تیرہواں حصہ
۔۔۔۔۔
گناہ اور سائنس Sin And Sciences
قتل ۔۔ صیغہء راز
سوویت یونین نے بد معاشی، بدکاری اور بیماری پر فتح پائی
اسے معاشرتی اصلاح کے ایک قابل دید مگر الگ مظہر کی حیثیت سے دیکھنا سخت غلطی ہو گی۔ ہم پوری طرح بتا چکے ہیں
کہ وہاں کس طرح بدکاری اور بیماری کے انسداد کی کوشش میں نمایاں کامیابی ہوئی
لیکن ہم نے جو کچھ اب تک بیان کیا ہے وہ اس وقت تک بے معنی ہو گا
جب تک ہم اشتراکی اخلاقیات کے وسیع تصور یعنی ”بنی نوع انسان کے سائنسی اصولوں کے مطابق اصلاح” کی دلیرانہ جدوجہد میں اسے موزوں مقام پررکھ کر نہیں دیکھتے
ہم یہ بھی بتا چکے ہیں کہ انقلاب کے فوراً بعد جو سوالنامہ روسی عورتوں میں پھرایا گیا اس کے جواب میں جو کچھ انہوں نے بیان کیا
اس سے اشتراکی سائنسی دانوں اور سیاسی رہنمائوں کو یقین ہو گیا کہ بدکاری اور گناہ کا بنیادی سبب معاشی ہے
یعنی اس کا محرک افلاس اور بے روز گاری ہے
تاہم انہیں معلوم تھا کہ صرف بے روز گاری کو ختم کر دینے سے جیسا کہ 1929کے بعد کیابھی گیا
منظم بدمعاشی اور تجارتی بدکاری خود بخود ختم ہو جائے گی
بلکہ برعکس نتیجہ نکلنے کا امکان ہے
اگر معاشی منصوبہ ہرخواہشمند عورت کومستقل ملازمت نہ دلا سکتا تو یہ جدوجہد بے کار ثابت ہوتی
پانچ سالہ تاریخی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے سے جو عظیم الشان صنعتی ترقی ہوئی
اس سے نہ صرف موجودہ جنگ (دوسری جنگ عظیم) میں سرخ فوج کی شاندار فتوحات کی بنیاد پڑگئی بلکہ روس کے ہر باشندے کی زندگی پر بھی نہایت خوشگور اثر پڑا
اب تک بعض قاریوں کے ذہن میں یہ سوال ہو گیا ہو گا کہ طوائف نے اپنا پیشہ چھوڑ کر باعزت ذریعہ معاش اختیار کر لیا
تو اس کے بعد سوویت یونین کی عام اخلاقی حالت کا کیا ہوا
یا زیادہ واضح الفاظ میں سوویت یونین کے مردوں، عورتوں اورنوجوانوں کے جنسی تعلقات کاکیا ہوا؟
کیا جنسی بیماری اور عصمت فروشی کے خاتمے سے معزز شہریوں کے اخلاق گر گئے؟
ہم اس سوال کو اور بھی واضح اور کھلے الفاظ میں یوں بیان کر سکتے ہیں کہ آیا آزاد محبت کے اس نام نہاد نئے رجحان کے پردے میں جس کو گورکی اورلنین نے سختی سے مخالفت کی تھی
طوائفوں کا کام عام روسی عورتوں نے سنبھال لیا؟
نہیں۔ ایسا ہر گز نہیں ہوا
اسے چند لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے
وہاں نہ صرف عصمت فروشی ختم ہو گئی، بلکہ بداخلاقی کے ہر مظہر مثلاً نام نہاد آزاد محبت اور زنا وغیرہ پر جس کامیابی سے قابو پایا گیا
اس کی مثال ہمارے ملکوں کی تاریخ میں قطعاً ناپید ہے
اور اخلاقی اصلاح کا یہ سلسلہ آج تک کامیابی سے جاری ہے
اشتراکی سائنس دانوں نے جس انقلابی تبدیلی کی پیش گوئی کی تھی۔ وہ حرف بحرف پوری ہوئی
کیونکہ سماجی اور اقتصادی منصوبہ بندی کی بدولت اکثریت کے لیے محبت کی شادی اور اس کے ذریعے ذاتی تسکین کی اعلیٰ ترین صورتوں کا حصول ممکن ہو گیا
کہاں محبت اور شادی اور کہاں سائنسی اور اقتصادی منصوبہ بندی!
