گناہ اور سائنس Sin and Science
۔۔۔۔۔
حصہ اول
۔۔۔۔۔
جو شخص کسی جدید شہر کے ماحول میں پل کرجوان ہوا ہے وہ جانتا ہے کہ جرم، گناہ اور سائنس کے معنی کسی دلیل کے محتاج نہیں
دنیا میں اکثر لوگ یا کم از کم ہندو ستانیوں اور پاکستانیوںکی اکثریت گناہ کی تعریف اپنے اپنے مذہب کے مطابق کرتی ہے
مسلمان کے لیے شراب پینا گناہ ہے اور ہندو کے لیے گائے کا گوشت کھانا
لیکن عیسائی شراب بھی پیتا ہے اور گائے کا گاشت بھی کھاتا ہے اور جھرجھری تک نہیں لیتا
چونکہ گناہ کا یہ رنگا رنگ تصور سماج کو کسی منزل پر نہیں لا سکتا
اس لیے بعض افعال کو روکنے کے لئے قانون کا استعمال کیا جاتا ہے
ان افعال پر جرائم لیبل لگایا جاتا ہے اوران کا ارتکاب کرنے والوں کو پولیس اور عدالت سے سزا دلائی جاتی ہے عدالت سے سزا دلانے کے لئے جرم کا ثبوت اور ملزم کو مروجہ قانون کے مطابق مجرم قرار دینا لازمی ہے
لیکن گناہ کا ثبوت اور اس کی سزا کا تعین اکثر ناممکن ہوتا ہے
لہٰذا گناہ کی سزا اگلے جہان یا اگلے جنم پرموقوف کر دی جاتی ہے
سائنس مذہبی اور عدلی قوانین سے آزاد ہے
اور سائنس میں محتاط تجربات یا مشاہدات کی منطقی اور مادی تشریح کے بعد نتیجے نکالے جاتے ہیں
مثلاً جو شخص زہر کی ایک خاص مقدار نگل جائے، وہ یقینا مر جائے گا، خواہ اس کا یہ فعل خلاف قانون ہو یا نہ ہو
ہم کسی بیماری کے جراثیم کو ایک خاص تعداد تک اپنے جسم میں پرورش پانے دیں تو ایک خاص مدت کے بعد ہمیں وہی بیماری ضرور لگ جائے گی
خواہ خدا کی ایسی مرضی ہو یا نہ ہو
اگر یہ تینوں نظریئے ایک ہی طرف اشارہ کریں اگر گناہ کرنے سے بیماری لگنے کا امکان ہوا اور ایسے فعل کاارتکاب جرم بھی ہو تو سماج ایسی برائی کی جڑ کانٹے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے
مرد و عورت کے باہمی تعلقات سے متعلق قوانین اور مخصوص جنسی تعلقات سے پیدا ہونے والے مسائل
مثلاً طلاق، جنسی بیماریوں اور عصمت فروشی سے متعلق قوانین ہمارے دعوے کا واضح ثبوت ہیں
اسی طرح شراب نوشی کے فرد خاندان اور بحیثیت مجموعی سماج پر برے اثرات کے پیش نظر جو مشین کے زمانے میں حادثات کی کثرت کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں
اس کی ممانعت سے متعلق قوانین ہمارے دعوے کا ایک اور ثبوت ہے
ڈائی سن کا رٹر نے ان طریقوں کو نہایت خوبصورتی اور غیر جانبداری سے بیان کیا ہے
جو عہد حاضر کی دو بالکل مختلف اور اپنی قسم کی واحد اور نمونے کی دنیائوں میں مذکورہ برائیوں کو نیست و نابود کرنے کے لیئے حال ہی استعمال کئے گئے
کسے انکار ہے کہ امریکہ نے سائنس میں عظیم الشان ترقی کی ہے اور اس کی پولیس اس سے بھی کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور طاقت ور ہے
ان دو قوتوں کے علاوہ بوقت ضرورت امریکہ کے تمام مذہبی فرقے بھی اپنی کوششیں سماجی مسائل کے لئے وقف کر دیتے ہیں
