دراخوشت دینے سے حاصل کی جا سکتی تھی
تاہم موصوفہ اس بات کا اعتراف کرتی ہیں
کہ ”اس میں شک نہیں کہ اس قانونی رعایت کا ناجائز استعمال بھی ہوا
بعض ایسے لوگ جو اخلاق سے قطعاً عاری تھے انہوں نے محض ہوس پرستی کے لیے متعدد عورتوں سے نکاح کئے
اور سوویت یونین کے قوانین طلاق کے جمہوریت دوست اصولوں کو نام نہاد ”آزاد محبت” کے نظریے کے حامیوں نے غلط معنی پہنائے
انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ قانون ہمارے اس دعویٰ کا ثبوت ہیں کہ خاندان غیر ضروری چیز ہے کیونکہ یہ انفرادی آزادی کو ختم کر دیتا ہے
لیکن اس کے باوجود 1917کے قانون طلاق کی اشد ضرورت تھی اور وہ بے حد مفید ثابت ہوا
اس نے رشتہ شادی کو عورت کی غلامی اور خاندان میںعدم مساوات کا ذریعہ بنانے کے امکان کوہمیشہ کے لیے ختم کر دیا
رکاوٹوں کو پھاند جانے کا پکاارادہ کرنا تھا
یہ جدوجہد ایک مشکل اور پیچیدہ ترین نفسیاتی جدوجہد تھی او ریہ اس حقیقت کے پیش نظر اور بھی دشوار تھی کہ روسی عورت کے سامنے کوئی مثال نہ تھی
جس سے اسے کچھ مدد ملتی
دنیا میں ایسی کوئی مثالی عورت موجودہ نہ تھی جس میں وہ تمام شخصی اور سماجی خوبیاں موجود ہوں
جن کی بدولت وہ مرد کے ہم پلہ بھی ہو اور اپنے فطرت اوصاف، اپنی نسوانیت، اپنے وقار اور مادرانہ شفقت کو بھی برقرار رکھے ہوئے ہو
کیونکہ یہ اوصاف عورت کی فطرت کا لازمی جزو ہیں
انسانیت کا ماضی نسوانی سیرت کے ایک پہلو کی مثال پیش کرتا تھا اور قدرتاً وہ کسی ایسی عورت کو پیش کرنے سے قاصر تھا۔ جس کا متوازن اور ہمہ گیر ارتقا ہوا ہو
ایسی مثال ماضی کے بجائے مستقبل ہی پیدا کر سکتا تھا
یہ قانون دان خاتون اس عہد کے ابتدائی دنوں کی تصویرنہایت بے باکی اور وضاحت سے پیش کرتی ہیں
جب کہ عورتوں نے نئے قوانین طلاق کو ذہنی طور پر قبول کر کے اپنے آپ کو ان کے مطابق ڈھالنا شروع کیا
یعنی جس زمانے میں روس میں طلاق اس قدر عام تھی کہ ہمارے ملکوں میں اسے طنزاً ربڑ کی مہر والی طلاق کہا جاتا تھا
اس وقت جو صورت حال تھی اسے وہ ا ن الفاظ میں بیان کرتی ہیں
حالات ایسے تھے کہ عورت کو نئے سماجی مقام تک اٹھانے کے لیے نئے سوویت معاشرے کو صرف اپنے ذرائع سے کام لینا تھا
اور اشتراکی تحقیق محض نظریے تک محدود نہ تھی
بلکہ اسے زندگی کے تجربے سے عملاًنتائج اخذ کرنا تھے
اس لیے بعض اوقات غلطیوں کی صورت میں مردوں اور عورتوں کے لیے ناقابل برداشت ذاتی مصائب پیدا ہو جاتے تھے
خاندانی تعلقات کے بگڑنے اور گھریلو جھگڑنے پیدا ہو جانے سے یہ مسئلہ اور بھی پیچیدہ اور دشوار بن جاتا تھا
لیکن پنجسالہ معاشی منصوبوں پر عمل در آمد کے زمانے میں نہایت ہی خوشگوار تغیر رونما ہوا
لاکھوں عورتوں نے صنعت، ہوا بازی، سائنس، انجنیئر نگ اور آرٹ میں مہارت حاصل کر کے اپنا معاشی اور ثقافتی معیار بلند کرلیا اور اس عہد میں سب سے زیادہ جہاد نفس عورتوں نے کیا
چنانچہ بیلسوفہ فرماتی ہیں
عورت کے لیے سب سے زیادہ مشکل قربانی یہ تھی کہ اسے اپنے خاندان اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے بہت کم وقت ملتا تھا
اور اسے اپنے گھر اور خاوند کی طرف کم از کم توجہ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ لہٰذا یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ عورت کو اپنے لباس بالوں، چہرے وغیرہ کی آرائش کی فرصت ہی نہ ملتی تھی
1930 اور 1939 کے ہمارے ہاں کے بہت سے ناقدین نے حصول منفعت کی غرض سے سوویت کی سیاحت کی
لیکن ان میں سے کتنے ایسے ہیں جنہوں نے اشتراکی لڑکیوں کے ظاہری فقدان کشش کی وجہ سمجھنے کی کوشش کی اور کتنوں نے یہ محسوس کیا
