کیوں سے شروع کریں
Start With Why
(Simon Sinek)
قبل اس کے کہ کتاب کے دیباچہ کاخلاصہ پیش کیا جائے قارئین قُرآنِ کریم کی سورہ آلِ عمران کی آیت 190 اور 191 پر نظر ڈالتے ہیں۔
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ
بے شک پیدا کرنے میں آسمانوں اور زمین کے اور ایک دوسرے کے پیچھے آنے میں شب و روز کے یقیناً بہت نشانیاں ہیں ایسے عقل مندوں کے لئے
الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَـٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
جو یاد کرتے ہیں اللّلہ کو کھڑے بیٹھے، اور اپنے پہلوؤں کے بل اور غور و فکر کرتے رہتے ہیں تخلیق میں آسمانوں اور زمین کی۔ ( پھر بے اختیار بول اُٹھتے ہیں) اے ہمارے رب ! نہیں پیدا کیا تو نے یہ سب بے مقصد، پاک ہے تو ہر نقص و عیب سے پس بچا لے ہم کو دوزخ کے عذاب سے
اس آیت میں اللّلہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا تزکرہ کیا ہے جو زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرتے کرتے اُن کی پیدائش کا مقصد پہچان لیتے ہیں۔ اور اس کے ذریعے اپنے معبود کی بھی پہچان کرلیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی انسان کے لئے کسی بھی چیز کا سبب جاننا بہت ضروری ہے۔ سائمن سینیک کی کتاب “Start with Why” پڑھ کر ایسا لگتا ہے اس میں اسی نکتہ کی طرف نشاندہی کی ہے۔
کتاب “کیوں سے شروع کریں” اُن لوگوں کے لئے بہترین تحفہ ہے جو اپنی زندگی میں بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی ایک تشنگی سی محسوس کرتے ہیں اور یہ تشنگی بڑھتے بڑھتے اُن سے زندگی کی کشش ہی چھین لیتی ہے۔ سائمن کے مطابق تقریباً تمام ادارے اور لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کرتے ہیں، بہت سے لوگوں کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ کسی کام کو کیسے کیا جاتا ہے، لیکن بہت کم لوگوں کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی بھی کام کیوں کرتے ہیں۔ سائمن کے مطابق کسی بھی شخص یا ادارے کو سب سے پہلے یہ پتہ ہونا چاہئے کہ وہ کوئی بھی کام کیوں کر رہا ہے۔ بہتر ہے کہ پوری کتاب کا مطالعہ کیا جائے لیکن اگر آپ کے پاس مکمّل کتاب پڑھنے کا وقت نہیں ہے تو کتاب کے دیباچے کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے۔ بعد میں کوشش کی جائے گی کہ مزید ابواب کا خلاصہ بھی پیش کیا جائے
سائمن نے Why, How, What کو تین دائروں میں تقسیم کیا ہے لیکن یہ دائرے الگ الگ نہیں بلکہ ایک کے اوپر ایک ہیں۔ تو سب سے اندرونی دائرہ Why کا ہے، بیچ کا دائرہ How کا ہے، جبکہ سب سے باہر والا دائرہ What کا ہے۔ سائمن کا کہنا ہے ہے کہ کوئی بھی شخص یا ادارہ اگر کسی کام کو کرنا چاہ رہا ہے تو اُس کو ان تین دائروں کو ذہن میں رکھتے ہوئے inside out کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ یعنی سب سے پہلے اُسے اپنے آپ سے پوچھنا ہوگا کہ وہ یہ کام کیوں کرنا چاہ رہا ہے؟ جب اس سوال کا اُسے واضح جواب مل جائے تو پھر اُس کے سامنے یہ سوال ہونا چاہئے کہ یہ کام اُسے کیسے کرنا ہے اور سب سے آخر میں اُس کو اس سوال کا جواب حاصل کرنا چاہئے کہ اُسے کیا کرنا ہے۔