ایک ہی سانس میں دو متضاد باتیں؟
اکثر قاریوں کے نزدیک یہ بیان مہمل ہو گا لیکن یہ حقیقت ہے اور اس کے حق میں اس قدر فلسفیانہ دلائل دیئے جا سکتے ہیں
کہ اس کتاب میں کئی بابوں کا اضافہ ہو جائے
لیکن ہم اس کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتے
کیونکہ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے
اس دلچسپ موضوع پر اشتراکی اخباروں میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ بے حد طویل اور صخیم ہے
گزشتہ واقعات پر ایک سرسری نظر دوڑانے سے معلوم ہو گا کہ اس سلسلے میں سوویت یونین میں جو بحث چلی وہ دو متضاد نظریوں پر مشتمل تھی
ایک طرف ایسے لوگ تھے جو کہتے تھے کہ جہاں تک جنسی معاملات کا تعلق ہے انسانی تجربے کو ٹھوس حقائق شاہد ہیں کہ فطرت انسانی میں تبدیلی اور اصلاح کی کوئی امید نہیں
اور اگر عصمت فروشی اور بدکاری کا عارضی طورپر ختم بھی کردیا جائے مرد وعورت زنا بد اخلاقی کو پھر بھی ترک نہیں کریں گے
دوسری طرف وہ سائنس دان اور ماہرین سیاست تھے جو اس بات پر مصر تھے کہ تاریخ میں آج تک انسانیت کوبا اخلاق طریقے سے زندگی گزارنے اور محبت کرنے کے عملی مواقع بہم ہی نہیں پہنچائے گئے
اور انہوں نے اشتراکی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اٹھارہ کروڑ انسانوں کو ایسے مواقع بہم پہنچانے چاہئیں
جیت دوسرے گروہ کی ہوئی اور سوویت یونین اپنے تمام سماجی تجربوں میں سب سے زیادہ غیر معمولی تجربے یعنی اخلاقی منصوبہ بندی میں مصروف ہو گیا
اور اس منصوبہ بندی کے مطابق پہلا قدم اٹھتے ہی جو واو یلا مچایا گیا
اس سے پتہ چلتا ہے کہ روس سے باہر کی دنیا کو اشتراکی مقاصد کا ذرہ برابر علم نہ تھا
اور مسلسل بیس برس تک ان مقاصد کو سمجھنے سے دانستہ انکار کیا گیا
دراصل پہلی نظر میں لگا بھی یوں کہ اخلاقی اصلاح کا ابتدائی قدم الٹی طرف اٹھا ہے
یعنی وہاں اخلاق کی اصلاح کے بجائے ان کی مکمل تباہی مقصود ہے
اور وہ اقدام یہ ہے کہ سوویت یونین نے ایک تاریخی قانون کے ذریعے اسقاط حمل کو جائز قرار دے دیا اور ہر خواہش مند عورت کو حمل گرانے کی آزادی دے دی
اسقاط حمل پیدائش سے پہلے ہی انسانی زندگی کی ہلاکت
یہ حرکت مہذب سماج میں دینی اور دنیاوی دونوں قسم کے اصولوں کے قطعاً منافی ہے
لوگ حمل گرانے کو قتل ہی کی ایک صورت تصور کرنے میں حق بجانب ہیں
کیونکہ ہونے والے ماں باپ اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے نوزائیدہ بچے کا خون کرتے ہیں
لیکن سوویت یونین کے دشمن اور دوست اس روشن حقیقت کو نہ دیکھ سکے
کہ اشتراکی سائنس دان اور سیاسی رہنما بھی انہی کی طرح اسقاط حمل کو انسانی قتل اور بداخلاقی تصور کرتے ہیں
اور اس فعل کو فرد اور قوم دونوں کی بہتری کے خلاف جانتے ہیں
پھر سوویت حکومت نے اس غیرمہذب فعل کو کیونکر قانوناً جائز تسلیم کر لیا؟
اس سلسلے میں جو طویل نظری بحث ہوئی
اس کی تفصیل میں جانے سے کوئی فائدہ نہیں
ہمارے ملکوں میں اسقاط حمل کے خلاف یا حمایت میں بے شمار مذہبی اور علمی چیزیں لکھی جا چکی ہیں
لیکن یہ مسئلہ دراصل اتنا پر اسرار اور ناقابل فہم نہیں سوویت یونین میں اسقاط حمل کو عصمت فروشی کی طرح ایک سماجی جرم مانا جاتا ہے
جس کا بنیادی سبب انسانوں کا عام افلاس ہے
اس مسئلے کے متعلق جو الجھائو پایا جاتا ہے اسے جدلیات کی مدد سے فوراً دور کیا جا سکتا ہے
انقلاب روس کے وقت کی بین الاقوامی صورت حال کا جائزہ لیجئے
اس وقت دوسرے مہذب ممالک کی طرح زار شاہی روس میں بھی حمل گرانا قانوناً جرم تھا اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے سخت سزا مقرر تھی
