آخری حصہ
۔۔۔۔۔
گناہ اور سائنس
Sin And Sciences
بہتر حال جنسی اعتبار سے بد راہ بچوں کو جنسی حقائق کی تعلیم دینے کی فوری ضرورت ہے
آج کل بچوں کی عدالتیں ماہرین نفسیات، افسران فلاح و بہبود اور استاد بدکار بچوں کی اصلاح کے لیے کسی منظم طریق پر کار بند نہیں ہیں
خاص طور پر سے لڑکیوں میں دیگر جرائم کی نسبت جنسی غلط کاری کی بدعت عام ہے
نیویارک سٹیٹ کی عورتوں کے کلبوں کے وفاق کی طرف سے امریکہ بھر کہ بچوں کی جرائم کاری کی رفتار کا جائزہ شائع کیا گیا ہے
اس میں بتایا گیا ہے کہ آج کل زمانہ قبل از جنگ کے مقابلے میں تین سو فیصد (یعنی سہ گنا) زیادہ کمسن نوجوانوں کی گرفتاریاں عمل میں آ رہی ہیں
حالانکہ پولیس کے پاس بڑے اور سنگین جرائم کی اس قدر بھر مار ہے کہ وہ ان جرائم کو نظر انداز کرنے پر مجبور ہے
دعوت فکر
لوگ گناہ کیوں کرتے ہیں؟
یعنی لوگ ایسا چلن کیوں اختیار کرتے ہیں
جو خود ان کے لیے، ان کے قریبی رشتہ داروں تمام سماج کے لیے افسوناک اور روحانی ایذا کا موجب ہوتا ہے؟
یا اور بھی واضح لفظوں میں عورت اور مرد زنا کیوں کرتے ہیں؟
ہم جنسی اختلاط کے اکا دکایا اتفاقی واقعے کی بات نہیں کر رہے
بلکہ ہماری مراد ان ناجائز جنسی تعلقات سے ہے جو اس قدر عام ہی کہ ان کی زندہ مثال وہی ایک مہینے میں پانچ کروڑ حفاظتی آلات کا استعمال ہے
لہٰذا ان معنوں میں لوگ گناہ کیوں کرتے ہیں؟
اس سوال کو جواب ہمارے ذہن میں اس بے ہنگم قوالی کی طرح ابھرتا ہے
جس میں ایک گویے کا سر دوسرے سے ملتا نہ ہو
ایک گروہ کا خیال ہے کہ ناجائز جنسی اختلاط کی وجہ یہ ہے کہ عورت اور مرد اپنے ضمیر کی آواز نہیں سنتے تو کیا ہم اس وقت تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں
جب تک ضمیر کی مدہم آواز کو زور دار بنانے کے لیے سائنس کوئی آلہ نشر الصوت ایجاد نہیں کر لیتی؟
لیکن مصیبت یہ ہے کہ دوسرا گروہ فوراً صدائے احتجاج بلند کرتا ہے کہ یہ تو قادر مطلق کی توہین ہوئی
کیونکہ وہی بتا سکتا ہے کہ ثواب کیا ہے اور گناہ کیا
لیکن افسوس کہ جاگیر دار انہ نظام میں روحانی پیشوا عام لوگوں کو یقین دلایا کرتے تھے
کہ لا تعداد عورتوں کا طوائفیں بن جانا علامت خیر اور شریف عورتوں کا محبت کرنا دلیل شر ہے
یاد رہے کہ امریکہ اس وقت سرمایہ کاری کے آخری دور یعنی امپیریل ازم یا سامراجیت میں ہے
تو کیا خدا کے اخلاقی قانون بھی اس وقت بدل جاتے ہیں جب کہ انسان اپنے سماجی نظام کوبدل دیتا ہے؟
اس سوال پر بعض فلسفی جھٹ پٹ بول اٹھتے ہیں کہ یہ تو کفر ہے
اور متنبہ کرنے لگتے ہیں کہ ہم ایسے لوگوں کی غلط تعلیمات کو خدا سے منسوب نہ کریں
جو اپنے آپ کو اس کے اوتار کہتے تھے
غرضیکہ اس قسم کی دلیلوں سے بے شمار صفحے کالے کئے جا سکتے ہیں
مثلاً قرون وسطیٰ میں عالم لوگ نہایت سنجیدگی سے بحث کیا کرتے تھے
کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے کھڑے ہو سکتے ہیں
اور آج کل ہمارے فلسفی اور بعض سائنس دان بھی یہ سوال پوچھنے کے بڑے شوقین ہیں
کہ لوگ گناہ کیوں کرتے ہیں؟
ہو سکتا ہے کہ قرون وسطیٰ کے مناظر ے بڑے دلچسپ اور مفید ہوتے ہوں
شاید ان مناظروں کی بدولت بعض لوگوں نے ہوا بازی کے کچھ بنیادی مسائل پر غور وخوض کرنا شروع کر دیا ہو
کہ سوئی پر کسی فرشتے کو اپنا اڑن کھٹولا اتارنے اڑانے میں کیا مشکلیں پیش آتی ہیں
