کھیوڑہ سالٹ مائن کے بارے تو سبھی جانتے ہی ہوں گے. میرے ایک کولیگ کے والد صاحب کی وفات ہوئی تو دعا کے لیے ہم کھیوڑہ گئے تھے تو باتوں باتوں میں بات نکلی کہ اس علاقے میں نمک کی دریافت کیسے ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ سکندر جب اپنی فوج کے ساتھ یہاں پہنچا تو اسکی فوج شدید تھکاوٹ کا شکار تھی اور یہاں انہوں نے اپنے کیمپس لگاۓ اور سکندر کی فوج کے گھوڑے یہاں کی چٹانوں کو چاٹنے لگے گھوڑے چٹانوں کو چاٹتے جاتے چاٹتے جاتے اور ان گھوڑوں کے اس عمل کے سبب اسطرح یہاں اس علاقے میں نمک کی دریافت ہوئی۔۔۔۔۔۔خیر میرا موضوع کھیوڑہ سالٹ مائن نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ چکوال سے پنڈ دادنخان ، کھیوڑہ والا راستہ جو چوا سیدن شاہ سے ہو کر گذرتا ہے وہ آگے چل کر انتہائی دشوار گذار پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہے، راستہ کافی زیادہ خطرناک اور لمبا بھی ہے تو راستے کو دیکھتے ہوۓ میرے ذہن میں یہ سوال آیا کہ آخر کار سکندر اعظم اپنی اتنی بڑی فوج کے ساتھ کیسے اس مشکل ترین راستے سے آیا اور بیرون یعنی مقدونیہ سے آکر اس نے کیسے یہاں پر صدیوں سے رہتے آ رہے مقامی لوگوں کو شکست دی۔۔۔۔۔۔یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ پنجاب میں سکندر کے خلاف شدید ترین مزاحمت صرف پورس نے کی تھی اور پورس کے خلاف بھی سکندر کی مدد مقامی راجاؤں نے کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو سکندر کے روٹ اور اسکی پورس کے خلاف جنگ کا میدان کس جگہ سجا تھا۔۔۔۔۔۔؟
کیپٹن ایبٹ نے اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر شمالی روٹ اختیار کرتے ہوۓ دریاۓ جہلم کو عبور کیا جو موجودہ منگلا ڈیم کا جنوب ہے۔ یہاں پر دریاۓ جہلم نسبتاََ تنگ ہے جبکہ اسکے برعکس جلال پور کے نذدیک دریا کا بہاؤ تیز ہے یہاں دریا کا پاٹ چوڑا ہے اور اس سے ملحقہ علاقہ جغرافیائی لحاظ سے صاف میدان پر مشتمل ہے۔ کیپٹن ایبٹ نے ایک نقشہ تیار کیا جس میں اس نے سکندر اعظم اور راجہ پورس کے مابین ہونے والی جنگ کے میدان کی نشاندہی کی نقشہ کے مطابق اس جنگ کا مقام پکھڑال گاؤں کا علاقہ تھا۔ اور اسکے مطابق سکندر کا کیمپ جہلم کےقریب تھا۔
سر الیگزینڈر کوننگھم نے بھیرہ کی بطور پنجاب کے بادشاہ ( Sopeites , King of the Punjab پنجاب کی مختلف چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے بادشاہوں کو کہا جاتا تھا) ، کے دارالحکومت کے طور پر شناخت کی ہے جہاں ان کے مطابق بیس کیمپ بنایا گیا تھا۔ یہ جگہ پکھڑال کے جنوب میں ہے اور یہاں دریاۓ جہلم کا پاٹ بہت چوڑا ہے مزید یہ کہ انہوں نے جہلم شہر کے شمالی سمت کا راستہ چنا جسکے ساتھ ایک جزیرہ لگتا تھا اور پکھڑال ہی وہ مقام تھا جہاں سکندر اعظم اور پنجابی راجاؤں کا ٹکراؤ ہوا تھا۔
سر اورل سٹین ایک آرکایولوجسٹ محقق اور مہم جو تھا جو سینٹرل ایشیا میں 1900 سے 1916 کے عرصہ کے دوران کئی مہمات میں مصروف عمل رہا اس نے پنجاب میں سکندراعظم کی جنگی مہمات کے روٹ پر سیر حاصل تحقیق کی تھی۔