اس کے باوجود تمام ممالک میں اس مذموم فعل کا ارتکاب وسیع پیمانے پر ہوتا تھا
عام طور سے حمل گرانے کا کام ڈاکٹر انجام نہ دیتے تھے
بلکہ اس کے ذمہ دار ایسے جرائم پیشہ لوگ تھے
جنہیں شاید ہی کبھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہو گا
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں ہر سال دس ہزار عورتوں کی موت خلاف قانون اسقاط حمل سے واقع ہوتی تھی
اس سے کئی گنا عورتیں آپریشن کے دوران میں عمر بھر کے لیے زخمی اور بیمار ہو جاتی تھیں
لیکن یہ تعداددہ ہے جو حکومت کے علم میں آئی اور یہ ایسے واقعات کا ایک ادنیٰ سا حصہ ہے جو حکومت کی نظروں سے پوشیدہ رہے
شمالی امریکہ میں نامکمل شماریات سے اندازہ لگایا گیا کہ وہاں ہر سال لاکھوں حمل گرائے گئے
زار شاہی روس میں ہر سال پچیس ہزار عورتیں اسقاط حمل کے سبب مرتی تھیں
یہ حالت اس وقت تھی۔ جب کہ ہر ملک میں اسقاط حمل کے خلاف سخت قانون رائج تھے
اب موجودہ حقائق کو لیجئے۔ اشتراکی کی تجربہ آج سے بیس سال پہلے شروع کیا گیا تھا
لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ سوویت یونین میں دوسرے ملکوں کی طرح اسقاط حمل کے خلاف پھر سے قانون موجود ہے اور کئی سال سے اسقاط حمل کو ایک جرم تصور کیا جاتا ہے
نہ صرف یہ بلکہ اس قانون کو 1944 میں پہلے سے بھی زیادہ سخت بنا دیا گیا
آخر کیوں؟
کیا اشتراکی کی تجربہ ناکام رہا؟ نہیں! یہ تجربہ ناکام نہیں رہا
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عصمت فروشی کی طرح روس میں اسقاط حمل بھی نا پید ہے
دوسرے ملکوں میں زبردست مذہبی اور قانونی مخالفت اور طبی سہولتوں کے فقدان کے باوجود اس جرم کی شرح بڑھتی ہی جا رہی ہے
اور ہر سال بے شمار عورتیں ہلاک ہو جاتی ہیں
یا شکم میں زخم آجانے کی وجہ سے سد بیمار ہو جاتی ہیں
اب اپنے برعظیم (امریکہ) کی صورت حال کو لیجئے، بہت سے ڈاکٹروں نے حال ہی میں تفتیش فرمائی ہے
مثال کے طو رپر نفسانی امراض کے معالج اے اے برل نے نیویارک کی اکادمی ادویہ کے اس اجتماع کے سامنے جواسقاط حمل کے مسئلے پر غور کرنے کے لیے بلایا گیا تھا، یہ بیان دیا کہ
”اسقاط حمل ایک لانیحل سماجی مسئلہ ہے۔ کیونکہ ہمیں اس کی نسلی پیچیدگیوں کا صحیح علم نہیں”
اور ”نسلی پیچیدگیوں” سے ان کا مطلب کیا ہے؟ان کی مرادً ان تبدیلیوں سے ہے جو ارتقا کے دوران میں رونما ہوئیں”
آگے چل کر ڈاکٹر برل ذرا صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ ”اسقاط حمل ثقافتی نا ہمواری کی علامت ہے
حاصل کلام یہ کہ فطرت، انسان کو افزائش نسل پر مجبور کرتی ہے
لیکن تہذیب اسے اس فعل سے باز رکھنے یا صرف خاص قوانین کے تحت ایسا کہ کرنے کی اجازت دینا بہتر خیال کرتی ہے
آخر میں ڈاکٹر برل سفارش کرتے ہیں کہ
”ہمیں چاہیئے کہ ہم ایماندار ڈاکٹروں کو مستحق افراد کی خواہش اسقاط حمل پوری کرنے کی اجازت دے دیں اور اس طرح عام حمل گرانے والوں کی حوصلہ شکنی کریں”
گویا اخلاقیات کو ڈاکٹروں کی تحویل اور حفاظت میں دے دیا جائے
اور یہ فیصلہ ڈاکٹر کے دفتر میں ہو کہ کسی عورت یا نوزا ئیدہ بچے کو جینے کا حق ہے یا نہیں
یعنی ہر ڈاکٹر بیک وقت سلیمان بھی ہو اور جلاد بھی
لیکن امراض نفسانی کے اس ماہر کی رپورٹ میں نہ اس سوال کا کوئی جواب ملتا ہے کہ اسقاط حمل کی کہاں تک آزادی ہونی چاہیئے اور نہ یہ پتہ چلتا ہے کہ موجودہ صورت حال کیا ہے؟
حال ہی میں ڈاکٹر آسلون، لاہمن، متیوس اور مثل نے ایک موقر جریدے میں اسقاط حمل کے مسئلے کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے
انہوں نے ان حقائق کو فاش کر دیا ہے
جنہیں محکمہ صحت عامہ اور پریس عوام کے سامنے لانے کی جرأت نہ کرتے تھے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اسقاط حمل کے جتنے واقعات کی پڑتال کی ہے