یا فضا میں آرتے اترتے وقت چکر کاٹنا کیوں مفید ہے
یا اسی قسم کے دوسرے بنیادی مسئلوں پر غور و خوض شروع ہو گیا ہو
لیکن ہمارے سامنے تو آج کل جنسی اختلاط یا زنا اور جنسی بیماری اور آتشک جیسے خشک معاملے ہیں
آج ہر پادری، ڈاکٹر، وکیل، بالخصوص ہر عیال دار شخص کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے ملکوں کے واقعات کے رجحان سے واقفیت پیدا کرے
موجودہ زمانے میں ہمارے ملکوں کے بے شمار لوگوں کی دماغی بیماریوں کا موجب شراب ہے
لیکن اس کے تدراک کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جاتا
وجہ یہ ہے کہ شراب نوشی ایک خطرناک وبا کی طرح اس قدر عام ہے کہ ہماری حکومتیں ا س کی بدولت بے شمار منافع کماتی ہیں
امریکہ پر ابھی جنگ کا کوئی خاص دبائو نہیں پڑا تھا۔ کہ یہاں پر پانچ بچوں کے بعد دو بچے پیدا ہونے سے پہلے ہی اسقاط حمل کے عمل جراحی کی نذر ہونے لگے تھے
ڈاکٹر شہادت دیں گے کہ آج کل ہمارے ہاں نوزا ئیدہ بچوں کی شرح اموات پہلے سے بہت زیادہ ہے
اس سنگین جرم،اس قتل عام کی کثرت کا تصور بھی محال ہے
آپ یہ الفاظ پڑھ رہے ہیں اور ادھر کوئی صاحب حمل گرانے کے عمل جراحی میں مصروف ہیں
وحشی نازی بھی یورپی بچوں کو اتنی تعداد میں ذبح کرنے کا کامیاب نہ ہو سکے
جتنے کہ آج کل ہمارے ملکوں میں ہر سال چند طریقے سے ضائع کئے جا رہے ہیں
مزید بریں محکمہ شماریات حیات یعنی امریکہ کے محکمہ مردم شماری کے افسر اعلیٰ
ڈاکٹر ہالبرٹ ایل دئون نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ امریکہ میں پیدا ہونے والے بارہ بچوں میں ایک بچہ ولدالحرام ہوتا ہے
اس کا مطلب یہ ہے کہ سکول کے پہلے درجے میں ایک لاکھ ستر ہزار ایسے بچے داخل ہوتے ہیں جو اپنے باپوں کے نام نہیں بتا سکتے
ان میں سے قانوناً کسی کا کوئی باپ نہیں اور ان کا کوئی گھر نہیں
ان بچوں کو عمر بھر مذامت اور شرمندگی کاسامنا کرنا پڑتا ہے
ان بے گناہ معصوم بچوں کی فوج میں روز افزوں اضافہ کا المیہ اتنا درد ناک ہے
کہ ڈاکٹر دوئن ان بد نصیب بچوں کی پیدائش کے اندر اجات کو سماج کی نگاہوں سے قانوناً خفیہ رکھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں
انہیں کوئی توقع نہیں کہ امریکی قوم بے باپ کے لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد میں کمی کر سکتی ہے
ہمارے ہاں اس قدر طلاقیں ہو رہی ہیں کہ لاکھوں عورتیں اور مرد کسی دوسرے عورت کے سابقہ خاوند یا کسی دوسرے مرد کی سابقہ بیوی سے شادی کئے ہوئے ہیں
بے شمار بچے زندہ مائوں کی محبت سے محروم ہیں یا زندہ باپوں کی یہ بٹی ہوئی محبت ان کے لیے عذات سے کم نہیں
حالانکہ کلیسا پہلے دن کی طرح آج بھی طلاق کا اسی سختی سے مخالف ہے
لیکن طلاق کے واقعات کو کم کرنے سے قاصر رہا ہے
دوسری طرف قانون پیشہ حضرات شادی کا احترام برقرار رکھنے کی غرض سے دن رات نرم اورآزاد قانونی طلاق کے لیے کوشش کر رہے ہیں
ادھر طبی تحقیقات جنسی اختلاط کو تمام جسمانی خطرات سے مبرا بنانے کی منزل کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے
یعنی اس قسم کی دوائیں استعمال ہو رہی ہیں
جن کے استعمال سے حمل ٹھہرنے یا بیماری لگنے کا خوف جا تا رہے گا
اور ان گنت ملاقاتیں کرنا ممکن ہو جائے گا
جنسی بیماری، شراب نوشی، اولاد حرام، اسقاط حمل، طلاق، جرائم ، بچوں اور نوجوانوں کی خطا کاریاں اتنی بڑھ گئی ہیں
