حصہ دہم
۔۔۔۔۔
گناہ اور سائنس Sin And Sciences
تجربہ شاہد ہے کہ طبی تحققیات نے جنسی بیماری کے علاج کے طریقوں کو بہتر بنایا تو اس کے ساتھ ہی بیماری کا خوف کم ہو جانے کی وجہ سے اخلاقی دبائو کمزور پڑ گیا
اس کا نتیجہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ طبی سرگرمیوں کو تیز تر کر دینے کے باو جود بیماری میں اضافہ ہی ہوتا ہے
ایک ایسی دوا کی ایجاد کے لئے بڑے پیمانے پر تجربے کیے جا رہے ہیں
جس کو استعمال کر کے بازاری عورت کے پاس جائیں تو آتشک اور سوزاک کی بیماری لگنے کا ڈر نہ رہے
ان کوششوں کا زنا اور عصمت فروشی پر جو اثر پڑے گا وہ ظاہر ہے
یہ کتنا تکلیف دہ امر ہے کہ ہمارے بہت سے طبی ماہر جو صحت عامہ کو بہتر بنانے کی غرض سے جنسی وبا کے مسئلہ میں بری طرح مصروف ہیں
وہ اتنے تنگ نظر واقع ہوئے ہیں کہ عصمت فروشی کی محض اس لیے مخالفت کرتے ہیں کہ اس سے جنسی بیماری پھیلتی ہے
بعض ڈاکٹر تو بدکاری اور بداخلاقی کے وسیع مسائل پر غور کرنے کو بھی حماقت تصور کرتے ہیں
اور مصر ہیں کہ ان مسائل سے سائنس کا کوئی تعلق نہیں
یہ دلیل غیر شعوری طو رپر اس مکروہ عیاری کی حمایت میں جاتی ہے
جو آج بھی جنسی بیماری کے خلاف قومی پیمانے پر انسدادی مہم چلانے میں زبردست رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے
ہم برطانیہ کی وزارت محنت کے رویے پر ڈاکٹر نارگن کی تنقید اوپر دیکھ چکے ہیں
اس قسم کا رجحان بر عظیم امریکہ میں بھی پایا جاتا ہے
نیویارک سٹیٹ میڈیکل جرنل کے مارچ 1943کے شمارے میں بتایا گیا کہ جب ہیلتھ کمشز، ڈاکٹر ارنسٹ ایل اسٹینزے سکولوں میں حفظان صحت کی تدریس کی تجویز پیش کی تو اعلیٰ تعلیم کے بورڈ نے تعاون کرنے سے انکار کر دیا
اس کے ایک سال بعد امریکی محکمہ صحت عامہ اور دفتر اطلاعات جنگی کو سماجی بیماریوں کے انسدادی طریقوں کی عام تعلیم کی نئی اور حوصلہ افزا مہم منسوخ کرنے پر مجبور ہونا پڑا
مذہبی مشیروں کے ایک گروہ نے اس قلم کی تجارتی تھیئڑوں میں تقسیم روک دی جس کا نام امریکی عوام سے تھا
اور جس میں جین ہر شولٹ نے کام کیا تھا اور جسے والٹر دینگر نے تیار کیا تھا
لہٰذا ساری مہم شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گئی
ماہ ستمبر میں امریکی محکمہ صحت عامہ اور دفتر اطلاعات جنگی نے رائے عامہ کو دوبارہ باخبر بنانے کی کوشش کی
اور اس سلسلے میں ڈاکٹر پیرن نے مجلس نشریات جنگی سے خط و کتابت بھی کی لیکن کامیابی نہ ہوئی
یہ مجلس اس وقت اس وقت تمام بڑے بڑے اخباروں اور رسالوں میں نشرو اشاعت کی مہم چلا رہی تھی
لیکن اس پر سخت دبائو ڈالا گیا کہ وہ اس کام کو ترک کر دے
اس ضمن میں جو اشتہارات تیار کیے گئے تھے
ان پر اشاعت سے پہلے ہی گندے، اخلاق سوز اور مکروہ ہونے کا لیبل لگا دیا گیا
ڈاکٹر پیرن نے جواب میں کہا کہ یہ سکیم سائنسی بنیادوں پر تیار کی گئی ہے
جنسی اخلاق سکھانا گھر، اور سکولوں کا اہم فریضہ ہے
چونکہ یہ وبائیں بے حد خطرناک ہیں اس لیے جنسی بیماریوں سے نپٹنا صحت عامہ کے اداروں کی ذمہ داری ہے
میں پر زور سفارش کرتا ہوں کہ اس مہم کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنے اور شہریوں کا تعاون حاصل کرنے کی اجازت دی جائے
