بارہواں حصہ
۔۔۔۔۔
گناہ اور سائنس Sin And Sciences
یہ طریقے اس قدر منطقی، عقلی او رسادہ تھے کہ 1934 تک رہائشی شفاخانوں کی نوعیت عام کھلے مرکزوں کی سی نہ رہی تھی
عورتوں کو اب بھی ان میں داخل ہونے پر مجبور نہ کیا جاتا تھا
لیکن ایک مرتبہ جو عورت علاج کے لیے راضی ہو جاتی تھی
اس کے لیے دو سال تک وہاں رہنا ضروری تھا
ان شفاخانوں کا روزانہ معمول بالکل بدل دیا گیا
پہلے پہل ان میں زندگی کا وہی معمول تھا جو عام شفاخانوں میں ہوتا ہے یعنی صبح سویرے اٹھنا، وقت پر کھانا اور آرام کرنا
سہل کام، مقررہ وقت پرعلاج معالجہ، تفریح اور تعلیم اور وقت پر جلدی سو جانا وغیرہ
اس قسم کی زندگی عورتوں اور لڑکیوں کی اکثریت کے مزاج کے تو موافق تھی
لیکن جوعورتیں عرصے سے بازاری زندگی کی عادی ہو چکی تھیں
ان کے لیے یہ طرز زندگی ایک بوجھ اور وبال ثابت ہوا
یہ عورتیں سالہا سال سے شام کے وقت سے اپنا دھندا شروع کرنے کے عادی تھیں
ان کے لیے شام کے وقت سونا دشوار تھا
اور وہ بستر پر لیٹے لیٹے جاگنے اور کروٹیں بدلتے رہنے سے بہت جلد اکتا جاتی تھیں
لہٰذا نتیجہ مقصد کے برعکس نکلا، وہ شفاخانوں سے نفرت کرنے لگیں
اور ان میں رات کی تاریخی میں بازاروں میں آوارہ گردی کرنے، ہوٹلوں اور شراب خانوں کے طواف کی عادت عود کر آئی
چنانچہ رات کو دن میں بدل دیا گیا
اب شفاخانے کی ورکشاب میں تیسرے پہر کام شروع کیا جاتا جو ساری رات جاری رہتا
سونے کا وقت صبح کاذب اور جاگنے کا اگلی دوپہر کا مقرر ہوا
اسی طرح دوسری سرگرمیوں اور کاروبار کا وقت بھی بدل دیا گیا
لہٰذا شفاخانے میں داخل ہونے والی طوائف کے لیے اپنے روزانہ کے معمول میں کوئی فرق نہ رہا
طوائف کا علاج رات کو عین اس وقت شروع کیا جاتا جب کہ اس کی پرانی عادت اسے مردوں کی تلاش کے لیے شفاخانہ چھوڑنے پرمجبور کرتی
اس طریق علاج کا نفسیاتی اصول بالکل واضح ہے مثالی قسم کی مریض عورت دو طاقتور مشروط انعکاسات میں مبتلا تھی (انعکاس مشروط میں کوئی خاص عادت اپنے ا صلی سبب سے ہٹ کر کسی دوسرے سبب سے پیوستہ ہو جاتی ہے)
پہلا اسے رات کے وقت سرگرم رہنے پر مجبور کرتا تھا
اور دوسرا کسی مفید کام کے بجائے رنگ رلیوں پر ابھارتا تھا
ان دونوں عادتوں کو بہ یک وقت ختم کرنا ممکن نہ تھا
ایسی کوشش کا نتیجہ مایوسی کے سوا کچھ نہ نکلتا
اس لیے ہر ایک کے ساتھ الگ الگ نمٹا گیا اور سب سے پہلے عورتوں کے کام کی نوعیت بدلی گئی
لہٰذا شفاخانوں میں بہت سی تبدیلیاں کی گئیں
وزارت صنعت نے ورکشاپوں کی نئی تنظیم کا منصوبہ بنایا
تجربے کے طو رپر کیف کے شفاخانے میں ایک خاص اور اہم صنعت شروع کی گئی
ان میں خاص برقی آلات طب تیار کیے جانے لگے جن کی سوویت یونین کے ڈاکٹروں کو بہت زیادہ ضرورت تھی
اس صنعت کا عورتوں پر حیرت انگیز مفید اثر پڑا
اس سے پہلے وہ پار چات یا عام استعمال کی چیزیں تیار کیا کرتی تھیں