کہ تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ ایک ہیبت ناک اخلاقی بحران، ایک بدمعاشی کا بھوت ہماری نظروں کے سامنے نمودار ہو رہا ہے
ہمارا زاویہ نگاہ سوویت یونین کے نقطہ نظر سے اس قدر متضاد ہے کہ بے حد مایوسی ہوتی ہے
یہ پہلی تاریخی مثال ہے کہ سوویت روس میں عام اور بے شمار کو اس حقیقت سے آگاہ کر دیا گیا ہے
کہ گناہ کسی مافوق الفطرت ہستی یعنی شیطان یا اہرمن کی تحریک نہیں
بلکہ یہ ایک سماجی برائی ہے
جس کا ازالہ محض ٹھوس، عقلی اور سائنسی طریقوں ہی سے کیا جا سکتا ہے
سوویت یونین کے باشندوں نے بدکاری اور بدمعاشی بدترین صورتوں پر سائنسی اصولوں کی مدد سے بے نظیر فتح حاصل کی ہے
روئے زمین پر صرف اہل روس ہی ایک ایسی قوم ہیں میں عصمت فروشی کا نام و نشان تک نہیں
انہوں نے وہ کچھ کر دکھایا ہے جسے ہمارے ہاں کے فلسفی، پادری اور ڈاکٹر ابھی تک ناممکن الحصول خیال کرتے ہیں
دنیا کے کسی اور ملک میں قید خانے اور اصلاح گاہین بن نہیں ہو رہیں
صرف سوویت یونین ہی ایک ایسی سر زمین ہے
جہاں قید خانے کم سے کم تر ہوتے جا رہے ہیں
جہاں حمل ضائع کرنے کے عمل جراحی سے واقع ہونے والی اموات کا خاتمہ ہو رہا ہے
جہاں طلاق کی تعداد دن بدن گھٹ رہی ہے
جہاں خاندان اور ازدواجی زندگی اس قدر قابل احترام ہے کہ بہترین مائوں کی اعلیٰ سے اعلیٰ اعزاز دئیے جاتے ہیں
اور جہاں دماغی اور جسمانی صحت کا معیار اس قدر بلند ہے کہ شراب طبی نادرات میں شامل ہو گئی ہے
حالانکہ اس کی فروخت پر کوئی پابندی نہیں
اس فرق کو نمایاں کرنے سے ہمارا مقصد سوویت یونین کا پروپیگنڈا ہر گز نہیں
یہ تو ایک حقیقت کا اظہار ہے۔ ہمیں کم از کم اپنے آپ سے ایمانداری کے ساتھ سوال ضرور کرنا چاہیئے کہ یہ تفوق ہمیں اور ہمارے ملکوں کو کیا سبق سکھا سکتا ہے
بعض لوگوں کے خیال میں اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمیں اپنے ہاں کی بدکاری سے گھبرانا اور مایوس نہیںہونا چاہیئے
اگر اہل روس کرامات کے بغیر ہی صرف عملی سائنس ہی کی مدد سے اور تمام نیک نیت لوگوں کو شرافت اور صحت کا معیار بلند کرنے کی ترغیب دے کر بدترین اخلاقی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو گئے
تو ہم کیوں نہیں ہوسکتے؟ کیاہم اس قدر گر چکے ہیں کہ معاشرتی بوسیدگی کو خوش آمدید کہیں
بعض دوسرے لوگ سنجیدگی یا دبی زبان سے کہتے ہیں کہ اب ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ سوویت یونین سے تہذیب اخلاق کا سبق سیکھیں
یہ زاویہ نگاہ زمانہ مابعد جنگ کے اتحاد اشتراک سے تعلق رکھتا ہے اور ایسے سیاسی لیڈروں نے اس پر غور تک کرنا مناسب نہیں سمجھا
جنہوں نے گذشتہ بیس برس کے عرصے میں بے شمار تقریریں بد اخلاق سرخوں کی لعنت ملامت کے لیے وقف کی ہیں
اس تجویز کا رد عمل عام طور سے خفگی یا مسکراہٹ کی صورت میں ہوتا ہے
آخر مادہ پرست روس سے نیکی کا سبق سیکھنے کا خیال ہمارے لیے کس قدر قابل قبول ہو سکتا ہے؟
لیکن اس معاملے کو زیادہ دیر کے لیے محض خفگی سے ٹالا نہیں جا سکتا اور اکثر حلقوں میں استفہامیہ ابھر آیا ہے
انگریزی جریدہ کیتھولک ریکارڈ کے ایڈیٹر اور مشہور کیتھولک مفکر کوئنٹ میکائیل ڈی لابدومیر کے الفاظ قابل غور ہیں:
وہ سوال کرتے ہیں کہ موجودہ زمانے کے بے پایاں بحران کے مقابل آج عیسائیت کس قدر کی ہے؟