سٹین نے نومبر 1931 میں سکندر اعظم کے پنجاب میں حملے کے لیے جہلم میں استعمال کے گئے راستے ( روٹ) کا تعین کرنے کے لیے دریاۓ جہلم کا دورہ کیا۔ اس موضوع پر بہت سے کلاسیکی رائٹرز نے اپنی تحقیق پیش کی ہے مگر اسٹین نے سکندر اور پورس کے مابین جنگ پر یونانی تاریخ دان آریان کے کام کو زیادہ قابل اعتماد سمجھا اور اپنی تحقیق کا زیادہ انحصار اسی پر کیا ہے۔
یونانی فلاسفر Plutarch نے سکندر پورس ٹکراؤ پر ایک جامع وضاحت پیش کی ہے مگر اس دوران یہ سکندر اعظم کے ٹیکسلا اور جہلم جنگی مہمات کے روٹس (راستوں) کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔ اسٹین کے مطابق ٹیکسلا سے جہلم کادرمیانی فاصلہ 120 رومن میل پر مشتمل ہے اور اس لحاظ سے اسٹین یہ تجویز کرتا ہے کہ سالٹ رینج کوہ نمک کا سلسلہ سکندر اعظم کا ممکنہ روٹ بنتا ہے۔ اسٹین اس راستے پر درپیش مشکلات کو مدنظر رکھ کر ایک بڑی فوج کی اس مشکل ترین راستے پر موومنٹ کے متعلق آگاہ کرتا ہے۔
یہاں تھوڑا سا آپکو سکندر اعظم کی ہندوستان میں حملہ اور جنگی مہم جوئی کے بارے بتاتا چلوں ، سکندر 334 B.C میں مقدونیہ سے روانہ ہوتا ہے اور اسکی جنگی مہم کا مقصد سلطنت فارس سے وہ تمام علاقے واپس لینا تھاجو کبھی سلطنت یونان کی قلمرو میں شامل تھے۔ سکندر دنیاکی مضبوط ترین سلطنت کا قیام چاہتا تھا اور اسی مقصد کے حصول کے لیے اس نے ہندوستان کی طرف قدم بڑھایا۔ سکندر اس خطے میں نووا پاس اور باجوڑ سے داخل ہوا اس نے دیر اور سوات میں باریکوٹ ( بازیرہ ) اور اوڑہ ( اودیگرام ) میں فتوحات حاصل کرتا ہوا پشاور میں داخل ہوا۔ سکندر نے دارایوش سوئم کو شکست دی اور اپنی مہم جاری رکھتے ہوۓ دریاۓ سندھ عبور کر کے 326 B.C میں موسم بہار میں پنجاب کے خطے میں داخل ہوا۔
سکندر جب اس خطے میں داخل ہوا تو ٹیکسلا کے راجہ اور اسکے بیٹے امبھی ( Omphis ) نے نہ صرف سکندر کا استقبال کیا بلکہ بنا لڑے ہی اسکے آگے گھٹنے ٹیک دیے اسکے علاوہ راجہ امبھی نے راجہ پورس کے خلاف سکندر کو ہر ممکن امداد فراہم کی۔
جن راجاؤں نے سکندر کے خلاف مزاحمت کی ان میں راجہ پورس جسکی حکومت سالٹ رینج کے مشرقی سمت دریاۓ جہلم کے پار تک پھیلی ہوئی تھی ، راجہ ابھی سارس جو ہزارہ کا حکمران تھا ، راجہ استس جو پشکلاوتی ( موجودہ چارسدہ ) میں آٹھ آرین قبیلوں کا حاکم تھا اور مالاکنڈ کے شمال میں پنجکوڑہ میں مساگا کی سلطنت سکندر کے خلاف مزاحمتی کردار میں پیش پیش تھی۔
سکندر اعظم پانچ دن ٹیکسلا میں رہا ، سکندر اور پورس کی جنگ میں فتح سکندر کے ہاتھ رہی۔ سکندر نے ٹیکسلا سے روانگی کے وقت ٹیکسلا کی حکومت اپنے جرنیل فلپ کے حوالے کی، 324 B.C میں فلپ مارا گیا مگر Taxiles ( ٹیکسلا کے باشندوں کو کہا جاتا تھا ) پر پھر سکندر کی طرف سے ایوڈیمس حاکم مقرر ہوا۔ جب 323 B.C میں سکندر کی موت واقع ہو گئی تو مقامی راجہ امبھی نے ٹیکسلا پر اپنا اقتدار حاصل کر لیا مگر یہ محض چند سال ہی حکومت کر سکا اور پھر 317 B.C میں چندر گپت موریا نے اس خطے میں اپنی حکومت مستحکم کی اور مورین سلطنت کی داغ بیل ڈالی۔۔۔۔۔!
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...