گیارہواں حصہ
گناہ اور سائنس Sin And Sciences
۔۔۔۔۔
خیراتی اسپتال
پندرہ منٹوں کے اندر محکمہ صحت کے خیراتی شفاخانوں میں جائیے
شفاخانہ فلاں جگہ ہے تربیت یافتہ ڈاکٹر ڈیوٹی پر ہے
یہ شفاخانہ کھلنے کے بعد چار مہینوں کے اندر تقریباً چار ہزار مرد اس میں داخل ہوئے ان میں تقریباً نصف شہری تھے اور نصف فوجی، ان کے قول کے مطابق بازاری عورت سے بیماری لگنے اور ہسپتال سے حاضری کے درمیان اوسطاً پندرہ منٹ کا وقفہ ہوتا تھا
چونکہ سخت راز داری ملحوظ تھی اس لیے مریضوں کے متعلق کوئی ریکا رڈ نہ رکھا جاتا تھا
لہٰذا اس امر کا کوئی ثبوت نہ تھا کہ یہ شفاخانے آتشک اور سوزاک کو روکنے میں کس حد تک کامیاب یا ناکام رہے ہیں
تاہم شفا پانیوالوں کی فی صد شرح کافی تھی
ان شفاخانوں میں مریض سے صرف یہ دریافت کیا جاتا تھا کہ اس نے کسی بازاری عورت سے فعل کیا تھا یا کسی پیشہ ور سے۔ یا عام شوقین عورت سے اور جواب محکمے کے رجسٹر میں درج کیا جاتا تھا
اس کے علاوہ کسی قسم کے اعداد و شمار جمع نہ کیے جاتے تھے
اور علاج کے موثر یا ناکام رہنے کا کوئی اندازہ نہ لگایا جا تا تھا
لہٰذا یہ سکیم بنیادی طور سے غیر سائنسی تھی
یہی وجہ ہے کہ شہر سکر یمنٹو کے شفاخانے کے ڈاکٹر رسل فرانطر نے رسالہ اطلاعات امراض جنسیہ کے شمارہ بابت ماہ اگست 1942میں اپنی رپورٹ شائع کی تو وہ اس شستہ بیان سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا
کہ موثر مانع امراض کیمیائی دوائوں کو وسیع پیمانے پر رائج کرنے اور شفاخانوں کے قیام کا مسئلہ کافی غور طلب ہے
دوسرے شہروں میں جو تجربے کئے گئے وہ بھی اسی قسم کے تھے
لہٰذا ان کے ذکر کے اعادے سے کوئی خاص فائدہ نہیں
1944میں صورت حال یکسر بدل گئی
پنسلین کی وسیع پیمانے پر تیاری اور ہر دو جنسی امراض آتشک اور سوزاک میں اس کے کامیاب اور موثر استعمال سے ایک مرتبہ پھر نہ صرف جنسی بیماریوں کے انسداد بلکہ ان کے قطعی خاتمے کی توقع پیدا ہو گئی
فوج اور بحریہ میں ہزار ہامردوں پر تجربہ کیا گیا اور اس دوا کے اثرات کا گہرا مشاہدہ کیا گیا
اس کے ساتھ ہی بہ یک وقت بے شمار بیماروں کے معائنے کے طریقے پہلے سے زیادہ مکمل اور بہتر ہو گئے
اس لیے طبی اور سماجی اعتبار سے اس بات کا امکان پیدا ہو گیا کہ جنسی بیماریوں کے خلاف بڑے پیمانے پر مہمیں چلائی جائیں
سب سے پہلی مہم کا بندوبست ایلا باما میں کیا گیا
1943میں امریکی پارلمیان کا ایک ممبر بروس ہینڈرسن جو ضلع کو کس کا امیر جاگیردار تھا
یہ قانون منظور کرانے میں کامیاب ہو گیا کہ چودہ اور پچاس سال تک کی عمر کے باشندوں کے لیے اپنا ڈاکٹری معائنہ کرانا لازمی ہے
ایک اور قانون کے ذریعے لازمی قرار پایا کہ معائنے کے بعد جو لوگ آتشک کے مریض نکلیں وہ اپنے گھرانے کے ڈاکٹر سے یا سر کاری ہسپتال میں مفت علاج کرائیں
یاد رہے کہ اس قانون کو قانون ساز اسمبلی نے بڑی قیل و قال کے بعد پاس کیا
کیونکہ اس کے خواب میں بھی یہ بات نہ تھی کہ بیمار اتنی پھیل چکی ہے کہ اس کے خلاف ایسی سخت اور وسیع جدوجہد کی ضرورت ہو گی جو دیکھنے میں آئی
مسٹر ہینڈرسن کے سامنے ایک واضح مقصد تھا اس کی جاگیر بہت بڑی تھی
اور اس کے تمام رعیت جنسی بیماری میں مبتلا تھی لہٰذا ان کے علاج میں ایسے نفع آیا
ہر سال اس کے حبشی مزدوروں کے خون کا معائنہ مفت ہونے لگا تو اس کے طبی اخراجات کی مد میں 75فیصد کمی ہو گئی
لہٰذا موصوف نے محسوس کیا کہ اسی طرح ریاست کے تمام قانون سازوں کے طبی اخراجات میں کمی ہو سکتی ہے
خون کے معائنے کے اخراجات کے لیے پچھتر ہزار ڈالر کی رقم منظور کی گئی اور سب سے پہلا تجربہ بر منگھم جیسے بڑے شہر میں کیا گیا
اس شہر کی آبادی 50 ہزار کے قریب تھی
جن میں 40 فیصد حبشی تھے
جو ہر قسم کی لوٹ کھسوٹ کا شکار تھے
اور یہ انسانی لوٹ کھسوٹ جنوبی ریاستوں کا خاصہ ہے وہاں حبشی آبادی پر پول ٹیکس عائد ہے