اور بڑی بے چینی سے جواب دیتے ہیں کہ ہمیں کسی نہ کسی طرح نئے سپنے دیکھنے چاہئیں اور نئی امیدیں جگانا چاہئیں
اس کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ عیسائیت مطلوبہ جذبہ پیدا نہ کر سکی تو اشتراکیت (کمیونزم) کا طوفان عوام کو بہا کر لے جائے گا
ماسکو کا مقناطیسی مینار روم یا کنٹر بری کی برحیوں سے بہت زیادہ طاقت ور ثابت ہو رہا ہے
ایک حیران کن اعتراف! لیکن بد قسمتی سے کونٹ میکائیل یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتے کہ لوگ ہمارے اشتراکی اتحاد کی طرف اس قدر راز جو نگاہوں سے کیوں دیکھ رہے ہیں؟
شاید وہ ہمیں قائل کریں کہ اشتراکی روس میں کشش کے موجب صرف سیاسی اور معاشی محرکات ہیں
یعنی لوگ اس لیے روس سے دلچسپی رکھتے ہیں کہ وہاں سے بے روز گاری دور ہو چکی ہے یا وہاں کی حکومت کی باگ ڈور محنت کش لوگوں یعنی مزدوروں اور کسانوں کے ہاتھ میں ہے
بالکل بجا کہ مزدور اور درمیانہ طبقے کے بے شمار لوگ جنہوں نے معاشی بحران کے دوران میں سخت مصیبتیں اٹھائیں
سوویت یونین سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں
کیونکہ وہاں غیر محدود معاشی ترقی کے منصوبے تیار ہو رہے ہیں اوروہاں کوئی طفیلی یا مسرف نہیں
آئیے ہم بھی ایک اشتراکی ادیب میکسم گورکی کے قول سے مستفیض ہوں
کیونکہ اس میں مسرفوں سے متعلق اشتراکی نقطہ نظر کی پوری صفائی اور وضاحت سے پیش کیا گیا ہے
وہ فرماتے ہیں
مسرف کا لفظ کوئی گالی نہیں
یہ اس شخص کی اصلی تعریف ہے جس کی زندگی ہمہ اسراف ہے
ہمارے سوشلسٹ سماج میں مسرف ایک ایسا جانور ہے جس میں پرانے نظام کی متعدی امراض، حسد اور لالچ اس طرح گھر کر چکے ہیں کہ علاج ممکن نہیں
اسراف پسند شخص کے اصل الاصول، اس کے ایمان اور اس کے روحانی زندگی کو دو سادہ لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے کہ مجھے تو اپنا پیٹ بھرنا ہے
اس کے لیے یہ دنیا ایک ایسا مقام جہاں صرف اپنا پیٹ بھرنے کے لیے جیتے ہیں اور وہ پیٹ دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں زیادہ سے زیادہ لذیذ خوراک سے بھرنا چاہئیے
اس کی تمام ترقوت ارادی، اس کا دماغ اور اس کا ہر وصف، جسے وہ روحانی جذبہ کہتا ہے
صرف اسی حیوانی مقصد کی طرف مائل ہے
یہ ہے ایک عظیم ادیب کی نشتر آمیز تنقید، فاشی ایجنٹوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے پہلے گورکی نے ایک اور واضح اور اہم بات کہی اور وہ یہ ہے:
سرمایہ دار دنیا ہماری سوشلسٹ دنیا میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ہمارا نظر یہ اورمعاشی عمل انسان کے ہاتھوں انسان کی لوٹ کھسوٹ کی سختی سے مذمت کرتا ہے
اور لوگوں کی قدرت کی نعمتوں کے تصویبی، جائز استعمال کی تربیت دیتا ہے
لیکن سرمایہ داری زندہ ہی انسانی لوٹ کھسوت پر ہے
اوریہ آدمی کو عموماً نفع اندوزی کی ہوس کی تسکین اور قوت زر کا جواز کا ادنیٰ آلہ سمجھتی ہے
بات دراصل یہ ہے کہ ہمارا معاشرتی نظام، یعنی سرمایہ دارانہ جمہوریت سونے کی طاقت پر قائم ہے جس چیز کو ہم آزاد کا رو بار یا تجارت کہتے ہیں
ہمارا نظام منافع صرف اس آدمی کی قدر کرتا ہے
جو اپنے ہم جنس، ہم پیشہ آدمی کے مقابلے میں دوسروں کو نقصان پہنچا کر ذاتی نفع حاصل کرنے کی دوڑ دھوپ میں آگے نکل جائے