اس کتاب کو لکھنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی روز مرّہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ رہنما ہوتے ہیں جبکہ کچھ لوگ قیادت کرتے ہیں۔ رہنما یا لیڈر طاقت یا اثر و رسوخ رکھتے ہیں جبکہ قیادت وہ کرتے ہیں جو ہمیں متاثر کرتے ہیں
چاہے افراد ہوں یا ادارے، ہم اُن کی پیروی کرتے ہیں جو قیادت کرتے ہیں، اس وجہ سے نہیں کہ کوئ زبردستی ہوتی ہے بلکہ اس وجہ سے کہ ہم ایسا کرنا چاہتے ہیں۔ ہم قیادت کرنے والوں کہ پیروی قیادت کرنے والے کے لئے نہیں بلکہ اپنے لئے کرتے ہیں۔
سائمن سینِک نے یہ کتاب اُن کے لئے لکھی ہے جو یا تو دوسروں کے لئے مثال بننا چاہتے ہیں یا کسی مثالی شخصیت کی تلاش میں ہیں۔
یہ کتاب بار بار دہرائے جانے والے اُن روئیوں، طرزِ فکر، عمل اور بات چیت کے انداز کے بارے میں ہے جو کُچھ رہنماؤں کو یہ قابلیت عطا فرماتی ہے کہ وہ اپنے اطراف موجود لوگوں کو متاثر کر سکیں۔ سائمن لکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ یہ “فطری پیدائشی رہنما” دوسروں کو متاثر کرنے کی قابلیت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں لیکن یہ قابلیت صرف ان کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ تھوڑے سے نظم و ضبط کے ساتھ، کوئی بھی لیڈر یا ادارہ دوسروں کو متاثر کرسکتا ہے، ادارے کے اندر اور باہر دونوں طرف، تاکہ اپنے خیالات اور وژن کو پھیلا سکے۔ ہم سب رہنمائی کرنا سیکھ سکتے ہیں۔
یہ کتاب اُن چیزوں کی اصلاح کے مقصد کے تحت نہیں لکھی گئی جو آپ کی زندگی میں کام نہیں کر رہیں بلکہ یہ کتاب اُن چیزوں کے لئے رہنما ہے جو کام کرتی ہیں تاکہ آپ اُن پر توجّہ دیں اور زیادہ سے زیادہ کریں۔ جب ہمارے سوالوں کے زیادہ تر جوابات مضبوط ثبوت کے ساتھ میسّر ہوتے ہیں تو وہ کارآمد ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ہم نے سوالات ہی غلط کئے ہوں، اگر ہم نے وجوہات ہی نہ سمجھیں ہوں، تو درست جوابات بھی ہمیں ہمیشہ غلط سمت کی طرف لے جائیں گے۔ اور سچّائی آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمیشہ سامنے آتی ہے۔
اب جو واقعات آپ پڑھیں گے یہ اُن افراد اور اداروں کے ہیں جن میں وہ بار بار دہرائے جانے والے روئیے قدرتی طور پر موجود ہونگے۔ یہ وہ ہیں جنھوں نے “کیوں سے شروع کیا”
پہلا واقعہ (1)
مقصد بہت بلند تھا، عوام کی گہری توجہ تھی، ماہرین شمولیت کے لئے بے چین تھے اور مالی وسائل موجود تھے