تاہم وہاں طلاق کی شرح دن بدن بڑھ رہی ہے
اور اس کی تعداد دنیا بھی میں سب سے زیادہ ہے
اخلاق سدھار سیاسی مہموں، سپیشل پولیس کی بھاگ دوڑ اور منبروں سے وعظ کی یورش کے باوجود جنسی بیماریوں، عصمت فروشی اور شراب نوشی ختم نہیں ہوئی
سوویت یونین ایک نئے قسم کے سماج کا سب سے پہلا اور عظیم نمائندہ ہے
وہاں ایسی مہلک بیماریوں کے پھیلنے کا ہر ممکن سبب موجود تھا جو جدید سماج کا خاصہ ہیں
انقلاب سے مذہب کی منظم حیثیت ختم ہو گئی
بہت سی پرانی پابندیاں دور ہو گئیں
بدکار کو مجرم گردان کر سزا دینا بند کر دیا گیا
طلاق لینا بہت ہی سہل ہو گیا اور حکومت نے خود سستی شراب مہیا کرنا شروع کر دی
اس کے علاوہ بیرونی سرمایہ دار ممالک کی مسلح مداخلت سے جو تباہی پھیلی او راس کے باوجود وہاں پیداوار کی مسلسل بڑھتی ہوئی شرح کو دھیان میں رکھا جائے تو ان حالات میں سرمایہ دارانہ منطق کے مطابق یہی نتیجہ نکلا جا سکتا ہے
کہ وہاں عیاشی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ روس میں عصمت فروشی کا نام بھی باقی نہیں رہا
طلاق کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے اور آج ایک ایسے ملک میں آدمی شراب کا نام تک نہیں لیتا جو کبھی اپنے ہاں کے کسانوں اور مزدوروں کی بلا نوشی کے لئے بدنام تھا
ممکن ہے یہ باتیں خلاف قیاس اور محض واہمہ معلوم ہوں لیکن یہ ایک زندہ حقیقت ہے
روس میں ہر سماجی مسئلے کی سائنسی تحقیقات کی گئی اس کی تہ تک پہنچا گیا اور جو حقیقت نکلی اس کی منطقی پیروی کی گئی اس کے بعد یہ خوشگوار نتیجے حاصل کئے گئے
سرمایہ دار ممالک میں ایک پولیس کا سپاہی جو سوال پوچھنے کی جرأت نہیں کرتا ایک مذہبی پیشوا پوچھ نہیں سکتا
اور ایک سائنسدان پوچھتا ہی نہیں وہ سوال یہ ہے کہ آخر یہ خرابیاں سماج کیوں پائی جاتی ہیں
؟؟
اس کا اشتراکی جواب یہ ہے کہ یہ برائیاں اس لئے پائی جاتی ہیں کہ آبادی کے بعض طبقے ان برائیوں کے بل پر بھاری منافع کماتے ہیں
بدطینت لوگ حرام کاری کو بھی اپنی غرض کے لئے استعمال کرتے ہیں
حرامکاری لاتعداد عوام کی اس لوٹ کھسوٹ کا ایک عام نتیجہ ہے جو انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو برے کاموں پر مجبور کرتی ہے
عام لوٹ کھسوٹ ختم ہوئی تو بداخلاقی کا بنیادی سبب دور ہو گیا
اس کے بعد ان لوگوں کو سخت سزائیں دی گئیں جنہوں نے بدکاری سے منافع کمانے کی کوشش کی
لیکن یاد رہے سزائیں ان لوگوں کو نہیں دی گئیں جو بدکار تھے بلکہ منافع خوروں کو، رنڈیوں کو نہیں بلکہ چکلہ داروں کو اور شرابیوں کو نہیں
بلکہ ناجائز طورپر شراب در آمد کرنے والوں کو سزائیں دی گئیں
اس کے ساتھ ہی سب کے لئے باعزت روز گار کے مواقع پیدا کئے گئے
اور کام کا حق تہذیب و تمدن کا ایک لازمی جزو بن گیا
اس اقدام کے بعد نئی آزادی کے اثرات کا مشاہدہ کرنا اور نئے قوانین، پارٹی پراپیگنڈے اور لوگوں کی سائنٹفک تعلیم کی طرف رجوع کرنا آسان ہو گیا