مجلس نشریات جنگی نے جواب دیا کہ ہمیں جنسی بیماری کی نزاکت اور خطرے کا پورا احساس ہے لیکن اس مہم کی متنازعہ فیہ نوعیت کے پیش نظر ہم مجبور ہیں وغیرہ وغیرہ
ایسی نیک مہم کے سبوتاژ کی جتنی بھی مذمت کی جائے تھوڑی ہے
دراصل عام تعلیم کی بجائے سازشی لوگ ہی مکروہ اور اخلاق سوز ہیں
خیر ہمیں ماننا پڑے گا کہ ان حضرات کے ارادے خواہ کچھ بھی ہوں انہیں اپنی مکروہ حرکتوں کے لیے تمام تر مواد اس افسوسناک ذہنی الجھائو سے ملتا ہے جو طبی حلقوں میں پایا جاتا ہے
زار شاہی روس میں جو صورت حال پائی جاتی تھی اس کا مقابلہ ان حقائق سے کرنا دلچسپی سے خالی نہیں جو ہمارے ملکوں میں پائے جاتے ہیں
پہلی جنگ عظیم کے آغاز سے پہلے چوری چھپے گھروں میں دھندا کرنے والی عورتوں سے جتنے مردوں کو بیماری لگی تھی
ان کی تعداد ایسے مردوں سے دگنی تھی جن کو بازاری عورتوں سے بیماری لگی تھی
حالانکہ اول الذکر عورتوں پر سخت قسم کی طبی نگرانی تھی اور دوسری پابندیاں عاید تھیں
آج کل ڈاکٹری معائنے کے فن اور علاج میں بہت زیادہ ترقی ہو چکی ہے
لیکن صورت حال کیا ہے؟
جنسی بیماری کے مذکورہ بالا اسباب کا مطالعہ حال ہی میں امریکی محکمہ صحت کے ایک افسر ڈاکٹر بانکوم جانسن نے کیا ہے
انہوں نے ثابت کیا ہے کہ چکلوں کے سر پرستوں کو جنسی بیماری س محفوظ رکھنے میں جدید ترین طریقے بھی ناکام رہے ہیں جو لوگ روس کے زرد پٹے کے نظام کا حال پڑھ کر حیران اور خوف زدہ ہو گئے تھے
ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ڈاکٹر جانسن نے مذکورہ نتیجہ جنگ کے دوران میں ٹیکساس کے شہر الپاسوکی صورت حال کے مطالعے کے بعد نکالا تھا
اس شہر میں کبھی عصمت فروشی کے نو اڈے تھے
اور وہ ان سپاہیوں کی جیب سے روپیہ کھینچ رہے تھے جو قریب ہی قلعہ بلس میں تربیت پا رہے تھے
فوجی افسروں نے اڈوں کو جبراً بند کر دیا تو یہی اڈے سر حد پار، میکسیکو کے شہر جوار یز میں منتقل ہو گئے
اس کے کچھ عرصے بعد اطلاع ملی کہ فوج میں جنسی بیماری کم ہو گئی ہے
لیکن ڈاکٹر جانسن نے دو حیران کن حقائق کا انکشاف کیا
اس نے اپنی رپورٹ جنسی بیماری سے متعلق جلد نمبر 23، مطبوعہ جنوری 1942 میں بتایا کہ ”عصمت فروشی” کے اڈوں کو سرکاری طور سے بند کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسپتالوں کے ڈاکٹروں نے جنسی بیماری میں معتدبہ کمی کی رپورٹ دی
لیکن ساتھ ہی زیر علاج سپاہیوں کی تعداد بڑھ گئی
اعداد و شمار کے اس تضاد کی تشریح بالکل آسان ہے
ڈاکٹر جانسن نے خیال کیا کہ وہ اڈے در حقیقت بند ہو گئے
حالانکہ ہوا صرف یہ کہ ان کے مالک ان اڈوں کو ٹیکساس کی سرحد کے پار لے گئے
اور ڈاکٹروں نے اس خوف سے رپورٹ میں نئے مریضوں کی تعداد بتانے میں تامل کیا کہ یہ امرفنی نقطہ نظر سے درست نہ تھا
تقریباً ہر شہر میں سالہا سال سے دیکھا جاتا ہے کہ بدکاری کے خلاف پولیس ذرا سخت رویہ اختیار کر لے تو حقائق کو بالکل اسی طرح توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے
چکلے بند کر دئے جاتے ہیں تو اس کے بعد زود یا بدیر پہلے مقام کے حدود سے باہر حسب معمول کاروبار جاری ہو جاتا ہے