اور ان کا معیار زندگی اور تعلیم بہت ہی پست ہے البتہ یہ مہم کا لے اور گورے دونوں قسم کے لوگوں کے لئے چلائی گئی
نشر و اشاعت میں سنسنی خیز طریقوں سے کام لیا گیا
بڑے بڑے بازاروں میں ہر کہیں بڑے بڑے اشتہار لگا ئے گئے کہ پنسلین سب سے بڑے موذی مفلوج اور بانجھ کر دینے والے مرض سوزاک کو چار گھنٹوں میں ختم کر دیتی ہے
پنسلین کے استعمال سے آتشک کا علاج 9 دن میں ہو سکتا ہے وغیرہ وغیرہ
نوٹس بورڈ’ شو کارڈ’ کاریں ہر آدھ گھنٹے کے بعد ریڈیائی اعلانات غرضیکہ تجارتی پروپیگنڈے کی طرح ہر طریقے اور ذریعے سے کام لیا گیا
امریکہ کے محکمہ صحت عامہ اور افواج کے محکمہ حفظان صحت نے پورے تعاون سے کام کیا
بڑے بڑے ہیلتھ افسروں نے مہم میں حصہ لیا جن کی مدد کے لئے ہزاروں رضا کار عورتیں، لڑکیاں اور مرد نکل آئے
اور انہیں تجارتی چیمبروں، ٹریڈ یونینوں، عورتوں کے کلبوں، حتی کہ کلیسائوں تک بھرتی کیا
اس وقت لوگوں کی حیرانی کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ وہی برمنگھم جہاں چند سال پیشتر آتشک اور سوزاک کے الفاظ سن کر شریف شہریوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی تھیں
وہاں بیماریوں کے خلاف اس طرح جہاد شروع ہوا
گویا یہ ایک مدت سے معاشرے کا جزو بن چکی تھیں
اخباروں نے اس نعرے کو خاص طور سے اچھالا کہ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے معائنہ گاہ میں ملئے
یہ مہم وسط مئی سے جون کے آخر تک جاری رہی اور یہ دنیا کی تاریخ میں اپنی قسم کی پہلی مہم تھی اس سے پہلے خون کے معائنے کا بندوبست پیمانے پر نہ کیا گیا تھا
ہل مین میونسپل اسپتال میں ایک خاص ڈسپنسری کھولی گئی وہاں کے سابقہ کفن گودام میں معائنہ خون کی دنیا بھرمیں سب سے بڑی تجربہ گاہ قائم ہوئی
یہ تجربہ گاہ جلد ہی willow run (ولورن) کے نام سے مشہور ہو گئی
اس کا سبب کام کی تیز رفتاری تھی
کیونکہ اس میں سول اور فوجی ماہرین ایک دن میں دس ہزار اشخاص کے خون کا معائنہ کر ڈالتے تھے
بیالیس دن کے عرصے میں تین لاکھ اشخاص کا معائنہ کیا گیا
خون مختلف مقامات پر حاصل کیا جاتا تھا اور اس کے بے شمار نمونے کرائے کی گاڑیوں میں مذکورہ تجربہ گاہ میں روزانہ لائے جاتے تھے
معائنہ منیرینی کے طریق خوردبینی پر کیا جاتا تھا
یہ طریقہ سو فیصدی کامیاب نہ سہی لیکن اس وقت کے حالات میں موزوں ترین تھا
کیونکہ اس میں بہت کم وقت صرف ہوتا تھا
اور تفصیلی معائنے کا طریق قابل عمل نہ تھا
رضا کار عورتوں کو ایک دن میں 2 ہزار نالیوں اور 12 ہزار نلکیوں کو گرم پانی میں جوش دے کر جراثیم سے پاک کرنا پڑتا تھا
ظاہر ہے کہ خون کے نمونے کے تعین کا کام بہت زیادہ تھا
ہر معائنہ گاہ گویا الیکشن بوتھ تھا
ایک کلرک ہر شہری کا نام، پتہ ، عمر، فون نمبر درج کرتا تھا اور اس کے بعد اسے ایک شیشے کی نالی ور ایک سفید کارڈ دے دیتا تھا
ان دونوں پر ایک ہی نمبر لکھا جاتا تھا، تاکہ دوسروں کی نالیوں اور کارڈوں میں مل نہ جائیں
نالی خون کے معائنے کے کام آتی تھی اور کارڈ معائنے کا ثبوت تھا
چند دوسرے کلرک اسی قسم کے رنگین کارڈ تیار کرتے تھے
جن پر وہی اندراج کئے جاتے تھے اور ایسے اشخاص کی مزید پیروی کے کام آتے تھے جن کے خون بیماری کے جراثیم نکلتے
ہر شخص کے خون کے معائنہ کی تصدیق کے لئے سختی سے تحقیقات کی جاتی تھی
جو شخص پہلے سے بیمار ہوتے ان کے لئے حکم تھا کہ وہ اپنے پرائیویٹ ڈاکٹروں سے اپنے گھروں پر سرکاری ہسپتالوں میں معائنہ ضرور کرائیں
تمام شہری آبادی کے خون کے معائنے کی تصدیق کے لئے مذکورہ بالا کارڈوں کا راشنتگ دفتر کے ریکارڈ سے مقابلہ کیا جاتا تھا
گویا معائنے سے بہت کم لوگوں کو بچ نکلنے کا امکان تھا اور جان بوجھ کر معائنہ سے بھاگنے والوں کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی
تجربہ گاہ کی رپورٹ معائنے سے 48 گھنٹوں کے اندر مرکزی دفتر میں پہنچ جاتی تھی
جس کسی شخص کا خون صاف ہوتا اس کا ریکارڈ بند کر دیا تھا