اس کے علاوہ سب کے لئے آرام اور تفریح کی مختلف سہولتیں پیدا کی گئیں
مکمل تعلیم اور سستے اور اعلیٰ لٹریچر اور عمدہ موسیقی کا بندوبست کی گیا
سنیما اور ذہنی اور جسمانی تربیت کے مختلف ادارے قائم کئے گئے
چونکہ ان خرابیوں کے بنیادی سبب کو ختم کر دیا گیا اس لئے وہ ناپید ہو گئیں اور زندگی سب سے پہلی مرتبہ اس قدر خوشگوار بن گئی کہ آئندہ اس سے گریز کی ضرورت ہی باقی نہ رہی
ہمیں اپنے ملک میں ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے اور ہم امریکی طریقہ کار آزما رہے ہیں
اس میں شراب نوشی کی ممانعت بھی شامل ہے
لیکن ہر منافع خور کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ اپنے ہم وطنوں کو زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم کر کے انہیں غیر طبعی موت مارے
"چونکہ وہ باعزت طبقے کا فرد ہے اس لئے اس کا یہ مذموم فعل قابل مواخذہ نہیں
پولیس الٹا مظلوموں کو دباتی ہے او راس ظالم کی ذات اور اس کے منافع کی حفاظت کرتی ہے
جو لوگ منافع کے خالق ہیں، وہ فقر وفاقہ کی زندگی بسر کرتے ہیں
غلیظ جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور علم کی روشنی سے محروم ہیں
لیکن ایک سائنسدان اس طرف سے آنکھیں بند کر لیتا ہے
وہ سرمایہ دار کو فنی مشورے دینے اور اس کی طبی امداد کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے
حتیٰ کہ انعام کی غرض سے اس کی خوشامد کرنے سے بھی نہیں چوکتا
سبب یہی کہ امیر آدمی کے سوا اور کون جی کھول کر خرچ کر سکتا ہے
جہاں تک مذہب کا تعلق ہے اس کا داعی یہ اعلان کرتے ہوئے نہیں شرماتے
کہ مظلوموں کو اگلے جہاں میں اجر ملے گا یا یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ غریب اور مظلوم لوگ اس دنیا میں اس لئے یہ دن بھگت رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے پچھلے جنم میں برے کام کئے تھے
حاصل کلام یہ کہ غریبوں کویکسر نظر انداز کیا جا سکتا ہے یا انہیں پہلے سے بھی زیادہ سنگ دلی سے کچلا جا سکتا ہے
اپنی نیک نیتی کے باوجود، ایک مصلح قوم انقلاب کے بغیر انقلاب کا پھل چکھنے کی کوشش کرتی ہے
پروفیسر ڈی۔ ڈی کو سامبی
(آغاز بلا معذرت)
مجھے تنبیہہ کی گئی ہے کہ میں یہ کتاب نہ لکھوں اور بلاشبہ بہت سے لوگوں کو ہدایئت کی جائے گی کہ وہ اسے مت پڑھیں لیکن یہ کتاب نہ کسی کو گناہ پر اکساتی ہے نہ کسی کی دل شکنی کرتی ہے
بلکہ یہ ایک حقیقت کا سیدھا سادھا اظہار ہے
اس کتاب میں جن موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے اور جو سوال اٹھائے گئے ہیں انہیں روائتاً بداخلاقی اور گناہ کے دو مبہم لفظوں سے تعبیر کرکے چپ سادھ لی جاتی ہے
بداخلاقی، عصمت فروشی، نوجوان لڑکیوں کی تجارت، جنسی امراض،اسقاط حمل، حرام کی اولاد، طلاق ، نوجوانی کی بدکاریوں کے نہایت ہی افسوس ناک پہلو اور شراب کی تجارت اس کتاب کاخاص موضوع ہے