یہ کام ان کے لیے کسی خاص دلچسپی کا موجب نہ تھا
اب انہیں ایک ایسا دلچسپ کام دیا گیا جو قوم کے لیے بے حد مفید تھا
ان میں خدمت قوم کا جذبہ بیدار ہوا
اور بڑے شوق سے محنت کرنے لگیں
اس نئے کام کی اہمیت کا شعور پیدا ہوتے ہیں ان عورتوں کے کردار اور سیرت میں بھی نمایاں تبدیلی ہوئی
جنہیں دماغی اعتبار سے ناکارہ خیال کیا جاتا تھا، اب وہ اچھی طرح سمجھ گئیں کہ جو سامان وہ اپنے ہاتھوں سے تیار کرتی ہیں
ان کے ہموطنوں کی زندگی بچانے کے لیے اس کی سخت اور فوری ضرورت ہے
انہیں یقین ہو گیا کہ ان سے کام لینا مقصود نہیں بلکہ وہ اپنی قوم کی فلاح وبہبود کے لیے محنت کر رہی ہیں
یہ تجربہ غیر متوقع طور پر اتنا کامیاب ثابت ہوا کہ دوسرے شہروں میں بھی اس کی تقلید شروع ہو گئی
جن عورتوں میں قدرے صلاحیت کی کمی تھی ان کے لیے ماسکو کے قریب ایک اجتماعی زراعتی فارم قائم کیا گیا
اس میں محکمہ زراعت کے لیے فصلیں اگانے اور مویشی پالنے کا کام شروع کیا گیا
اس کام میں بھی عورتوں کی سماجی ذمہ داری اور قومی خدمت پر زور دیا گیا
ان تجربوں کے دوران میں عورتوں نے خاص فنون اور پیشوں میں مہارت پیدا کر لی
وہ قوم کی اقتصادی زندگی میں نہایت مفیدثابت ہوئیں۔ اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئیں
بد دل قسم کی عورتوں نے بھی اس موقع غنیمت سے فائدہ اٹھانے کے لیے جس بے تابی اور شوق کامظاہرہ کیا
اس سے وہ ماہرین امراض نفس بھی بے حد متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے جو قدرے مایوس ہو گئے تھے
اب ماہرین نے مزدوروں اور کسانوں کی کمیٹیوں سے فوراً مشورہ کیا اور اس سلسلے میں جو کانفرنسیں ہوئیں، ان میں فیصلہ کیا گیا کہ بحالیات کے کام کو تیز تر کر دیا جائے
ادھر طبی ماہرین نے نہ صرف جنسی بیماریوں کے علاج بلکہ عورتوں کی بدوضعی کو دور کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دیں
ہر شفا خانے میں ایک ایک پلاسٹک سرجن مقرر کیا گیا
جو بدنصیب عورتیں آتشک کے ہاتھوں بدشکل ہوگئی تھیں، انہیں سماج میں رہنے کے قابل بنانے کے لیے ان سرجنوں نے ناک اور دوسرے نازک اعضا کے خطرناک آپریشن کرنے شروع کر دئیے
امراض زناں کے ماہرین ایسی عورتوں کے علاج میں شریک ہوئے جنہیں از دواجی زندگی اور تولید کے قابل بنایا جا سکتا تھا
اس کے ساتھ ہی ایک وسیع تہذیبی اور ثقافتی پروگرام کا آغاز کیا گیا
مشہور فن کار اور ادا کار ہر شفاخانے میں تہذیبی ڈرامے پیش کرنے لگے
زیر علاج عورتوں کے لیے خاص اخبار جاری کیے گئے اور انہوں نے خود بہت سے اخبار نکالنے شروع کر دیئے
یہ شفاخانے قومی زندگی سے کٹے ہوئے نہ تھا
مریضوں کو اپنا ماضی بھول جانے کی بھی ہدایت نہ کی جاتی تھی
بلکہ ہر عورت کو اس طویل المیاد اور قدیم بدعت کے خاتمے کی جدوجہد میں، جو دوسرے ملکوں میں ناکام رہی تھی