جن لوگوں کو معائنے سے تین دن بعد تک محکمہ صحت کی طرف سے کوئی مراسلہ موصول نہ ہوتا وہ جان جاتے تھے کہ ان کا خون صاف ہے
لیکن تجربہ گاہ سے مثبت رپورٹ موصول ہوتی تو مریض کی پیروی خاص ماہرین کرتے تھے اور اس شخص کو خاص معائنہ کرانا پڑتا تھا
اس مہم کے دوران میں جتنے لوگوں کا معائنہ کیا گیا ان میں 2 لاکھ 90 ہزار کی عمر قانون کی مقرر کردہ حدود کے درمیان تھی
بعد میں اندازہ لگایا گیا کہ کل 3 لاکھ اشخاص کا معائنہ کیا گیا
جن میں مشکوک قسم کے لوگ اور ایسے اشخاص بھی شامل تھے جن کا دوبارہ معائنہ ہوا اور نوے فیصد اشخاص رضا کارانہ طور پر معائنہ کے لیے آئے
ان نتائج سے آتشک سے متعلق ان شماریات کی تصدیق ہو گئی جنہیں ڈاکٹر لوگ کئی نسلوں سے پیش کرتے آئے تھے
2لاکھ 90 ہزار میں تقریباً 40 ہزار یا 13.7 فیصد اشخاص آتشک کے مریض نکلے
ان دنوں علاج کے طریقے بھی تشخیص کے طریقوں کی طرح زیادہ موثر نہ تھے
مثبت رپورٹ والے اشخاص کو بعض دوسرے مرکزوں میں جانا پڑتا تھا اور جب بیماری کی تصدیق ہو جاتی تو ان پر علاج اسی صورت میں واجب تھا
جب ان کا مرض نام نہاد ابتدائی یا وبائی منزل میں ہوتا
لیکن سوزاک کے مریض کی کوئی تشخیص یا معائنہ نہ ہوتا تھا
آتشک کے مریض کے دوسرے معائنے کے دوران میں کوئی شخص سوزاک میں بھی مبتلا پایا جاتا تو اسے پنسلین کے ٹیکے لگائے جاتے
یہ علاج مفت تھا اور اس کی مدت چار گھنٹے تھی
شادی شدہ افراد کی صورت میں، بیوی اور خاوند دونوں کے پنسلین کے ٹیکے لگائے جاتے تھے
علاوہ ازیں سہ افرادی، طریق علاج بھی رائج تھا
تیسرے فرد کا علاج بیوی اور خاوند سے علیحدہ مگر اسی دن کیا جاتا تھا
آتشک کاعلاج ذرا دیر طلب مگر پیچیدہ تھا
حالانکہ 35 ہزار پرانے مریض ابھی علاج کے لیے منتظر بیٹھے تھے
لیکن سب سے پہلے پرانے مرض والوں کا علاج خاص مرکزوں میں کیا گیا
ان مرکزوں میں پنسلین، آرسینی کلز (arcenicals) اور بسموتھ bismouthکی دوا استعمال کی جاتی تھی اور علاج کی مدت نو دن تھی
لیکن کچھ عرصے تک یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا یہ مہم کہاں تک کامیاب رہی
اس کا ایک خاص سبب یہ ہے کہ جنسی بیماری کسی خاص علاقے میں ایک دن کے لئے بھی محدود نہیں رہ سکتی
چونکہ ایلا باما میں ہر سال بہت تھوڑے اشخاص کی تشخیص اور علاج کیا جا سکتا ہے۔
اس لئے ہر علاقے میں الگ الگ مہم چلانا پڑے گی
عین ممکن ہے کہ ملحقہ علاقوں س برمنگھم میں بہت سے مریض گھس آئیں اور وہاں دوبارہ بیماری پھیل جائے
آج تک صحیح پر معلوم نہیں ہو سکا کہ آتشک کس تیز رفتاری سے پھیلتا ہے
توقع ہے کہ یہ مہم آئندہ سال تک اس سوال کا جواب بھی بہم پہنچا دے گی
جو تجربہ ایلاباما میں کیا جا رہا ہے اس سے نہ صرف جنسی بیماری کا علاج ہوا ہے بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر یہ فائدہ ہوا ہے کہ اس برعظیم (امریکہ) میں لوگوں کو جنسی بیماری کے متعلق کافی واقفیت حاصل ہو گئی ہے
تعلیمی افادے کے پیش نظر دوسرے مقامات پر بھی اس تجربے کی تقلید ہونے لگی ہے
سوناح (جارجیا) میں جہاں ایلاباما کی طرح کوئی جبری قانون رائج نہیں
ماہ اکتوبر اور نومبر 1945 میں سماجی بیماری پر اس سے بھی زیادہ دلچسپ حملہ کیا گیا
یہ مہم رضا کارانہ تھی اور صحت عامہ کی تاریخ میں بے مثال تھی
کیونکہ اس میں آتشک اور تپدق دونوں مہلک بیماریوں کا بہ یک وقت ڈاکٹری معائنہ شامل تھا اور خون کے معائنے کے علاوہ ہر شخص کے سینے کا عکس ریز بھی کیا جاتا تھا
خیال ہے کہ یہ مہم برمنگھم والی مہم سے زیادہ کار گر ثابت ہو گی
نشر و اشاعت سے یہ مہم عوام میں بے حد مقبول ہوئی
بازاروں میں جو اشتہار لگائے گئے ان میں لکھا تھا کہ ”تپ دق کا علاج مرض کے ابتدائی درجوں میں ہی ممکن ہے آج کا عکس ریز کل کا محافظ زندگی ہے”
اس مہم کے عروج کے دنوں میں بڑے بڑے مرکزوں میں مردوں اور عورتوں کی لمبی لمبی قطاریں معائنے کے لئے اپنی اپنی باری کی منتظر نظر آتی تھیں