حتی الوسع کوشش کی گئی ہے کہ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے
لیکن مجھے احساس ہے کہ ان صفحات میں بعض مواد جس بے تکلفی سے پیش کیا گیا ہے
اس پر حساس قاری حیرت زدہ رہ جائیں گے
میں ایسے قاریوں سے معافی کا خواستگار ہوں
تاہم یہ کتاب کوئی سنسی خیز انکشاف نہیں کرتی اور اس میں گناہ کا ذکر بھی داخلی اور مقبول عام انداز سے نہیں کیا گیا
ایسی ہزاروں کتابیں پہلے سے موجود ہیں، لیکن یہ کتاب ان سے بالکل مختلف چیز ہے
مجھے معلوم ہے کہ اظہار حقیقت اس قدر حملے اور خفگی کا موجب نہیں بنے گا جتنا کہ مندرجہ ذیل مقصد اور عملی نتیجے
اس کی وجہ میں بدکاری کو ایک اچھوتے انداز سے بیان کیا گیا ہے
اس میں سائنس اور خارجہ طریقے سے بداخلاقی کے مسائل کا عملی عام فہم اور سو فیصدی کامیاب حل پیش کیا گیا ہے
آپ اس دعویٰ کا استقبال نفرت اور مذاق سے کریں تو آپ حق بجانب ہوں گے
کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ انسانی سماج اخلاقی بدی کے بوجھ تلے صدیوں سے بری طرح پس رہا ہے
مطالعے، پر چار، تصنیف وتالیف، قانون سازی غرضیکہ ہر دیانت دارانہ طریقے سے گناہ پر قابو پانے کی کوشش کی گئی
لیکن ہرکوشش ناکام ہے
جنگ کے دوران میں ہمارے انتہائی ترقی یافتہ ملکوں میں بھی اخلاقی اقدار کی انتہائی گراوٹ اور جنگ کے بعد اخلاقی معیار کے پہلے سے بھی زیادہ پست ہو جانے سے ہر حقیقت شناس مبصر یہی نتیجہ نکال سکتا ہے کہ ہم نے بڑ ماری ہے
پھر نہایت بے شرمی سے یہ دعویٰ کون کر سکتا ہے
کہ جہاں باقی تمام چیزیں ناکام رہیں وہاں ایک کتاب ضرور کامیاب ہو جائے گی۔
کم از کم راقم الحروف میں تو ایسی جرأت نہیں
اب ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ یہ کتاب سماجی اخلاق سے متعلق ایک تجربے کی ہی رپورٹ ہے
جو وسیع پیمانے پر کیا گیا
جس میں غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی اور جسے میں من و عن یہاں پیش کر دیا ہے
جہاں تک مجھے معلوم ہے عام پبلک کو اس تجربے سے آج تک آگاہ نہیں کیا گیا
جن بااختیار لوگوں کا اس پر تصرف تھا
انہوں نے ان حقائق کو اب تک چھپایا ہے اور ڈاکٹروں اور رضا کاروں سے مخفی رکھا ہے
مجھے یہ بات دہرانے کی اجازت دیجئے کہ اس کتاب میں حقائق کا ذکر ہے
اور اس میں ایسے مسلمہ عملی اقدام تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں جن کے ذریعے جدید سماج سے بد اخلاقی اسی طرح مٹائی جا سکتی ہے جس طرح قرون وسطیٰ کی پلیگ سی وبائیں ختم کی جا چکی ہیں
اس سیدھے سادھے دعوے پر وہ قاری یقینا حیران رہ جائیں گے جو جنسی امراض پر قابو پانے کی غرض سے ایک سائنٹفک پروگرام قبول کرنے کے لئے تو تیار ہیں
لیکن جنہیں یقین ہے کہ گناہ کی چند ایسی صورتوں کے لئے روحانی طریقہ ہی موزوں ہے جن کا تعلق خاندانی شرافت، طلاق اور دونوں صنفوں کے درمیان اخلاقی تعلقات، حرام کاری، یا شراب نوشی سے انسانی وقار کی تباہی اور اسی طرح کی دوسری چیزوں سے ہے