ان میں تیس فیصد کے مجرم بازاری ڈاکٹر ہیں اور 35 فیصد سے زیادہ کی ذمہ داری دائیوں پر ہیں
اوسطاً پچاس فی صد حمل ایسی عورتوں نے ضائع کرائے جو کنواری تھیں یا پھر مطلقہ اور بیوہ
یہ مشہور حقیقت پسند ڈاکٹر فرماتے ہیں
کہ گزشتہ بیس تیس سال سے حمل گرانے کی واردات میں ہولناک اضافہ ہوا ہے
یہ حقیقت اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ حمل گرانے کا مسئلہ دن بدن زیادہ اہم اور نازک ہوتا جا رہا ہے
ہو سکتا ہے وہ قدرے مبالغہ کرتے ہوں
لیکن ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں صرف 1941 میں 6 لاکھ 80 ہزار حمل ضائع کئے گئے
اور جدید ترین حفاظتی طریقوں کے استعمال کے باوجود امریکہ میں ہر سال آٹھ ہزار عورتیں اس مجرمانہ اقدام سے موت کی نذر ہو جاتی ہیں
ان ڈاکٹروں نے اسقاط حمل کی بڑھتی ہوئی تعداد کا سبب تلاش کرتے وقت کسی ”نسلی پیچیدگی” کے پراسرار بہانے کا سہارا نہیں لیا
بلکہ انہوں نے مندرجہ ذیل ٹھوس سماجی اسباب بیان کئے ہیں
حرام کی اولاد جننے پر رسوائی، والدین بننے کی ذمہ داریوں سے گریز، عام افلاس اور گزشتہ دس برس کا مسلسل اقتصادی بحران،
کنبے کی تعداد کم سے کم رکھ کر معاشی معیار بلند کرنے کی خواہش، پہلی جنگ عظیم کے بعد سے نظر یات کا لا مذہبیت کی طرف عام جھکائو وہ اس مسئلے کو ہنگامی قرار دیتے ہیں
کیا وہ جھوٹ کہتے ہیں؟
ذرا خیال کیجئے کہ امریکہ میں ہر سال چھ لاک اسی ہزار بچوں کو پیدائش سے پہلے ہی ہلاک کر دیا جاتا ہے
آپ اس کتاب کے مطالعے میں مصروف ہیں اور ادھر ہمارے برعظیم میں نوزائید ہ زندگیوں کا قتل عام جاری ہے
فی منٹ فی جان کے حساب سے
دوسرے جمہوری ملکوں کا بھی کم و بیش یہی حال ہے
عوام اس صورت حال سے تاریکی میں ہیں
منظم مزدور بےحس ہے
طبی اور قانونی ادارے اصلیت کو چھپاتے ہیں
پادری اپنے منبروں پر خاموش ہیں اور ادھر اس اخلاقی جنگ میں جو ہمارے بے اخلاق معاشرے میں جاری ہے
لاکھوں جانیں تلف ہو رہی ہیں
ہمارے ہاں ایسے ڈاکٹروں کی بھرمار ہے جو برل کی طرح کہتے ہیں کہ
”اسقاط حمل ایک لانیحل مسئلہ ہے
کیونکہ ہمیں ان نسلی پیچیدگیوں کا صحیح علم نہیں جو ارتقا کے دوران میں رونما ہوئیں
ان حضرات کو چاہیئے کہ وہ ایک مرتبہ سوویت یونین ہو آئیں
کیونکہ سائنس وہاں ”نسلی پیچدگیوں” کے خاتمے اور ”ثقافتی ناہمواریوں” کے سلسلے میں بہت کچھ کر گزری ہے
آئیے ہم دیکھیں کہ وہاں کیا تبدیلیاں آئیں
انقلاب کے فوراً بعد اشتراکی سائنس دان اس فیصلے پر مہپنچے کہ اسقاط حمل کا مسئلہ فوری توجہ کا طالب ہے
لہٰذا انہوں نے سوویت حکومت کو اس بات کا یقین دلایا کہ اسقاط حمل کی روک تھام نہ قوانین امتناعی کے ذریعے ہو سکتی ہے
اور نہ ڈاکٹروں کو اندھا دھند انسانی زندگی تلف کرنے کی اجازت دینے سے
انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ اسقاط حمل ایک سماجی مسئلہ ہے
جس کا تعلق معاشی اور اخلاق سے ہے
اس کے خلاف خفیہ جہاد نہیں کیا جا سکتا
بلکہ تمام قوم کو اس کے اسباب دور کرنے اور نئے قومی اخلاق کی تبدریج تعمیر کے لیے وسیع پیمانے پر جدوجہد کرنی پڑے گی
لہٰذا سوویت حکومت نے عارضی طور پر اسقاط حمل کو قانوناً جائز قرار دید دیا لیکن ساتھ ہی اس پر سخت سماجی پابندیاں لگا دیں تاکہ رفتہ رفتہ اسے ختم کیا جا سکے
اگرچہ اس میں دو متضاد باتیں کہی گئی ہیں
لیکن حقیقت بالکل برعکس اور عام فہم ہے
ہوا یوں کہ سوویت یونین میں اس قانون کے اجرا کے ساتھ ہی خاص ہسپتال کھولے گئے
جن میں نہ ہر قسم کی طبی سہولت بہم پہنچائی جاتی تھی بلکہ ان میں مشورے کے لیے مشاورتی بورڈ بھی بٹھائے گئے