ہمارے نظام نے ماضی میں ان لوگوں کو بے حد فائدہ پہنچایا ہے
جو قدرتاً ارادتاً نہایت سنگ دلی سے تجارتی مقابلے کے لیے مسلح رہے اور ایسے مردوں اور عورتوں کو جنہوں نے سب سے زیادہ محنت کی اور ہمارے معاشرے کی مادی اور تہذیبی اقدار پیدا کیں
ان کی بھاری اکثریت کو عموماً بہت ہی کم معاوضہ ملا، دوسری طرف مٹھی بھر لوگ جنگ اور ہولناک بحران میں بھی انتہائی عیاشی میں مصروف رہے
کونٹ میکائیل کو یہ جاننے کے لیے ہمارے عوام سوویت یونین سے کیوں ہمدردی رکھتے ہیں، صرف اس تضاد کو سمجھنے کی ضرورت ہے
اپنے آبائو اجداد کی طرح ہمیں بھی بچپن سے یہی سکھایا گیا ہے
کہ زندگی میں کامیابی کا معیار دولت کا ذخیرہ اور زندگی کو سونے کے دیوتا کی پرستش کے لیے وقف کر دینا ہے۔ ہمارے سماج میں مہر بانی، خدمت خلق، جہاد نفس، ایمانداری ہم جنسوں سے محبت اور اسی قسم کے دوسرے نیک جذبے نایاب ہیں
لیکن حقیقت یہ ہے کہ خوبیاں تمام ترانہی لوگوں میں پائی جاتی ہیں جن سے متعلق ہمیں بتایا جاتا ہے کہ وہ ہر طرح سے نادار ہیں
ہم ہر اتوار کو یسوع مسیح کا پیغام پڑھتے ہیں کہ ایک اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزرنا ممکن ہے لیکن امیر آدمی کا خدا کی بادشاہت میں گزرنا ممکن ہیں
شاید نصیحت پرانے فیش میں شامل ہو گئی ہے
کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہفتہ بھر دولت کی قابل رشک پوجا ہوتی ہے
اور خدا کی بادشاہت اتوار کے دن بھی کسی امیر آدمی کے بارے میں متفکر نظر آتی ہے
ہمارے تمام صنعتی رہنما، اکثر سیاست دان اور بہت سے پادری خود یسوع مسیح کے فرمان کی خلاف ورزی کرتے ہیں
اور دولت سمیٹنے کی دوڑ دھوپ میںبے محابہ مصروف رہتے ہیں اور جو لوگ اس ہو سناک جدوجہد کے اخلاقی جواز پر اعتراض کرتے ہیں۔ ان کی سخت مذمت کی جاتی ہے
ہم نے سرمایہ داری نظام پر تمام قسم کی معاشی ناکامیوں، معاشی دبائو، بحران، فاقے، غلاظت آفرینی، بدپر وری، بیماری، فاشیت اور جنگ کا الزام بار بار لگتے سنا ہے اور کچھ نہیں کیا
لیکن سوویت یونین کے لوگوں نے ایک پشت پہلے سرمایہ داری کو ختم کر دیا
کیونکہ انہیں یقین ہو گیا تھا کہ سرمایہ داری نہ صرف مادی مسائل پیدا کرتی ہے
بلکہ وہ بداخلاقی او ربدمعاشی کو بھی سماج میں برداشت کرتی ہے۔ وہ بدکاری کا بیج بوتی ہے
اور گناہ کے پودے کی پرورش کرتی ہے۔ اس حقیقت کا اطلاق دوسرے ملکوں پرہو یا نہ ہو
لیکن سوویت یونین کے لوگوں نے بے نظیر کامیابی سے ثابت کر دیا کہ ہم نے اپنے سماج کو اخلاقی بنیادوں پر قائم کر کے خود اپنے کردار اور سیرت میں نمایاں تبدیلی پیدا کرلی
اور نئے سماجی نظام نے زندگی کے ایک نئے اخلاقی نظام کو جنم دیا
آج کل، زمانہ مابعد جنگ میں ہمارے ملکوں میں نئے شہر اور کارخانے تعمیر کرنے کے لیے فنی منصوبوں کو بری دھوم دھام سے تیاری ہو رہی ہے
ان تمام منصوبوں میں اور ان کے متعلق تمام قیمتی اشتہاروں میں لفظ اخلاق ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا
اپنے طرز زندگی کے تحفظ واستحکام اور اس کی لامحدود ترقی کے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے
لیکن اخلاقیات کے متعلق یکسر خاموشی پائی جاتی ہے
اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم عصمت فروشی کو نہ صرف قائم رکھنا
بلکہ اسے پلاسٹک کے محلوں میں بٹھا کر اس کی سج دھج میں چار چاند لگانا چاہتے ہیں