جنسی بیماری اور تپ دق کا علاج مفت تھا
امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن کے جرنل میں اکتوبر 1945 میں جنسی بیماری کے خلاف ایک اور نئی مہم کی خبر چھپی جو آج کل تجربتہً جاری ہو چکی ہے
آج کل ان مہموں پرپریس میں عام تنقید ہونے لگی ہے
اور نئی تجویزیں پیش کی جانے لگی ہیں
اس مہم کی تجویز کو پیش کئے کافی عرصہ گزر گیا تھا
اس میں کہا گیا تھا کہ حاملہ عورتوں کے خون کا معائنہ کر کے دیکھا جائے کہ وہ آتشک سے متاثر تو نہیں اور جو ہوں ان کا باقاعدہ علاج کیا جائے
اس تجویز پر الینائس میں 1939 سے عمل ہو رہا ہے جب کہ وہاں حاملہ عورتوں کے تحفظ کے قانون کا نفاذ ہوا
پانچ سال کے عرصے میںکوئی ایک ہزار چار سوانچاس عورتیں آتشک کی مریض نکلیں
ان کا علاج ایک ہزار ستاسی ڈاکٹروں نے کیا
قانون کی رو سے ہرڈاکٹر کا فرض ہے کہ وہ ہر حاملہ عورت کے معائنہ خون کی رپورٹ مرکز کو بھیجے
خون کا معائنہ لازمی ہے
خواہ سرکاری تجربہ گاہ ہو یا منظور شدہ پرائیویٹ تجربہ گاہ میں
مثبت معائنے کی صورت میں رپورٹ کی ایک نقل تجربہ گاہ سے جنسی بیماری انسداد کے محکمے میں بھیجی جاتی ہے
اس محکمے کی سنٹرل رجسٹری (جہاں سارے محکمے کی ڈاک کی وصولی اور ترسیل کا کام ہوتا ہے)
ہر تجربہ گاہ سے باقاعدہ رپورٹ وصول کرنے کی ذمہ دار ہے
کسی تجربہ گاہ سے رپورٹ موصول نہ ہو تو یا دوہائی کرائی جاتی ہے
رپورٹ ملنے کی پر متعینہ ڈاکٹر کے پاس آتشک کے علاج کی دوائیں اور محکمہ صحت کا رسالہ دستور العمل بھیجا جاتا ہے
الینائس پلان کے آغاز کے وقت سلفونا مائیڈز sulfonamides اور پنسلین کا استعمال ابھی شروع نہ ہوا تھا
اس لئے عام طور سے جو دوائیں استعمال کی جاتی تھیں
وہ گوشت میں سوئی کے ذریعے داخل کئے جانے والے بسموتھ کے مرکبات اور نسوں میں داخل کئے جانے والے آرسینی کلز کے مرکبات تھے
حاملہ عورتوں کے آرسینی کلز کے ٹیکے آخری ایام میں لگائے جاتے تھے
اس قانون کی بڑی خامی اس کا جبری نہ ہونا ہے کوئی آتشک زدہ حاملہ عورت انکار کر دے تو اس کا علاج نہیں ہو سکتا
میڈیکل سائنس ثابت کر چکی ہے کہ آتشک زدہ حاملہ عورت کا بچے کی پیدائش سے پہلے علاج نہ کرانا بچے کی موت یا سے بری طرح اپاہج بنانے کے برابر ہے لہٰذا مذکورہ رعایت بہت بڑی غلطی ہے
اس کے باوجود یہ قانون بے حد کامیاب رہا
ساڑھے پانچ سو مریض حاملہ عورتوں میں سے علاج کے بعد 94فیصد نے تندرست بچے جنے
مریض ماں کا علاج جتنی جلدی شروع ہوا اتنا ہی زیادہ تندرست بچہ پیدا ہوا
اس کے برعکس علاج سے بھاگنے والی 355 عورتوں میں صرف 26 فیصد نے تندرست بچے جنے
الینائس کے محکمہ صحت کے ڈاکٹر مسٹر ہر مین ایم سولیودے کا بیان ہے کہ
”مشاہدے میں آیا ہے کہ اکثر حاملہ عورتیں بہت دیر سے یا بچے کی پیدائش سے چند ہی روز پیشتر علاج کی درخواست کرتی ہیں
قدرتاً اس سے یہ قانون اور بھی کمزور پڑ جاتا ہے تاہم علاج معالجے کے جدید ترین طریقوں کا استعمال کیا جائے تو اس قانون میں تبدیلی ضروری بھی نہیں رہتی
حالانکہ الینائس پلان کے تحت بیشمار مصیبتوں کا ازالہ ہوا ہے لیکن خاطر خواہ نشرواشاعت نہ ہونے کے سبب اس سکیم کی کامیابی کے باوجود دوسرے شہروں اور ریاستوں میںاس کی تقلید کا جذبہ پیدا نہیں ہوا
فوری علاج کے مرکزوں میں حالیہ کامیابی کے سبب بہت سے شہروں میں ترغیب پیدا ہو گی
اور وہاں بھی آتشک زدہ لوگوں کے علاج کی زبردست کوششیں کی جائیں گی
لیکن یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ایسا ضرور ہوگا۔ 1945 کے آغاز میں محکمہ صحت عامہ نے بتایا تھا کہ امریکہ میں فوری علاج کے چھپن مرکز تھے ان میں ہر سال ڈیڑھ لاکھ مریض علاج کے لئے آتے تھے
ان میں سے تقریباً نصف کے قریب آتشک اور نصف سے زیادہ سوزاک میں مبتلا تھے
اور کل تعداد کا 20فیصد دونوں بیماریوں میں مبتلا تھے اگرچہ 1944کے مقابلے میں زیر علاج عورتوں کی تعداد تگنی سے بھی زیادہ تھی