جو عورتیں یا لڑکیاں حرام کا بچہ نہ جننا چاہتیں انہیں ہدایت دی جاتی کہ ان ہسپتالوں میں جائیں اور خفیہ مدد لیں
سوویت یونین کے بدخواہوں کے پراپیگنڈے اور مذہبی لوگوں کے خیال کے برعکس ان ہسپتالوں کا کام ”خفیہ قتل” نہ تھا
بلکہ عورتوں کو عمل جراحی یعنی آپریشن سے باز رکھنے کی کوشس کرنا تھا
اشتراکی حکومت کے ابتدائی ایام میں تمام ملک میں افلاس اور تباہی کا عمل تھا
اس کے باوجود مشاورتی بورڈ 50 فیصد سے زائد عورتوں کو حمل ضائع کرنے سے باز رہنے اور مائیں بننے پر رضامند کرنے میں کامیاب ہو گئے
اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ محض مشاورتی بورڈوں کے قیام سے روس میں حمل گرانے کی واردات کی شرح پہلے سے آدھی رہ گئی تھی
اس کا سبب جن لڑکیوں کو ناجائز حمل ٹھہر جاتا ہے
ان کی اکثریت پریشان اور خوفزدہ ہوتی ہے
کیونکہ انہیں کوئی ذمہ دار اور خیز خواہ مشیر نہیں ملتا جس سے وہ مشورہ کر سکیں
حمل کے ضائع کرنے کے متعلق ان کا علم سنی سنائی باتوں تک محدود ہوتا ہے
ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ فوراً ایسا کر گزریں
تاکہ ان کا راز فاش نہ ہو اور وہ رسوائی سے بچ جائیں
اس قسم کی لڑکیوں کو اگر ہمارے ملکوں میں تجربہ کار اور ہمدرد مشیرمل جائیں
انہیں گرفتاری کا خوف نہ رہے اور بچوں کوجنم دینے کافیصلہ کرنے پر انہیں ایام زچگی میں امداد اور بعد ازاں مستقل ملازمت کا یقین دلایا جائے تو نہ جانے کتنی اس حرکت سے باز رہنے کا فیصلہ کر لیں
روس میں ٹھیک اکیاون فیصد لڑکیوں اور عورتوں نے یہی فیصلہ کیا
باقی کے اصرار پر آپریشن کر دیئے گئے
آخر سرکاری ہسپتالوں میں یہ حرکت کیونکر گوارا کی گئی؟
وجہ صاف ہے، اگر نہیں وہاں سے مایوس لوٹنا پڑتا تو وہ سیدھی جرائم پیشہ لوگوں اور ناتجربہ کار ڈاکٹروں کے پاس پہنچتیں
اور عمر بھرکے لیے روگی ہو بیٹھیں
لیکن سرکاری ہسپتالوں میں ان کے آپریش امراض زنانہ کے ماہرین نے بڑی احتیاط اور بے ضرر آلات کے ذریعے کئے اور کوئی موت واقع نہ ہوئی
اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ کوئی ماہر اور تجربہ کار ڈاکٹر آپریشن کرے تو عورت کے لیے جان لیوا ثابت نہیں ہوتا
چنانچہ روس میں اسقاط حمل سے واقع ہونے والی اموات کی شرح یک لخت صفر کے برابر جا پہنچی
دوسرے ملکوں میں جوخلاف قانون آپریشن ہوتے ہیں جو آپریشن جرائم پیشہ لوگ اور عام ڈاکٹر ضروری آلات کے بغیر کرتے ہیں
ان سے واقع ہونے والی اموات کے اعداد وشمار کو پیش نظر رکھتے ہوئے اشتراکی ڈاکٹروں نے اندازہ لگایا کہ انہوں نے بارہ سال کے عرصے میں تقریباً تین لاکھ عورتوں کی جانیں بچائیں
چونکہ حکومت کی طرف سے محفوظ اور خفیہ آپریش کا بندوبست کر دیا گیا اور گھبراہٹ میں ناتجربہ کار اور جرائم پیشہ لوگوں سے مہنگے آپریش کرانے کی ضرورت نہ رہی
اس لیے بارہ سال کے عرصے میں چند اموات کی اطلاع ملی
جن کا موجب خلاف قانون آپریش تھا
سرکاری ہسپتالوں میں آپریشن کو قانونی قرار دینے کے ساتھ ہی سوویت حکومت نے ایک اور قانون کے ذریعے خلاف قانون آپریشن کے لیے سخت سزا مقرر کر دی
اس اثناء میں اس مہم نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا سوال یہ ہے کہ عورتیں آخر یہ آپریشن کراتی کیوں ہیں؟
اس لیے کہ وہ اتنی بدکردار ہیں کہ ان کی اصلاح ممکن نہیں
یہ جواب بالکل مضحکہ خیز ہے
اس مسئلے کواجتماعی زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ یہ اقدام اس لیے کرتی ہیں
کہ ان میں اولاد کی پرورش کی طاقت نہیں ہوتی
بے شمار عورتوں اورلڑکیوں سے دریافت کرنے کے بعد اشتراکی سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے کہ جدید سماج میں اولاد والی ماں کی تعریف اور قدر زبانی تو بہت ہوتی ہے