کہ اشتراکی عورت نے کچھ عرصے کے لیے بنائو سنگھار، بالوں کی آرائش، ناخنوں کی سجاوٹ، فیشنی جوتوں اور دوسرے جوتوں اور دوسرے سامان آرائش کو تمام انسانیت کے بہبود کی مشترکہ جدوجد پر قربان کر دیا تھا
محترمہ بیلسوفہ فرماتی ہیں
روسی عورتوں نے اکثر ضروریات زندگی کو ترک کر کے خوبصورت لباس اور دوسرے آرائشی سامان کی قدرتی نسوانی خواہش کی کم از کم تکمیل اور وقت میں کفایت کر کے بے غرض مشقت کے ذریعے ہزار ہا سال کی ارتقائی کمی کو پورا کیا
اورحقیقی مساوات کی شاہراہ پر گامزن ہو گئیں
حالانکہ ہمارے ہاں اکثر ناقدین سوویت زندگی کو بہت قریب سے دیکھ آئے ہیں
لیکن بھی وہ اس بے ہودہ رائے کا اظہار کرنے سے نہیں شرماتے کہ
اشتراکی لڑکیوں کو معلوم ہی نہیں کہ انہیں کیا درکار ہے
محترمہ بیلسوفہ جواب دیتی ہیں
ہر اشتراکی عورت اس عارضی مگر ضروری محرومی سے باخبر تھی۔ اس نے خوشحالی او رمضبوط گھرانے کی خواہش ماں بننے کی مسرت
محبت کے انسانی جذبات اور شوہر کے ساتھ رفیقانہ تعلقات، آرام اور نسوانی تمنائوں کو کبھی فراموش نہ کیا
تاہم عارضی طور پر ایک عجیب اور غلط رجحان ضرور پیدا ہوا
بعض عورتیں انتہا پسند ہو گئیں
انہوں نے حقیقی مساوات اور ظاہری یکسانیت میں تمیز نہ کی اور عادات و اطوار اور لباس میں مردوں کی تقلید کرنے لگیں
لوگوں نے ایسی عورتوں کو ایک خاص نام سے یاد کرنا شروع کر دیا
جس کا انقلابی عہد کے ابتدائی دشوار ایام میں خوب شہرہ تھا
یعنی انہیں مذاقاً فوجی اشتراکیت کے نمونے کہنے لگے
ظاہر ہے ایسی عورتیں عام مجالس میں زیادہ نمایاں ہوتی تھیں
اور غیر ملکیوں کی نظریں تو خاص طور سے سیدھی انہی پر پڑتی تھیں
لیکن ان کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی
پنجسالہ معاشی منصوبے پر کامیاب عمل در آمد کے دور میں سوویت یونین کا عام معیار زندگی بہت بلند ہوا
اور عورتوں کی حیثیت میں بہت بڑی تبدیلی واقع ہوئی۔ اب اسے اس سوال سے نجات مل گئی کہ وہ گھر کا کام کاج کرے یا ملازمت،
اطمینان سے انفرادی زندگی گزارے یا سماج کی گراں قدر خدمت سرانجام دے؟
اب وہ حسب منشا زندگی بسر کر سکتی تھی
بیلسوفہ کا قول ہے
جس عورت نے اپنی فعالیت اور عملی جدوجہد سے رائے عامہ کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا تھا
کہ وہ بھی ایک کامیاب انجنیئر، ہوا باز، ڈاکٹر، سائنسدان، زرعی فارم کی صدر یا انعامی کار گربن سکتی ہے
اب اس کے سامنے ذاتی فلاح ، بچوں کی پرورش اور تربیت کے بیشمار مواقع تھے
اب اس کی حیثیت مرد کے برابر ہو گئی اور نیا اشتراکی خاندان سن بلوغ کو پہنچ گیا
نیلسوفہ کی زبانی اس نئے دور کی خصوصات یہ ہیں
آج سوویت یونین کی ہر عورت شادی کے فیصلے میں آزاد ہے
اس پر مادی منفعت کا کوئی خیال یا کوئی قانونی یا دوسری ناہمواری اثر انداز نہیں ہو سکتی
وہ اشتراکی برادری کی باوقار اور معزز رکن ہے
وہ اپنی خانہ آبادی اور خاندانی مسرتوں کے انتخاب میں بالکل آزاد ہے
عورت سے متعلق مرد کے زاویہ نگاہ میں بھی مساوی تغیر واقع ہو چکا ہے
عورت کا تمسخر وعجز اور مرد کی خود پسندی یہ دونوں چیزیں جونئے کنبے کو قدیم زار شاہی سے ورثے میں ملی تھیں
اب ہمیشہ کے لیے غائب ہو گئی ہیں
نئے اشتراکی گھرانے کی تعمیر بالکل اچھوتی بنیادوں پر ہو رہی ہے
خاندان کی نئی ساخت اس وقت تک ناممکن تھی
جب تک عورت کو پوری آزادی یعنی مساوات حاصل نہ ہو جاتی
چنانچہ بیلسوفہ کہتی ہیں
آ ج سوویت یونین میں ایسے تمام قانونی اور عملی لوازمات پیدا کئے جا چکے ہیں
جن کے بغیر ایسے خاندان کی تعمیر مشکل ہے
جس کی بنیاد مرد وعورت کے درمیان پر خلوص احساسات محبت، دوستی اور احترام، ہم خیالی اور مزاج کی ہم آہنگی ہو
انسانی خاندان میں اس انقلابی ترقی کے بعد 1917کے قوانین بیکار ہو گئے