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بداخلاقی فرد کی اپنی روحانی زندگی تک محدود ہے
لہذا اسے خارج از بحث سمجھنا چاہیئے
دوسری طرف ایسے لوگ ملتے ہیں جن کے نزدیک صرف طبی تحقیق ہی بداخلاقی اور بدکاری کو دور کر سکتی ہے
0گویا سماجی برائی ایک قسم کا فاسد مادہ ہے اور ماہر کیمیا گروں کو تجربے کی آزادی دے دی جائے تو وہ اسے ایسی سہولت سے دور کریں گے جس طرح نئی دو اپنسلین سوزاک کو ختم کر دیتی ہے
آج کل ان دونوں خیالوں کے زبردست حامی ملتے ہیں
چونکہ ان طریقوں میں سے ہر ایک بڑی حد تک کامیاب طریق کار ہے اس لئے وہ بہت سے لوگوں کو موزوں نظر آتا ہے
تاہم سب سمجھ دار اور دیانت دار لوگ ایک ہی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جہاں تک عملی صورت کا تعلق ہے
ہمارے ہاں گناہ کے خلاف نہ نام نہاد طبی طریقہ موثر ثابت ہوا ہے نہ خالص مذہبی طریق ہی
بدکاری گھٹنے کانام ہی نہیں لیتی، اخلاقی گراوٹ اتنی شدید ہے کہ آج تک دیکھی نہ سنی
گزشتہ چند سالوں کے واقعات سماجی زندگی کی کوئی دلکش تصویر پیش نہیں کرتے۔
مصنف
”سن اینڈ سائنس” (گناہ اور سائنس) کے مصنف آمسٹر ڈائی سن کارٹر ریاست ہائے متحدہ امریکہ، کینیڈ اور انگلستان میں بہت زیادہ مشہور ہیں
آپ کی تصانیف میں ”سی آف ڈسٹنی”(تقدیر کا سمندر)، ”نائٹ آف فلیم” (شعلے کی رات)، ”سٹالنس لائف” (حیات استالین)، ”مین، مشینز اینڈ مائیکرو بس” (انسان، مشینیں اور جراثیم)کے علاوہ ”اف یووانٹ ٹوانونیٹ” (اگر آپ کچھ ایجا د کرنا چاہتے ہیں)
جیسی مشہور ومعروف کتب بھی شامل ہے جسے ”بک آف دی منتھ کلب” (ماہ حال کی بہترین کتاب) کا انتخاب کرنے والی انجمن نے موجدین کے لیے معیاری درسی کتاب قرار دیا ہے
سائنسی ترقیات کے موضوع پر مصنف کے مقالے مختلف قومی رسائل وجراید میں شائع ہوتے رہتے ہیں
اور وہاں سے انگریزی دان دنیا میں منتخب مضامین کے مخزنوں میں دوبارہ نقل کیے جاتے ہیں
آپ نے کینیڈاوی براڈ کاسٹنگ کار پوریشن سے نشر ہونے والے سلسلہ مضامین ”سائنس ان دی نیوز (سائنس کی خبریں) اور رشین ڈائری (روسی روز نامچہ) بھی لکھی ہیں
آپ لیکچر ر کی حیثیت سے بھی بہت زیادہ مشہور ہیں
آپ کی سب سے زیادہ مقبول عام تصنیف ”رشیاس سیکرٹ دیپن” (روس کا خفیہ ہتھیار ہے) جسے بے نظیر شہرت حاصل ہوئی
بڑے بڑے مدیروں نے اسے سراہا اور یہ کتاب مختلف روز ناموں میں چھاپی گئی
اس کا سات زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے
مصنف نے اپنی کسی ابتدائی تصنیف میں اشارہ کیا تھا کہ وہ بوقت فرصت گناہ کے مسئلے پر سائنسی نقطئہ نظر سے روشنی ڈالیں گے
لہذا موجودہ کتاب قاریوں کے پرزور اصرار اور تقاضے پر لکھی گئی
.
جاری ہے ۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“