کیا ہم آسمانی شاہرائوں اور فضائی مستقروں کے ساتھ مافوق الفطرت مجرمین بھی پیدا کریں گے؟
کیا ہماری طبی تحقیقات کے عجوبے دوا گھروں کے ان بنڈلوں کی سطح پر آجائیں گے؟جنہیں ضبط تولید اور انسداد مرض کے لیے فروخت کیا جاتا ہے؟
تسلیم کہ ہم، شمالی امریکہ والوں نے سرمایہ دارانہ نظام سے فائدہ اٹھا کر تاریخ میں ایک انتہائی مال دار تہذیب کو تعمیر کیا ہے
ہم بڑے فخر سے دعوے کر سکتے ہیں کہ ہمارے پاس دنیا بھر میں سب سے زیادہ کاریں، بلند ترین عمارتیں، برق رفتار ٹرینیں،
براق روشنیاں، نفیس ترین سازو سامان ہے
قصہ کو تاہ ہمارے ہاں کی ہر شے عظیم ہے
حتیٰ کہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ بد اخلاق بچے، سب سے زیادہ حرام کے بچے، دنیا بھر میں سب سے زیادہ طلاقیں، اور آتشک کے ہسپتال ہیں
لیکن یسوع مسیح فرماتے ہیں کہ انسان تمام دنیا کو حاصل کرے، مگر وہ اپنی روح کو ضائع کر دے۔ تو اسے کو نسا نفع ہوا؟
زیر بحث مسئلہ ایک مذہبی مسئلہ تو نہیں
لیکن المیہ یہ ہے کہ گزشتہ دنوں چند لوگوں نے بے اندازہ دولت جمع کر لی
اور دوسرے لاکھوں انسان افلاس بیماری، بدکاری، بدمعاشی اورجرائم کے سبب تباہ ہوتے رہے
ہم تہیہ کئے ہوئے ہیں کہ اس عوامی دنیا میں، جس کے لیے ہمارے نوجوانوں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں
معاملات کو نئے ڈھب سے ترتیب دیں
اور یہ خیال عام ہے کہ جس طرح آزاد کاروبار کا جنگ کے دوران میں جنگی مساعی کے لیے استعمال کیا گیا
اسی طرح آئندہ پر امن تعمیر کے لیے سامان پہنچانے کے لیے استعمال کیا جائے
ہمارے ہاں اکثریت اس امر کی قائل ہے کہ قدرے پابندی اور ترمیم کے ساتھ سرمایہ داری اب بھی کسی اور نظام حیات سے افضل ہے
ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ ہمارے نظام منافع کا استحکام یا زوال آئندہ چند سالوں میں اس امر پر ہے کہ نظام تمام لوگوں کو کافی کام ، خوراک ورہائش، لباس اور صحت کے ذرائع مہیا کرنے میں کامیاب رہتا ہے یا ناکام
معاشیات کا یہ کھلا چیلنج ہے اور تمام سنجیدہ لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے
ہم نے اپنی جمہوریت کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کی اہم ضرورت کو تو محسوس کیا ہے
کہ اس میں ہر خواہش مند شخص، بالخصوص ہر عورت ، لڑکی اور نوجوان لڑکے کی مستقل اورمکمل ملازمت کا انتظام ہو سکے
لیکن ہم نے اس اہم ضرورت کو اس نقطئہ نظر سے کبھی نہیں دیکھا کہ یہ ہمارے معاشرے کی اخلاقی امید ہے
تمام مذہبی اور سیاسی معاملات سے قطع نظر، سوویت یونین نے تجربے سے ثابت کر دیا ہے
کہ جدید معاشرے میں لوگوں کی نجات یعنی منظم بدمعاشی، بدکاری، ناجائز جنسی اختلاط،اسقاط حمل، کمسنی کے جرائم،
کنبے کی تباہی اور شراب کی بدعادت سے لوگوں کی خلاصی، اسی وقت ممکن ہے۔ جب بیروز گاری اور افلاس کو دور کرنے کے ساتھ ہی بدکاری سے حصول منفعت کی لعنت کو بھی ختم کر دیا جائے
لیکن ہمارے اکثر رہنمائوں کا طریق فکر سائنسی اور استدلالی نہیں ہے کٹڑ عصبیت پرست لیڈر تو یہ ثابت کرنے کے لیے بے شمار مثالیں گھڑ لائیں گے کہ روس میں بدی کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، وہ ہمارے ہاں کامیاب نہیں ہو سکتا
اگر یہ دلیل درست ہے تو اسے ہمارے لیے اور ہمارے معاشرے کے لیے نیک شگون نہیں ہونا چاہئیے