اس کی ذاتی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جاتا تھا۔ اس کو یہ بات ذہن نشین کر ائی جاتی تھی کہ اپنے گھنائو نے ماضی پر اس کی ذاتی فتح ایک نتیجہ خیز سماجی تجربے کے لیے بے حد مفید ثابت ہو گی
اور یہ کہ وہ اصلاح انسانی کی اصلاح و ترمیم کی جنگ میں سب سے اگلی صف میں ہے
شفاخانوں کے کام میں خاطر خواہ کامیابی کی توقعات کے باوجود بعض اشتراکی ماہرین کا خیال تھا کہ ”ہر اول دستے” میں لڑنے والی ان عورتوں کے لیے بدکاری کا شکار ہوئے بغیر سماج میں دوبارہ داخل ہونا ممکن نہیں
یہ عورتیں خود اس خطرے سے آگاہ تھیں، لہٰذا ان کی سماجی بحالی کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا
جس کا خلاصہ یہ ہے:
1۔ ہر زیر علاج عورت کو شفاخانے سے اس وقت خارج کیا جاتا جب کسی معزز برادری میں اس کی قبولیت کا خاطر خواہ بندوبست ہو جاتا
چند معزز شہریوں کے سواجن سے شفاخانے کی زندگی کے آخری ایام میں اس کی خط وکتابت ہوتی
باقی سب لوگوں کے لیے اس کی ماضی کی زندگی صیغہ راز میں رکھی جاتی۔ یہ رضا کار پہلے سے اس کے لیے ملازمت یعنی اس کام کا بندوبست کرتے جس کی ترتیب وہ خاص طور پر حاصل کر چکی ہوتی
وہ اس کے لیے ایک شریف اور معزز گھرانے کی تلاش کرتے
عورت کی آمد کے سلسلے میں بہت احتیاط کی جاتی تھی تاکہ کسی کے دل میں کوئی شبہ پیدا نہ ہو سکے
2۔ وارثین کا ایک منتخب گروہ طویل عرصے تک اس کی امداد کا ضامن بنتا
ملازمت کے دوران میں اس عورت کی نگرانی رکھی جاتی تھی
لیکن نگرانی کا یہ طریقہ ہمارے ہاں کے عارضی اور تجربی، دور ملازمت سے بہت سے مختلف تھا
کیونکہ اس کی بنیاد نگران اور ماتحت، ہر دو کی ذاتی دوستی پر تھی
یہ بات خاص طو ر سے ملحوظ خاطر رکھی جاتی کہ سابقہ مریض عورت اپنی مو جودہ ملازمت میں پوری طرح کامیاب اور اس کے اہل ثابت ہو
عورت کے ساتھ کم از کم ایک وارث بھی وہی ملازمت کیا کرتا تھا
3۔ ہر ضلع میں وارثین کے مختلف گروہوں کو امدادی انجمنوں میں منظم کیا گیا
یہ لوگ مہینے میں تین مرتبہ اکٹھے ہوتے او رڈاکٹروں، ماہرین نفسیات اور فیکٹری کے منیجروں سے ملاقات کرتے
کسی عورت کو اپنے کام میں کوئی مشکل پیش آتی تو اسے تجربہ کار مدد گار مہیا کیے جاتے
سابقہ مریض عورتیں پوری طرح بحال اور آباد ہو جاتیں تو وہ اپنی خدمات مذکورہ انجمنوں کے رضا کارانہ امداد کے لیے پیش کر دیتیں
4۔ شادی، ملازمت، اجرت، کرایہ وغیرہ کی مشکلات اور جھگڑوں میں امداد بہم پہنچا نے کے لیے یہ انجمنیں عورتوں کے لیے وکالت کا خاص انتظا کرتی تھیں
5۔ شفایاب عورتوں کو تاکید تھی، کہ وہ زیر علاج سہیلیوں سے خط وکتابت کا سلسلہ قائم رکھیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتی رہیں
تاکہ وہ عام گرہستی اور برادری کی زندگی میں جلد از جلد داخل ہو جائیں۔
آج سے تقریباً پندرہ سال پہلے سوویت یونین میں عصمت فروشی کو ختم کرنے کے لیے جو جدوجہد شروع کی گئی تھی