لیکن یہ ان مریضوں کی تعداد کا ایک ادنیٰ ساجزو تھی جن کو ہر سال جنسی بیماریوں لگتی تھیں
سب لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ جنگ کے دنوں میں امریکہ میں ہر سال دس لاکھ افراد کو آتشک اور اس سے کئی گنا زیادہ کو سوزاک کا مرض لگتا ہے اور ہر سال کم از کم 30ہزار بچے آتشک کی بیماری ساتھ لے کر پیدا ہوتے ہیں
کیا پنسلین اور دوسری طبی ایجادیں اس صورت حال کی اصلاح کر سکیں گی
جنسی بیماری کی صورت پر دو بڑے متضاد محرکات اثر انداز ہو رہے ہیں
پہلا یہ کہ فوری علاج کے مرکزوں کے قیام سے علاج کازمانہ گھٹ کر ایک چوتھائی اور علاج کا خرچ آدھا رہ گیا ہے
اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مقامی منتظمین بھی مرکزکی امداد کے بغیر جنسی بیماری کے انسداد کا کام شروع کر سکیں گے
دوسرا یہ کہ فوج اور بحریہ کی خاص مساعی کی بدولت بیماریاں 1941 سے متعدی صورت اختیار نہیں کر سکیں
لڑائی ختم ہوتے ہی عام سپاہیوں کو معطل کر دیا جائے گا
تو اس صورت حال کا بھی خاتمہ ہو جائے گا اس کے علاوہ جو اتحادی فوجیں یورپ میں لڑ رہی ہیں ان میں جنسی بیماری اس قدر پھیل رہی ہے کہ ماہرین طب پریشان نظر آتے ہیں
مثال کے طور پر کینیڈا کی افواج میں جنسی بیماری کو تقریباً ختم کر دیا گیا تھا
لیکن 1945 کے وسط سے یورپ میں مقیم یا کینیڈا واپس آنے والی افواج میں آتشک او سوزاک کی شر ح اچانک بڑھ گئی
اور اتنی ہی تیزی سے جنسی بیماری کینیڈا کے شہروں میں پھیلنے لگی
اگرچہ مستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا فضول ہے لیکن جنگ کے دوران میں جو تحقیقات افواج میں کی گئی اس کی روشنی میں اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے
کہ جنسی بیماری کا مسئلہ زمانہ امن میں نازک صورت اختیار کر جائے گا
اس تحقیقات کو ڈاکٹر جی ڈبلیو لاری مور اور ٹی ایچ سٹرن برگ نے 1945 میں امریکی رسالہ صحت عامہ میں مختصر بیان کیا ہے
امریکی افواج کے 80لاکھ سے زیادہ سپاہیوں پر جنسی بیماری کے انسداد اور علاج کا تجربہ کیا گیا
فوجی منتظمین کو غیر معمولی اختیارات بیحد روپیہ اور سہولتیں حاص تھیں
آتشک اور سوزاک کے انسداد میںہر معلوم حربے کو استعمال کیا گیا
یہ مہم شہری آبادی میں اس کامیابی سے نہ چلائی جا سکتی تھی، جس کامیابی سے فوج میں چلی
1944 میں فوج میں ڈیڑھ کروڑ کتابیں تقسیم کی گئیں
جن کا موضوع جنسی بیماری اور جنسی مسائل تھا
ان سپاہیوں کی تعداد جن میں لٹریچر تقسیم کیا گیا امریکہ کی کل آبادی کا تقریباًپندرھواں حصہ تھی۔ یہ لٹریچر نہایت اعلیٰ اور دل کش تھا
تحریر میں پرانے انداز کے طبی لیکچروںکی بجائے پروپیگنڈے کا عمدہ اسلوب اختیار کیا گیا تھا
اس لٹریچر کے اثر کو دو بالاکرنے کی غرض سے بے شمار فلمیں دکھائی گئیں جنہیں ایک کروڑ سپاہیوں نے دیکھا
ڈاکٹر لاری مور اور سٹرن برگ جنسی بیماری کے خاتمے کی جدوجہد میں مندرجہ ذیل اسباب کو بہت زیادہ اہم بتاتے ہیں
(1) خوف (2) شعور (3) غرور (4) حب وطن
ان کے خیال میں افواج میں طبی اور تعلیمی سرگرمیوں کی ناکامی کے مندرجہ ذیل بڑے اسباب تھے
(1) جنسی ترغیب (2) جنسی فلموں، مزاحیہ ڈراموں، ملازمت پیشہ لڑکیوں اور تجارتی اشتہاروں کا خواہش انگیزاثر
(3) جنگ کے سبب گھرانوں کا انتشار (4) علاج کے نئے طریقے جن کے طفیل مردوں میں خیال پیدا ہو گیا کہ جنسی بیماری اتنی خطرناک نہیں
(5) شراب نوشی (6) عام اخلاقی معیار
ان اسباب کا افواج کی تعلیمی مہم پر کیا رد عمل ہوا؟
میں نے اس سلسلے میں سرجن جنرل کے دفتر کے محکمہ انسداد امراض جنسیہ کے افسر اعلی لفٹیننٹ کرنل ٹامس سٹرن برگ سے ٹیلیفون پربات کی
اس نے بتایا
اس سال ماہ نومبر میں گزشتہ سال کے مقابلے میں جنسی بیماری کی شرح تقریباً دوگنی تھی
پچھلے سال 30 فی ہزار اور اس سال 60 فی ہزار تھی
1944 میں اوسط شرح 33 فی ہزار تھی
یوں تو فوجوں میںہر کہیں جنسی بیماری کی شرح بڑھ رہی ہے لیکن مختلف علاقوں میں اوسط شرح 33 فی ہزار تھی