جنگ عظیم سے پہلے نہ صرف زار شاہی روس بلکہ ہمارے ملکوں میں بھی خاندان کی تباہی کا دور شروع ہو چکا تھا
اور یہ سلسلہ ہمارے ہاں تو آج تک جاری ہے او ربے شمار گھریلو مسئلے اٹھ کھڑے ہوئے تھے
سوویت یونین میں ان تمام مسائل کو پوری طرح حل کر لیا گیا اور وہاں کے باشندے اب اپنی توجہ بڑے بڑے معاملات کی طرف مبذدل کرنے کے قابل ہو گئے
اب وہ اپنے مستقبل کو شاندار بنانے اور اپنی آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے کوشاں ہو گئے
سوویت حکومت پر شروع سے یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ انسانی خاندان کی تباہی کی خواہاں ہے اور تمام بچوں کو ریاست کے مخافطین کی حیثیت سے پالنا چاہتی ہے
لیکن واقعات نے اس الزام کی تردید کر دی
سوویت یونین نے گزشتہ بیس برس میں خاندانی زندگی کا جونیا اور بلند معیار قائم کیا وہ مرد عورت، زن و شوہر کے تعلقات میں انقلابی تبدیلی کئے بغیر حاصل نہ ہو سکتا تھا
سوویت یونین کے نئے قوانین شادی و خاندان کا مقصد اسی معیار کو پائیدار بنانا ہے
وہاں 8 جولائی 1944 کو جو نئے قوانین پاس ہوئے
ان کے نفاذ پر ہمارے ہاں کے اخباروں میں بڑی سرعت سے سخت قسم کی تبصرہ بازی شروع ہو گئی
لیکن حیرانی کی بات ہے کہ نام نہاد تبصرہ نگاروں نے ان انقلابی تغیرات کی طرف اشارہ کرنے کی زحمت گوارا نہ کی
جو اس س پہلے سوویت خاندان میں رونما ہو چکے تھے
ان قوانین کا اعلان کیا گیا تو روس کے باہر ہر کہیں ادھم مچایا گیا
کہ روس نے اپنی ابتدائی پالیسی کو اچانک اور حیران کن طریقے سے منسوخ کر دیا ہے
بات دراصل یہ تھی کہ 1927 میں سوویت یونین کو بڑی بڑی وفاقی جمہوریتوں میں جنہیں سوشلسٹ فیڈریشن آف سوویت ری پبلکن کہتے ہیں
نہایت ہی اہم قانونی تغیرات رونما ہوئے
یہ نئے قوانین شادی کے متعلق تھے۔ آئیے ان کی نوعیت پر غور کریں۔
ان قوانین نے اس قسم کے انسانی تعلقات کو قانونی شکل دے دی
جیسے ہمارے ہاں قانوناً جائز ہیں
یعنی رسمی شادی کو قانوناً جائز قرار دے دیا گیا
1927 سے پہلے سوویت روس میں صرف وہی شادیاں قانوناً جائز تھیں
جن کا اندراج سرکاری رجسٹر ار خود کرتے تھے
لیکن 1927کے قوانین میں رسمی شادی کو ایک حد تک ناجائز تسلیم کر لیا گیا
اس کے یہ معنی نہیں کہ رسمی شادی کو رجسٹرڈ شادی کے برابر تسلیم کر لیا گیا
شادی کا رجسٹر ہونا اب بھی نکاح کا نا قابل تردید ثبوت تھا
لیکن سماجی اور معاشی بحران کے دور میں جس کا حوالہ ہم پہلے دے چکے ہیں
عورتوں اور بچوں کا مزید قانونی تحفظ لازمی تھا
اس لیے نئے مجموعہ قانون میں اس امر کی وضاحت کی گئی
کہ رسمی شادی کے بعد ازدواجی زندگی کا آغاز کر نے والے مرد اور عورت کو رجسٹرڈ شادی کی شرائط سے بری الذمہ تصور نہیں کیا جائے گا
رسمی شادی کے مندرجہ ذیل عملی ثبوت ہیں
1 . دونوں فریق اکٹھے رہتے ہوں
2 . عام لوگ انہیں شوہر اور بیوی کی حیثیت سے جانتے ہوں
3 . ان کے پاس مشترکہ گھر ہو۔
4 . وہ ابھی تک یا پہلے سے ایک دوسرے کے روٹی کپڑے کا خرچ برداشت کرتے رہے ہوں اور دونوں اپنے بچوں کی پرورش کرتے رہے ہوں
ظاہر ہے اس قانون سے ایسے عورتوں کا تحفظ مقصود تھا
جنہیں غیر ذمہ دار مرد رجسٹرڈ شادی کی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے چھوڑ کر الگ ہو جاتے تھے
کیونکہ ہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ طلاق اگرچہ قانوناً کسی بھی رجسٹریشن آفس سے نہایت ہی کم قیمت پر حاصل کی جا سکتی تھی
لیکن حالات ایسے پیدا ہوگئے تھے
عام لوگ کسی معقول سماجی وجہ کے بغیر طلاق حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے
عام لوگ ان سے سخت نفرت کرنے لگے تھے اور جن افراد کو کئی بار طلاق ہو جاتی تھی
ان کے عزیز اور بزرگ ان کے خلاف سخت کا روائی کرنے لگے تھے