ہم اس کی تمام حکمت عملی اور طریق کار جائزہ لے چکے ہیں
اس جدوجہد کو ترک کئے ایک مدت ہو چکی ہے اور اب وہ محض قصہ ماضی ہے۔ یہ جدوجہد ان لڑائیوں کی طرح فتح پر ختم ہو ئی جو ستالن گراد، کیف سیوستوپول وغیرہ کے ناموں کے ساتھ ہمیشہ یا د رہیں گی اور جو دشمن کی مکمل شکست اور تباہی پر ختم ہو ئیں
آج دنیا بھر کے مبصرین گواہی دیتے ہیںکہ سوویت یونین کے شہروں اور دیہات سے عصمت فروشی کو نابود کیا جا چکا ہے
1917میں زارشاہی پولیس کے نامکمل اعداد وشمار کے مطابق اکیلے شہر لینن گراد (سابقہ سنیٹ پٹیرز برگ) میں ساٹھ ہزار رجسٹر اور کئی ہزار ایسی طوائفیں تھیں جو لائسنس کے بغیرچوری چھپے پیشہ کرتی تھیں
1928 میں یعنی انسدادی جدوجہد کے آغاز سے پانچویں سال بعد شوقیہ زنا کاری عملاً ختم ہو چکی تھی
اور پانچ ہزار پیشہ ور عورتیں علاج وتربیت کے بعد معزز شہری بننے کے لئے تیار تھیں
لیکن تین ہزار عورتیں ابھی تک عصمت فروشی پرگزارہ کرتی تھیں۔
ڈاکٹر جے اے سکاٹ کی رپورٹ کے مطابق جومارچ 1945 کے برطانوی رسالہ امراض جنسیہ میں چھپی اور جس کا حوالہ پہلے گزر چکا ہے
1930 تک ماسکو شہر میں طوائفوں کی تعداد گھٹ کر تقریباً آٹھ سو رہ گئی تھی
دوسرے شہروں کی صورت حال بھی اسی طرح حوصلہ افزا اور خوشگوار تھی۔ بعد میں قومی پیمانے پراخلاقی بحالیات کی جو مہم چلی وہ انہی باقی ماندہ عورتوں کے لیے شروع کی گئی تھی
اس جدوجہد کے نتائج؟
ان مریض عورتوں میں سے تقریباً اسی فیصد نے شفاخانوں میں تعلیم وتربیت حاصل کر کے ملک کے صنعتی کارخانوں اور زراعتی فارموں میں ملازمت اختیار کی اور پانچ سال سے زائد عرصے کے لیے اپنے کام کو بڑی خوبی سے سر انجام دیتی ہیں
چالیس فیصد سے زیادہ ”شاک بریگیڈوں” یعنی سب سے اعلیٰ اور تیز کار گروں کے دستوں کی رکن بنیں یا اعلیٰ اور شاندار قومی خدمات کے لیے منتخب ہوئیں
اکثر نے شادی کر کے کامیاب ازدواجی زندگی بسر کرنا شروع کر دی
انیس فی صد سے کم مریض عورتیں ایسی نکلیں جو علاج اور تربیت کے بعد بھی اپنے آپ کو نئے سماجی ماحول کے مطابق نہ ڈھال سکیں
لہٰذا انہیں مزید تربیت کے لیے دوبارہ تربیت گاہوں میں آنا پڑا
باقی ماندہ تعداد ایسی عورتوں پر مشتمل تھی جو جنسی بیماریوں اور دماغی نقائص کے سبب اس قدر نا کارہ ہو چکی تھیں کہ وہ نئے سماج میں اپنے لئے کوئی مقام پیدا کرنے سے قاصر رہیں
لہٰذا سوویت یونین میں عصمت فروشی کے خاتمے کے جدوجہد کو غلاموں اور مظلوموں کی جدوجہد میں بدل دیا گیا اور اشتراکی سماج سے عصمت کی تجارت کا صدیوں پرانا روگ ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی جنسی بیماری بھی نا پید ہو گئی
روسیوں کی موجودہ نسل نے اپنی زندگی میں کسی طوائف کی شکل تک نہیں دیکھی
دوسری جنگ عظم میں جرمنوں نے روس کے کچھ علاقے پرقبضہ کر لیا تو حالت پھر خراب ہو گئی