یا پھر شراب خانون، ناچ گھروں، سیاحوں کے کمپوں وغیرہ میں دھندا شروع ہو جاتا ہے
پولیس کا تشدد بہت بڑھ جائے تو بدمعاشی اور بدکاری کے جدید ناظم کرائے کی گاڑیوں میں چلتے پھرتے اڈے قائم کر لیتے ہیں
بیمار عورتوں کو اس طرح منتشر کرنے اور تمام قوم کے لیے خطرناک نتائج پیدا کرنے کے واقعات کے علاوہ ہم اوپر ایسے اعداد وشمار بھی درج کر چکے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ان مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جنہیں پیشہ ور عورتوں کی بجائے وکٹری گرلز سے بیماری لگتی ہے
روس میں جنس کی باقاعدہ تجارت ہوتی تھی
اس نظام میں اور اس بدکاری اور بدمعاشی میں جو ہمارے ملکوں میں دن رات ترقی کر رہی ہے
عملاً کوئی فرق ہے تو صرف یہ کہ روس میں بدکاری پر سخت وحشیانہ نگرانی تھی
اور عصمت فروشی کے وجود کے عام تسلیم کیا جاتا تھا
لیکن ہم اس فریب میں مبتلا ہیں کہ ہمارے سماج کے بالکل نچلے طبقوں میں ہی عصمت کی تجارت ہوتی ہے
آجکل ہم اتنے سائنس پرست ضرور ہو گئے ہیں کہ آتشک اور سوزاک کے متعلق بلا جھجک پڑھنے اور بات چیت کرنے لگے ہیں
لیکن ہم اس سے آگے نہیں بڑھتے
ہمارے ڈاکٹر بڑے دھڑلے سے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ عقل اور سائنس کے پجاری ہیں
ان کے خلوص میں کوئی شبہ نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ آج تک عام فریب کاری اور خوش فہمی کو طبی زبان کی چاشنی میں لپیٹ کر پیش کرتے رہے ہیں
یہ ہمارے اجداد کے زمانے کی واہیات مہموں کو دہرا رہے ہیں
فرق صرف اتنا ہے کہ وہ احیا پرستانہ وعظ سے کام لیتے تھے اور ہم زود اثرا ادوایات اور پنسلین سے کام لیتے ہیں
جس پریشان کن ذہنی الجھائو کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، اس سے اور کوئی نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا
یہی وجہ ہے کہ آج کل یہ مضحکہ خیز بحث جاری ہے کہ منظور شدہ چکلوں میں جو بدکاری ہوتی ہے وہ مقابلتہً کم خطرناک ہے
یا وہ بدمعاشی جو ایسے خلاف قانون اڈوں میں جاری ہے جنہیں پولیس خفیہ یا ظاہری طور پر برداشت کر رہی ہے
اس بحث کا مقصد اس مکروہ تکرار پر پردہ ڈالنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں کہ ہم کیسے جی بھر کر عیاشی کرنے کے باوجود جنسی بیماری سے محفوظ رہیں
یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ آج سے کافی عرصہ پہلے زار شاہی روس میں اس بحث کو اپنے آخری اور تلخ نتیجے پر پہنچا کر دم لیا گیا
ذرا بنیادی امور کو لیجئے جنسی بیماری کس طرح لگتی ہے؟
اتبداً جنسی فعل سے مرد اور عورت اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں
ظاہر ہے کہ ایسے مردوں اور عورتوں کو صفحہ ہستی سے مٹایا نہیں جا سکتا
ان کی تعداد اتنی کثیر ہے کہ انہیں نظر بند کرنا بھی محال ہے
انہیں ہسپتالوں میں بھی بند نہیں رکھا جا سکتا
کیونکہ لاکھوں مریضوں کے لیے بے شمار اداروں کی تعمیر و تنظیم ناممکن ہے
اور بیمار اشخاص کو دوسرے لوگوں سے ملنے جلنے سے روکنا بھی آسان کام نہیں
لہٰذا یہ مسئلہ ہمیں اسی شیطانی چکر میں الجھائے رکھتا ہے