لہٰذا ایسے ماحول میں بعض غیر ذمہ دار افراد میں ناجائز جنسی تعلقات پیدا کرنے کا رجحان پیدا ہو نے لگا تھا اور اس کا تدراک لازمی تھا
1927 کے قانون شادی کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے
کہ ان میں میاں بیوی کی نجی جائداد کا فیصلہ خاص طور سے کیا گیا ہے
آج بہت سے لوگ اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ سوویت حکومت شخصی جائداد کو ختم نہیں کرتی اور نہ وہ ایسا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے
لیکن وہ ایسے اداروں کی شخصی ملکیت کو برداشت نہیں کرتی
جو منافع اندوزی کی غرض سے دوسروں کی محنت کا ناجائز استعمال کرتے ہیں
یعنی سوویت روس میں سرمایہ دارانہ ملکیت کو ختم کیا جاتا ہے
چنانچہ رسمی شادی کے قانون میں میاں بیوی کی تمام نجی جائداد کو دونوں کی مشترکہ ملکیت قرار دے دیا گیا
اور اعلان کر دیا گیا کہ اگر رسمی شادی کے قانون میں میاں بیوی کی تمام نجی جائداد کو دونوں کی مشترکہ ملکیت قرار دے دیا گیا
اور اعلان کر دیا گیا کہ اگر رسمی شادی ٹوٹ جائے تومیاں بیوی کی مشترکہ شخصی جائداد کی مساوی تقسیم
اور بچوں کی پرورش کے انتظام کے لیے عدالتوں کے دروازے کھلے ہیں
علاوہ ازیں یہ بھی قرار پایا کہ اگر فریقین میں سے کوئی ایک کام کرنے کے ناقابل ہو تو دوسرا فریق ازدواجی تعلقات ختم ہوجانے کی صورت میں بھی اس کے روٹی کپڑے کا ذمہ دار ہو گا
ماسکو کے سرکاری وکیل، براندوف کا کہنا ہے کہ 1927 کے قانون کے رو سے رسمی شادی صرف مذکورہ بالا دو شرائط کے اعتبار سے رجسٹرڈ شادی کے برابر ہے
اس قانون میں جائداد کے حق وراثت کو نظر انداز کر دیا گیا
لیکن خاص صورتوں میں عدالت عالیہ وراثت کا فیصلہ بھی کر سکتی تھی۔ اس کے علاوہ باقی دوسرے حقوق کو بھی چھوڑ دیا گیا جو رجسٹرڈ شادی میں واجب ہیں
براندوف کہتے ہیں کہ
البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ سوویت یونین میں چونکہ ساٹھ چھوٹی بڑی قومیں آباد ہیں
اس لیے وہاں کوئی واحد قانون شادی یا دوسرے رسم و رواج سے متعلقہ مسائل کا بیک وقت احاطہ نہیں کر سکتا
لہٰذا بیاہ شادی اور رسم ورواج کے بارے میں قانون بنان کا کام مختلف جمہوریتوں کے اختیار میں ہے
سولہ وفاقی ریاستوں میں سے ہر ایک اپنا الگ ضابطہ قانون رکھتی ہے
تاہم چند قانون ایسے بھی ہیں جن کا اطلاق ملک کے تمام علاقوں پر ہوتا ہے
وہ مثال میں جمہوریہ یوکرین کو پیش کرتے ہیں
جہاں 1927 کا قانون شادی کبھی لاگو نہیں ہوا اور رجسٹرڈ شادی کے علاوہ کسی دوسری شادی کو قانوناً تسلیم نہیں کیا گیا
وہ مزید فرماتے ہیں کہ نہ صرف 1944 کے قوانین کے نفاذ کے وقت سے بلکہ اس سے سترہ سال پہلے بھی سوویت یونین میں رسمی نکاح اور رجسٹرڈ شادی میں خاص امتیاز روا رکھا جاتا تھا
یعنی رجسٹرڈ شادی کو رسمی نکاح پر ترجیح دی جاتی تھی اور اسے افضل مانا جاتا تھا
اس سلسلے میں تمام یونین میں 1944 میں ایک اور خاص قانونی تبدیلی رونما ہوئی جسے ہمارے ہاں کے مبصرین نظر اندز کر جاتے ہیں
اور وہ یہ ہے کہ رسمی نکاح کو اب کسی قسم کی قانونی حمایت حاصل نہیں
اس ترمیم کی وجہ بالکل عام فہم ہے
سوویت یونین میں شادی اور خاندان ترقی کر کے اس درجے تک پہنچ گئے ہیں
کہ عورتوں او ربچوں کے تحفظ کے لیے آفاقی، مسلمہ اور قانونی شادی کے علاوہ کسی دوسرے نکاح کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی
یعنی سوویت سماج میں ارتقائی ہمواری پیدا ہو گئی ہے
تمام معاشرہ ترقی کی ایک ہی سطح پر ہے اس لیے تمام سوویت یونین کے لیے اب ایک ہی قانون کافی ہے
پہلے کی طرح ایک سے زیادہ قوانین کی ضرورت نہیں پڑتی