کیوں کہ مقتدر حضرات کی خود فریبی اور جھوٹی تسلیوں کے باوجود لوگ خود یہ سوال اٹھانے والے ہیں کہ ”گناہ کے متعلق ہمارا کیا منصوبہ ہے؟
آپ صاحب اولاد ہیں تو آپ اپنے من سے یہ سوال پہلے ہی بوجھ چکے ہوں گے
اپنی پانچ سال کی معصوم بچی کو سوتے دیکھ کر آپ نے کبھی نہ کبھی یہ سوچا ہو گا کہ زندگی اسے چودہ سال کی عمر میں کیا سکھانے والی ہے
تو آپ کلیجہ تھام کر رہ گئے ہوں گے
آپ کا نوکر لڑکا جو ابھی ابھی گھر واپس لوٹا ہے وہ اب اخلاق کے متعلق کیا سوچتا ہے
کیا یہ ٹھیک نہیں کہ اب وہ اخلاق کو محض مذاق سمجھنے لگا ہے؟
یہی حال دوسرے بے شمار بچوں کا ہے اور اسی طرح ایک گھرانے کی پریشانیاں لاکھوں خاندانوں کی پریشانیاں ہیں
اب آپ اندازہ لگائیے تومعلوم ہو گا کہ گناہ کا تعلق ذات سے نہیں
، بلکہ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے اور شاید ان مسئلوں میں سے سب سے بڑا مسئلہ ہے جن سے ہماری قوم دو چار ہونے والی ہے
آج سے پچیس سال پہلے اہل روس کو بھی ہو بہو اسی قسم کے اخلاقی بحران کا سامنا تھا
لیکن روس کے نوجوان بد اخلاقی کے خلاف ایک ایسا پرچم لے کر بازاروں میں نکل آئے
جسے آج تک کسی نے تیار کرنے اور اٹھانے کی جرأت نہیں کی
انہوں نے اس پرچم کے ذریعے اعلان کیاکہ ہم سائنسی اصولوں کے مطابق نسل انسانی کی اصلاح کریں گے
اشتراکی سائنس دانوں نے دعویٰ کیا کہ:
1. سماج میں بدکاری اور شراب نوشی عام ہو تو گناہ ذاتی معاملہ نہیں رہتا
بلکہ اس کی ذمہ داری عین اس طرح قوم پر عاید ہوتی ہے جس طرح تپ دق محرقہ ہذیانی یا گلے وغیرہ کی وبائی بیماریوں کی
2. تاریخ ثابت کرتی ہے کہ لوگوں کو قوانین یا مذہب کے ذریعے نیک بننے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا
3. لوگ گناہ کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ان حالات اور ماحول میں ملتا ہے۔جس میں عوام رہتے ہیں۔ یعنی سماج کے لیے لوگوں کے مضرت رساں رویے کے بڑے اسباب، افلاس اور بے روز گاری ہیں
4. جنسی بد اخلاقی صرف ایسے اقدامات کے ذریعے دور کی جا سکتی ہے جن سے دائمی محبت کی قوت کو آزاد کر دیا جائے۔ اور ایسی محبت صرف حقیقی شادی اور ازدواجی زندگی میں نصیب ہوسکتی ہیں
5. اخلاق مسلسل بدلتے آئے ہیں۔ انسان فطرتاًشرپسند نہیں
بدی کو اس وقت ختم کیا جاسکتا ہے
جب کہ لیڈروں سمیت تمام قوم ذاتی مفاد کے لیے دوسرے لوگوں کو پائوں تلے کچلنے کی بجائے کسی ارفع اور صالح مقصد میں ایمان رکھتے ہوئے زندگی کو سب کے لیے برابر کی خوشگوار بنانے کی جدوجہد کریں
اس سائنسی اصول کی بنا پر، جو یسو ع مسیح کی تعلیمات سے حیران کن مشابہت رکھتا ہے۔ سوویت اخلاقیات کا محل تعمیر کیا گیا ہے
ہمیں یقین ہے کہ آئندہ زمانے میں اشتراکی اخلاقیات کا شہرہ بڑی شدو مد سے سننے میں آئے گا
اور ہم خود اس کا ذکر کرنے پر مجبور ہوں گے۔ جو گمراہ اور بد نصیب لو گ سوویت یونین کے لوگوں سے نفرت اور حسد کرتے ہیں
ان کے لیے ہر ایسے شخص پر سرخے کا لیبل چپکانا مشکل ہونے والا ہے
جو اشتراکیت کی گناہ پر فتح سے متاثر ہو گا
آخر جنسی بد اخلاقی ایک غیر سیاسی مسئلہ اور کوئی شخص اتنا بے وقوف نہیں
کہ وہ یہ خیال کرے کہ روس والوں نے محض چڑانے یا محض سرمایہ داری کو پریشان کرنے کے لیے لاتعداد عوام کی تہذیب اخلاق کی ہے