کامیابی کے تمام لوازمات سے لیس، 1900 کے اوائل میں سیموئیل پیئرپونٹ لینگلے دنیا کے پہلے طیارے کی پرواز کے لئے تیار تھا۔ انتہائی قابلِ احترام، وہ اسمتھسونین (Smithsonian) ادارہ میں سینیئر آفیسر تھا اور اس کے علاوہ وہ ریاضی کا پروفیسر تھا جس نے ہارورڈ میں بھی کام کیا تھا۔ اُس کے دوستوں میں حکومتی اور تجارتی حلقوں میں شامل کُچھ انتہائی بآاثر افرا جیسے اینڈریو کارنیگی اور الیگثینڈر گراہم بیل شامل تھے۔ لینگلے کو وار ڈیپارٹمنٹ کے فنڈ سے پچاس ہزار ڈالر کی کثیر رقم کی گرانٹ دی گئی تھی جو اُس زمانے میں ایک بڑی رقم تھی۔ اُس نے ذہین دماغوں کو جمع کیا جو قابلیت اور سمجھ بوجھ کے لحاظ سے بہترین تھے۔ لینگلے اور اُس کی ٹیم نے بہترین اشیاء کا استعمال کیا۔ جو ٹیم اُس نے جمع کی تھی اور جو وسائل اُس کو میسّر تھے، اُن کے بل بوتے پر اُس کی فتح یقینی تھی۔
سینکڑوں میل کے فاصلے پر ولبر (Wilbur) اور اورول (Orville) بھی اپنی فلائنگ مشین پر کام کر کر رہے تھے۔ اُن کے اُڑنے والی مشین بنانے کا جزبہ اتنا گہرا تھا کہ اُن کے آبائی قصبے ڈیٹن (اوہائیو) میں جوش و جذبہ اور عزم سے سرشار ایک گروپ اُن کے ساتھ تھا۔ اُن کے منصوبہ کے لئے کوئی فنڈنگ نہیں تھی۔ کوئ حکومتی گرانٹ نہیں تھی، کوئی بڑے عہدیداروں سے تعلقات نہیں تھے۔ ٹیم میں موجود کسی ایک فرد کے پاس بھی اعلیٰ تعلیم حتّیٰ کہ کالج ایجوکیشن بھی موجود نہیں تھی، نہ ہی Wilbur نہ ہیOrville کے پاس۔ لیکن یہ ٹیم ایک معمولی بائی سائیکل شاپ میں جمع ہوتی تھی اور اُس نے اپنے خواب کو عملی تعبیر دے دی۔ سترہ (17) دسمبر 1903 کو چند افراد کے گروہ نے انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک شخص کو فضا میں اُڑتے ہوئے دیکھا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بہتر ساز و سامان سے لیس، بہتر مالی امداد کے ساتھ اور بہتر تعلیم یافتہ ٹیم کے مقابلے میں رائٹ برادرز کیسے کامیاب ہوگئے۔
یہ قسمت کا کھیل نہیں تھا۔ دونوں لینگلے اور رائٹ برادران انتہائی پُر عزم تھے۔ دونوں کام کے حوالے سے انتہائی سنجیدہ تھے، دونوں کے ذہن سائنسی ذہن تھے۔ دونوں کا مقصد ایک تھا، لیکن صرف رائٹ برادرز اپنے ساتھیوں کو صحیح معنوں میں متاثر کرسکے اور ایک ایسی ٹیکنالوجی بنانے میں اُن کی رہنمائی کرسکے جس نے دنیا تبدیل کر دینی تھی۔ صرف رائٹ برادران نے “کیوں” سے شروع کیا تھا
دوسرا واقعہ (2)
سن 1965 میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے برکلے کیمپس کے طالبِ علموں نے سب سے امریکہ کی ویتنام کی جنگ میں شرکت پر عملی طور پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ شُمالی کیلیفورنیا اُس زمانے میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ برکلے اور اوکلینڈ میں مظاہروں کے مناظر امریکہ اور یورپ بھر میں ہمدردی کی لہر پیدا کرتے تھے۔ لیکن یہ 1976 کی بات ہے جب امریکہ میں اصلی انقلاب برپا ہوا۔
اُن کا مقصد اثر انداز ہونا تھا، وہ بہت بڑا اثر پیدا کرنا چاہتے تھے، اُن کا مقصد لوگوں کی سوچ کو بدلنا تھا کہ دنیا کس طرح چلتی ہے۔ لیکن اُن نوجوان انقلابیوں نے حکومت کے خلاف پتھر نہیں برسائے اور نہ ہی ہتھیار اُٹھائے۔ اُس کے برخلاف اُنھوں نے نظام کو اُس کے اندر رہتے ہوئے ہی شکست دی۔ اسٹیو ووزنیاک (Steve Wozniak) اور اسٹیو جابز (Steve Jobs)، جنھوں نے مل کر ایپل کی شروعات کیں، کے لئے میدانِ جنگ بزنس تھا اور اُن کا ہتھیار پرسنل کمپیوٹر تھا۔