میں نے سوویت یونین کی اکادمی علم کے ادارہ قانون کے ایک ممبر اور مصنف پروفیسر سورولوف سے مارچ 1945 میں اس سلسلے میں مزید اطلاعات حاصل کیں
انہوں نے مجھے بتایا
سوویت یونین میں رسمی شادی کی تاریخ بڑی سبق آموز ہے
1918 میں قوانین شادی کا جو ضابطہ شائع کیا گیا
اس میں بے قاعدہ ازدواجی رشتوں کو قانونی تحفظ کی ضمانت نہ دی گئی
کیونکہ ایسا کرنے سے خاندان کی بنیاد یں ہل جاتیں
حکومت نے پہلے دن سے ہی خاندان اور اس کے استحکام کی طرف خاص توجہ کی تاکہ پائیدار اور صحت مند خاندان کے قیام کے لیے راستہ ہموار ہو جائے
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر موصوف کا یہ بیان درست ہے تو سوویت یونین نے رسمی شادی کو 1926 میں یعنی آٹھ سال تک اسے تسلیم نہ کرنے کے بعد یکا یک قانوناً جائز کیوں قرار دے دیا
پروفیسر سورولوف فرماتے ہیں
اشتراکی ریاست اور اس کے معاشی نظام کے ارتقا کی ابتدائی منزل میں رسمی شادی کو قانوناً جائز قرار نہ دیاجاتا
تو عورت کے مفاد کو شدید صدمہ پہنچتا
اس وقت عوام کا ثقافتی اور مادی معیار بلند نہ تھا
جنگ کی خوفناک تباہی کے بعد بحالیات کا دور آیا تو افلاس اور بیروز گاری کا مسئلہ بڑی شدومد سے سامنے آیا
ان حالات میں مفلس اور بے کس عورتیں مادی اعتبار سے خوشحال مردوں کے ساتھ رسماً ازدواجی تعلقات قائم کرنے پر مجبور ہوئیں
لہٰذا رسمی شادی میں ہر عورت کے لیے روٹی کپڑے کے ماہوار خرچ اور حق وراثت کا قانوناً تعین نہ کیا جاتا
تو نقصان صرف عورتوں کا تھا
لہٰذا سوویت حکومت اس صورت حال کو عام نہ ہونے دے سکتی تھی
یہ اشتراکی قانون دان مزید فرماتے ہیں
اس کے بعد حالات پہلے سے زیادہ خوشگوار ہو گئے
بے روز گاری ختم ہو گئی
عورتوں کو تعلیم وتربیت اور ملازمت کے مواقع بہم پہنچائے گئے
لاکھوں عورتیں صنعت کار بن گئیں اور انہوں نے ملک کی معاشی، ثقافتی، سماجی اور سیاسی جدوجہد میں کار ہائے نمایاں کئے
روس پر جرمنی کے حملے سے ایک کروڑ 10 لاکھ عورتیں کارخانوں یا دفتروں میں اور ایک کروڑ 90 لاکھ زرعی فارموں میں کام کرتی تھیں
جنگ کے آغاز کے وقت کارخانوں کام کرنے والے افراد کی کل تعداد میں 45 فیصد عورتیں تھیں
علاوہ ازیں عورتوں کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا اور ساتھ ہی حکومت نے ان کی مالی امداد بھی بڑھا دی
بچوں کے لیے نئے سکول، نرسریاں (جہاں نرسیںبچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں)
کنڈر گارٹن (جہاں عملی اسباق کھلونوں، کھیلوں وغیرہ کے ذریعے بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے) اور کریشز دودھ پیتے بچوں کی پرورش کے ادارے کھولے گئے
ان کے علاوہ حکومت نے خاندان کی مادی بہبود کے مختلف اداروں میں اضافہ کیا۔ اس طرح ازدواجی زندگی کا بوجھ بہت ہلکا ہو گیا
پروفیسر سورولوف محترمہ بیلسوفیہ سے اتفاق کرتے ہوئے فرماتے ہیں
اس مادی بنیاد میں سے مرد و عورت، میاں بیوی کے درمیان تعلقات کا تعین کرنے والے نئے محرکات پیدا ہوئے
اب عورتوں کے مفاد کے تحفظ کے لیے قانونی احکامات اوررسمی شادی کی حفاظت ضروری نہ رہی اب کوئی عورت کسی مرد کے ساتھ رسمی نکاح کرتی تو لوگ اس کے رویے شادی اور خاندان کے لیے نقصان دہ تصور کرتے
اور وہ ایساکرنے میں حق بجانب تھے
تسلیم یہ ہمارے لیے واقعی حیرانی کی بات ہے کہ ازدواجی رشتوں کے استحکام اور خاندان کے تحفظ جیسے نازک مسائل کو قانون ساز لوگ حل کر سکتے ہیں
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خود ہمارے ملکوں میں شادی، طلاق، روٹی کپڑے کے خرچ وغیرہ کے قوانین میں تبدیلیاںکرانے کے لیے بے پناہ شور برپا ہے
البتہ اکثر مجوزہ تبدیلیاں قوانین طلاق کو نرم کرنے کے متعلق ہیں
دوسرے لفظوں میں یہ تحریک نرم اور سہل طلاق کے لئے جاری ہے