لیکن عملاً اکثر عورتوں کے لیے بچے کی پیدائش اور پرورش سخت سزا کے برابر ہے
حاملہ عوت سے ملازمت چھن جاتی ہے
شادی سے پہلے لڑکی کا حاملہ ہو جانا بہت بڑی ذلت اور رسوائی ہے
اولاد والی عورت کے لیے زیادہ بچے جننا خود اپنے آپ، اپنے شوہر اور پہلے بچوں کو معاشی مصیبت میں مبتلا کرنے کے برابر ہے
اگر عورت حمل اور زچگی کے دوران میں طبی امداد حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتی تو اس کے لیے بچے کی پیدائش خطرناک جسمانی عذاب سے کم نہیں
جو اس کی ہلاکت کا موجب بھی ہو سکتا ہے
اس سلسلے میں سوویت حکومت نے جو اقدام کئے انہیں بہت سے سماجی اور طبی ماہرین نے تفصیلاًبیان کیا ہے
مختصراً اقدام ایسے قوانین پرمشتمل ہیں جن میںہر کنواری یا شادی شدہ عورت کو ایام حمل میں مفت طبی امداد چھ سے بارہ ہفتے تک رخصت با تنخواہ صحت یاب ہونے کے بعد ملازمت پر واپس آنے کا حق، مقام ملازمت میں دو مہینے سے پانچ سال کی عمر تک بچے کی مفت پرورش اور نگہداشت
چھاتی سے دودھ پلانے والی مائوں کو روزانہ کئی گھنٹے کی چھٹی اور مالی ومعاشی امداد کی ضمانت دی گئی ہے
ان قوانین کے نفاذ کے ساتھ ہی وسیع پیمانے پر تعلیمی مہم چلائی گئی اور عام شہریوں کو ذہن نشین کرایا گیا
کہ حکومت اولاد والی عورتوں کے لیے تمام سماجی اور معاشی مصیبتوں اور سزائوں کو دور کر رہی ہے
اور ہر عورت کے لیے ماں کے فرائض با اخلاق طریقہ سے سرانجام دینا ممکن ہو جائے گا
اور اس کے ساتھ ہی وہ نئے سماج کے ایک محنتی فرد کی طرح قابل احترام حیثیت سے زندگی بسر کر سکے گی
اس تجربے کا تعلق اخلاقیات یعنی انسانی فطرت کی اصلاح سے تھا
اور یہ تجربہ ایک ایسے ملک میں کیا گیا، جہاں بچوں کی شرح اموات اتنی زیادہ تھی
جتنی آج کل ہندوستان یا کیوبک میں ہے اور آج سوویت یونین میں بچوں او رمائوں کی شرح اموات دنیا کے تمام ملکوں کے مقابلے میں سب سے کم ہے
وہاں ہر سال 60 لاکھ سے زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں اور ان میں ناجائز بچوں کی تعداد صفر کے برابر ہے
حمل کو ضائع کرنا نہ صرف خلاف قانون ہے بلکہ اب یہ فعل بدفی الواقعہ ختم ہو گیا ہے
نئے جنسی اخلاق کی تعمیر کے متعلق اس تاریخی تجربے کے آخری حصے کا جائزہ لینا باقی ہے۔ جس کا تعلق شادی اور خاندان سے ہے
ماں بننے والی عورتوں کے راستے سے تمام معاشی رکاوٹوں کا دور کر دینے سے سوویت یونین کے عام باشندوں پر نہایت خوشگوار اثر پڑا
ماں اور بچے سے متعلق قوانین عین اس وقت جاری کئے گئے جب کہ ملک بھر میں عصمت فروشی کے انسداد کی مہم جاری تھی
اس لیے عورتوں کو ہرقسم کی لوٹ کھسوٹ سے نجات دلانے کی جدوجہد اپنے آخری مرحلے پر پہنچ گئی
اور مذکورہ قوانین کی بدولت مرد وعورت میں اصلی مساوات قائم ہو گئی شادی کی راہ میں جتنی معاشی اور مالی رکاوٹیں تھیں وہ دور ہو گئیں
اور تاریخ میں یہی خواب پہلی مرتبہ شر مندہ تعبیر ہوا کہ
”جوڑ ابھی مجر وفرد جیسی زندگی گزار سکتا ہے”۔ نوجوان عشاق کے لیے شادی کرنا اور والدین بنناممکن اور آسان ہو گیا
کیونکہ طلبہ تک کو وظائف ملتے تھے اور انہیں بھی دوسرے افراد کی طرح سماجی تحفظ حاصل تھا
اس سے نوجوانوں کی اخلاقی اصلاح پر بہت گہرا اثر پڑا ، شادی میں تاخیر کی مصیبت کا خاتمہ ہو گیا اور نوجوان اپنی زندگیوں کی تشکیل کے نازک مرحلے میں محبت کی شادی اور والدین بننے کے مفید تجربے سے مستفیض ہوئے
نتائج نے ثابت کر دیا کہ اشتراکی کی سائنس دان ٹھیک کہتے تھے کہ بد اخلاقی اور جنسی بے رہروی کی محرک انسان کی