اب کسی قسم کا پروپیگنڈ ابھی جھوٹے اخلاق کی تعلیم یا سچے اخلاق کی تکذیب میں زیادہ عرصے کے لیے کامیاب نہیں ہو سکتا
کسی نظام اخلاق کا عروج وزوال اس بات پر ہے کہ اس سے لوگوں کو کیا فائدہ پہنچتا ہے۔ ہمارا نظام اخلاق یا بے اخلاقی، لوگوں کو تاریک اور عمیق غار کے لب پر لے آیا ہے ہو متزلزل ہے
لیکن سہارا دینے والی چیز ابھی تک ناپید ہے سوویت یونین کے نئے نظام اخلاق نے لوگوں کی فطرتوں کو بدل دیا ہے
ہم ان حقائق سے گریز نہیں کر سکتے اورکریں بھی کیوں؟
جب کہ یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ اگر تاریخ میں بھی کبھی ایسے لوگوں اور قوموں کا پتہ ملتا ہے جنہوں نے بے اطمینانی کے عالم سے بیزار ہو کر شیطان کے ساتھ سودابازی کرنے سے انکار کر دیا ہو
تو یقینا وہ لوگ ہم ہیں۔ اوروہ قومیں ہماری جمہورتیں ہیں
گذشتہ پانچ برس سے ہم نے فاشیوں کے ساتھ صلح جوئی کا مجرمانہ اصول ترک کر دیا ہے
اور اپنی جنگی طاقت کو اتنے وسیع پیمانے پر پھیلایا ہے
کہ نام نہاد نکتہ چیں تو اسے ہماری تباہی کا موجب ٹھہرانے لگے تھے
لیکن وہ طاقت یا جنگ ہمیں تباہ نہ کر سکی
بلکہ اس نے ہمیں بتا دیا کہ ہماری طاقت کا راز کیا ہے
اور ہم نے ثابت کر دیا کہ ہم سنیکٹروں ںسال کی جدوجہدسے حاصل کی ہوئی آزادی کے تحفظ کے لیے اپنے آبائو اجداد کی طرح عمل پیرا ہو سکتے ہیں
ہم نے یہ کار نامہ اس وقت انجام دیا جب کہ نازی ہمیں حق زندگی سے بھی محروم کرنے پر تلے ہوئے تھے
آج ہماری جمہوریت کو اس کے اندرونی فاسد مادے سے خطرہ ہے
گمراہ لوگ بداخلاقی کے اصل حقائق کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں
یہ لوگ
چھتری والے مکتبہ سیاست یعنی امبریلا سکول (مختلف الخیال سیاست دانوں کا آپس میں کوئی سمجھوتہ کر کے کمیونسٹوں کے خلاف متحدہ ہو جانے کا نظریہ
امریکی یونینسٹ) کے سیاست دانوں کی طرح بدی کے ساتھ سمجھوتہ بازی کی پالیسی جا ری رکھنا چاہتے ہیں
یہ ہمیں ہٹلر کے میونک والے مکارانہ اعلان کی طرح یقین دلانا چاہتے ہیں۔ کہ بداخلاقی کو اور زیادہ علاقے کی طلب نہیں
لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ فریب ہے
خاندان، ازدواجی زندگی، بچوں کی ایک صلالح نظریہ حیات کے مطابق پرورش، یہ ہیں ہمارے چند ایک مقدس مقبوضات جنہیں شیطانی طاقتیں نرغے میں لینا چاہتی ہیں اور انہیں برباد کرنا چاہتی ہیں
سچائی کو چھپانے، فضول وعظ وتلقین یا گناہ گاری پرماتم کرنے کا زمانہ گزر چکا ہے
ہمارے معاشرے کو جس کے گناہ کا خطرہ ہے۔وہ درحقیقت تپ محرقہ، ہذیانی سے زیادہ پائیدار نہیں
یہ بدخوراکی کے مسئلے سے زیادہ بعید الفہم نہیں
اور اب یہ بیرزو گاری اور صحت عامہ کے مسئلے کی طرح انفرادی ذمہ داری نہیں ہے
بعض لوگوں کو یہ خیالات عجیب و غیرب معلوم ہوتے ہیں
میرے لیے ان کی اطلاع اور اس کتاب کے خاتمے کے لیے اس سے بہتر الفاظ تلاش کرنا ناممکن ہے جو کافی مدت پہلے سینٹ پال نے اہل فلپائن سے کہے تھے
بھائیو!
آخر میں مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ باتیں خواہ کسی قسم کی ہوں
اگر وہ سچی ہوں، ایماندارانہ ہو، منصفانہ ہوں، بے لاگ ہوں،
پیاری ہوں، دل فریب ہوں۔ اگر ان میں ذرا بھی اچھائی معلوم ہوا اور اگر ان کی تھوڑی سی بھی تعریف ہو تو ان پر غور ضرور کیجئے گا
۔۔۔۔۔
ختم شد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“