یوں تو فوجوں میں ہر کہیں جنسی بیماری کی شرح بڑھ رہی ہے لیکن مختلف علاقوں میں اوسط شرح بھی مختلف ہے
جو فوجیں جزائر فلپائن اور جنوبی بحرالکاہل میں لڑ رہی ہیں ان میں بیماری کی شرح 80 تا 100 فی ہزار ہے
جو فوجیں یورپ کے میدان جنگ میں ہیں ان میں یوم فتح کی تقریب کے بعد سے بہت زیادہ بیماری پھیل رہی ہے
اور وہاں بیماری کی اوسط شرح باقی تمام علاقوں سے زیادہ ہے
لڑائی ختم ہونے سے پہلے یورپ میں اوسط شرح 40 فی ہزار تھی اور اب 170 ہزار ہے
گویا 325 صد یعنی سوا تین گناہ اضافہ ہوا ہے
میں نے سوال کیا کہ آپ کے خیال میں اس رو افزوں اضافے کا کیا سبب ہے
کرنل صاحب نے جواب دیا کہ
یہ اضافہ حیران کن نہیں ہے کیونکہ ہر جنگ کے بعد ایسا ہی ہوتا ہے
جنگ کے خاتمے پر عام اخلاقی معیار گر جاتا ہے
سپاہیوں کے پاس فرصت کا کافی وقت ہوتا ہے جن سپاہیوں کو سمندر پار جانا ہوتا ہے
انہیں کافی عرصہ کشتیوں اور جہازوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے
وہ بندرگاہ میں بیٹھے بیٹھے اکتا جا تے ہیں اور اپنی دلچسپی اور دل بہلاوے کے دوسرے طریقے ڈھونڈ نکالتے ہیں
وہ شہروں میں زیادہ آزادی سے گھومنے پھرنے لگتے ہیں اور بہت جلد جنسی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں
میں نے کرنل صاحب سے پھر سوال کیا کہ آپ کے خیال میں سب سے زیادہ خطرناک محرک کون سا ہے؟
کرنل صاحب نے فرمایا کہ
جواب صاف ہے سب سے زیادہ خطرناک سبب ہے حرام کاری
میجر جارجز ایک لوک کینیڈاوی افواج میں اسی قسم کے منصب دار ہیں
انہوں نے کینیڈاوی افواج کے متعلق بھی چونکا دینے والی اطلاعات بہم پہنچائیں
میں نے امریکہ اور کینیڈا کے چند سول افسروں سے ملاقات کی
انہوں نے اپنے نام کے اظہار سے تو انکار کیا لیکن جو حقائق اور اعداد و شمار ان سے حاصل ہوئے وہ سب ایک سے تھے
انہوں نے کہا
جب سے لڑائی ختم ہوئی جنسی بیماریاں بہت تیزی سے پھیل رہی ہیں
یہاں تک کہ اس برعظیم میں ان کے وبائی صورت اختیار کر جانے کا اندیشہ ہے
فوج سے معطل کئے ہوئے سپاہی آتشک اور سوزاک کی طرف سے بالکل لا پروا ہیں اور اپنی تعلیم کو سرے سے بھلا چکے ہیں
ان میں معائنے اور علاج وغیرہ سے کوئی دلچسپی نہیں پائی جاتی
صورت حال اس قدر نازک ہے کہ نیویارک سٹیٹ میڈیکل جرنل میں تمام ماہرین اور منتظمین کو متنبہ کیا گیا کہ میدان سے واپس آنے والے سپاہیوں کے گھروں میں آتشک اور سوزاک کی ہولناک مصیبت ڈیرا جما رہی ہے
گورڈن بیٹس جو کینیڈا کی مشہور ہیلتھ لیگ کے ڈائرکٹر ہیں اور کئی سال سے جنسی بیماری کے ماہر حیثیت سے مشہور ہیں
وہ فرماتے ہیں:
ظاہر ہے کہ بعض ایسے لوگ جنہیں زیادہ باخبر اور ہوشیار ہونا چاہئے
یہ خیال کرتے ہیں کہ جنسی بیماری کے حقائق کی تعلیم، تشخیص اور علاج کی سہولتیں ہی اس مرض پر قابو پانے کے لئے کافی ہیں
ایک دوسرا گروہ جنس کے جسمانی حقائق سے باخبر ہونے پر اسی طرح زور دیتا ہے
کہ گویا انہی حقائق کی تعلیم سے آتشک اور سوزاک پر قابو پا لیا جائے گا
اگر اس جنسی بیماری کے انسداد کے کام کو محض ہدایات دینے تک محدود رکھنا ہے تو تعلیم اور موثر طریقہ علاج، دونوں کی بدولت عرصہ علالت کو قدرے گھٹایا جا سکتا ہے
معاشی اور اخلاقی اقدار کو نظر انداز کر دیا گیا تو کثرت اختلاط کے ساتھ مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو جائے گا
ڈاکٹر بیٹس اور بھی واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ
جنسی بیماری پر محض اخلاقی نقطہ نظر سے بحث کرنا قدامت پسندی کی دلیل ہے
لیکن اصلی اخلاقیات کے بغیر جن کا تعلق کردار اور سماج سے ہے، جنسی بیماری پر قابو پانا بھی محال ہے
ظاہر ہے کہ یہ رائے ہماری فوجی ڈاکٹروں کی رائے سے بالکل متضاد ہے
ہم امریکی افواج میں جنسی بیماری کی انسدادی مہم کے متعلق ڈاکٹر لاری مور اور سٹرن برگ کی رپورٹ کا ذکر کر چکے ہیں
انہوں نے اخلاقی دلائل کو محض غیر موثر کہہ کر نظر انداز کر دیا