اس مایوس کن صورت حال سے یہ عقیدہ جنم لیتا ہے کہ منظم بدکاری، یعنی عصمت کی تجارت اور جنسی بیماری، ہر دو ابدی چیزیں ہیں۔ لیکن ہم آج کل کے ترقی یافتہ اور جدید مہذب زمانے میں یہ بھی تسلیم نہیں کر سکتے کہ آتشک اور سوزاک جیسے ہلاک آفرین طاعون ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ لہٰذا طبی نقارے پر چوٹ پڑتی ہے او رہم دوبارہ اسی چکر میں پھنس جاتے ہیں۔
گذشتہ دو برس میں ایک بالکل نیا اور نازک سا واقعہ رونما ہوا ہے، جس سے جنسی بیماری کے متعلق رائے عامہ اور الجھ گئی ہے
ہمارے ڈاکٹر ایسے سفید پوش مجاہد تو نہیں ہیں ‘جن کا سائنسی تقدس کسی شبہ سے بالا ہو
اس لیے طبی تحققیات نے خاص طور سے جنسی بیماری کے معاملے میں انوکھا راستہ اختیار کر لیا ہے
ان میں سے ایک تحقیق کا مقصد یہ ہے کہ بدکاری اور بدمعاشی کو تمام مردوں، عورتوں اور نوجوانوں کے لیے بے ضرر بنا دیا جائے
جو پادری فوجوں میں ملازم ہیں وہ اس تحقیق کو بڑی تشویش ناک نظر سے دیکھتے ہیں
کسی قاری کو حقیقت حال کا پورا علم نہ ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ امریکی فوج کے دو ڈاکٹروں، کرنل ولیم ڈنٹسن اور کیپٹن جیمز لولیس کی رپورٹ کا مطالعہ کرے
جو امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن کے سرکاری ترجمان کے 13مارچ 1943 کے شمار میں چھپی ہے
اس سائنسی رسالے میں اس تجربے کا ذکر ہے جو پانچ ہزار امریکی سپاہیوں پر کیا گیا
اس پیشترکہ یہ سپاہی اتوار منانے کے لیے قلعہ چھوڑتے، انہیں جدید ترین مانع مرض دوائیں استعمال کرائی جاتیں
چنانچہ مشاہدہ کیا گیا کہ جن سپاہیوں کو یہ دوائیں استعمال نہیں کرائی گئی تھیں ان کے مقابلے میں اول الذکر گروہ کے بہت کم سپاہیوں کو یہ بیماری لگی
اب اس طریقے کو مزید آزمایا اور بہتر بنایا جا چکا ہے
لیکن اس کی اشاعت نہیں کی جا رہی
ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تجربہ مکمل ہو گیا تو جنسی بیماری پر قومی پیمانے پر کنٹرول کیا جاسکے گا
ہمارے رائے میں عصمت فروشی، بدکاری اور نوجوانی کے جرائم کا انساد قطعاً ناممکن ہو جائے گا
ہم اس طبی طریقے کو قبول کر لیں تو کسی قسم کے کنٹرول کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی
فوجی ڈاکٹروں میں دن بدن یہ خیال عام ہو رہا ہے کہ سماجی اصلاح کے ادارے بدکاری کے خلاف اپنی تمام سرگرمیوں ترک کر دی
پیشہ ور شوقین طوائفوں کے خلاف مزید اقدام کرنا بندکر دیں
اور جنسی بیماری کے انسداد کے لیے حفاظتی دوائوں کا آزادانہ استعمال کریں
ایک مکتبہ خیال سے تعلق رکھنے والے سائنس دان تو ایسا فیصلہ کر بھی چکے ہیں
اس مکتبہ خیال کے حامی اپنا پراپیگنڈا ابھی احتیاطاً ذاتی بحث مباحثے تک ہی محدود رکھتے ہیں اور رسالوں میں مبہم طبی اصطلاحات اور تراکیب کے پردے میں اپنے مقصد کا پرچار کرتے ہیں
لیکن جلد ہی وہ زیادہ دلیر ہو جائیں گے
یہ بات قابل توجہ ہے کہ جمہوری ممالک کے اس فوجی اور طبی اخلاقیات کے تباہ کن پہلو کے خلاف اگر کسی نے آواز بلند کی ہے تو وہ صرف فوجی پادریوں کی ذات ہے