پرسنل کمپیوٹر کے انقلاب کی شروعات ایپل I (Apple I) سے ہوئی۔ شروع میں اس ٹیکنالوجی کی طرف توجہ صرف کاروبار کے لئے تھی۔ کمپیوٹر انتہائی پیچیدہ اور عام آدمی کی قوّت خرید سے باہر تھے۔ لیکن ووزنیاک جس کا مقصد پیسہ کمانا نہیں تھا، نے ٹیکنالوجی کے ایک بہتر استعمال کے بارے میں سوچا۔ اُس نے پرسنل کمپیوٹر کے ذریعے ایک عام آدمی کو ایک کارپوریشن کے مدّ مقابل لا کھڑا کیا۔ پرسنل کمپیوٹر نے سب کے لئے ایک جیسا مقابلے کا میدان پیدا کردینا تھا اور دنیا کے چلنے کا انداز تبدیل کردینا تھا۔ ووز نے ایپل I ڈیزائن کیا اور پھر ایپل II کے ذریعے ٹیکنالوجی کو بہتر کیا تاکہ وہ لوگوں کی قوّتِ خرید میں آسکے اور استعمال میں آسان ہو۔
کوئی بھی بڑا آئیڈیا کتنا بھی وژنری اور شاندار ہی کیوں نہ ہو اُس وقت تک اُس کی کوئ قیمت نہیں ہوتی جب تک کہ کوئی اُسے خریدے نا۔ اسٹیو جابز اُس وقت ووزنیاک کا بہترین دوست تھا اور جانتا تھا کہ کیا کرنا ہے۔ اگرچہ جابز کو الیکٹرانکس کے اضافی پُرزے فروخت کرنے کا تجربہ تھا لیکن اس معاملے میں جابز سیلز مین سے بڑھ کر ثابت ہوا۔ جابر دنیا میں کُچھ کر دکھانا چاہتا تھا اور اُس نے اس مقصد کے لئے ایک کمپنی کی شروعات کا راستہ اختیار کیا۔ ایپل کو اُس نے اپنے انقلاب کو برپا کرنے کے لئے استعمال کیا
کاروبار شروع کرنے کے صرف پہلے سال کے اندر ایپل نے ملّین ڈالر کا بزنس کیا۔ دوسرا سال مکمل ہونے پر اُن کی سیلز دس ملّین تھی۔ اپنے چوتھے سال میں اُنھوں نے سو ملّین ڈالر کی سیلز کی۔ اور صرف چھ سال کے اندر ایپل تین ہزار ملازمین کے ساتھ بلّین ڈالر کمپنی تھی۔
پرسنل کمپیوٹر کے انقلاب کو برپا کرنے میں جابز اور ووز تنہا نہیں تھے۔ صرف وہی ذہین نوجوان نہیں تھے۔ بلکہ وہ اس بزنس کے بارے میں زیادہ جانتے ہی نہیں تھے۔ ایپل کو جس نے خاص بنایا وہ اُن کی تیزی سے نشونما پاتی کمپنی بنانے کی صلاحیت نہیں تھی۔ نہ ہی یہ اُن کی پرسنل کمپیوٹر کے بارے میں مختلف انداز سے سوچنے کی صلاحیت تھی۔ جس چیز نے ایپل کو خاص بنایا وہ اُن کی اپنے روئیے کو بار بار دہرانے کی صلاحیت تھی۔ ایپل نے کامیابی کے ساتھ نہ صرف کمپیوٹر انڈسٹری کی روایتی سوچ کو چیلنج کیا تھا بلکہ ساتھ ہی ساتھ الیکٹرانک انڈسٹری، میوزک انڈسٹری، موبائل فون انڈسٹری اور وسیع و عریض انٹرٹینمنٹ کی انڈسٹری کو بھی۔ اور اس کی وجہ سادہ سی تھی۔ ایپل متاثر کُن تھی۔ ایپل “کیوں” سے شروع کرتا ہے۔
تیسری مثال