فوج میں جنسی بیماری کے تدراک کی مہم کا خلاصہ یہ ہے کہ ہتھیار خواہ کسی قسم کے ہوں
مقصد صرف جنسی وبائوں کی روک تھام ہے
نتیجتہً ڈاکٹر لاری مور اور سٹرن برگ نے خیال کیا کہ فوج میں طبی نقطہ نظر سے جو مہم چلائی گئی تھی
وہ کامیاب رہی
یعنی اس میں وہ کامیابی ہوئی جس کا ڈھنڈورا لڑائی کے خاتمے سے تھوڑا عرصہ پہلے پیٹا گیا تھا
جب کہ جنسی بیماری نے ہولناک وبا کی صورت اختیار نہ کی تھی اور ان ذلیل طریقوں، آلوں اور دوائوں کی مقدار اور تعداد کو پیش نظر رکھا جائے جو سپاہیوں نے بد فعلی کے وقت بطور حفاظت استعمال کیں
تو اس نام نہاد کامیابی کی قلعی کھل جاتی ہے
چونکہ ہم اس مسئلے کے مطالعے کو صرف طبی امور تک محدود کرنا نہیں چاہتے
اس لئے ہمیں اس حفاظتی سازو سامان سے آزادانہ نمٹا پڑے گا
شاید یہاں اس امر کو دہرانے کی ضرورت نہیں کہ فوجی منتظمین وقتاً فوقتاً اور مختلف مقامات میں جنسی بیماری کے خلاف اپنی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگاتے رہے ہیں کہ سپاہیوں نے کس قدر حفاظتی دوائیں اور کتنے آلے وغیرہ استعمال کئے
لہٰذا یہ اعداد و شمار اس سے زیادہ کچھ نہیں بتا سکتے
کہ سپاہیوں نے کتنی مرتبہ بدفعلی کی اور مانع امراض دوائوں کے طفیل بیماری سے محفوظ رہے
بہت سے قاری اصل شماریت پر حیرت زدہ ہو جائیں گے
مذکورہ بالا چیزوں کی تعداد اور مقدار بے اندازہ اور ناقابل یقین ہے
1945 کے شروع میں امریکی فوج میں فی کس فی چیز کے حساب سے ایک مہینے میں 5کروڑ حفاظتی چیزوں کی کھپت تھی
یہ ہے فوج کے منتظمین کی کامیابی کا پیمانہ
ہمارے سپاہیوں کی تعداد 80 لاکھ ہے
انہوں نے ہر ماہ 5 کروڑ حفاظتی چیزیں استعمال کیں
اب بدفعلی کے ارتکاب کا حساب لگایا جائے تو جو نتیجہ حاصل ہو گا
اس پر شاید اوچھے نکتہ چین بھی جو پادریوں اور اخلاق پرستوں پر ناک بھول چڑھاتے رہتے ہیں
ایک لمحے کے لئے ٹھہر کر کچھ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے
تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں کہ کسی قوم نے اس قدر وسیع پیمانے پر زنا کاری کو بے ضرر بنا دینے کی کامیابی پر شیخی بگھاری ہو۔ یعنی ایک مہینے میں 5کروڑ مرتبہ۔
گناہ کے خاتمے کا پنجسالہ منصوبہ
اب ہم بدکاری اور بداخلاقی کے انسداد کی اشتراکی جدوجہد کی طرف دوبارہ رجوع کرتے ہیں
یہ جدوجہد 1929 کے موسم گرما میں آخری اور نازک مرحلے پر پہنچ گئی
اس وقت دنیا کی سب سے بڑی حکومت کی ایک آدھ وزارت نہیں بلکہ پوری آٹھ وزارتیں اس جدوجہد میں شریک تھیں جو مشترکہ سائنسی منصوبے پر چل رہی تھیں
جو بن بیاہ لڑکیاں صحت گاہوں میں علاج کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کر کے گریجوایٹ بن گئی تھیں
انہیں ملازمت دلانے کی ذمہ داری وزارت محنت نے اپنے ذمے لی
سماجی تحفظ کی عوامی وزارت نے عورتوں کی تربیت گاہوں او رورک شاپوں کو ملک بھر میں قائم کرنے کا کام شروع کیا
اور ایسی عورتوں کو محفوظ اور عمدہ رہائشی مکانات مہیا کرنے کا فریضہ سنبھالا
جن کے متعلق خدشہ تھا کہ وہ بری صحبت کے اثر سے بدکاری میں دوبارہ مبتلا ہو جائیں گی
وزارت صحت عامہ نے صحت گاہوں کو وسیع کیا
جنسی بیماریوں کے زیادہ سے زیادہ ماہرین کی تربیت اور بےکس مائوں کی امداد کا وسیع منصوبہ تیار کیا
اور تحفظ زچہ بچہ کے بے شمار مرکز کھولے
وزارت انصاف اس وقت تک ملیشیا یعنی قومی رضا کاروں کو نئے سرے سے منظم کر چکی تھی
اور بے حد فعال، ہمدرد انسانیت اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار پولیس تیار کر چکی تھی
اب اس منظم بدکاری اور عصمت کی تجارت کے باقیات پر آخری بھر پور حملہ کر دیا
گذشتہ پانچ برس کے عرصے میں جن تاجران عصمت نے اپنا ذلیل کاروبار نہ چھوڑا تھا وہ روپوش ہو گئے تھے
اب وہ ناقص العقل لڑکیوں اور عورتوں کو اپنے جال میں پھنسا نے میں مصروف تھے