صرف ایک لحاظ سے وہ سوویت یونین کے سرکاری نقطہ نظر کے قریب ہیں اور ہم بلا خوف مبالغہ یہ کہہ سکتے ہیں
کہ جدید پادریوں کے گناہ کے متعلق نظریئے اور بداخلاقی کے بارے میں اشتراکی نقطہ نظر میں صرف ایک ہی اختلاف کا پہلو ہے
اور وہ یہ ہے کہ پہلے نظریے کی ایمانداری سے تبلیغ کی جاتی ہے اور دوسرے نظریے پر کامیابی سے عمل ہو رہا ہے
مہینے میں پانچ کروڑ مرتبہ بدکاری کے خلاف سوویت یونین کی انسدادی جدوجہد کا مزید جائزہ لینے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے
کہ جنسی بیماری یعنی آتشک کے تدراک کے لیے آج تک جو کچھ امریکہ میں کیا گیا ہے اس کے باقی ماندہ حصے کو بیان کر دیا جائے
پرل ہاربر کے واقعہ سے لے کر آج تک امریکہ کے مختلف قدرتی خطوں میں جنسی بیماری کے خلاف جداجدا مگر وسیع پیمانے پر مہمیں چلائی گئی ہیں
یہ مہمیں سوویت یونین کی جدوجہد سے کئی طرح مختلف ہیں
خاص فرق یہ ہے کہ امریکی شہروں میں تمام تر توجہ جنسی بیماری کے طبی علاج پر مرکوز رہی، اور سوویت یونین میں سماجی بیماری کے سماجی محرکات کا دور کرنے پر زور دیا گیا
ابتدائی اقدامات میں وہ مہم خاص طو رسے قابل ذکر ہے جو شہر سیکر منیٹو کے محکمہ صحت نے اگست 1941 میں شروع کی
اس وقت جنسی بیماری کی ہولناک وبا کا الزام طوائف اور وکٹری گرل پر دھرا جاتا تھا
چونکہ پولیس اور ڈاکٹر جن اقدامات کی سفارش کرتے تھے
ملک کا قانون ان پر عمل در آمد کی اجازت نہ دیتا تھا
اس لیے محکمہ صحت نے اس ہنگامی مسئلے کو نرالے طریق پر سلجھانے کا فیصلہ کیا
چنانچہ جنسی بیماریوں یعنی آتشک اور سوزاک کے لیے ایک تجربہ گاہ کھولی گئی اور شہر کے تمام مردوں اور عورتوں کو فوری توجہ کے لیے بلایا گیا
اس اقدام سے کیا مقصود تھا؟
اس کا جواب نہایت سیدھا سادا ہے یہ مرکز شام کے سات بجے سے صبح کے تین تک کھلا رہتا تھا
کیونکہ انہی ساعتوں میں اکثر مرد بازار جاتے تھے
اس میں ایک ڈاکٹر ہر وقت حاضر رہتا تھا اور اس کے پاس ایسی دوائیں ہر وقت موجود رہتی تھیں، جو آتشک اور سوزاک کی بیماری لگ جانے کے فوراً بعد مفید ثابت ہو سکتی تھیں
”رفاہ عامہ” کا یہ مرکز کتنا قابل نفرت تھا
یہ ایک عمارت کے سب سے نچلے کمرے میں واقع تھا
جس کا دروازہ بازار میں بھی کھلتا تھا
دروازے پر ایک سائن بورڈ لٹک رہا تھا، جس پر ”انسدادی مرکز” کے حروف لکھے تھے
ان حروف پر سبز روشی پڑتی تھی۔ مرکز کے اندر مختصر سا سامان تھا
تاہم دن کے وقت محکمہ صحت کے ملازم مزید دوائیں لے آتے تھے اور علاج معالجے کی سہولتیں بہم پہنچاتے تھے
نشر و اشاعت دو طریقوں سے کی گئی
اولاً، تمام طوائفوں اور آوارہ عورتوں کو متنبہ کر دیا گیا کہ وہ بیماری کی شرح کو اگر اس سطح سے نیچے رکھنا چاہتی ہیں
جس پر پولیس کے لیے چھاپہ مارنا لازمی ہو جاتا ہے تو انہیں چاہیئے کہ اپنے خریداروں کو نصیحت کریں
کہ وہ ہم آغوشی کے بعد احتیاطاً انسدادی مرکز کا رخ کریں
دوسرا طریقہ قدرے پیچیدہ تھا
سینکڑوں اشتہارات چھپوائے گئے اور ناچ گھروں، سرکاری دفتروں، شراب خانوں وغیرہ پر چسپاں کیے گئے۔ ان پر مختصر سی عبارت درج تھی
جنسی بیماریوں کو روکا جا سکتا ہے
۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“