اگر فقیر قادر بخش’’ بیدل ‘‘
چند صدیاں پہلے جنم لیتے
تو وہ گرونانک کے چہیتے
چیلوں کے سردار ہوتے!
سکھر کے مقام پر
دریائے سندھ کے کنارے
جنم لینے والے اس فقیر نے
سارے سکھ مذہب کو
پانچ الفاظ میں پورا سمایا ہے
’’سکھ رمز وجود وجان دی!‘‘
جب انسان کو وجود گنوانے کی
ترکیب ہاتھ آ جائے تو پھر
اس کو کیا پرواہ ہے؟
پڑھنے اور پڑھانے کی!!
اگر وجود کو کھودینے کی ترکیب
مل جائے تو پھر کتابیں بوجھ بن جاتی ہیں
ایسا فقیر قادر بخش بیدل کہتا ہے
ایسا فقیر قادر بخش بیدل ہی کہہ سکتاہے
وہ فقیر قادر بخش بیدل جو
اپنے شہر کے عظیم عالم
میر جان محمد رضوی کے
طالب تھے؛
وہ میر جان محمد رضوی
جنہوں نے نہ صرف
شہید شاہ عنایت کی
رفاقت میں بہت سارے دن
اور بہت ساری راتیں بتائیں
اس میر جان محمد رضوی نے
جھوک شریف کو جلتے ہوئے بھی دیکھا تھا
ان کو معلوم تھا کہ سندھ کے وڈیرے کس قدر ذلیل تھے
اور شاہ عنایت کس درجے کے عظیم تھے
بیدل کے مرشد کو یہ سب معلوم تھا
اور اس علم کا انتقال بیدل کی روح
اس عمل کا انتقال بیدل کے بت میں ہوا
تبھی تو انہوں نے کہاتھا
’’سکھ رمز وجود وجاون دی
نہیں حاجت پڑھن پڑھاون دی‘‘
کیا اس فرمان کے بعد بھی
کچھ کہا جا سکتا ہے؟
کچھ لکھا جا سکتا ہے؟
کچھ سمجھا جا سکتا ہے؟
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...