اس اثنا میں وزارت انصاف اور وزارت امور داخلہ نے باہمی تعاون سے خفیہ چکلوں کا کھوج لگانے کے لیے خاص سراغرساں پیدا کر لیے تھے
چنانچہ خفیہ چکلوں کے مالکوں کو ڈھونڈ کر سخت سزائیں دی جانے لگیں
چکلہ داروں کے خلاف عام لوگ حکومت کی پوری مدد کرتے تھے
ل
وزارت تعلقات عامہ نے مردوں میں ان کی ذاتی اور سماجی ذمہ داریوں کا احساس پیدا کیا اور عوام میں ایسے لوگوں کو سختی سے ہدف تنقید بنانے کا جذبہ پیدا کیا جو نابالغوں اور نوجوانوں کو جرائم پر ابھارتے تھے
آخری کام، یعنی تمام تنظیموں، اداروں، شفاخانوں، ورکشاپوں اور زچہ و بچہ کی حفاظت گاہوں کو ہر ممکن مالی امداد دینے کی ذمہ داری وزارت تجارت اور وزارت مالیات کے سپرد کی گئی
ظاہر ہے اب انسداد عصمت فروشی کی مہم نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا
یہ جدوجہ ابتدائی مرحلے سے نکل کر ایک نئی منزل میں داخل ہو گئی
اب اس کا دائرہ عمل وسیع ہو گیا
چنانچہ جرائم اور بداخلاقی کا نام ونشان تک مٹانے کے لیے وسیع قومی جہاد شروع ہو گیا
اب حالات کا تقاضا تھا کہ جرائم، بدکاری اور بداخلاقی پر خصوصی سائنٹیفک حملہ کیا جائے
بے کاری ختم ہو جانے سے غریب اور مفلس عورتوں کے سامنے یہ سوال کے برابر پہنچ گئی تھی
عصمت فروشی کا معاشی محرک ختم ہو گیا تھا اور اب عورتوں کے سامنے یہ سوال نہ تھا کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے پیشہ اختیار کریں یا نہ کریں
سوال صرف ان عورتوں کی بحالی کا تھا جو حالات اور افلاس سے مجبور ہو کر طویل مدت سے پیشہ اختیار کیے ہوئے تھیں
اس کی عادی ہو گئی تھیں اور اپنے آپ کو کسی با عزت کام کے اہل نہ پاتی تھیں
ظاہر ہے عورتوں کے اس گروہ کے ساتھ ان کے ”مربیوں” کا وجود داٹل تھا
اس ناپسندیدہ اقلیت کو ختم نہ کیا جاتا تو یہ لوگ نابالغ نوجوان اور غیر مستقل مزاج عورتوں کی کشش کا دائمی محرک بنی رہتیں
اور رفتہ رفتہ عصمت فروش عورتوں کی صفوں میں اضافہ ہوتا رہتا
اصولاً عصمت کے تاجروں کے اس ”ہر اول دستے” کی گرفتاری، ان کے ساتھ ناقابل اصلاح سماجی عناصر کا سلوک اور ان کی سماج سے علیحدگی جائز تھی
لیکن اشتراکی حکومت نے اس قدام پر غور تک کرنے سے انکار کر دیا
اشتراکی منتظمین آخر تک اپنے قائم کر دہ سائینٹفک اصول پر قائم رہے کہ ”طوائف معاشی اور سماجی طاقتوں کی شکار ہے
وہ ایک انسان ہے
لیکن سماجی طاقتوں کی غلام او رمظلوم ہے
اس کی سماجی بحالی صرف ایک نئے، مثبت اور صحت مند ماحول ہی میں ممکن ہے
شہریوں کی جو کمیٹیاں بدکاری کے خاتمے کی مہم میں حکومت کا ہاتھ بٹاتی آئی تھیں
ان سے طویل بحث اور تبادلہ کے بعد اشتراکی ماہرین نفسیات نے شفاخانوں اور ورکشاپوں کے نظام میں انقلابی تبدیلیان کر کے جرائم اور بدکاری کو قطعی طو رپر ختم کرنے کا فیصلہ کیا
نئی صورت حال اسی انقلابی تبدیلی کی متقاضی تھی۔ 1924 تک رہائشی شفاخانوں میں زیر علاج عورتوں کی صرف ایک چوتھائی تعداد نے مختلف پیشے سیکھے تھے اور 1934 تک تین چوتھائی عورتیں مختلف فنون میں تربیت حاصل کر چکی تھیں
اس لیے اس وقت تک بہت سے رہائشی شفاخانے بند ہوچکے تھے باقی ماندہ مریض عورتوں میں نفسانی عدم صحت کی علامات پائی جاتی تھیں امراض نفس کے ماہرین کی نظر میں اس کا سبب طویل عرصے کا پست اور ذلیل طریق زندگی تھا
اس لیے وہ ان کے علاج کی طرف باقاعدہ اور منظم طریقے سے متوجہ ہوئے
انہوں نے امراض نفس کے علاج کے تقریباً وہی طریقے اختیار کیے جس کی زبانی وکالت ہمارے ہاں کے ماہرین کرتے رہتے ہیں
عورت کے انفرادی روحانی طریق علاج پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اشتراکی ڈاکٹروں نے اپنی تمام تر کوشش اس سماجی اور معاشی ماحول کو بدلنے کے لیے وقف کر دیں۔ جس میں وہ رہتی تھیں۔ انہوں نے اس ماحول کو ایسا بنا دیا کہ عورت کے لیے بااخلاق طریق سے زندگی بسر کرنے کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہ رہا
۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“