محبت میں مُبتلا ہونے کا کیا مفہوم ہے؟ اس کے لیے لفظ محبت کے مختلف پہلوؤں پر غور لازم ہوگا۔ زبان محبت کا لفظ بہت سے جذبات کے لیے استعمال کرتی ہے۔ جس سے ساتھ ہی ساتھ یہ شبہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا کسی کی محبت سچی، حقیقی اور اصلی بھی ہے یا نہیں کیونکہ بہت سے سطحی جزبات کو محبت سمجھ کر دھوکا بھی کھایا جاسکتا ہے۔ اب اگر سادہ ترین لفظوں میں محبت کی تعریف بیان کی جائے تو یہ جنسی جبلت کے کسی پیکر کو منتخب کرنے اور اس سے جنسی تسکین حاصل کرنے کا نام ہے۔ یہ چڑھا ہوا جزبہ اپنی تشقی کے بعد ختم ہوجاتا ہے لیکن معاملہ غالباً اس قدر بھی آسان نہیں ہے کیونکہ جنسی طلب بار بار تازہ ہوتی ہے، بار بار اپنی تسکین چاہتی ہے، مزید برآں 'ایگو' اپنے محبوب کو ان وقفوں میں بھی لگا تار چاہتی رہتی ہے جن میں جنسی عمل نہ کیا جارہا ہو۔ محبت حقیقی معنوں میں اسی قائم رہنے والے مستقل جذبے کا نام ہے۔
یہاں ایک اور امر بھی توجہ کے لائق ہے وہ ہے انسان کی جنسی زندگی کے ارتقاء کا منفرد مرحلہ جو غالباً کسی دوسرے جاندار میں نہیں انسانی بچہ تمام تر جنسی جبلتوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے جن کی افزائش کا عمل 5 برس تک لگاتار جاری رہنے کے بعد ایک مخصوص عرصے کے لیے رُک جاتا ہے۔ اس عرصے کے دوران وہ والدین میں سے کسی ایک کو پیکر محبوب کے طور پر چُن لیتا ہے اور اپنی تمام تر جنسی جبلتوں کو ان کی تسکین کے لیے اس پیکر پر مرتکز کردیتا ہے۔ لیکن اس دوران ساتھ ہی ساتھ مزاحمت کا عمل دور طفولیت کے جنسی عزائم کو گھٹاتا جاتا ہے اور بچہ والدین کے ساتھ اس قسم کی روایتی تعلقات قائم کرلیتا ہے جیسا کہ ہم عام حالات میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ بچہ والدین سے اپنی محبت اور وابستگی کم نہیں کرسکتا لیکن محبت کی نوعیت بدل جاتی ہے، یہ وہ محبت ہے جو "اپنے عزائم کو پابند کرچکی ہے۔" اب وہ جذبات جو وہ اپنے والدین کے لیے محسوس کرتا ہے جنسی محبت کے زمرے میں نہیں آئیں گے بلکہ اُنسیت کہلائیں گے۔ لیکن یہاں یہ امر یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اصلی خالص حقیقی اور بنیادی جنسی عزائم کبھی ختم نہیں ہوتے وہ اپنی اسی شکل میں اسی شدت کے ساتھ لاشعور میں قائم رہتے ہیں اور ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔
بلوغت کے ساتھ، جیسا کہ ہم جانتے ہیں حقیقی جنسی عزائم ایک مرتبہ پھر پوری طاقت کے ساتھ ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ بعض ناموافق حالات میں یہ جنسی جذبات انسیت سے جدا رہتے ہیں۔ اس کے مظاہر ہمیں عام زندگی میں کثرت سے نظر آتے ہیں بہت سے مرد ایسی عورتوں کے لیے گہری محبت کے جذبات رکھتے ہیں جن کی وہ دل کی گہرائی سے عزت کرتے ہیں لیکن ان کے لیے جنسی کشش محسوس نہیں کرتے اور ان سے جنسی اختلاط نہیں کرسکتے لیکن ان عورتوں کے ساتھ وہ بہت شدت ، شوق اور قوت سے جنسی عمل کرتے ہیں، جن کی وہ عزت نہ کرتے ہوں بلکہ ان سے کسی نہ کسی مفہوم میں نفرت کرتے ہوں یا ناپسند کرتے ہوں لیکن عموماً نارمل افراد کی اکثریت، نوجوانی میں ارضی اور جسمانی محبت کو غیر جنسی، غیر مادی اور افلاطونی محبت سے ملانے میں کامیاب ہوجاتی ہے جس کے نتیجےمیں وہ اپنے محبوب سے جنسی محبت بھی کرتے ہیں اور اس سے انسیت بھی محسوس کرتے ہیں۔ لیکن اگر محبت کی شدت اور گہرائی کا اندازہ لگانا ہو تو یاد رہے کہ وہ جنسی جذبے کی شدت سے نہیں ہوگا بلکہ اس انسیت سے ہوگا جس کے عزائم جنسی نہیں ہیں۔
محبت کے معاملے میں ہم ایک اور حیران کن مظہر بھی دیکھتے ہیں وہ ہے محبوب کی بے جا جنسی ستائش ۔۔۔ وہ اس طرح کہ عاشق کو محبوب کی خامیاں باالعموم دکھائی نہیں دیتیں، وہ دوسروں کی نسبت اس سے کہیں زیادہ درگزر سے کام لیتا ہے۔ اس پر نکتہ چینی نہیں کرتا، اس کی کوتاہیوں کو بھی ناز و ادا کا نام دیتا ہے (اسی کو شاید کہا جاتا ہے کہ عشق عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے) اگر جنسی عزائم کو کامیابی سے دبا دیا جائے تو بظاہر یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ چاہنے والا محبوب کی مدح سرائی خالصتاً اس کے اخلاقی، روحانی اور ذہنی معیار اور خوبیوں کی بنیاد پر کررہا ہے حالانکہ فی الحقیقت ایسا نہیں ہوتا۔ سچائی یہ ہے کہ چاہنے والا اصل میں اس کی جنسی دلکشی ہی کا اسیر ہوتا ہے اور خوبیوں کا یہ جامہ اسی حسن و لطافت کی وجہ سے اسے پہنا دیتا ہے۔
یہ رجحان جو عقل پر یوں فریب کا پردہ ڈالتا ہے اُسے مثالیت سازی یا آئیڈلائزیشن (Idealization) کہتے ہیں۔ واضح رہے کہ ہم جس سے محبت کرتے ہیں اس سے اپنی ایگو جیسا برتاؤ کرتے ہیں۔ محبت کی میکانیت میں ہماری لیبیڈو (narcissistic libido) کا بہت بڑا خود پسند حصہ پیکرِ محبوب میں منتقل ہوجاتا ہے۔ ایسا بارہا ہوتا ہے کہ پیکر محبوب دراصل ایگو کا ہی آئیڈیل ہوتا ہے جسے وہ حاصل نہ کر پائی ہو۔ ہم اس کی ذات میں انہی خوبیوں سے محبت کرتے ہیں، جنہیں ہم نے خود حاصل کرنے یا اپنانے کی کوشش کی ہو اور اب اپنی خود پسندی کی تسکین کے لیے یہ راستہ اپنا رہے ہوں۔
اب اگر محبت کی شدت اور ستائش بے جا میں اضافہ ہوتا جائے تو صورتحال مزید واضح اور دوٹوک ہوجاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جنسی عزائم رکھنے والی جبلت پسِ پشت جانے لگتی ہے، ایگو زیادہ سے زیادہ پاکباز اور پرہیزگار بننے لگتی ہے، ساتھ ہی ساتھ محبوب اسی قدر نایاب اور بلند پایہ ہستی نظر آنے لگتا ہے اور بالآخر ایگو کی تمام تر خودپسندی محبوب کے اندر جذب ہوجاتی ہے اور ایگو قربانی، ایثار اور تیاگ کو اپنا شعار بنالیتی ہے۔ محبوب گویا کہ عاشق کی ہستی کو مٹا ڈالتا ہے۔ محبت میں مبتلا فرد کے اندر عجز و انکسار ، تواضع اور خود کو نقصان پہنچانے جیسی خصوصیات بدرجہ کمال پائی جاتی ہیں۔ بعض حالات میں یہ غیر معمولی شدت اختیار کرجاتی ہیں اور یہاں تک کہ جنسی جذبات یکسر دب جاتے ہیں اور دیگر ارفع خیالات و جذبات غالب آجاتے ہیں۔ یہ کیفیت اس صورت میں ہمیشہ قائم رہتی ہے جب محبت تشنہ، ناکام اور ناخوش ہو لیکن محبت خصوصاً جنسی جذبے کی تسکین کے ساتھ ہی ستائش بے جا تیزی سے کم ہونے لگتی ہے۔ محبت کے عروج کے ایام میں ایگو اپنے محبوب پر کبھی تنقید نہیں کرتی بلکہ اسے عقیدت اور ارادت کے جزبے سے دیکھتی ہے وہ بے عیب اور لاثانی ہوتا ہے اس کا کیا ہوا ہر کام درست اور جچا تلا ہوتا ہے۔ محبوب کی خاطر کیے جانے والے کسی بھی کام پر ضمیر کی کوئی گرفت نہیں ہوتی۔ محبت کے اندھے پن میں ضمیر کی بے لگام چھوٹ جرم کی حدوں کو چھونے لگتی ہے۔ اس ساری صورتحال کا خلاصہ محض ایک جملے میں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ایگو نے پیکر محبوب کو مکمل طورپر ایگو آئیڈیل کے طور پر اپنا لیا ہے۔
اگر ہم عینیت اور محبت میں گرفتار ہونے کی کیفیات کا موازنہ کریں تو ہم اس کے لیے دو الفاظ استعمال کرسکتے ہیں "سحرزدہ ہونا" یا " بندھن میں بندھنا " ۔ اول الذکر میں ایگو مضبوط اور توانا ہوتی ہے کیونکہ وہ خود کو پیکر محبوب کی صفات سے متصف کرلیتی ہے جبکہ دوسری صورت میں ایگو کمزور اور محروم ہوجاتی ہے کیونکہ اپنی صفات بھی محبوب کے سامنے تج دیتی ہے۔ عشق کے کچھ بلند مراحل میں ایگو محبوب کو مکمل طور پر اپنی ذات میں جذب کرلیتی ہے غالباً یہی وہ مقام ہے جہاں من و تو کا امتیاز جاتا رہتا ہے۔
یہاں تک ہم نے تنویم اور عشق کے مابین مشابہت کا عمل دیکھا۔ دونوں میں وہی عاجزی، وہی انکسار، وہی بندگی، وہی تسلیم اور ہپناٹسٹ اور محبوب کے لیے وہی عقیدت، محبت اور رضا پائی جاتی ہے۔ ہپنا ٹسٹ اور محبوب دونوں تنقید سے بالا تر ہوجاتے ہیں۔ محبوب اور ہپنا ٹسٹ دونوں فرد کو اس کی ذات سے محروم کردیتے ہیں۔ ہپناٹسٹ فرد کے اندر ایگو آئیڈیل کی جگہ لے لیتا ہے۔ ہپناٹسٹ اور محبوب میں ایک فرق بہرطور ضرورہوتا ہے، ہپنا ٹزم کے دوران فرد ہپناٹسٹ سے غیر معمولی عقیدت رکھتا ہے لیکن اس میں جنسی عزائم شامل نہیں ہوتے جبکہ دورانِ عشق فرد پیکر محبوب کے لیے گہرے اور شدید جنسی عزائم رکھتا ہے۔
(اقتباس)
Urdu translation of :
Essay:
Group Psychology and the Analysis of the Ego (Chapter VIII: Being in Love and Hypnosis)
Written by:
Sigmund Freud
Translated by:
Dr. Sobia Tahir
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...