شادی کے متعلق سوویت یونین اور ہمارے ہاں کے قانونی اقدامات میں جو فرق ہے اس کا تعین اتنا مشکل نہیں
سوویت یونین میں پے بہ پے قانونی تبدیلیاں اس لیے کی گئی ہیں کہ ازدواجی قوانین کو سوویت سماج کے عظیم معاشرتی اور معاشی تغیرات سے ہم آہنگ کر دیا جائے
لیکن ہمارے ہاں قوانین شادی کی تجدید کے مطالبے کا بڑا محرک وہ خیالی نظریہ ہے۔ جسے ترقی پسند وکیل، جج، قانون ساز اور پادری تک ”محبت اور اخلاق کے متعلق نئے زاویہ نگاہ کا نام دیتے ہیں
یعنی یہاں معاشی تبدیلی کے بغیر قانونی تبدیلی کی توقع کی جاتی ہے
علاوہ ازیں سوویت یونین میں عورت کی سماجی حیثیت کے تحفظ استحکام اور انجام کار خود شادی کی پائیداری
یعنی میاں بیوی، بچوں اور تمام خاندانی رشتوں کی استواری کی خاطر قوانین شادی میں ترمیم کی گئی
لیکن ہمارے ہاں قوانین شادی میں ترمیم کا مطالبہ کرتے وقت ایسے مقاصد کا نام تک نہیں لیا جاتا
اور اس کے برعکس قانون طلاق میں ترمیم کے مطالبے کی سخت مخالفت کی جاتی ہے
اور مخالفت میں زیادہ تر ایسے لوگ پیش پیش ہیں جنہیں خدشہ ہے کہ قانون طلاق میں مزید ترمیم ہوگئی
تو ازدواجی زندگی اور خاندان کی جڑیں اور بھی کمزور ہو جائیں گی
یہ حقیقت پسندحضرات بار بار چلاتے ہیں کہ ازدواجی زندگی بہت زیادہ پست اور شادی سے پہلے سے زیادہ نا پائیدار ہو گئی ہے
اور طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے
اس لیے قوانین طلاق پر نظر ثانی کی جائے اور خاندان کی تباہی کا جائزہ لیا جائے
اگر ہم سوویت یونین کے قوانین شادی وخاندان مجریہ 1944 کے بنیادی نکات کو دیکھیں تو حقیقت اور بھی واضح ہو جاتی ہے
اولاجیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں
سوویت یونین میں اب رسمی شادی کو قانوناً تسلیم نہیں کیا جاتا
اس سلسلے میں سوویت یونین نہ صرف قانون بنانے میں بہت سے ملکوں سے آگے ہے۔ بلکہ اس لیے بھی اسے سب پر فوقیت حاصل ہے
کہ وہاں رسمی شادی کے لیے کوئی معاشی اور سماجی وجہ جواز نہیں رہی
ثانیا، سوویت یونین میں اب شادی پہلے کی طرح ایک عام اور سیدھا سادا طریق نکاح نہیں ہے
وہاں آج کل شادی کا خواہش مند جوڑا سب سے پہلے رجسٹر ار کے سامنے پیش ہوتا ہے
اور خلیفہ بیان دیتا ہے
کہ ان کی شادی ہر قسم کے قانونی اعتراض سے مبرا ہے
لڑکا اور لڑکی دونوں شہادت دیتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی تندرستی سے باخبر ہیں
اس کے بعد وہ اپنی تمام پہلی شادیوں (بشرطیکہ ان میں سے کسی نے کوئی کی ہو) کار یکارڈ پیش کرتے ہیں
اس صورت میں رجسٹرار بڑی احتیاط سے کام لیتا ہے
اگر پہلی شادی سے کچھ بچے ہوں تو رجسٹرار کا فرض ہے کہ ان کی پرورش کے انتظام کی تصدیق کرے ورنہ انکار کر دے۔ کہ شادی نہیں ہو سکتی
سوویت یونین کے باشندے حلفیہ بیان کے سلسلے میں بہت سنگین سزا سے متعلق قانون پڑھ کر سنائے
یہ تمام شرطیں پوری ہو جائیں
تب کہیں جا کر درخواست دینے والے جوڑے کی شادی ہوتی ہے
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ سوویت یونین کے قانون شادی کی ایک شق ہمارے ہاں کی بعض مذہبی قیود سے ملتی ہے
اگر چہ وہاں شادی کی درخواست کو سر عام پڑھنے کا رواج نہیں
لیکن جس کسی مرد یا عورت کو شادی کے بارے میں کوئی اعتراض ہوااور اسے اس کا علم ہو جائے تو وہ رجسٹرار کے سامنے پیش ہو سکتا ہے اور شادی کو اس وقت تک رکو ا سکتا ہے
جب تک اس کی شکایت رفع نہ ہو جائے
امریکہ، برطانیہ اورکینیڈا کے لیے سوویت قانون طلاق شاید بہت زیادہ دلچسپی کا باعث ہے
کیونکہ ایک دہریہ قوم نے سہل طلاق کو ختم کر دیا ہے
اور طلاق کے راستے میں بالکل نئی مشکلات حائل کر دی ہیں
دنیا میں صرف سوویت یونین ہی ایک ایسا ملک ہے جو طلاق کو روز بروز آسان بنانے کی بجائے مشکل تر بنا رہا ہے