”فطرت” نہیں بلکہ بد اخلاق اور گھٹیا قسم کی زندگی کے غیر فطری طریقے ہیں۔غیر اخلاقی سماج اور معاشی نظام مردوں اور عورتوں کو بدی کی طرف دھکیلتا ہے
کیونکہ اس میں شادی او رازدواجی زندگی وبال اور بھاری بوجھ ہے اور ہر دو اصناف یعنی مرد عورت برابر کے مظلوم ہیں۔ سوویت یونین سے 20 سال کے عرصے میں اخلاقی دو عملی ختم ہو گئی
مردوں نے محسوس کیا کہ شادی اور ازدواجی زندگی کے راستے سے رکاوٹیں دو رکرنے اور عورتوں کو سماجی اور معاشی مساوات دینے سے نہ صرف عورتوں کو اوپر اٹھایا جا رہا ہے بلکہ انہیں بھی اخلاقی پستی کے گڑھے میں گرنے سے بچایا جا رہا ہے
سوویت یونین کے مشہور قوانین طلاق آزادی نسواں کی مہم کا ایک اہم جزو تھے۔ وہ ہمارے ہاں کے قوانین سے بالکل مختلف تھے اور ان کا مقصد ہرگز وہ نہ تھا جو سوویت یونین کے بد خواہ دانستہ طور پر بتایا کرتے تھے
طلاق سے متعلق اشتراکی پالیسی کا مقصد انجام کار شادی اور خاندان کو تقویت بخشنا تھااس کی بنیاد محبت اور شادی کے اس تاریخی تجزیے پر تھی جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ سوویت یونین کے ابتدائی قوانین طلاق بہت نرم تھے۔ ان کے مطابق طلاق کے طالب مرد یا عورت کا رجسٹر یشن آفس کی معرفت فریق مخالفت کو اتنا لکھ بھیجنا کافی تھا
کہ شادی ختم ہوئی۔ بچوں کی حفاظت اور پرورش کے بندوبست کے علاوہ کوئی اور عدالتی کاروائی نہ تھی
اور رجسٹر یشن آفس کی فیس سینما کے ٹکٹ کی قیمت سے بھی کم تھی
سوویت یونین کے قانون سازوں نے ایسی ہر ایک شادی کو توڑ دینے کے حق کو تسلیم کیا
جس کی بنیاد محبت پر نہ ہو اور وہ اپنی اس منطق پر آخر تک قائم رہے کہ صرف دائمی محبت ہی شادی کا ثبوت ہے
مرد وعورت میں کسی وجہ سے محبت ختم ہو جائے تو شادی کو بھی ختم ہی سمجھنا چاہیئے اس لیے انہوں نے وہ تمام قانونی اور معاشی پابندیاں ہٹا دیں جو طلاق کی راہ میں حائل تھیں
وجہ صرف یہ ٹھوس حقیقت تھی کہ اگر شادی شدہ جوڑے میں سے کوئی فریق کسی غیر مرد یا عورت سے ناجائز جنسی تعلقات قائم کرے، یعنی زنا یا عصمت فروشی کے ذریعے جذبات کی تسکین کرنا چاہے تو سمجھا چاہیئے کہ ان کی شادی محبت پر مبنی نہیں اور ان کی زندگی سوگوار ہے
ن
مطلب یہ کہ سوویت یونین میں قوانین طلاق کو بے میل اور جبر کی شادیوں کو ختم کرنے یا ایسی شادی کو توڑنے کے لیے استعمال کیا گیا
جنہیں خلاف اخلاق تصور کیا جاتا تھا
زار شاہی روس میں ایسے بے شمار رشتے ناطے لاکھوں تھے
لہٰذا غیر مشروط طلاق کے ذریعے بے جوڑ شادیوں کی شکست اور محبت کی شادیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی
ظاہر ہے کہ اس قسم کے قوانین اور دلائل آفاقی نہیں ہو سکتے
ان کا اطلاق محدود ہے
بہت سے لوگ اس صورت حال کا تصور کرتے ہی جو طلاق کے نرم قوانین کے ہمہ گیر نفاذ پر ہماری جمہوریتوں میں پیدا ہوسکتی
ان کی سخت تروید اور مخالفت کرنے لگیں گے
ہمارے ہاں ایسا قانون نافذ کر دیا جائے تو کیا نتیجہ ہو گا؟
یہی کہ تقریباً تمام شادیاں فوراً ہی ٹوٹ جائیں گی
کیونکہ ہمارے ہاں اکثر رشتے طلاق کی قانونی اور مالی مشکلات کے طفیل قائم ہیں۔ یہ حقیقت بھیانک ضرور ہے
لیکن قابل تردید نہیں
انقلاب کے بعد مسلسل کئی سال تک روس میں بھی یہی صورت حال برپا رہی
لیکن آٹھ دس سال کے عرصے سے سوویت یونین میں طلاق کے واقعات کی تعداد متواتر گر رہی ہے
اس کا مقابلہ دوسرے ملکوں سے کیا جائے تو طلاق کی واردات کی کثرت اور سہل قوانین طلاق کی تحریک کی شدت پر آدمی چونک جاتا ہے
حالانکہ مذہبی لوگ اس کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس سوویت یونین میں طلاق کو سخت تر بنایا جا رہا ہے
نئے سماجی اخلاق کی بدولت شادی پائیدار ہو گئی ہے جو لوگ پے درپے طلاق دے کرنت نئی شادیاں کرتے ہیں، ان کی مذمت کی جاتی ہے۔ انسانی محبت کی شائستگی