1944 میں جرمنوں کو روس سے نکال باہر کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جو علاقے ان کے قصبے میں رہ چکے تھے
ان میں ہر قسم کی وبائوں کا دور دورہ ہے
نازی سپاہیوں نے ہزاروں روسی عورتوں اور لڑکیوں سے جبراً زنا کیا تھا
اس لیے ایک بڑی تعداد آتشک اور سوزاک کے عارضے میں مبتلا ہو گئی تھی
تا دم تحریر اعداد وشمار جمع نہیں ہوسکے ہیں اور علاج معالعجے کے لیے جو اقدام کئے گئے ہیں
ان کی نوعیت ہنگامی ہے
لیکن یوکرین کی اشتراکی جمہوریت کے حالات کے مطالعے سے اصل صورت حالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے
یوکرینی قوم کو سب سے زیادہ جنگ کی تباہی کا شکار ہونا پڑا
جنگ کے دوران میں یوکرین کی صحت عامہ کا کیا حال ہوا اور مریضوں کی تندرستی کے لیے کچھ کیا جا رہا ہے
اس کی اطلا ع براہ راست یوکرین کے وزیر صحت مسٹر الارین کو نونینکو سے حاصل کی گئی ہے
ان کے بیان کے مطابق نازیوں کے حملے سے پہلے یوکرین کے لوگ اپنے ہاں کے اعلیٰ نظام صحت پر فخر کیا کرتے تھے
یوکرین کی جمہوریت میں نومیڈیکل اور دو فارمیسی کالج تھے
جہاں سے تقریباً ساڑھے تین ہزار طلبا ہر سال گریجویٹ بن کر نکلتے تھے
یہ طبی ماہرین ہمارے ہاں کے تربیت یا فتہ طبی کارکنوں کے برابر ہیں
سوویت یونین میں ایسے تربیت یافتہ مرد اور عورتیں عام لوگوں کی کما حقہ خدمت کرتے ہیں اختیار ات میں ہمارے ہاں کے ڈاکٹروں اور رجسٹر ڈنرسوں کے مابین ہیں
1941 میں یوکرین میں 932 ہسپتال تھے ۔ جن میں 129000 مریضوں کی رہائش کا انتظام تھا
دیہات میں2445 طبی مرکز تھے۔ بڑی ڈسپنسریوں اور رہائشی شفاخانوں کی تعداد چھ ہزار کے لگ بھگ تھی اور چھوٹی ڈسپنسریاں دس ہزار تھیں
ٹریڈ یونینوں اور اجتماعی کھیتوں کی تنظیموں کے اپنے چار سوسینی ٹوریم اور 173 آرام دہ تفریح گاہیں تھیں جن میں 10 لاکھ سے زائد بالغ افراد اور بچے رہائش اختیار کیا کرتے تھے
صحت عامہ کی اس شاندار تنظیم کی بدولت جنسی بیماریوں کو ختم کرنے میں نمایاں کا میابی ہوئی
1941 تک آتشک کے نوے فیصد مریض صحت یاب ہو چکے تھے اور باقی ماندہ مریض زیادہ تر پرانے بیمار تھے
اس وقت تک جنسی ناسور کا مرض معددم ہو چکا تھا اور سوزاک خاتمے کے قریب تھا
اس کے ساتھ ہی سوزاک کی شرح تیزی سے گھٹ رہی تھی
اس کام میں عورتوں کے ہسپتال جن میں 31 ہزار عورتوں کی رہائش کا انتظام تھا
اور 1647 انسدادی صحت گاہیں جو حاملہ اور شیر خوار بچوں کی مائوں کے لیے مخصوص تھیں
خاص طور پر سے ممد ثابت ہوئیں
یوکرین پر نازیوں کے قبضہ کے دوران میں صحت عامہ کایہ شاندار ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ گیا
ہسپتال، رہائشی شفاخانے، کالج اور طبی ادارے جان بوجھ کر تباہ کئے گئے جو باقی رکھے گئے ان میں عوام کا داخلہ منع تھا
اور وہاں جرمن سپاہ کے لئے چکلے جاری کئے گئے، جرمن سپاہیوں اور افسروں کے لئے باقاعدہ چکلوں کے قیام سے جنسی بیماری میں ہولناک اضافہ ہوا