سوویت یونین میں 1944 سے پہلے کم سے کم خیالی اعتبار سے طلاق اتنا سہل تھا
کہ بس رجسٹرار کے نام درخواست لکھنا اور برائے نام فیس ادا کر دینا کافی تھا
مرد وعورت دونوں میں سے ہر ایک طلاق کی درخواست دے سکتا تھا۔ دوسرے فریق کو محض اطلاع پہنچا دی جاتی تھی
کہ تمہارے ساتھی کو طلاق دے دی گئی ہے
کئی سال تک یہی قاعدہ رہا
لیکن گزشتہ دس سال کے عرصے میں سوویت یونین کے باشندے طلاق کو نہایت بری نظروں سے دیکھنے لگے ہیں
بچوں کی تربیت اور عورت کے ماہوار خرچ کی ذمہ داری کے متعلق قانون پاس ہو ئے تو غیر ذمہ دار قسم کے لوگ ایک ڈاک کے ٹکٹ سی سستی طلاق سے دوسری کا ارادہ کرنے سے پہلے کچھ سوچنے پر مجبور ہوئے
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ باشندوں کا ثقافتی معیار بلند ہوا
اور عورتوں کی حالت پہلے سے سدھر گئی تو اطلاق کی شرح بھی رفتہ رفتہ گھٹ گئی۔
نئے قوانین طلاق کے ذریعے پہلے تمام قوانین کو منسوخ کر دیا گیا
اب طلاق لینے کے لیے مرد اور عورت دونوں کے لیے عدالت میں دراخوست دینا لازمی ہے
اس دراخوست پر تقریباً دو سو ڈالر خرچ اٹھتا ہے
اس کے ساتھ ہی طلاق کی دراخوشت کا نوٹس اخباروں میں شائع کیا جاتا ہے، تاکہ بعد میں کوئی یہ نہ کہہ سے کہ مجھے خبر نہ ہوئی
اس سے اگلا قدم یہ ہے کہ درخواست دینے والا جوڑا عوامی عدالت میں پیش ہوتا ہے
جہاں ان وجوہات طلاق کا پوری طرح تجزیہ کیا جاتا ہے
جو درخواست میں درج ہوتے ہیں اور ان پر جرح ہوتی ہے
ہمارے ہاں کے قانون دان یہ جان کر حیران ہوگے کہ اشتراکی قانون طلاق میں ایک بھی وجہ مذکور نہیں
لہٰذا بعض لوگوں نے خیال کیاکہ یہ قانون محض ڈھکوسلا ہے یہ دفتر شاہی آمریت کا قانون ہے
جسے سٹالن نے اس لیے نافذ کیا ہے کہ آئندہ کوئی طلاق نہ ہو
تاہم اس قانون کی یہ تشریح غلط ثابت ہوچکی ہے
نئے قانون کے ماتحت ہزاروں شادیاں منسوخ ہو چکی ہیں یا ابھی زیر غور ہیں
لیکن طلاق کی شرح 1944 کے پہلے زمانے سے بہت ہی کم ہو گئی ہے
سوویت یونین کے لیے قانون میں طلاق کی کوئی وجہ کیوں درج نہیں؟
جواب بالکل سیدھا سادا ہے
آخر یہ بات قانون سازوں پر کیوں چھوڑی جائے کہ وہ ہمیشہ کے لیے چند وجوہات گھڑ دیں
کہ مرد یاعورت کے لیے ایک ساتھ زندگی گزارنا اس لیے دو بھر ہو جاتا ہے
شادی ٹوٹنے کے بے شمار وجوہات ہو سکتے ہیں
کوئی جھگڑا ایک شادی کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے لیکن دوسری پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑ سکتا
مرد و عورت میں نا اتفاقی کے تمام تر وجوہات قلمبند کرنے کی کوشش کرنا انتہائی مضحکہ خیز بات نہیں تو اور کیا ہے؟
یہ معاملہ کوئی اتنا سہل نہیں کہ شمار کر کے بتا دیا جائے کہ ٹریفک رول کی اتنی مرتبہ خلاف ورزی کی گئی
سوویت قانون سے تو اس اصول کی تصدیق ہوتی ہے کہ صرف مرد اور عورت ہی جان سکتے ہیں کہ ان کے تعلقات کب اور کیوں قائم نہیں رہ سکتے؟
لیکن اس کے معنی یہ بھی نہیں کہ میاں بیوی خود ہی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ان کی شادی منسوخ ہونا بہتر ہے یا نہیں
عوامی عدالت کافرض ہے کہ وہ صورت حالات کا بغور جائزہ لے
نئے طریقہ طلاق میں یہ اصول کار فرما ہے کہ شادی محض ذاتی معاملہ نہیں
بلکہ اس سے خاندانی اور سماجی ذمہ داریاں بھی وابستہ ہیں۔ عدالت اسی اصول پر عمل کرتی ہے اور گواہوں کے بیانات کو خاص اہمیت دیتی ہے
سوویت یونین میں آج کل اس وقت تک طلاق نہیں مل سکتی
جب تک چند ایسے لوگ شہادت نہ دے دیں جو فریقین کو اچھی طرح جانتے ہوں
اس سے دو باتیں مقصود ہیں۔ پہلی یہ کہ حتی الوسع طلاق کو روکا جائے اسے مشکل بنایا جائے