حقیقی محبت کی پائیداری اور اس حیاتی ونفسانی حقیقت پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے
کہ انسانوں میں جنسی تعلقات کی اعلیٰ ترین صورت دو افراد یعنی ایک مرد اور ایک عورت کا ایک دوسرے کے لیے وقف ہو جانا ہے اور جنسی تعلقات کی مکمل تسکین محض اس شادی میں ممکن ہے
جو مرتے دم تک نہ ٹوٹے باہمی محبت پر قائم رہے اور جو مشرف بہ اولاد ہو۔ 1944 کے موسم گرم میں ماسکو میں شادی اور ازدواجی زندگی کے متعلق سلسلہ قوانین کا اعلان کیا گئے
اور سوویت یونین کے بعض نام نہاد دوست یہ جان کر عجیب شش وپنچ میں مبتلا ہو گئے کہ وہاں کوئی شخص طلاق خرید نہ سکے گا
گویا طلاق نہ ہوئی ڈاک کا ٹکٹ ہوا لیکن عام ناقد مطمئن نظر آتے ہیں اور بعض مبصر سٹالن کی طرف اخلاق آموز انگلی اٹھائے ہوئے ہیں کہ روس ہمارے طر زندگی کی طرف مائل ہے
کتنی شرمناک سہل انگاری ہے
ہمارے ملکوں میں عصمت فروشی عام ہے
نابالغوں میں جرائم کا دور دورہ ہے۔ جنسی بیماری کسی انسدادی کوشش سے متاثر نہیں ہوتی
شراب نوشی عام ہے
حمل گرانے کے واقعات پہلے سے دگنے چوگنے اور طلاق کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے
اس کے باوجود ہمارے ایسے مبصر پائے جاتے ہیں جو یہ کہہ کر ہمیں تسلی دیتے ہیں کہ روس ہماری طرف مائل ہے۔ گویا بداخلاقی میں وہ ہماری تقلید کر رہا ہے
سیدھی بات ہے کہ شادی، ازدواجی زندگی، طلاق اور اسقاط حمل کے متعلق سوویت یونین کے حالیہ قوانین نئے اخلاق کی تعمیر کی مسلسل اور سائنٹیفیک منصوبہ بندی کی ایک کڑی ہے۔ دوسری لفظوں میں وہاں اس منزل مقصود کی طرف ایک اور قدم آگے بڑھایا گیا ہے
جس کی طرف ہم اس کتاب میں مسلسل اشارہ کرتے چلے آرہے ہیں
م
سوویت یونین میں شادی کا نظام اخلاقی محبت کی مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے جس طرح وہاں اسقاط حمل کے اسباب ختم ہو جانے پر چند سال سے اس کے خلاف سخت قوانین دوبارہ نافذ کر دیئے گئے ہیں
اس طرح اب وہاں اس امر کی ضرورت اور امکان پیدا ہو گیا ہے کہ قوانین طلاق کو سخت کر دیا جائے، کیونکہ آزاد اور آسان طلاق کی ضرورت جو وہاں پہلے محسوس کی جاتی تھی، اب باقی نہیں رہی
اس کا پہلا سبب تو یہ ہے کہ وہاں شادی کی ناکامی کے معاشی اخلاقی اور سماجی اسباب بڑی حد تک ختم ہو گئے ہیں اور دوسرا سبب یہ ہے کہ اس ترقی یافتہ صورتحال کا کھلا اعتراف قومی ضابطہ قانون میں کرنا ضروری ہے۔ یہ ہیں قوانین طلاق کی ترمیم کے سادہ اور منطقی اسباب
لیکن ہمیں اس کے برعکس بتایاجاتا تھا کہ سوویت حکومت نے ابتدا میں قوانین طلاق اس لیے نہ بنائے کہ سوشلزم بد اخلاقی کا پرچار کرتا ہے
لیکن حقیقت حال یہ تھی کہ یہ قانون محض ایک عارضی اقدام تھے اور ان کا مقصد بداخلاقی پھیلانے کی بجائے طلاق جیسی بداخلاقی کو سرے سے ختم نہیں تو اس کی تعداد میں ہر ممکن کمی کرنا تھا
سوویت حکومت نے 18دسمبر 1917 کو دو انقلابی قانون منظور کئے
پہلا قانون شادی پیدائش بچوں، اور موت کے اندراج کے متعلق تھا
اور دوسرے کو قانون شادی وطلاق کہتے ہیں چونکہ یہ قانون بالکل نئے تھے
اس لیے دنیا بھر میں ان کے خلاف غلط اور جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا۔ایک قیامت برپا کر دی گئی
لیکن آج یہ قوانین حالات و واقعات اور نئے قوانین کے نفاذ سے بیکار ہو گئے ہیں
تو یہ دیکھ کر سخت حیرانی ہوتی ہے کہ سب لوگ خاموش ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اس تبدیلی کی خبر تک نہیں
آئیے ہم چند لمحوں کے لیے ان قوانین سے آگاہی حاصل کریں
۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“