لیکن اس حادثے کے اعداد و شمار شاید کبھی جمع نہ کئے جا سکیں
کیونکہ لاکھوں بالغ افراد اور بچے یوکرین سے جبراً نکال دیئے گئے
کان میں سے بہت سے ہلاک ہو گئے اور جو باقی بچے وہ طویل عرصے تک وقتاً فوقتاً یوکرین کو واپس لوٹتے رہے
اس لئے میڈیکل ریکارڈ کاصحیح رکھنا نا ممکن ہو گیا
یوکرین کی آزادی کے بعد علاج معالجے اور انسداد امراض کا کام فوراً شروع کیا گیا
مئی 1945 تک چھوت کی بیماریوں کے انسداد کے لئے تقریباً 766 مرکز کھولے جا چکے تھے
چھ ہزار کے قریب عورتوں کے ہسپتال اور ابتدائی طبی امداد کے مرکز قائم ہو چکے تھے
مایوس اور قریب المرگ قسم کے مریضوں کی طرف فوری توجہ دینے کے لئے ساڑھے چار ہزار مرکز قائم کئے گئے اور میڈیکل کالجوں میں طلبا کی تعداد جنگ سے پہلے کے طلبا کی تعداد کے نصف تک جا پہنچی
جنسی بیماریوں کے خلاف الگ سے کوئی مہم نہ چلائی گئی
یوکرین کی صحت عامہ کو جنگ سے پہلے کے معیار پر لانے کے لئے وسیع جدوجہد جا رہی ہے
خصوصاً تپ دق چھوت کی بیماریوں مثلاً چیچک اور گلے کے امراض وغیرہ کے انسداد کے لئے بے حد کوششیں جاری ہیں
امریکہ کے محکمہ صحت عامہ نے آتشک اور سوزاک کے علاج کے لئے جو نئے طریقے رائج کئے ہیں، ان کا مطالعہ کرنے کے لئے اشتراکی ماہرین امریکہ کا دورہ کر چکے ہیں
انہوں نے سریع الاثر علاج کے مرکزوں کا خاص طور سے مشاہدہ کیا
سوویت یونین میں پنسلین کو رائج کیا جارہا ہے
لیکن یوکرین کے ماہرین طب کا خیال ہے کہ جنسی بیماری کے ازالے کے لئے ان کی جنگ سے پہلے کے زمانے کی ایجاد گلوکوز ٹریٹپو سائیڈ ہی کافی ہے
جو علاقے جرمنوں سے آزاد کرائے گئے ہیں ان میں یوکرین کو مثالی حیثیت حاصل ہے
یہاں صحت کا مسئلہ بہت نازک ہے
لیکن یہ حقیقت ہمارے لئے ایک چیلنج رکھتی ہے کہ یوکرین کی حکومت کے اس امر پر زور دینے کے باوجود کہ جرمنی کے تسلط کے دنوں میں وہاں کی صحت عامہ بے حد تباہ ہو گئی
اور جنسی بیماریوں کا مسئلہ ہنگامی صورت اختیار کر گیا، یوکرین میں عصمت فروشی کے خلاف خاص جدوجہد کی ضرورت پیش نہیں آئی
اگرچہ یہ سماجی علت دوبارہ نمودار ہو گئی ہے
لیکن اکا دکا واردات تک محدود ہے
آج اشتراکی اخبارات اپنے ملک کی ازسر نو تعمیر کے زمانے میں نااہل منتظمین کی بے رحمانہ تنقید اور بحالیات کے مسائل کے کھلے اعتراف نزاکت سے بھر پور ہیں
لیکن دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ وہ جنسی بیماری کے مسئلے پر کوئی خاص زور نہیں دیتے۔ کیونکہ اب وہاں اس مرض کو تپ دق اور جلد کی بعض وبائی بیماریوں سے کم خطرناک تصور کیا جاتا ہے اس سے یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے
کہ سوویت یونین دو تین سال کے عرصے میں آتشک اور سوزاک کی بیماریوں کی اتفاقی امراض کی سطح پر لے آئے گا
۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“