اُن کی کوئی مثالی شخصیت نہیں تھی۔ اُن کی شخصیت میں اپنی ذاتی پیچیدگیاں تھیں۔ امریکہ میں انسانی حقوق کی بحالی سے پہلے وہ واحد شخص نہیں تھے جو متاثر تھے، اور یہاں پر اور بہت سے کرشماتی لیڈرز موجود تھے۔ لیکن مارٹن لوتھر کنگ کے پاس ایک صلاحیت تھی۔ وہ جانتے تھے کہ لوگوں کو کیسے متاثر کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر کنگ جانتے تھے کہ اگر سول رائٹس کی تحریک نے کامیاب ہونا ہے، اور اگر امریکہ میں حقیقی اور دیرپا تبدیلی آنی ہے تو اس کے لئے اُن کے اوراُن کے قریبی ساتھیوں سے زیادہ لوگ چاہئے ہونگے۔ اس کے لئے لفظوں کی جادوگری اور دھواں دار تقاریر سے بڑھ کر کُچھ اور چاہئے ہوگا۔ اس کے لئے لوگ چاہئے ہوں گے، ہزاروں لاکھوں عام لوگ جو ملک کو تبدیل کرنے کے لئے ایک نظریے پر متحد ہوں۔ اٹھائیس (28) اگست، 1963 کو دن کے گیارہ بجے اُنھوں نے واشنگٹن کو یہ پیغام بھیجنا تھا کہ اب یہ وقت ہے کہ امریکہ ایک نئی سمت اختیار کرے۔
سول رائٹس کی تحریک چلانے والوں نے ہزاروں لوگوں کو دعوت نامے نہیں ارسال کئے تھے، نہ ہی وہاں انٹر نیٹ ویب سائٹ موجود تھی جس پر تاریخ پتہ کی جاسکتی تھی، لیکن لوگ آئے۔ اور لوگ آتے چلے گئے۔ ڈھائی لاکھ کے قریب لوگ دارالحکومت میں اُمَڈ آئے تھے اُن الفاظوں کو سننے کے لئے جنھوں نے تاریخ میں اَمر ہونا تھا، جو اُس شخص کی جانب سے کہے گئے جس نے ایک ایسی تحریک کی قیادت کی جس نے امریکہ کو ہمیشہ کے لئے تبدیل کردیا۔ وہ الفاظ تھے”میرا ایک خواب ہے”
ایسی صلاحیت جو ملک بھر سے تمام رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد کو اپنی طرف متوجّہ کردے اور درست وقت، اور دن پر جمع کرلے خاص اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اگرچہ دوسرے تمام لوگ بھی یہ جانتے تھے کہ امریکہ میں سب کو مساوی حقوق ملنے کے لئے کیا تبدیلی درکار ہے لیکن یہ اعزاز مارٹن لوتھر کنگ کے حصّے میں آیا کہ اُنھوں نے اپنے ملک کے حالات کو نہ صرف اقلّیتوں کی بھلائی کے لئے تبدیل کیا بلکہ سب کو اس کا فائدہ پہنچا۔ مارٹن لوتھر کنک نے “کیوں” سے شروع کیا تھا۔
یہاں پر کچھ تو لیڈر ہوتے ہیں اور کُچھ لیڈ کرتے ہیں۔
امریکی مارکیٹ میں چھ فیصد اور دنیا میں تین فیصد مارکیٹ شیئر کے ساتھ ایپل گھریلو کمپیوٹر بنانے والا اوّل نمبر کا ادارہ نہیں ہے۔ لیکن ایپل نہ صرف کمپیوٹر انڈسٹری بلکہ دیگر انڈسٹریز میں بھی لیڈ کرتا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ کے تجربات منفرد نہیں تھے، لیکن اُنھوں نے اپنی قوم کی تبدیلی کی طرف رہنمائی کی۔ رائٹ برادران ہوائی جہاز بنانے کے مضبوط امیدوار نہیں تھے لیکن اُنھوں نے اس سلسلے میں دنیا کی رہنمائی کی اور ایسا کرنے میں اُنھوں نے دنیا کو مکمل طور پر تبدیل کردیا۔
اُن کے مقاصد دوسرے لوگوں سے جُدا نہیں تھے، اور اُن کے نظام اور طریقہ کار کی باآسانی نقل کی جاسکتی ہے۔ اس کے باوجود رائٹ برادرز، ایپل، اور مارٹن لوتھر کنگ اپنے ہم عصروں میں جُدا نظر آتے ہیں۔ وہ عام ڈگر سے ہٹ کر کھڑے ہوئے اور اُنھوں نے جو اثرات معاشرے پر ڈالے اُن کی آسانی سے نقّالی نہیں کی جاسکتی۔ وہ لیڈرز کے اُن منتخب گروپ کے ممبران میں سے ہیں جو کچھ خاص کرتے ہیں، بہت ہی خاص۔ یہ ہماری حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