میاں بیوی پر ان کی سماجی ذمہ داریاں واضح کی جائیں
اور دونوں کو راضی نامہ کرنے کی ترغیب دلائی جائے
دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح عدالت پر مقد مے کی نوعیت اور حقیقت واضح ہو جاتی ہے اور وہ اسی کے مطابق طریق کار اختیار کرتی ہے
لہٰذا اس قانون سے حتی الوسع طلاق کو روکنا مقصود ہے
طلاق سے پہلے میاں بیوی کے لیے عدالت کو یقین دلانا ضروری ہے کہ سمجھوتہ نا ممکن ہے
فیصلہ کرتے وقت امثال و شرائط کا سہارا نہیں لیا جاتا بلکہ مقدمے کی نوعیت وخصوصیت کو سختی سے پیش نظر رکھ کر اس پر غور کیا جاتا ہے
ہمارے ہاں بہت سے علامہ دعوی کرتے ہیں کہ سوویت یونین کے قوانین طلاق ہمارے قوانین کی نقل ہیں
غلط فہمی کی وجہ یہ ہے کہ یہ حضرات سوویت یونین کے قانون طلاق کی اصلیت کو نظر انداز کر جاتے ہیں
جس کا بنیادی مقصد فریقین میں سمجھوتے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہے
دوسرے لفظوں میں طلاق کے مقدمات کی سماعت کرنے والی سوویت عدالتیں ان مشاورتی بورڈوں سے ملتی جلتی ہیں
جو کبھی اسقاط حمل کے شفاخانوں میں قائم کئے گئے تھے یہ عدالتیں زیادہ تر طلاق کی روک تھام کے لیے قائم کی گئی ہیں
بعض لوگ کہیں گے کہ کیا ہمارے ہاں کے قوانین طلاق کا بھی یہی منشا نہیں!
لیکن صرف زبانی عملاً ہمارے ہاں کے قوانین طلاق ایک ایسا مجموعہ شرائط ہیں
جنہوں نے طلاق کے حصول کو اس قدر محال مہنگا بنا دیا ہے کہ بہت تھوڑے لوگ ان سے مستفیض ہو سکتے ہیں
سرمایہ دارانہ جمہوریتوں میں کوئی ایسا قانون نہیں جس کے رو سے یہ لازمی ہو کہ مرد و عورت ازدواجی مشکلات میں گرفتار ہو جائیں
تو طلاق سے پہلے کسی مشیر اور ثالث سے رجوع کریں
بعض ماہرین نفسیات، ڈاکٹروں اور پادریوں نے بیاہ شادی کے لیے مشاورت خانے تو قائم کر رکھے ہیں
مگر انہیں کوئی قانونی حمایت حاصل نہیں
سوویت یونین کے نئے قوانین طلاق کے رو سے طلاق خواہ جوڑے کے لیے عوامی عدالت میں قطع تعلقات کے اسباب بیان کرنا لازمی ہے
اگر سمجھوتے کی کوشش ناکام رہے تو مقدمہ اعلیٰ عدالت کے سپرد کر دیا جاتا ہے
جسے صرف اس حالت میں شادی کو منسوخ کرنے کا اختیار ہے جب کہ ٹھوس ثبوت اور شہادتوں سے اس بات کا یقین ہو جائے کہ یہ رشتہ آئندہ کے لیے باہمی محبت کی بنا پر قائم نہیں رہ سکتا
بالا خر طلاق مل ہی جائے تو ایک سوسے لے کر چار سوڈالر کی مالیت کے رقوم عدالت کی فیس کے طور پر ادا کرنا پڑتے ہیں
حاصل؟ ابھی تک اعداد و شمار شائع نہیں ہوئے
حال ہی میں ایک شمار یہ انگریزی اخبار ماسکو کی خبریں کے 25 اکتوبر 1945 کے ایشوع میں چھپا تھا
اس سے پتہ چلتا ہے کہ شادی اور طلاق کے نئے قوانین کے نفاذسے لے کر اب تک جتنی شادیاں منسوخ ہوئیں
ان کی تعداد پہلے سے دو تہائی کم ہے
یہ حقیقت کسی تبصرے سے بالا ہے، جس دن مذکورہ بالا شماریہ چھپا، اسی دن اطلانتک شہر کے اخباروں مین پنسیلو اینا سٹیٹ کالج کے محکمہ مشاورت شادی کے ڈائرکٹر ڈاکٹر کلفرڈ آرایڈ منزا کا بیان شائع ہوا
ڈاکٹر موصوف نے پیش گوئی کی کہ
1955 تک امریکہ میں دس شادیوں میں سے چار کا انجام طلاق ہو گا
آج سے بیس تیس سال کے عرصے کے بعد ایسی عورتوں کی ایک نسل وجود میں آ جائے گی
جنہیں شادی کے لیے مرد نہیں ملیں گے
کیا یہ عورتیں ہاتھ پر ہات دھرے بیٹھی رہی گی؟
ان میں اور شوہر دار عورتوں میں مردوں کے لیے زبردست مقابلے کی صورت پیدا ہوجائے گی
ڈاکٹر ایڈ منزانے مزید کہا
امریکہ ایک ایسا ملک ہے جہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ شادیاں اور طلاقیں ہوتی ہیں
ہر مہینے تقریباً ایک ہزار شادیاں منسوخ ہوتی ہیں اور یہ تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے
۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